میرے پسندیدہ اشعار

مہ جبین

محفلین
کوئی ممنونِ فرنگی کوئی ڈالر کا غلام
دھڑکنیں محکوم ان کی لب پہ آزادی کا نام
ان کو کیا معلوم کس عالم میں رہتے ہیں عوام
یہ وزیرانِ کرام

ان کو فرصت ہے بہت اونچے امیروں کے لئے
ان کے ٹیلیفون قائم ہیں سفیروں کے لئے
وقت ان کے پاس کب ہے ، ہم فقیروں کے لئے
چھو نہیں سکتے انہیں ہم، ان کا اونچا ہے مقام
یہ وزیرانِ کرام

صبح چائے ہے یہاں تو شام کھانا ہے وہاں
کیوں نہ ہوں مغرور ، چلتی ہے میاں انکی دکاں
جب یہ چاہیں ریڈیو پر جھاڑ سکتے ہیں بیاں
ہم ہیں پیدل ، کار پر یہ، کس طرح ہوں ہمکلام
یہ وزیرانِ کرام

قوم کی خاطر اسمبلی میں یہ مر جاتے بھی ہیں
قوتِ بازو سے اپنی بات منواتے بھی ہیں
گالیاں دیتے بھی ہیں ، اور گالیاں کھاتے بھی ہیں
یہ وطن کی آبرو ہیں ، کیجئے انکو سلام
یہ وزیرانِ کرام

انکی محبوبہ ، وزارت، داشتائیں کرسیاں
جان جاتی ہے تو جائے، پر نہ جائیں کرسیاں
دیکھئے یہ کب تلک یونہی چلائیں کرسیاں
عارضی انکی حکومت، عارضی انکا قیام
یہ وزیرانِ کرام

حبیب جالب
 

مہ جبین

محفلین
ہر بام و در پہ یوں تو مچلتی ہے روشنی
کترا کے میرے گھر سے نکلتی ہے روشنی

مایوسیوں کی زد پہ ہے امید کی کرن
ٹلتی ہے غم کی رات نہ ڈھلتی ہے روشنی

بزمِ جہاں کے رنگ ہیں سورج سے مستعار
غازہ رخِ حیات پہ ملتی ہے روشنی

اک محشرِ صدا ہے خلاؤں میں عکس ریز
لہروں میں کروٹیں سی بدلتی ہے روشنی

ساحل سے دیکھ شوخی ء عکسِ مہِ تمام
موجوں کے ساتھ ساتھ اچھلتی ہے روشنی

اللہ اِن ضدوں کو شعورِ جمال دے
ملتے ہیں ذہن و دل تو نکلتی ہے روشنی

حزیں صدیقی
 

مہ جبین

محفلین
شکوہ کریں کسی سے ، شکایت کریں تو کیا
اک رائیگاں عمل کی ریاضت کریں تو کیا

جس شے نے ختم ہونا ہے آخر کو ایک دن
اس شے کی اتنے دکھ سے حفاظت کریں تو کیا

حرفِ دروغ غالب شہرِ خدا ہوا
شہروں میں ذکرِ حرفِ صداقت کریں تو کیا

معنی نہیں منیر کسی کام میں یہاں
طاعت کریں تو کیا ہے ، بغاوت کریں تو کیا

منیر نیازی
 

عمر سیف

محفلین
ہلاکت خیز ہے الفت، پری ہر سانس خونی ہے
اسی باعث یہ محفل دل کی قبروں سے بھی سونی ہے

اسے زہریلی خوشبوؤں کے رنگیں ہار دیتا ہوں
میں جس سے پیار کرتا ہوں اُسی کو مار دیتا ہوں

منیر نیازی
 

راجہ صاحب

محفلین
ایک پنجابی نظم جو مجھے بہت پسند ہے

کل بیٹھا کجھ سوچ ریا ساں
گل اک گزرے ویلے دی
اپنے پنڈ دے پپلاں ہیٹھاں
چھوٹی عید دے میلے دی
میں جیڑا مشہور ہاں ایناں
دل دے بھید لکاون وچ
غم دی تکھی چیک نوں گھٹ کے
اپروں ہسدا جاون وچ
اوس پرانے دن دے وچوں
کر کے یاد اک موکے نوں
زور وی لاکے روک نئں سکیا
اپنے دل دے ہوکے نوں
منیر نیازی
 

عمر سیف

محفلین
کیا بات ہے منیر نیازی کی ۔۔۔ واہ ۔۔

اس کے باہر صرف ڈر ہے رات کے ہنگام کا
اک دھندلکا صبح کا ہے اک دھندلکا شام کا
اور ان کے درمیان دن کارِ بے آرام کا
سانس لینے ہی نہیں دیتا یہ وقفہ کام کا
کچھ ذرا فرصت ملے تو یاد آئے یار بھی
اس کی صحبت میں جو تھی وہ ساعت سار بھی
درحدوں پر ہے جو قائم وہ در دلدار بھی
میری ہستی میں بھی آئے ایک دن آرام کا
ایک دھندلی صبح کا اور ایک دھاندلی شام کا

منیر نیازی
 

عمر سیف

محفلین
تم جو ہنستے ہو تو پھولوں کی ادا لگتے ہو
اور چلتے ہو تو اک بادِ صبا لگتے ہو

کچھ نہ کہنا میرے کندھے پہ جھکا کر سر کو
کتنے معصوم ہو، تصویرِ وفا لگتے ہو
...
بات کرتے ہو تو ساگر سے کھنک جاتے ہیں
لہر کا گیت ہو، کوئل کی صدا لگتے ہو

کس طرف جاؤ گے زلفوں کے یہ بادل لے کر
آج مچلی ہوئی ساون کی گھٹا لگتے ہو

تم جسے دیکھ لو، اُسے پینے کی ضرورت کیا ہے؟
زندگی بھر جو رہے، ایسا نشہ لگتے ہو

میں نے محسوس کیا تم سے دو باتیں کر کے
تم زمانے میں زمانے سے جدا لگتے ہو

--------------------------
شاعر کا نام معلوم ہو کسی کو تو بتائے ۔۔؟
 

راجہ صاحب

محفلین
ہماری بے زبانی کا تماشہ دیکھنے والو
کہیں ایسا نہ ہو، یہ خامشی آواز ہو جائے

خزاں دیدہ سہی لیکن بہاروں کا شناسا ہوں
گھڑی بھر کو ہی بوئے گل مری ہمراز ہوجائے
سرور
 

عمر سیف

محفلین
یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے

وہی محدود سا حلقہ ہے شناسائی کا
یہی احباب مرے ہیں، یہی اعدا میرے

میں تہِ کاسہ و لب تشنہ رہوں گا کب تک
تیرے ہوتے ہوئے ، اے صاحبِ دریا میرے

مجھ کو اس ابرِ بہاری سے ہے کب کی نسبت
پر مقدر میں وہی پیاس کے صحرا میرے

دیدہ و دل تو ترے ساتھ ہیں اے جانِ فراز
اپنے ہمراہ مگر خواب نہ لے جا میرے
 

راجہ صاحب

محفلین
میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی

ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے وار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی

سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی

مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری اجنمن کا قریں سہی

تیرا در تو ہمکو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی

میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی

جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

پیر نصیرالدین نصیر
 

عمر سیف

محفلین
ہم نے کاٹی ہیں تری یاد میں راتیں اکثر
دل سے گزری ہیں تاروں کی باراتیں اکثر

عشق راہزن نہ سہی عشق کے ہاتھوں اکثر
ہم نے لٹتی ہوئی دیکھی ہیں باراتیں اکثر
ہم سے اک بار بھی جیتا ہے نہ جیتے گا کوئی
وہ تو ہم جان کے کھا لیتے ہیں ماتیں اکثر
ان سے پوچھو کبھی چہرے بھی پڑھے ہیں تم نے
جو کتابوں کی کیا کرتے ہیں باتیں اکثر
حال کہنا ہو کسی سے تو مخاطب ہے کوئی
کتنی دلچسپ ہوا کرتی ہیں باتیں اکثر
اور تو کون ہے جو مجھ کو تسلی دیتا
ہاتھ رکھ دیتی ھیں دل پر تری باتیں اکثر
جاں نثار اختر
 

راجہ صاحب

محفلین
بیخودی! تو ہی آخر بتا، کیا کریں؟
ہو گئے ہم جو خود سے جدا، کیا کریں؟

ہم ازل سے ہیں اہلِ وفا کیا کریں!
زندگی ایک کافر ادا، کیا کریں؟

بات بے بات جب ہوں خفا کیا کریں؟
ہم بیاں آپ سے مدعا کیا کریں؟

عاشقی ہے کہ ہے اک بلا، کیا کریں؟
کوئی بتلائے بہرِ خدا، کیا کریں؟

دل کو ضد ہے کہ کوئے ملامت چلو
روک کر ہم قیامت بپا کیا کریں؟

درد بڑھتا گیا، دن گزرتے گئے
کب رُکا وقت کا قافلہ، کیا کریں؟

اولِ شام ہجراں ہی نیند آگئی
ابتدا بن گئی انتہا، کیا کریں؟

جان شعروں میں سرور جو تیرے نہیں
لوگ پھر مرحبا! مرحبا! کیا کریں؟

سرور عالم راز سرور
 

عمر سیف

محفلین
میری جان یوں نا اُداس ہو
کہہ وہ چند لمحوں کی ان کہی
تیرے پیراہن کی رفو گری
میرے بس میں اب نا رہی تو کیا
کے میں شبد شبد تیرے پاس ہوں
تیرے سوکھے ہونٹوں کی پیاس ہوں
ہاں اُداس ہوں
وہ وعید جو تجھ سے خاص تھے
میری بے کسی کا لباس تھے
اسی دست زور و ستم نے پھر
کسی تلخ لمحے کی آنْچ میں
ہیں جلا دیے
یا بجھا دیے
میرے پاس اب بھی سراب ہیں
نئے خواب ہیں
چلو آؤ طفل امید نو
ذرا کھیل لیں
انہیں جھیل لیں . . . !
 

راجہ صاحب

محفلین
بھنور کی گود میں جیسے کنارہ ساتھ رہتا ہے
کچھ ایسے ہی تمھارا اور ہمارا ساتھ رہتا ہے

محبت ہو کہ نفرت ہو اُسی سے مشورہ ہوگا
میری ہر کفیت میں استخارہ ساتھ رہتا ہے

سفر میں عین ممکن ہے میں خود کو چھوڑ دوں لیکن
دُعائیں کرنے والوں کا سہارا ساتھ رہتا ہے

میرے مولا نے مجھکو چاہتوں کی سلطنت دے دی
مگر پہلی محبت کا خسارہ ساتھ رہتا ہے
 

عمر سیف

محفلین
مقدر آزمانے میں زمانے بیت جاتے ہیں
مرادیں دل کی پانے میں زمانے بیت جاتے ہیں

نہیں کرتا کوئی ہمت اگر اظہارِ الفت کی
زباں پر بات لانے میں زمانے بیت جاتے ہیں

محبت زندگی میں بڑی مشکل سے ملتی ہے
مگر اس کو نبھانے میں زمانے بیت جاتے ہیں

اگر ایک بار آنکھوں میں اچانک آ بسے کوئی
اسے دل سے بھلانے میں زمانے بیت جاتے ہیں
 

راجہ صاحب

محفلین
وقت کے ٹھکرائے کو گردانتا کوئی نہیں
جانتے ہیں سب مجھے، پہچانتا کوئی نہیں

آج بھی ہر خواب کی تعبیر ممکن ہے مگر
یہ سنہرا عزم دل میں‌ٹھانتا کوئی نہیں

جب سے میں‌نے گفتگو میں جھوٹ شامل کر لیا
میری باتوں کا برا اب مانتا کوئی نہیں

کچھ تو ہوگا حال سے ماضی میں‌ہجرت کا سبب
یونہی بس یادوں کی چادر تانتا کوئی نہیں

میں جو کچھ بھی کہا سچ کے سوا کچھ نہ کہا
پھر بھی آزر بات میری مانتا کوئی نہیں
 

عمر سیف

محفلین
دل کی چوکھٹ پہ جو اک دیپ جلا رکھا ہے
تیرے لوٹ آنے کا امکان سجا رکھا ہے

سانس تک بھی نہیں لیتے ہیں تجھے سوچتے وقت
ہم نے اس کام کو بھی کل پہ اُٹھا رکھا ہے

روٹھ جاتے ہو تو کچھ اور حسیں لگتے ہو
ہم نے یہ سوچ کے ہی تم کو خفا رکھا ہے

تم جِسے روٹھا ہوا چھوڑ گئے تھے اک دن
ہم نے اس شام کو سینے سے لگا رکھا ہے

چین لینے نہیں دیتے کسی طور مجھے
تیری یادوں نے جو طوفان اٹھا رکھا ہے

جانے والے نے کہا تھا کہ وہ لوٹے گا ضرور
اک اسی آس پہ دروازہ کھلا رکھا ہے

تیرے جانے سے جو اک دھول اُٹھی تھی غم کی
ہم نے اس دھول کو آنکھوں میں بسا رکھا ہے

مجھ کو کل شام سے وہ یاد بہت آنے لگا
دل نے مدت سے جو اک شخص بُھلا رکھا ہے

آخری بار جو آیا تھا میرے نام
میں نے اُس خط کو کلیجے سے لگا رکھا ہے
 

عمر سیف

محفلین
یہ زرد پتوں کی بارش میرا زوال نہیں
میرے بدن پہ کسی دوسرے کی شال نہیں
اُداس ہوگئی ایک فاختہ چہکتی ہوئی
کسی نے قتل کیا ہے یہ انتقال نہیں
تمام عمر غریبی میں باوقار رہے
ہمارے عہد میں ایسی کوئی مثال نہیں
وہ لا شریک ہے اُس کا کوئی شریک کہاں
وہ بے مثال ہے اُس کی کوئی مثال نہیں
میں آسمان سےٹوٹا ہوا ستارہ ہوں
کہاں ملی تھی یہ دُنیا مجھے خیال نہیں
وہ شخص جس کو دل وجاں سے بڑھ کے چاہا تھا
بچھڑ گیا تو بظاہر کوئی ملال نہیں
بشیر بدر
 
Top