میری شاعری پڑھ کر اپنی آرا سے نوازیں

طاہر

محفلین
merakhudaanew.gif
[/img]
 

طاہر

محفلین
فراقِ یار کی ایک شب​
وہ فراقِ یار کی ایک شب
گزرنی تھی ہم پہ گزر گئی ہے
اُسی ایک رات میں ہم صنم
کبھی مر مر کر جیا کیئے
کبھی جی جی کر مرا کیئے
وہ وصلِ یار کے تمام لمحے
کبھی گلاب بن کر ملے مجھے
کبھی عذاب بن کر ملے مجھے
وہ لمحے جو پھول بن چکے تھے
تیری یادوں‌ کی دھول بن گئے ہیں
وہ لمحہ لمحہ عذاب ہوئے ہیں
میری بے کسی کی کتاب ہوئے ہیں
کہیں کوئی“ دیوارِ گریہ “ ملے
جس سے لپٹ کے میں بھی رولوں
وہ جو تیری نفرتوں کی
گرد سی جم چکی ہے
اپنے آنسووں سے میں بھی دھو لوں
کہ نئی زندگی کا آغاز کر لوں
اک نیا جہان آباد کرلوں
جہاں فرقتوں کی کوئی بات نہ ہو
جہاں نفرتوں کی کوئی رات نہ ہو
جہاں جدائیوں کو کوئی ہاتھ نہ ہو
کہ اب تو
وہ فراقِ یار کی ایک شب
گزرنی تھی ہم پہ گزر گئی ہے
 

طاہر

محفلین
اک چاند زمیں پر رہتا ہے

“ تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے“
پھولوں کو یہ احساس ہوا
کوئی اور بھی ان سے بہتر ہے
کوئی اور بھی عنبر عنبر ہے
کسی اور کے گرد بھی بھونرے ہیں
جو اُس کو چاہ کر سنورے ہیں
تیرے بالوں کو جو دیکھتی ہے
وہ رات شرم سے مرتی ہے
اور چپکے چپکے کہتی ہے
وہ زلف بڑی ہی کالی ہے
سب جگ سے وہ نرالی ہے
تیری کاجل سے بھری آنکھوں کو
ہرنی چھپ چھپ دیکھتی ہے
اور من ہی من میں کُڑہتی ہے
کہ کسی اور کے نین میں جادو ہے
جو ہر ایک سے اب بے قابو ہے
تیرے چہرے کو جب وہ دیکھتا ہے
احسا س سے نظریں جھکا لے وہ
وہ چاند جو رات چمکتا ہے
ہر ٹوٹنے والے تارے سے
بس ایک ہی بات وہ کہتا ہے
“اک چاند زمین پہ رہتا ہے“
 

طاہر

محفلین
“ تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے“
پھولوں کو یہ احساس ہوا
کوئی اور بھی ان سے بہتر ہے
کوئی اور بھی عنبر عنبر ہے
کسی اور کے گرد بھی بھونرے ہیں
جو اُس کو چاہ کر سنورے ہیں
تیرے بالوں کو جو دیکھتی ہے
وہ رات شرم سے مرتی ہے
اور چپکے چپکے کہتی ہے
وہ زلف بڑی ہی کالی ہے
سب جگ سے وہ نرالی ہے
تیری کاجل سے بھری آنکھوں کو
ہرنی چھپ چھپ دیکھتی ہے
اور من ہی من میں کُڑہتی ہے
کہ کسی اور کے نین میں جادو ہے
جو ہر ایک سے اب بے قابو ہے
تیرے چہرے کو جب وہ دیکھتا ہے
احسا س سے نظریں جھکا لے وہ
وہ چاند جو رات چمکتا ہے
ہر ٹوٹنے والے تارے سے
بس ایک ہی بات وہ کہتا ہے
“اک چاند زمین پہ رہتا ہے“
 

طاہر

محفلین
واہ ری تنہائی
تو کیوں چلی آئی
دکھے دل کو دکھانے
لہو لہو آنکھوں کو
اور لہو بہانے
شام تو پہلے ہی اُداس تھی
آنکھوں کے کناروں پہ پیاس تھی
پھر چلی آئی تو
شب بھر مجھکو جگانے
واہ ری تنہائی
تو کیوں چلی آئی
 
ہمیں نظر آتے ہیں خزاں میں بہار کے رنگ
ہر روز ہی بدل جاتے ہیں میرے یار کے رنگ
اک مسکراہٹ‌ تیری مُردوں میں جان ڈال دے
بدل رہے ہیں شب و روز تیرے بیمار کے رنگ




دل یہ چاہتا ہے کہ اپنا خدا بنا لوں اسکو
اک درد کی طرح سینے میں پالوں اُسکو
جسم کے خطوط ہیں ریاضی کے سوالوں جیسے
طاہر اچھی طرح سے ذہن میں بٹھا لوں اسکو

عروض اور فنی تیکنیک کے حوالے سے بحر واوزان سے مطا بقت نھیں ھے اصلا ح کی ضرورت ھے
 

ایم اے راجا

محفلین
آزاد نظمیں بہت اچھی ہیں میرا خیال ہے نثری نظمیں کہیں انھیں تو درست ہو گا۔ بہرحال بہت اچھی ہی، بہت خوب طاہر صاحب۔
 

الف عین

لائبریرین
طاہر میں ٹیلینٹ یقیناً ہے۔ نثری نظم کے طور پر قابلِ قبول سہی، لیکن طاہر نے اکثر قافیے رسیف کا اہتمام کر کے غزل بھی کہنے کی کوشش کی ہے۔ ہاں تازہ کلام زیادہ تر نثرفی نظم کی شکل میں قبول کیا جا سکتا ہے۔
اگر کسی استاد سے اصلاح کرا لیا کریں تو اچھے شاعر ثابت ہو سکتے ہیں طاہر۔
میں عموماً جب اصلاح کے تحت کلام پیش نہیں کیا جاتا تو محتاط رہتا ہوں۔ درست رائے دی جائے تو ارکان ناراض ہونے لگتے ہیں۔ خواہ مخواہ کی تعریف کرو تو شاعر اسی میں خوش ہو جاتا ہے اور اصلاح کی کوشش نہیں کرتا۔ اس لئے اب تک رائے نہیں دی تھی۔
 

ایم اے راجا

محفلین
شکریہ استادِ محترم۔
طاہر صاحب اعجاز صاحب کی رائے آپ نے دیکھی، ماشاءاللہ کافی ٹیلینٹ ہے آپ میں انکی رائے پر عمل کریں تاکہ آپ کے اندر کا اچھا شاعر باہر آسکے۔ شکریہ۔
 

طاہر

محفلین
کٹ ہی جاتے ہیں انکے بھی راستے
جو لوگ تیرے ہم سفر نہیں ہوتے

معلوم ہیں ہمیں تیرے شب وروز
ہم تجھ سے کبھی بے خبر نہیں ہوتے

نہیں چھوڑیں گے کبھی صبر کا دامن
تڑپتے ہیں مگر بے صبر نہیں ہوتے

جن بستیوں کے امیر رات نہیں سوتے
خزاں رسیدہ اُس شہر کے شجر نہیں ہوتے

جو اخلاق کے پیمانوں میں تولیں زندگی
وہ لوگ کبھی بھی در بدر نہیں ہوتے

روشنی کے لبادے اوڑھ لیتے ہیں لوگ
چمکتے تو ہیں مگر وہ بدر نہیں ہوتے
 

طاہر

محفلین
امیدوں کے قافلے کو میرَ کارواں نہ ملا
جسم بے آب و گیاہ کو گلستاں نہ ملا
تیری طلب میں آئے تھے جہاں میں
کبھی تو یہاں نہ ملا کبھی وہاں نہ ملا

جب سے نکلے تیرے کوچہ بہار سے
پھرآج تلک کوئی بھی آستاں نہ ملا

میری راہوں میں نظروں کے پھول بچھاتا
شہرِ غم میں کوئی بھی انساں نہ ملا

بے اعتنائی کا زہر رگ وجاں میں اتر گیا
یہ ایک غم جو ہمیں کہاں کہاں نہ ملا

اپنے ہی شہر میں بھٹکتے رہے ہم طاہر
کبھی زمین نہ ملی کبھی آسمان نہ ملا
 

طاہر

محفلین
[font="urdu_umad_nastaliq"]وہ ایک لمحہ گراں تھا ہم پہ
کہ تیرے لبوں کے پھول جب
قہر بن کے گرے تھے مجھ پہ
زہر بن کر گرے تھے مجھ پہ
میں رفاقتوں کی جنگ
اُسی ایک محاذ پہ ہار گیا تھا
میں کہ منصور تھا
جان اپنی کسی کی خاطر
جو دار پہ وار گیا تھا
طاہر
[/font]
 
Top