میری سو لفظی کہانیاں۔ نزہت وسیم

ام اویس

محفلین
محشر

اسے جنت کی رغبت و شوق دلایا گیا داخلے کا ٹکٹ تھما کر جنتی ہونے کی گارنٹی بھی دی گئی ۔

رمضان میں شیطان جکڑ لیے گئے تھے چنانچہ اس کا کام مزید آسان ہوگیا ۔

اس نے جیکٹ پہنی جنت کی طلب میں کچھ لوگوں کو جہنم رسید کرنے جمعہ کے دن مسجد جا پہنچا صدر دروازے پر جہنم کے دروغے وردی میں ملبوس اس کی منزل کھوٹی کرنے لگے۔

اس نے وہیں خود کو پھاڑ دیا مرنے والے شھید ہوئے اور جنت میں داخل ہوگئے

ان کے بیوی بچے میدان حشر میں پہنچ گئے۔

اور ان کا حساب کتاب شروع ہوگیا ۔
 

ام اویس

محفلین
بھوک

وہ دیہاڑی دار تھا ۔ مزدوری مل جاتی توپیٹ بھر لیتا ورنہ ندیدوں کی طرح جگہ جگہ کھانے والوں کو تکتا رہتا ۔ بھوک مٹنے کی بجائے بھڑک اٹھتی ۔ کام کی تلاش میں گلی گلی پھرتے سڑکوں پر لگے بل بورڈ دیکھتا رہتا ۔ اس جیسی عورتیں پیٹ کی آگ بجھانے جسم کا کاروبار کرتی تھیں ۔ بھوک بھڑک اٹھتی ۔ شام کو گھر لوٹا تو کزن کی کمسن بچی اکیلی جاتی دکھائی دی ۔ ٹافی کے لالچ میں بھاگ کر پاس آگئی ۔ بچی کا ہاتھ پکڑ کراندرجاتے اس نے سوچا :
“ برتن چھپانے کے لیے جنگل ، گڑھا ، گٹر، پٹرول یا تیزاب کیا بہتر رہے گا ؟ “
 

ام اویس

محفلین
لانگ بوٹ

ایک بادشاہ تھا ۔ وہ سڑکیں بنانے اور رنگ برنگی ٹرینیں چلانے کا شوقین تھا ۔اسے ترچھی ٹوپی اور لانگ بوٹ بہت پسند تھے ، جنہیں پہننے کے لیے وہ برسات کا انتظار کرتا ۔ جونہی بارشیں شروع ہوتیں اس کے ماتحت سڑکوں سے پانی غائب کر دیتے ، چنانچہ وہ رات بھر پانی کی تلاش میں مارا مارا پھرتا تاکہ ترچھی ٹوپی اور لانگ بوٹ کے ساتھ میڈیا کے لیے فوٹو شوٹ کروا سکے ۔ پھر زمانے کے تغیر نے اسے ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا ۔ بارش نے ملتان روڈ کے سپر سٹاپ کو پھر چھپڑ سٹاپ میں بدل دیا ۔ کیونکہ اب لانگ بوٹ کے ساتھ تصویر بنوانے والا جا چکا تھا
 

ام اویس

محفلین
بیٹا

فون کی گھنٹی بجی ، دوسری طرف اس کا باپ تھا، لرزتی ہوئی شفقت بھری آواز کے ساتھ التجا کی، تمہاری والدہ کی خواہش ہے، آج روزہ اس کے پاس کھولا جائے ۔ اچانک اسے یاد آیا آج اس کے بیٹے کا بھی روزہ ہے۔ اس نے اپنے باپ سے معذرت کی ، کام کی زیادتی کا بہانہ بناتے اس کے لہجے میں رکھائی در آئی ۔
بازار سے سموسے ، فروٹ چاٹ اور دہی بھلے خرید کر گھر لوٹا۔ بیٹے پر شفقت بھری نگاہ ڈالی اور محبت سے پوچھا “ روزہ کیسا گزرا “
بیٹے نے گیم سے نگاہ ہٹائے بغیر رکھائی سے کہا:
“ ٹھیک “
 

ام اویس

محفلین
اشارہ

عید کی خریداری کے لیے شوہر کے ساتھ موٹرسائیکل پر جارہی تھی۔ اچانک ایک گاڑی والے کو دیکھا جو بند شیشے سے اسے اشارے کر رہا تھا۔ غصے کے عالم میں قمیض کو کھینچ کر نیچے کیا ۔ پیچھے نگاہ کی تو موٹر سائیکل سوار لڑکا اسے دیکھتے انگلی کو گول گول گھما رہا تھا۔ الجھتے ہوئے شوہر کو روکا، موٹر سائیکل رُکنے سے پہلے ہی گلے میں کسے دوپٹے کے زور پر وہ الٹ کرسڑک پر جاگری ۔ کھوپڑی کے تڑخنے کی آواز اس کے کانوں میں گونجی۔
اور اس کا دماغ انگلی کے اشارے کی مانند تیز تیز گھومنے لگا ۔
 

ام اویس

محفلین
نیا مکان:

چار سوٹ سینے میں دو دن لگے، تھوڑا آسرا ہوگیا مگر کمر ٹوٹ گئی، اکھڑی دیوار سے ہوتی نظرچھت تک پہنچی تو شکستہ شہتیر میں ایک بڑی دراڑ دکھائی دی، فق ہوتے چہرے کو سنوارا ،ہونٹ لال کیے،موبائل کیمرہ آن کیا، بچوں کو ڈانٹ کر چُپ کروایا اور فیس بُک لائیو سٹریمنگ کے لیے مسکراہٹ کا نقاب اوڑھ لیا۔ دس ماہ میں بمشکل قرضے لے کر فوڈ چینل کے ہزار سبسکرائبر پورے کیے ہیں ۔وبا، بے روزگاری کے بعد گرتی چھت سے بچ گئےاور چار ہزار گھنٹے پورے ہو گئے تو سب سے پہلےکرائے پر نیا مکان ڈھونڈوں گی۔
 

ام اویس

محفلین
لا علاج

وہ ایک عام آدمی تھا، اپنی دنیا میں مگن، اپنی ذات سے غرض، مسائل کے حل کے لیے چیختا چلاتا، دوسروں کو الزام دیتا۔ اچانک ایک دن اپنی ذات کے خول سے نکلا، آس پاس دیکھا، غموں سے بوجھل دل، وسائل سے خالی ہاتھ ، اندیشوں سے بھرے اذہان دکھائی دئیے۔ مدد کے لیے آگے بڑھا تو راہ کی دشواریوں نے سوچ و فکر کے در کھول دئیے۔ زبان سے کچھ کہنا بےکار سمجھ کر عمل کی راہ پکڑی ۔ ہزاروں دلوں کے لیے اماوس کی سیاہ راتوں میں امید کے جگنو اکھٹے کرنا آسان نہ تھا۔ بیماری لاعلاج تھی۔
 

ام اویس

محفلین
رات کام کرتے کرتے اس کی آنکھ لگ گئی جب تیسرے پہر آنکھ کھلی تو۔۔۔۔۔


بند آنکھوں سے اس کے کانوں نے برتن دھلنے کی کھڑ کھڑاہٹ سنی۔ حنا بھرے پُرے سسرال میں رہتی تھی، کل اس کے بچے کی سالگرہ تھی، تقریب میں پورا خاندان جمع تھا۔ حنا کے ہاتھ کا کھانا سب کو پسند تھا۔ سالگرہ کا فنکشن نبٹا کر بغیر برتن دھوئے، تھکی ماندی بستر پر گر کر سو گئی۔ برتنوں کی کھڑکھڑاہٹ تھکی ہڈیوں کو سکون بخش رہی تھی۔ اس نے اس لوری کو سنا اور آنکھیں موند لیں۔ صبح جب کچن میں جھانکا تو خوف سے اس کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔
دھت تیرے کی! سب کچھ ویسے کا ویسا تھا۔
 

ام اویس

محفلین
عنوان: کیجئے کچھ تو ستم کی تخفیف۔۔۔

وجود میں پلتی جان اور بھوک کی تھکن سے چُور “احساس پروگرام” کی لمبی قطار میں کھڑے چار گھنٹے بیت چکے تھے۔ اس نے اپنے آگے پیچھے کھڑی عورتوں کا بغور جائزہ لیا، یوں محسوس ہوا کہ آئینہ دیکھ رہی ہو۔ وبا نے بے روزگاری کا جال پھیلا کر غریب کے ساتھ متوسط طبقے کو بھی افلاس زدہ کر دیا۔ لاک ڈاؤن کا ہرجانہ بھرتے جا بجا ایسے بے ہنگم وجود سُتے چہروں کے ساتھ آزردہ کھڑے تھے۔ مصائب میں تخفیف کی خواہش وبا اور قحط کا شکار ہو چکی تھی۔ اور قدرت! سب سے بے نیاز فیاضی پر تُلی تھی۔
 

ام اویس

محفلین
جدید اسلام

مسلمان کے گھر پیدا ہوکر دعوی مسلمانی میں کیا مشکل ہے؟ نہ جانے کیوں پہلے لوگ شدید گرمی میں تپتی چٹانوں پر دہکتے کوئلوں سے جسم کی چربی پگھلاتے تھے، اپنے مال و اسباب کے بدلے اپنی جان اور ایمان بچاتے تھے۔ بھوک پیاس سے بلکتے بیوی بچوں کے ساتھ اپنی گردنیں کٹواتے تھے۔ رات بھر عبادت کرکے صبح کفار کے مقابل سیسہ پلائی دیوار بن جاتے تھے۔ اگر ان کے پاس چائنہ کی لائٹیں نہیں تھیں تو موم بتیاں جلا کر اپنے ایمان کا اظہار کردیتے ۔
دین میں تنگی نہیں ، آخر جان و مال دینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟
 

ام اویس

محفلین
61-B06-E20-3-DB4-4125-9-E15-69-C1-FDA07-E18.jpg
 

ام اویس

محفلین
ڈبل بیڈ اور چاول:-

آج پھروہ کھانے کے وقت چلی آئی، میں نے اسے بھی آلو کا پراٹھا بنا دیا۔ وہی باتیں، غربت اور بھولپن، جوانی بیت گئی بڑھاپے نے آ لیا، نہ اس کی خواہشات پوری ہوئیں نہ ان سے کنارا کیا۔
بولی! نواسی کا نکاح ہے۔ کچھ نہیں مانگتی، بس ایک ڈبل بیڈ، ایک فرشی پنکھا اورایک بوری چاول۔اس کی گیلی آنکھیں اور ہنستا چہرہ دیکھ کرمیں بھی ہنس دی۔
پیٹ میں بھوک، تن پر کپڑا نہیں، گرمی ،سردی ، بیماری سے بچنے کا کوئی آسرا نہیں۔
ڈبل بیڈ کی خواہش کو اگلی نسل تک منتقل کرنا۔
بھلا کیسی محبت ہے یہ؟
 

ام اویس

محفلین
عنوان: میں اسے مارنا نہیں چاہتی تھی۔

میں اسے مارنا نہیں چاہتی تھی مگر کم بخت میرے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوگیا، میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی لمبی لمبی مونچھیں اوپر نیچے ہلانے لگا۔ میں جدھر ہوتی وہ بھی اسی طرف چل پڑتا ، بہت کوشش کی کسی طرح دفع ہو جائے لیکن وہ بھی کسی ڈھیٹ نسل سے تعلق رکھتا تھا بالاخر میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا میں نے جوتا اٹھایا اور آنکھیں بند کر کے پوری قوت سے اس کے سر پر دے مارا ، میں اسے مارنا نہیں چاہتی تھی مگر بہت ہی ڈھیٹ کاکروچ تھا مجھے زبردستی اسے مارنا ہی پڑا ۔

۔۔۔۔۔
 
Top