میری ایک 'مشکوک' غزل کے چند اشعار برائے اصلاح

جناب استادِ محترم اعجاز بھائی، اور تمام ممبران،

السلامُ علیکم!

کافی عرصے سے مصروفیت کی بنا کچھ خاص نہ کہہ سکا۔ ایک غزل کے چند اشعار برائے اصلاح پیش کر رہا ہوں۔

پہلے تو قوافی کے بارے میں شک ہے کہ درست بھی ہیں کہ نہیں۔ دوسرے ایت شعر میں 'نیز' کو 'اور' کے معنی میں استعمال کرنے کی جسارت کی ہے جو غالبا غلط ہی ہو گا۔۔۔ بحرحال، آپ ہی بہتر بتا سکیں گے۔

کوئی اپنا یہاں رہا نہ رہا
اب تو جینے کا حوصلہ نہ رہا

ایک جنبش سی رہ گئی باقی
دل دھڑکنے کا سلسلہ نہ رہا

تیری زلفوں کی بات کیا کرتے
تیرے زخموں سے دوستانہ رہا

پھول، کانٹے، شراب، نیز کہ تم
اپنی قسمت میں کیا سے کیا نہ رہا

الف عین
مزمل شیخ بسمل
محمد خلیل الرحمٰن
 
بہت بہت مبارکباد آپ کو میری جانب سے اس خوبصورت غزل کے لیے۔
اصلاح کے لیے تو محفل کے مصلح موجود ہیں۔ البتہ میرا خیال یہ ہے کہ قوافی تمام اشعار میں درست ہیں۔
تیسرے شعر میں بھی قافیہ تو درست ہی ہے لیکن بیانیہ واضح نہیں۔ نیز یہ کہ دونوں مصرعوں میں ربط میری ناقص سمجھ میں نہ آیا۔ اس شعر کے دوسرے مصرع سے یہ ہرگز واضح نہیں کہ زخم در اصل کس کے ہیں شاعر کے یا معشوق کے۔ قیاس یہاں یہ کہتا ہے کہ شاعر کہنا چاہتا ہے "معشوق کے دیے زخموں سے دوستانہ رہا"۔
آخری شعر میں میرے خیال میں "نیز کہ" کی ترکیب عجیب سی ہے۔ درست شاید "نیز یہ کہ" ہے۔ لیکن اسکو تو بہ آسانی دور کیا جاسکتا ہے ، جیسے:
پھول، امید، جام اور وصال (مجھے اس مصرع میں 'کانٹے' پر شدید اعتراض ہے۔ کوئی حس نہیں اسکی یہاں)
اپنی قسمت میں کیا سے کیا نہ رہا
(البتہ مجھے 'کیا سے کیا' والی ترکیب پر بھی اعتراض ہے، لیکن پھر بھی)
باقی اساتذہ دیکھتے ہیں کیا فرماتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
قوافی یقیناً درست ہیں۔ مطلع میں رہا نہ رہا‘ سے مراد؟
دوسرا شعر درست۔
تیسرا شعر واقعی دو لخت ہے۔چوتھے شاعر میں مہدی سے متفق پوں، کیا سے کیا، اور ‘نیز کہ‘ دونوں کا استعمال غلط ہے۔ مصرع اولیٰ تو آسانی سے درست کیا جا سکتا ہے، لیکن مہدی کی تجویز میں ’امید‘ کا نحل، اس سے تو کانٹے ہی درست ہیں۔ میری تجویز ہو گی
“پھول کانٹے ہوں، مے ہو، یا تم ہولیکن چوتھے کا ابی حل نہیں نکل سکا۔
 
آپ تمام حضرات کا بہت شکرگزار ہوں۔

تیسرے شعر میں بھی قافیہ تو درست ہی ہے لیکن بیانیہ واضح نہیں۔ نیز یہ کہ دونوں مصرعوں میں ربط میری ناقص سمجھ میں نہ آیا۔ اس شعر کے دوسرے مصرع سے یہ ہرگز واضح نہیں کہ زخم در اصل کس کے ہیں شاعر کے یا معشوق کے۔ قیاس یہاں یہ کہتا ہے کہ شاعر کہنا چاہتا ہے "معشوق کے دیے زخموں سے دوستانہ رہا"۔

مہدی بھائی،
تیسرے شعر میں محبوب کے دیے زخموں کی بات ہوتی تو واقعی ربط نہ ہوتا۔ قصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک طرف محبوب کو شکوہ رہتا ہے کہ شاعر گل و گلزار کی، حسن و عشق کی بات نہیں کرتا، تو دوسری طرف اس (محبوب) کی عادت ہے کہ اپنے زخموں کو کریدتا رہتا ہے۔

آخری شعر میں میرے خیال میں "نیز کہ" کی ترکیب عجیب سی ہے۔ درست شاید "نیز یہ کہ" ہے۔ لیکن اسکو تو بہ آسانی دور کیا جاسکتا ہے ، جیسے:
پھول، امید، جام اور وصال (مجھے اس مصرع میں 'کانٹے' پر شدید اعتراض ہے۔ کوئی حس نہیں اسکی یہاں)
اپنی قسمت میں کیا سے کیا نہ رہا
(البتہ مجھے 'کیا سے کیا' والی ترکیب پر بھی اعتراض ہے، لیکن پھر بھی)
باقی اساتذہ دیکھتے ہیں کیا فرماتے ہیں۔


چوتھے شاعر میں مہدی سے متفق پوں، کیا سے کیا، اور ‘نیز کہ‘ دونوں کا استعمال غلط ہے۔ مصرع اولیٰ تو آسانی سے درست کیا جا سکتا ہے، لیکن مہدی کی تجویز میں ’امید‘ کا نحل، اس سے تو کانٹے ہی درست ہیں۔ میری تجویز ہو گی
“پھول کانٹے ہوں، مے ہو، یا تم ہولیکن چوتھے کا ابی حل نہیں نکل سکا۔

محترم اعجاز بھائی،

اس شعر میں نیز کے غلط استعمال کا مجھے یقین تھا۔ پھر بھی ڈال دیا کہ کوئی اچھی تجویز مل جائے۔ کہنا یہ چاہتا تھا:

پھول، کانٹے، شراب، اور تم!
اپنی قسمت میں کیا سے کیا نہ رہا

لیکن مصرع اولی کی تقطیع درست نہیں ہو رہی تھی۔ اس شعر کو حذف ہی کر دیتا ہوں۔
 
آپ تمام حضرات کا بہت شکرگزار ہوں۔
مہدی بھائی،
تیسرے شعر میں محبوب کے دیے زخموں کی بات ہوتی تو واقعی ربط نہ ہوتا۔ قصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک طرف محبوب کو شکوہ رہتا ہے کہ شاعر گل و گلزار کی، حسن و عشق کی بات نہیں کرتا، تو دوسری طرف اس (محبوب) کی عادت ہے کہ اپنے زخموں کو کریدتا رہتا ہے۔

شکرگزاری کی بات نہیں محترم!
لیکن محترمی بیانیہ تو اس مفہوم کو بھی واضح نہیں کر رہا جبکہ خیال واقعی اچھا ہے اور لائقِ تحسین!
 
تیسرے شعر کو اگر ایسے کر دیا جائے:

تیری زلفوں کی بات کیا کرتے
تجھ کو زخموں سے دوستانہ رہا

محترم اب مجھے سمجھ آیا کہ مسئلہ در اصل "کیا کرتے" میں ہے۔ کیا کرتے، محض شاعر کی بےبسی ظاہر ہو رہی ہے۔ یوں کر لیں تو؟:
بارے زلفوں کے کس طرح لکھتے
تجھ کو زخموں سے دوستانہ رہا۔
جبکہ ابھی بھی میں سمجھتا ہوں ابلاغ ٹھیک نہیں ہو رہا!
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
۔۔۔ واقعی ابلاغ نہیں ہوا۔۔۔
تیری زلفوں کی بات کیا کرتے
تجھ کو زخموں سے دوستانہ رہا

۔۔۔ اور یہاں بھی ابلاغ نہیں ہوا۔۔۔
بارے زلفوں کے کس طرح لکھتے
تجھ کو زخموں سے دوستانہ رہا۔

تیری زلفوں کی بات کیا کرتے
اپنے زخموں سے دوستانہ رہا
شاید یہ درست ہو ۔۔۔
 
Top