میرا یہ دن بہت اداس رہا - برائے اصلاح تنقید تبصرہ

میرا یہ دن بہت اداس رہا
خفا رہا جو میرے پاس رہا

وہ یا تو خواب یا سراب ہوا
وہ ہر طرح سے میری پیاس رہا

وہ میری تلخیوں میں ساتھ مرے
مرے مزاج کی مٹهاس رہا

ہر عیب اس پہ کهل گیا میرا
وہ اس طرح مرا لباس رہا

تو خود نہ تها مگر اثر تیرا
تو خوشبووں سا آس پاس رہا
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میرا یہ دن بہت اداس رہا
خفا رہا جو میرے پاس رہا
÷÷÷ دوسرا مصرع شاید وزن میں نہ ہو، ’’وہ خفا تھا جو میرے پاس رہا۔۔۔ ‘‘ بہتر لگ رہا ہے مجھے ۔
وہ یا تو خواب یا سراب ہوا
وہ ہر طرح سے میری پیاس رہا
÷÷÷یا تو وہ خواب یا سراب ہوا ۔۔۔ ہوسکتا ہے۔۔۔ اور دوسر ے مصرعے میں وہ کی جگہ جو بہتر ہے۔۔۔
وہ میری تلخیوں میں ساتھ مرے
مرے مزاج کی مٹهاس رہا
÷÷÷ درست÷÷÷
ہر عیب اس پہ کهل گیا میرا
وہ اس طرح مرا لباس رہا
÷÷÷ درست÷÷÷
تو خود نہ تها مگر اثر تیرا
تو خوشبووں سا آس پاس رہ
÷÷÷ پورا شعر ایک جملہ لگتا ہے، شاید دوسرا مصرع: ایک خوشبو سا آس پاس رہا، کرنے سے صورتحال بدل جائے۔۔۔

ا
تاہم میری دی گئی اصلاح میں وزن کا مسئلہ ہوسکتا ہے، اس پر مزید روشنی ڈالی جاسکتی ہے،
برائے توجہ:
جناب الف عین
جناب محمد یعقوب آسی
اور
مزمل شیخ بسمل بھائی کی توجہ چاہئے۔۔۔ بابت اس مسئلے کے۔۔۔
 
میرا یہ دن بہت اداس رہا
خفا رہا جو میرے پاس رہا

وہ یا تو خواب یا سراب ہوا
وہ ہر طرح سے میری پیاس رہا

وہ میری تلخیوں میں ساتھ مرے
مرے مزاج کی مٹهاس رہا

ہر عیب اس پہ کهل گیا میرا
وہ اس طرح مرا لباس رہا

تو خود نہ تها مگر اثر تیرا
تو خوشبووں سا آس پاس رہا

بہت خوب نظم نما غزل ہے محترمہ۔ بہت سی داد میری جانب سے
وزن کا کوئی مسئلہ نہیں پوری غزل میں۔
 
جناب شاہد شاہنواز صاحب۔
مزمل شیخ بسمل نے کہا ہے کہ محترمہ سارہ بشارت گیلانی کی اس کاوش میں اوزان کا کوئی مسئلہ نہیں تو ٹھیک ہی کہا ہو گا۔
سچی بات یہ ہے کہ میں اس کے اوزان کو نہیں پا سکا۔

استاد محترم یہ رجز مسدس مخبون مطوی مرفوع ہے۔
افاعیل ایسے ہیں:
مفاعلن مفاعلن فعِلُن
اور وہی روایتی تسکین اوسط سے فعِلن کا فعلن بنا دینا بلا اکراہ جائز ہے۔
 
بہت نوازش جناب مزمل شیخ بسمل صاحب
تاہم اس شعر کے پہلے مصرعے پر توجہ فرمائیے:



’’ہر عیب اس ۔۔۔ ‘‘ اس کو ’’مفاعلن پر پورا لانے کے لئے عیب کا عین گرانا پڑ رہا ہے۔

جی درست فرمایا جناب نے۔ یہ ایک خامی ہے جو مخرج کی ادائیگی میں کمزوری کی وجہ سے پیدا ہو جاتی ہے اکثر۔ جیسے:
افتخار عارف کے تند و تیز لہجے پر نہ جا
افتخار عارف کی آنکھوں میں الجھتے خواب دیکھ

ہم نے بچپن میں قاری صاحب سے عین کو ٹھیک سے ادا کرنے پر ایک ہفتہ لگایا تھا۔ اس لئے اب ہمارا عین دوسروں کے عین سے خاصا مختلف ہے۔ ;)
 

الف عین

لائبریرین
عزیزہ@سارہ بشارت گیلانی عروض سے واقف نہیں جو عزیزم مزمل شیخ بسمل کی بتائی بحر میں غزل کہہ سکیں۔ سارہ کی پسندیدہ ’بحر‘ مفاعلن سے شروع ہوتی ہے، اکثر غزلیں جو بے بحر بھی رہی ہیں، ان میں بھی شروع کے ارکان یہی رہے ہیں۔ میں نے اس غزل سے یہی سمجھا کہ یہ غزل اتفاق سے غیر مروجہ بحر میں خود بخود آ گئی ہے۔ اس میں سارہ کی فنی مہارت کا کوئی دخل نہیں۔
میرا پھر بھی مشورہ یہی ہے کہ انہی خیالات کو کسی عام مستعمل بحر، جیسے فاعلاتن مفاعلن فعلن میں ڈھال لہا جائے، جس میں کچھ مصرعے اب بھی تقطیع ہو رہے ہیں۔ یعنی وہی مشہور بحر۔۔ کوئی امید بر نہیں آتی والی
 

الف عین

لائبریرین
اب شاہد شاہنواز کی اصلاح پر غور کیا جائے

فاعلاتن مفاعلن فعلن سے تقطیع کرنے پر
میرا یہ دن بہت اداس رہا
خفا رہا جو میرے پاس رہا
÷÷÷ دوسرا مصرع شاید وزن میں نہ ہو، ’’وہ خفا تھا جو میرے پاس رہا۔۔۔ ‘‘ بہتر لگ رہا ہے مجھے ۔
درست،

وہ یا تو خواب یا سراب ہوا
وہ ہر طرح سے میری پیاس رہا
÷÷÷یا تو وہ خواب یا سراب ہوا ۔۔۔ ہوسکتا ہے۔۔۔ اور دوسر ے مصرعے میں وہ کی جگہ جو بہتر ہے۔۔۔
درست

وہ میری تلخیوں میں ساتھ مرے
مرے مزاج کی مٹهاس رہا
÷÷÷ درست÷÷÷
یہ درست نہیں، ‘مٹھاس‘ تقطیع میں نہیں آ سکتا۔

ہر عیب اس پہ کهل گیا میرا
وہ اس طرح مرا لباس رہا
÷÷÷ درست÷÷÷
وزن درست نہیں، اس طرح ممکن ہے
اس پہ ہر عیب کھل گیا میرا
اس طرح وہ مرا لباس رہا
یا دونوں مصرعوں کو ’اس‘ سے شروع کرنے کی جگہ پہلا یوں کہو
میرا ہر عیب کھل گیا اس پر

تو خود نہ تها مگر اثر تیرا
تو خوشبووں سا آس پاس رہ
÷÷÷ پورا شعر ایک جملہ لگتا ہے، شاید دوسرا مصرع: ایک خوشبو سا آس پاس رہا، کرنے سے صورتحال بدل جائے۔۔۔
درست یوں ہو گا
خود نہیں تھا مگر اثر تیرا
خوشبوؤں سا تو آس پاس رہا
لیکن کچھ مزید بہتری لائی جا سکتی ہے اس میں۔مثلاً شاہد کی اصلاح بھی بہتر ہے، جو میں نے ابھی دیکھی۔ پہلے مصرع میں جب ’اثر تیرا‘ ہے تو فاعل تو آ چکا، پھر ’تو‘ کی کیا ضرورت ہے
خود نہیں تھا مگر اثر تیرا
ایک خوشبو سا آس پاس رہا
 
میرا یہ دن بہت اداس رہا
خفا رہا جو میرے پاس رہا

وہ یا تو خواب یا سراب ہوا
وہ ہر طرح سے میری پیاس رہا

وہ میری تلخیوں میں ساتھ مرے
مرے مزاج کی مٹهاس رہا

ہر عیب اس پہ کهل گیا میرا
وہ اس طرح مرا لباس رہا

تو خود نہ تها مگر اثر تیرا
تو خوشبووں سا آس پاس رہا
خوب است! :) :) :)

شعر و سخن سے نا بلد ہونے کے باوجود جو ہم نے محسوس کیا وہ کچھ یوں ہے کہ کئی مقامات پر "مرے" یا "مری" کو بالترتیب "میرے" یا "میری" لکھا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ محض تحریر کا سقم ہو۔ دوسری بڑی بات جو ہمیں محسوس ہوئی وہ کہ مرکزی کردار شروع سے ہی واحد مذکر غائب رہا اور آخری شعر میں اچانک واحد مذکر حاضر کے صیغے میں اوتار لے بیٹھا۔ :) :) :)
 
Top