میرا ہمزاد

پاکستانی

محفلین
یادوں کی بہتی دجلا میں
اپنا عکس دیکھ
اور
یاد کر وہ لمحات
جو اس کی قربت میں بتاءے
وہ
حسیں قربت
دلنشیں قربت
جس کے دوران
تیرے لبوں پر یہ دعا رقصاں تھی
کاش
یہ ساعتیں ٹھر جاءیں
مگر
ساعت تاذہ ھوا کے جھونکے کی مانند
آءی
اور آ کر گزر گٰی
جیسے
تتلی کے رنگ ہاتھ میں بکھر گیے
اور
اک بے نام سی حسرت
تمھارا مقدر ٹھری
یاد کر وہ دن
جب اس کی قربت میں
صحرا
بہاروں سے خلوت میں ہم نشیں ہوے
پیاسے سیراب ہوے
وحشتوں کی گہری کالی رات می
چاند طلوع ہوا
اور اس کی روشنی میں
اندھوں کو بیناءی ملی
یاد کر وہ
قسمیں
ساتھ رہنے کی
جو
تم دونوں نے کھاییں تھیں
مگر آہ
آج انہیں قسموں اور وعدوں کی
دھنسی قبر پر بیٹھے
آنسووں کے پھول چڑھا رہے ہو
یاں سچ کہا ہے کسی نے
کہ
سخت پتھر مڑ نہیں سکتے
ٹوٹے ہوے دل جڑ نہیں سکتے
مگر اک
بے نام حسرت
اک موہوم امید
کیوں
تیرے دل کے گوشے میں
پڑی
سسکیاں بھرتی رہتی ہے۔
دیکھ وہ لمحہ
جب اس نے
موتی آنکھوں میں لیے
سسکیاں بھرتے ہویے
کہا تھا
کچے گھڑے پانی میں رہ نہیں سکتے
کچھ کرنا چاہتے ہویے بھی
ہم
کچھ کر نہیں سکتے
دیکھو
ہم مقدر سے لڑ نہیں سکتے
اور تم نے
سکتے کے عالم میں
اس سے
صرف اتنا پوچھا
بتا
تمہیں مجھ سے محبت ہے؟
اور وہ
بغیر کچھ کہے چلا گیا
وحشتوں نے ڈیرے ڈالے
بہار تیری یاد کے
لمبے سفر میں
خزاں ہویی
مگر تم
اک امید لیے
یہ دعا کرتے رہے
کاش وہ کچھ نہ کہے
کچھ نہ کہے
اور تم اس ساعت کے کینوس پر
امر ہو جاو
ہمیشہ کے لیے
اسے پانے کی
بے نام
جستجو لیے
 
Top