میرا نصیب ایک بہترین سیریل جو جسے آج ہمارے ٹی وی کلاس میں دکھایا گیا

سب دیکھنے کے لئے اک عمر رفتہ چاہئے:)
چلئے وقت نکال نکال کر کم از کم جتنی سفارشیں آئیں ہیں اسے تو دیکھ ہی لوں
کل کو مجھے بھی تو یہی کرنا ہے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
تو ،،کیسے پتہ چلے گا ؟

اس میں اداکار ایوب کھوسو نے ملاح کا کردار ادا کیا ہے۔ ڈرامے میں ایوب کھوسو کا نام "ناخدا" تھا۔ ان کے ساتھ مرکزی کرداروں میں حسام قاضی تھے۔ ویسے آپ نے مشکل ہی دیکھا تھا کہ وہ عام طرز کا ڈرامہ نہیں تھا، کچھ مختلف تھا۔
 
اس میں اداکار ایوب کھوسو نے ملاح کا کردار ادا کیا ہے۔ ڈرامے میں ایوب کھوسو کا نام "ناخدا" تھا۔ ان کے ساتھ مرکزی کرداروں میں حسام قاضی تھے۔ ویسے آپ نے مشکل ہی دیکھا تھا کہ وہ عام طرز کا ڈرامہ نہیں تھا، کچھ مختلف تھا۔

بہت بڑھیا آپ لوگوں سے بات کرکے اور یہ سارے دیکھ کر مجھے اندازہ ہوگا کہ کیسا آج کل لوگ پسند کر رہے پھر ایک زبردست اسکرپٹ لکھتا ہوں ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
پچھلے سال پی ٹی وی سے ایک پرانا ڈرامہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اُس کا نام تھا "ناخدا" وہ بہت اچھا لگا تھا۔ یہ بلوچستان کے مچھیروں کی زندگی سے متعلق تھا، اور کہانی بہت اچھی تھی۔
ناخدا کہاں سے یاد آگیا آپ کو۔ وہ تو بہت پرانا ڈرامہ ہے۔ اور ہے بھی پی ٹی وی کوئٹہ سنٹر کی پیشکش :)
 

نیلم

محفلین
اس میں اداکار ایوب کھوسو نے ملاح کا کردار ادا کیا ہے۔ ڈرامے میں ایوب کھوسو کا نام "ناخدا" تھا۔ ان کے ساتھ مرکزی کرداروں میں حسام قاضی تھے۔ ویسے آپ نے مشکل ہی دیکھا تھا کہ وہ عام طرز کا ڈرامہ نہیں تھا، کچھ مختلف تھا۔
لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں نے دیکھ رکھا ہے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں نے دیکھ رکھا ہے
تم نے تو ہر ڈرامہ ہی دیکھ رکھا ہوتا ہے۔ پورا دن ٹی-وی یا شیشے کے سامنے بیٹھی بس ڈرامے ہی دیکھتی ہو۔۔۔ :laugh:

میں نے پچھلے سال ریپیٹ ٹیلی کاسٹ میں دیکھا ہے۔ مجھے بہت اچھا لگا۔

آپ نے دیکھا ہے کیا؟؟؟
میرا خیال ہے کہ یہ ان ڈراموں میں سے ہے جو رات کو دس بجے آتے تھے۔ اور میں نے زندگی میں صرف سکول دور میں ہی ڈرامے دیکھے ہیں۔ اور وہ بھی رات 10 کے بعد جو آتے تھے وہ والے۔ انکی کہانیاں اور سکرپٹ بہت عمدہ ہوتے تھے۔ یہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔
پنجرہ آصف علی پوتا کا تحریر کردہ ڈرامہ۔ اس میں بھی ایوب کھوسہ ہی تھا
گھر، گلیاں اور راستے اسد اور فریحہ پرویز کا ڈرامہ
ناخدا
بس یہی میرا خیال ہے۔ اک اور ڈرامہ بھی دیکھ رکھا ہے۔ پر اسکا نام ذہن میں نہیں آرہا اس وقت :)
 
تم نے تو ہر ڈرامہ ہی دیکھ رکھا ہوتا ہے۔ پورا دن ٹی-وی یا شیشے کے سامنے بیٹھی بس ڈرامے ہی دیکھتی ہو۔۔۔ :laugh:


میرا خیال ہے کہ یہ ان ڈراموں میں سے ہے جو رات کو دس بجے آتے تھے۔ اور میں نے زندگی میں صرف سکول دور میں ہی ڈرامے دیکھے ہیں۔ اور وہ بھی رات 10 کے بعد جو آتے تھے وہ والے۔ انکی کہانیاں اور سکرپٹ بہت عمدہ ہوتے تھے۔ یہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔
پنجرہ آصف علی پوتا کا تحریر کردہ ڈرامہ۔ اس میں بھی ایوب کھوسہ ہی تھا
گھر، گلیاں اور راستے اسد اور فریحہ پرویز کا ڈرامہ
ناخدا
بس یہی میرا خیال ہے۔ اک اور ڈرامہ بھی دیکھ رکھا ہے۔ پر اسکا نام ذہن میں نہیں آرہا اس وقت :)

نیرنگ بھائی میں تھوڑی سی وفا چاہئے ابھی دیکھ رہا تھا سچ مچ بہت اموشنل اور اپییلنگ ہے کئی قسطوں میں ہے تین قسطیں ابھی دیکھی ہیں ۔اب جا رہا ہوں کھانا کھانے ورنہ ختم ہو جائے گا ۔واقعہ میں روئے بغیر نہیں رہ سکا وہ منظر ماں کا اپنے بچوں کو دیکھنے کے لئے آنا اور دس منٹ ختم ہونے کے بعد کہ اب ٹائم ہو گیا آپ جائیں ۔۔۔بہت درد انگیز تھا ۔اپنے ماں باپ سے دور ہوسٹل کی زندگی میں رہتے ہوئے میں اس درد کو بخوبی سمجھ سکتا ہوں ۔مجھے تو اپنا وہ زمانہ یاد آ گیا جب میں بھی انھیں بچوں کا طرح نو یا دس سال کا تھا اور پہلی مرتبہ ہاسٹل جا رہا تھا ۔کتنا رویا تھا اس وقت ۔اللہ ابھی بھی اس منظر کو یاد کرتا ہوں تو رو رو کر بھلا حال ہو جاتا ہے ۔
میں نے اپنے یاد داشت میں ایک دو جگہ اس کا تذکرہ بھی کیا ہے ۔
لیجئے دیکھئے اپنی ڈائری سے ایسے ہی ایک اپنی ذاتی تجربے کو شیر کرتا ہوں ۔

لیکن امی کسی بھی طرح مجھے باہر بھیجنے کے لئے راضی نہ تھیں ،مجھے آج بھی یاد پڑتا ہے جس دن مجھے اعظم گڈھ کے لئے روانہ ہونا تھا،اس رات امی بار بارمیرے پاس آتی اور میرے چہرے سے چادر اٹھا کر نا جانے کیا دیکھتی ،کبھی میرے گال کو چومتی تو کبھی میرے پیشانی کو، امی کی بار بار کے اس عمل سے جب میری نیند کھل گئی تو انھوں نے مجھے گلے لگا لیا اور کہنے لگی بھلا میں اس چھوٹے سے بچے کو کیسے اکیلے باہر بھیج سکتی ہوں،بھٹکل میںتو دیکھ ریکھ کرنے والا ابراہیم تھا تو کم از کم اطمینان رہتا تھا ،پھر کہتی نہیں نہیں میں نہیں جانے دونگی اور پھر گلے لگا کر رونا شروع کر دیتی ،صبح بھی امی کا یہی رویہ رہا ابو کو بھی تشویش ہوئی تو انھوں نے گاﺅں کے ہی کئی بچوں کو ساتھ پڑھنے کے لئے بھیجنے کا ارادہ کیا ،لیکن کوئی بھی اپنے لخت جگر کو اپنے سے دور بھیجنا نہیں چاہتا تھا یہ کام وہی کر سکتا ہے جس کی نظر مستقبل پر ہو اور جس کے اندر عزم ،ہمت اور حوصلہ ہو۔
مجھے اچھی طرح معلوم ہے ابو بھی مجھے اپنے سے جدا کرنا نہیں چاہتے تھے،اپنی اولاد کسے پیاری نہیں ہوتی کوئی نہیں چاہتا کہ اس کی اولاد نظروں سے اوجھل ہو ،لیکن ابو میرے بارے میں کچھ خواب سجائے ہوئے تھے اسی لئے انھوں نے دل پر پتھررکھ کر یہ فیصلہ کیا تھا۔خیر کافی سمجھانے بجھانے کے بعد ایک دور کے ماموں کو ابو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور انھوں نے اپنے بیٹے کوبھی میرے ساتھ بھیجنے کا ارادہ ظاہر کر دیا، ابو بڑے خوش ہوئے اور ہم دونوں یعنی راقم الحروف اور ماموں زاد بھائی دانش عبد اللہ کو استاذ محترم مولانا انعام اللہ رحمت ندوی کی معیت میں اعظم گڈھ تعلیم کے لئے روانہ کر دیا۔میں آج بھی اس جدائی کے منظر کو نہیں بھول سکتا جب میں نے گھر سے نکلتے ہوئے امی ،نانی ،خالہ ،ممانی اور باجی ان سب کی آنکھوں کو ڈبڈبائی ہوئی دیکھا ،نانی تو فرط جزبات میں آنچل اٹھائی ہوئی رو رو کر میری کامیابی کی دعائیں دے رہی تھیں۔مجھے رانچی بس اسٹنڈ تک چھوڑنے کے لئے ابو کے ساتھ ساتھ ماموں ،چچا اوربھائی جان بھی آئے تھے سبھوںنے مجھے ڈھیر سارے روپئے اور طرح طرح کے سامان خرید کر دئے ،ماموں نے روپیوں کے علاوہ بہت سارے پوسٹ کارڈ اور لفافہ بھی دئے اور تاکید کی کہ جاتے ہی خط لکھنا ماموں نے توپوسٹ کارڈوں اور لفافوں میں پتے تک لکھ دئے تھے تاکہ مجھے پتہ بھی لکھنے میں دشواری نا ہو۔
مجھے یہاں پر ایک واقعہ اور یاد ہے شاید اسے میں کبھی نہیں بھولوں گا یہ سردیوں کا موسم ہے ،کڑاکے کی سردی پڑ رہی ہے ،شام کے غالبا چھہ بج رہے ہیں گاڑی کے آنے میں ابھی ذرا دیر ہے ابو مجھے ایک ہوٹل میں لے جاتے ہیں، دو چائے کا آرڈر دیتے ہیں، چائے والا چائے لے کر آتا ہے ابو ایک مجھے دیتے ہیں اور ایک خوداپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں ،اب ابو مجھے نصیحت شروع کرتے ہیں”بیٹا دل لگا کر پڑھائی کرنا ،پہنچتے ہی فون ضرور کرنا ،وقت ضائع نہ کرنا ،کسی بھی قسم کی پریشانی ہو تو بلا جھجھک بتانابیٹا !میری لاج رکھنا،تم سے بڑی امیدیں ہیں“ یہ کہتے کہتے ابو کی آواز رندھ جاتی ہے اور پھر میں دیکھتا ہوں کہ ابو کی آنکھیں ڈبڈبا گئی ہیں وہ آنسووں کو چھپانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں لیکن آنسوہیں کہ چھپنے کا نام ہی نہیں لیتے ابو کو روتا دیکھ کر میں بھی رو دیتا ہوںتو ابو مجھے اپنے سینے سے لگا لیتے ہیں اوراپنے مفلر سے آنسو پوچھتے ہیں اورمجھے چپ کرتے ہوئے وہ مفلر میرے کاندھوں پر لپیٹ دیتے ہیں،میں سویٹر پہنا ہوا ہوں مجھے ٹھنڈ بھی بالکل نہیں لگ رہی ہے،لیکن اس کے باوجود ابو مفلر کو میرے گلے سے لپیٹ دیتے ہیں اور کہتے ہیں چلو کہیں بس کھل نہ جائے اور پھر ابو لمبے لمبے قدم بڑھاتے ہوئے بس کی طرف چل پڑتے ہیں ،میں بھی ان کی انگلی تھامے ان کے پیچھے چل پڑتا ہوں،سوار ہوتے ہی گاڑی فضا میں دھواں بکھیرتی ہوئی منزل کی طرف چل پڑتی ہے ،میں گاڑی کے شیشہ سے ابو ،ماموں ،بھائی جان،چچا سبھوں کو دیکھ رہا ہوں،سب اپنی اپنی باتوں میں محو ہیںسوائے ابوکہ جو دیر تک گاڑی کو دیکھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ گاڑی دور نکل جاتی ہے ، اور اب ابوبھی مری نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں،لیکن دل کی نظروں سے ابواب بھی مجھے وہیں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ابو کا وہ مفلر آج
 

محمداحمد

لائبریرین
جی بالکل !
کچھ اچھے ڈرامہ بتائیں؟؟

ہم بھی بتاتے ہیں۔ :) (کسی کو بتائیے گا نہیں)

دھواں، الفا براوو چارلی، آنگن ٹیڑھا، انگار وادی، الف نون، زندگی گلزار ہے (دیکھا نہیں ہے پڑھا ہے:) ) ۔ ایک کو چھوڑ کر زیادہ تر پرانے ڈرامے ہیں۔

اور بھی ہیں یاد آئے تو بتاؤں گا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک ڈرامہ "تیسرا کنارہ" بہت بچپن میں دیکھا تھا۔ یہ اس وقت بھی شاید دوسری یہ تیسری بار ریپیٹ ٹیلی کاسٹ ہو رہا تھا۔ اس میں راحت کاطمی اور شاید ساحرہ کاظمی تھے۔ ڈرامے کی کہانی بھی اچھی تھی۔ لیکن سب سے خاص بات اس ڈرامے کی یہ تھی کہ اس میں ایک بہت خوبصورت نظم "کبھی ہم خوبصورت تھے" نیرہ نور کی لاجواب آواز میں موجود تھی۔ جو شاید ڈرامے کے ٹائیٹل کے ساتھ بجائی جاتی تھی۔ اس سے اس ڈرامے کو چار چاند لگ گئے۔ کہانی تو اب کچھ خاص یاد نہیں، لیکن یہ نظم ناقابلِ فراموش ہے۔
 
Top