تو صاحبو اور صاحباؤ!
بچپن تو امید ہے آپ سب ہی پہ گزرا ہو گا۔ ہو سکتا ہے کچھ کا ہنوز جاری و ساری ہو۔ میری بیگم کی طرح۔ مدعا اس فقیر کا اس لڑی سے یہ ہے کہ اس عمر کے واقعات کی بازیافت کی جائے جب بندہ اپنے پیدا کردہ لطیفوں پر ہنس بھی نہیں سکتا۔ یعنی اپنے بچپن کے سریع الاثر واقعات حیطہءِ تحریر میں لا کر انھی تاریخ میں امر کرنے کی اجتماعی کوشش کی جائے۔ زور لگا کے، ہیا!
گو کہ بارش کا پہلا قطرہ چمن میں دیدہ ور کی طرح نرگس کی چیخیں نکلوائے بغیر نہیں آتا لیکن کوئی بات نہیں۔ ہم روایت شکن، روایت ساز! میں اپنے دورِ طفولیت (طفیلیت؟) کی چیدہ چیدہ حکایات سے آغاز کرتا ہوں۔ بعد ازاں آپ لوگ بھی اپنا حصہ بقدرِ غصہ ڈال کر عند اللہ ماجور ہوں۔
میرا بچپن گو کہ عام لوگوں کی طرح میری ولادتِ با سعادت کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا مگر اہلِ محلہ کا اتفاق بلکہ پرزور اصرار تھا کہ ثبت است بر جریدہءَ عالم دوامِ ما۔ یعنی چھوٹا سا اک لڑکا ہوں پر کام کروں گا بڑے بڑے۔ لہٰذا معمولی امور کی جانب اوائل ہی سے توجہ نہیں فرمائی۔ مثلاً سکول جانے کے لیے عوام کالانعام کی طرح پیدل چلنے کو ہمیشہ عار سمجھا۔ بلکہ سکول جانے ہی کو عار سمجھا (تلمیذالرحمٰن؟)۔ ہیڈماسٹر صاحب نے بڑی عمر کے چند لڑکوں کو مامور کر دیا تھا جومجھے بستر پہ لیٹے ہوئے ہی بازوؤں اور ٹانگوں سے پکڑ کر اٹھاتے اور اسی آرام دہ افقی حالت میں لے جا کر احتیاط سے سکول کے احاطے میں رکھ دیتے جہاں میں رقتِ دل سے تحصیلِ علم میں مشغول ہو جاتا۔ نابغہ ہونے کی ایک اور علامت جو اس عاجز نے روزِ اول سے ظاہر کرنی شروع کی یہ تھی کہ فقیر چار سال کی عمر ہی سے یا تو اپنی پنسل سکول لے جانا بھول جاتا تھا یا اپنے ہم جماعتوں کی بھی گھر لے آتا تھا!
167641_1644105392113_2660786_n.jpg
فقیر بچپن ہی سے دنگا فساد وغیرہ سے غایت درجہ دلچسپی رکھتا تھا جس کا حال اوپر دی گئی تصویر سے صاف ظاہر ہے۔ اگر طالبان نہ ہوتے تو فقیر آج طالبان ہوتا!
خدا معلوم کہاں سے میں نے ایک جملہ سیکھ لیا تھا۔
"یہ لیلی کی دنیا ہے!"
(گھر والے مجھے لیلی (لی+لی) کے نک نیم سے پکارتے تھے، پکارتے ہیں اور پکارتے رہیں گے، انشاءاللہ العزیز۔ کسی صاحب کو اعتراض ہو تو وہ ٹھنڈا پانی پئیں، کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہوں تو لیٹ جائیں، لیٹے ہوں تو بے ہوش ہو جائیں، بے ہوش ہوں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں)
تو صاحبو اور صاحباؤ! سارے جھگڑے اسی پہ ہوتے تھے۔ میں نعرہ لگاتا تھا، "یہ لیلی کی دنیا ہے!" ایک کزن کو اس برانڈنگ سے تپ چڑھتی تھی۔ وہ چیخ کے کہتیں: "یہ میری دنیا ہے!" میں جوابی کارروائی کے طور پر جگر سے وہی تیر پھر پار کرتا۔ "لیلی کی دنیا!" اس کے بعد کرہءِ ارض ذرا تیز گھمایا جاتا۔ یعنی بات ڈوئل تک پہنچ جاتی۔ اور تھوڑی نوچ کھسوٹ، چیخ پکار کے بعد گھر کے بڑے آ کر دونوں دنیاؤں میں خلا پیدا کر دیتے۔ یہ خلا رفتہ رفتہ اتنا بڑا ہو گیا کہ اب پُر ہی نہیں ہوتا!
ادبا و شعرا کا ایک ٹیمپلیٹ ہے کہ "... سال کی عمر ہی سے لکھنا شروع کر دیا تھا۔" فقیر نے چار پانچ سال کی عمر ہی سے "دیکھنا" شروع کر دیا تھا۔ جماعت اول کی استانی نوجوان، خوب صورت اور طرحدار تھیں۔ لائق طالبِ علم ہونے کے ناتے مجھ سے پیار بھی تھا۔ پہلے پہل انھی کو دیکھنا شروع کیا۔ مجھے یاد ہے کہ رات کو سوتے وقت میں آنکھیں بند کر کے ان سے باتیں کیا کرتا تھا۔ آخری جملے کا متن کچھ یوں ہوتا تھا کہ آپ بہت اچھی ہیں (لفظ خوب صورت کا استعمال اس وقت معلوم نہیں تھا)۔ لیکن آپ ہنسا نہ کریں۔ ہنستی ہوئی بری لگتی ہیں۔ اور وہ موٹے سر ... کے ساتھ کمرے میں نہ جایا کریں (خدا جانے کیا نام ہو گا۔ یاد ہوتا تو انھیں کوس کوس کے دمے کا مریض ہو جاتا!)۔
ہم کراچی سے پنجاب، ددھیال آئے ہوئے تھے۔ چچا کو کتے پالنے کا شوق تھا۔ لوگ گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے سے بھی ڈرتے تھے۔ ایک دن ایک خاتون آئیں۔ میں دروازے پر گیا۔ خاتون کی آنکھیں سرخ، چہرہ زرد۔ کپکپاتی ہوئی کہنے لگیں، "کتا ہے؟ کتا؟" مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے کہا "نہیں" اور کھٹاک سے دروازہ بند کر دیا۔ واپس آیا تو کسی نے پوچھا کون تھا۔ میں نے نہایت متانت سے جواب دیا:
"کوئی نہیں۔ کسی عورت کا کتا گم ہو گیا تھا۔ وہ ڈھونڈ رہی تھی!"
 
آخری تدوین:
بھٹی صاحب، ہم نے تو جو لکھنا تھا لکھ دیا۔ اب آپ کی باری ہے۔ ادب دوست ، نایاب صاحب و دیگران سے بھی دست بستہ درخواست ہے کہ اپنے بچپن کی مسکراہٹیں ہم سے شیئر فرمائیں۔ :):):)

جی راحیل فاروق بھائی ان شاءاللہ ضرور آتا ہوں اس طرف ۔ بس کچھ مصروفیت ختم ہو جائے
 
آپ نے جرات مندی کا ثبوت دیتے ہوئے وہ باتیں بھی لکھ ڈالیں جو دوسروں کے ساتھ بھی بیتی ہونگی مگر ان میں لکھنے کی جرات نہیں ہوگی :)
میں اپنا ایک واقعہ (سکول میں داخلے سے پہلے کا ) شریک کرتا ہوں کہ ایک مرتبہ ہمارے گھر میری دادی اور پھوپھیاں وغیرہ اکٹھی تھیں میری دادی جان مجھے اپنے ساتھ بازار لے گئیں وہاں سے بڑا گوشت خریدا اور مجھے تاکید کی کہ گھر جاکر اپنی پھوپھی کو نہ بتانا کہ یہ بڑا گوشت (یعنی بیف) ہے۔ جب میں گھر گیا تو سیدھا اپنی پھوپھو کے پاس گیا اور شرارت کے ارادے سے ان کے کان میں کہنے لگا کہ "دادی جان بازار سے بڑا گوشت لے آئی ہیں پکانے کے لئے اب آپ کیسے کھائیں گی؟" مجھے یقین تھا کہ اس غداری کے بعد پٹائی نہیں تو ڈانٹ تو لازم ہے مگر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب پھوپھو جان نے میری شرارت کا بھانڈا سب کے سامنے پھوڑ دیا اور سب لوگ بے اختیار ہنسنے لگے۔ کیوں ہنسنے لگے؟ اس بات کا جواب ڈھونڈنے کے لئے مجھے خود پہلے باپ بننا پڑا :)
 
اس بات کا جواب ڈھونڈنے کے لئے مجھے خود پہلے باپ بننا پڑا
تو آپ نے اس بات کا جواب ڈھونڈنے کے لیے شادی کر لی؟ چچ، چچ۔۔۔ شفیق الرحمٰن صاحب کے ہاتھ پہ بیعت ہوتے تو مسکت جواب بغیر سائیڈ ایفیکٹس کے حاصل ہو جاتا۔
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا!​
شفیق الرحمٰن (مزید حماقتیں) نے کہا:
مصیبت تو یہ ہے کہ آج کل کے نوجوان ایک خوشنما تِل پہ عاشق ہو کر سالم لڑکی سے شادی کر بیٹھتے ہیں۔
 
راحیل فاروق نے تو دوسروں کو بھی دعوت دی تھی کہ اپنی بچپن کی یادیں شریک کریں لیکن دیکھ لیں ابھی تک اس اپیل کا کیا نتیجہ نکلا۔ اگر ان کے نام کے آخر میں "ہ" ہوتا تو شاید اب تک یادوں کی لائن لگ چکی ہوتی :cool:
 

آوازِ دوست

محفلین
راحیل فاروق نے تو دوسروں کو بھی دعوت دی تھی کہ اپنی بچپن کی یادیں شریک کریں لیکن دیکھ لیں ابھی تک اس اپیل کا کیا نتیجہ نکلا۔ اگر ان کے نام کے آخر میں "ہ" ہوتا تو شاید اب تک یادوں کی لائن لگ چکی ہوتی :cool:
صرف "ہ "کی قید کی کوئی خاص وجہ؟ اَب اِس تنگ نظری پر یہ کہے بناء نہیں رہ سکتا کہ:
تو ہی ناداں چند کلیوں پہ قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگیء داماں بھی ہے
:)
 
صرف "ہ "کی قید کی کوئی خاص وجہ؟ اَب اِس تنگ نظری پر یہ کہے بناء نہیں رہ سکتا کہ:
تو ہی ناداں چند کلیوں پہ قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگیء داماں بھی ہے
:)
تو آپ ان کی اپیل پر لبیک کہ کر مجھے غلط ثابت کر دیجئے :)
تنگ نظری کا فتوی لگانے میں آپ نے جلدی نہیں کردی؟
 

آوازِ دوست

محفلین
تو آپ ان کی اپیل پر لبیک کہ کر مجھے غلط ثابت کر دیجئے :)

جی میں نے جب سے یہ دھاگہ دیکھا ہے سوچ رہا ہوں کہ کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں جیسا کہ ملتان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں پورا سال ایک ہی موسم رہتا ہے یعنی گرمی کا تو بس مہینوں کے حساب سے گرمی محض کم یا زیادہ ہی ہوتی ہے باقی کوئی خاص تبدیلی آپ کو کم ہی نظر آئے گی :) سو اپنے بچپن کا بھی یہی حال ہے یہ ساری زندگی پر مُحیط ایک دائمی اور پُر کیف سی کیفیت ہے جو کم زیادہ تو ہوتی ہے پر اپنی موجودگی برقرار رکھتی ہے۔ مُسلمان اگر بحیثیتِ مجموعی عظمتِ رفتہ کے خُمار میں ہیں تو ہم انفرادی حیثیت میں اپنے بچپن کے دُھندلکوں میں تتلیوں کے پیچھے دوڑتے پھولوں بھری روشوں پر کبھی اِدھر کبھی اُدھر چہلیں بھرتے رہتے ہیں۔ خُدا کا لاکھ شُکر ہے کہ حال بھی اپنا کُچھ ایسا ناگُفتنی نہیں ہے مگر ہم ایک ہی جگہ اسیر ہو کر رہ گئے ہیں اور یہ بڑی میٹھی قید ہے شائد اِس لیے :) آپ کی اپیل پر ہم لبیک کہہ چُکے ہیں بس تھوڑی سی مہلت دیں اور ہم اپنے بچپن سمیت حاضر :)
 

آوازِ دوست

محفلین
میں خود بھی یہی سوچ رہا تھا۔ آپ بتائیے راحیلہ فاروق رکھوں یا راحیل فاروقہ؟
"ہ" چونکہ موخرالذکر میں ہے اِس لیے لئیق صاحب کا ووٹ اُسی کے لیے ہو گا ویسے اِس بات کی تہہ تک پُہنچنے کے لیے گردو پیش کا خیال رکھنا پڑے گا :)
 
میں خود بھی یہی سوچ رہا تھا۔ آپ بتائیے راحیلہ فاروق رکھوں یا راحیل فاروقہ؟
فاروقہ تو کبھی سننے میں نہیں آیا اگرچہ ممکن ہے لیکن راحیلہ رکھنے سے پہلے آپ "ہ" کی دھمکی دے کام چلانے کی کوشش کریں، شاید بات بن جائے :)
 
صرف "ہ "کی قید کی کوئی خاص وجہ؟
"ہ" سے نزاکت پیدا ہوتی ہے۔ نزاکت سے پسندیدگی جنم لیتی ہے۔ پسندیدگی سے رقیب سر اٹھاتے ہیں۔ رقیب تنازع کو ہوا دیتے ہیں۔ تنازع سے شہرت ملتی ہے۔ شہرت سے مقبولیت پیدا ہوتی ہے۔ مقبولیت سے یادوں کی لائن لگ جاتی ہے۔ تمت بالخیر۔
ایک شاعر نے بھی اس بات کو قدرے جامع انداز میں بیان کیا ہے۔
موت بھی اس لیے گوارا ہے
موت آتا نہیں ہے، آتی ہے​
 

آوازِ دوست

محفلین
آہ! یہ نزاکت اکثر وجہء نزاع بنتی ہے۔ حق فرمایا اور رقیب اگر کسی قابل ہوں تو فقط تنازعوں کو ہوا دینے جیسے کمتر مقاصد میں اپنی توانائیاں کب ضائع کرتے ہیں :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
راحیل فاروق نے تو دوسروں کو بھی دعوت دی تھی کہ اپنی بچپن کی یادیں شریک کریں لیکن دیکھ لیں ابھی تک اس اپیل کا کیا نتیجہ نکلا۔ اگر ان کے نام کے آخر میں "ہ" ہوتا تو شاید اب تک یادوں کی لائن لگ چکی ہوتی :cool:
میرا خیال ہے کہ اتنی بھی "شہدی" عوام نہیں اردو محفل کی۔۔۔۔ :)
 
Top