میراتھن میں ایسا کیا جادو ہے کہ صدیوںسے سر چڑھ کر بول رہا ہے؟

شمشاد

لائبریرین
کہانیاں جھوٹی ہونے کے باوجود اتنی دلچسپ ہوتی ہیں کہ لوگ ان پر یقین کرلیتے ہیں لیکن میرا تھن دوڑ کی کہانی کے متعلق معلوم ہو جانے کے بعد بھی کہ یہ صریحاً جھوٹی ہے، لوگ اس پر یقین ہی نہیں کرتے بلکہ اس کہانی کے سحر میں کھوئے ہوئے ہیں اور اب اگر انھیں کوئی کہے بھی کہ یہ جھوٹی ہے اور انھیں یقین بھی آجائے کہ یہ واقعی جھوٹی کہانی ہے پھر بھی وہ میراتھن دوڑنا نہیں چھوڑیں گے۔

شاید جس طرح خدا کے متعلق گوئٹے کے مشہور عالم ڈرامے فائوسٹس میں ڈاکٹر فائوسٹس کہتا ہے کہ ’’اگر کوئی خدا نہ ہوتا تو (نظام حیات چلانے کے لیے) ایک خدا کا تخلیق کرنا ضروری ہو جاتا۔‘‘ کیونکہ خدا کے وجود پر یقین کیے بغیر کاروبار حیات چلانا تقریباً ناممکن ہوجاتا۔ اسی طرح میراتھن کی کہانی جھوٹی بھی ہے تو اس پر یقین کرلینا لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ نہ صرف مالی بلکہ جسمانی طور پر بھی۔ دنیا بھر میں ہر عمر کے لاکھوں لوگ میراتھن رننگ سے فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔

میراتھن کے متعلق ایک غلط فہمی

دراصل میراتھن یونان کے ایک گاؤں کا نام تھا جہاں ۴۹۰ ق م میں اہل ایتھنز نے حملہ آور پرشین فوج کو زبردست شکست دی تھی۔ قصہ مشہور ہے کہ اس فتح کی خوش خبری اہل ایتھنز کو سنانے کے لیے ایک سپاہی دوڑایا گیا جس کا نام فائیڈی پیڈیز تھا۔ یہ سپاہی ایتھنز پہنچا اور اہل شہر کو فتح کا مژدہ سنایا، ’’جشن مناؤ، ہم جیت گئے۔‘‘ یہ کہہ کر وہیں زمین پر گرا اور مر گیا۔ اسی کی یاد میں میراتھن دوڑ کو اولمپکس میں شامل کیا گیا۔

حقیقت کیا ہے؟

یہ قصہ دراصل جدید اولمپکس کے بانی ڈی کوبرٹن کے ایک دوست مائیکل برئیل کے ذہن کی اختراع ہے جو بیرن کے ساتھ یونان گیا تھا۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ پہلی اولمپکس میں کم از کم دو ایسے مقابلے ضرور شامل کیے جائیں جو قدیم یونان میں کھیلے جاتے تھے۔ چنانچہ مائرن کے مشہور عالم قدیم مجسمے ڈسکوبولس کو دیکھ کر ڈسکس تھرو کو اولمپکس میں شامل کیا گیا اور میرا تھن کی جنگ کا حال تاریخ کی کتب میں پڑھ کر اور مراتھن سے ایتھنز تک کا فاصلہ دیکھ کر میراتھن کے پیغام رساں والا افسانہ تراشا گیا اور یوں میراتھن دوڑ اولمپکس مقابلوں کا حصہ بن گئی۔

مذکورہ بالا واقعہ کا تاریخ کی کتب میں کوئی ذکر نہیں۔ اگر اس واقعے میں کچھ حقیقت ہوتی تو ہیروڈوٹس جیسا محقق اور ذمہ دار تاریخ نویس اس واقعے کو اپنے اہل وطن سے پوشیدہ نہ رکھتا۔ بلاشبہ تاریخ کی کتب میں فائیڈی پیڈیز نامی پیغام رساں کا ذکر ملتا ہے لیکن وہ جنگ میراتھن کے ۴۰۰ سال بعد کے زمانے میں پیغام رسانی کرتا تھا اور ایک پیشہ ور پیغام رساں تھا اور یہ شخص میراتھن سے نہیں بلکہ ایتھنز سے اسپارٹاتک تقریباً ۱۳۶ میل دوڑا تھا۔

میراتھن کے پیغام رساں کا افسانہ پہلی مرتبہ جنگِ میراتھن کے ۵۶۰ سال بعد پلوٹارک نے تراشا تھا اور قدیم یونانی شاعر ہومریاورجل میں سے بھی کسی ایک نے بھی اپنی نظموں میں فائیڈی پیڈیز نامی پیغام رساں کا ذکر نہیں کیا تھا۔ مذکورہ پیغام رساں کی موت کا واقعہ یوں بھی قرینِ قیاس نہیں کہ اس زمانے میں سفر عموماً پیدل یادوڑ کر ہی کیا جاتا تھا اور ذاتی بقا کے لیے، خواہ وہ دشمن سے بچاؤ ہو یا خوراک کے لیے، جانوروں کا شکار کرنے کے لیے انسان کو دوڑنا پڑتا تھا۔

اور زندگی آج کی طرح اتنی آسان اور سہل نہ تھی اور نہ ہی مشینوں کی محتاج اور دوڑنا ایک قدرتی فعل تھا۔ لہٰذا صرف ۲۶ میل دوڑ کر کسی پیشہ ور پیغام رساں کا مر جانا عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ میراتھن کے پیغام رساں کا واقعہ سراسر فرضی ہے لیکن اس دوڑ میں حصہ لینے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ جیسے وہ تاریخ کا حصہ ہو اور اس فرضی پیغام رساں کے نقوش پا پر دوڑ رہا ہو اور یہ احساس دنیا میں اور کسی مقام پر میراتھن دوڑ کر پیدا نہیں ہوتا۔

میراتھن کا فاصلہ بڑھانے کی وجہ

چونکہ ۱۹۰۸ء میں اولمپکس لندن میں منعقد ہونے تھے اور ونڈسرکیسل میں شاہی خاندان قیام پذیر تھا۔ ایک شہزادی نے خواہش ظاہر کی کہ وہ میراتھن کا آغاز اپنے محل کی کھڑکی میں سے دیکھنا چاہتی ہے اور شہزادی نے یہ بھی خواہش کی کہ وہ میراتھن کا اختتام اسٹیڈیم میں دیکھنا چاہتی ہے۔ لہٰذا میراتھن دوڑ کا آغاز ونڈسر کیسل سے کیا گیا جہاں سے اسٹیڈیم تک کا فاصلہ پورے ۲۶ میل تھا۔

اسٹیڈیم میں داخل ہو کر شاہی خاندان کے بیٹھنے کی مخصوص نشستوں کے سامنے مقامِ اختتام تک کا فاصلہ ۳۸۵ گز تھا۔ چنانچہ فاصلہ مزید ۳۸۵ گز تک بڑھا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر میراتھن دوڑ کے آخری ڈھائی کلومیٹرز میں جب اتھلیٹ بہت تھک چکے ہوتے ہیں اور ان کے عضلات میں ناقابلِ برداشت درد ہوتا ہے تو وہ بے ساختہ مذکورہ شہزادی کی روح کو بے نُقط مغلظات سناتے ہیں اور بددعائیں دیتے ہیں۔

۱۸۹۶ء سے ۱۹۲۴ء تک مختلف فاصلوں کی دوڑیں منعقد ہوتی رہیں۔ لیکن ۱۹۲۴ء میں ہمیشہ کے لیے یہ فاصلہ ۲۶ میل اور ۳۸۵ گز (42٫195 کلومیٹر) مقرر کر دیا گیا۔ ۱۸۹۶ء سے ۱۹۲۴ء تک اولمپکس میں میراتھن دوڑ کے فاصلوں کی تفصیل درج ذیل ہے:

سال1896ء - میراتھن کا فاصلہ 40 کلو میٹر
۱۹۰۰ء - 40٫26 کلومیٹر
۱۹۰۴ء - 40کلومیٹر
۱۹۰۸ء - 42٫95 کلومیٹر
۱۹۱۲ء - 40٫2 کلومیٹر
۱۹۲۰ء - 42٫75 کلومیٹر
۱۹۲۴ء - 42٫195 کلومیٹر

اولمپکس میں سب سے آخر میں میراتھن ریس کا انعقاد ہوتا ہے۔ آغاز مختلف مقامات سے کیا جاتا ہے لیکن اختتام اسٹیڈیم کے اندر ہی ہوتا ہے تاکہ تماشائی محظوظ ہوسکیں۔ ۲۰۰۴ء کی سمرگیمز کے موقع پر میراتھن ریس کا آغاز میراتھن کے تاریخی میدانِ جنگ سے ہوا اور اختتام ایتھنز کے پناتھینیکو اسٹیڈیم میں ہوا۔

پاکستان میں بھی تین تین میل کی دوڑوں کو میراتھن کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ دوڑوں کے منتظمین کو لفظ میراتھن کے معانی ہی معلوم نہیں۔ کبھی ۷ میل کی دوڑ کو منی میراتھن کا نام دیا جاتا ہے۔ خودمنتظمین کو بھی معلوم نہیں کہ اس دوڑ کے انتظامات کیسے کیے جاتے ہیں۔

نہ موسم کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ اتھلیٹس کو تیاری کے لیے مناسب وقت دیا جاتا ہے۔ حالانکہ میراتھن دوڑنے والوں کے لیے کم از کم ۶ ماہ قبل اطلاع دینا ضروری ہے تاکہ وہ تیاری کرسکیں۔ ہر شخص کو حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے حالانکہ لمبے فاصلے خصوصاً میراتھن دوڑنے میں شرکت کے لیے ڈاکٹر کا سرٹیفکیٹ لازمی ہونا چاہیئے۔ میرا خیال ہے کہ عالمی معیار کے مطابق ضروری شرائط کو پورا کیے بغیر کسی اتھلیٹ کو میراتھن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دینا چاہیے۔

پہلی لاہور انٹرنیشنل میراتھن مذاق سے کم نہ تھی

پاکستان میں منعقد ہونے والی پہلی انٹرنیشنل میراتھن کے موقع پر ان باتوں کا خیال نہ رکھا جا سکا جس کی وجہ سے صرف چند اتھلیٹس ہی دوڑ مکمل کرسکے کیونکہ ماسوائے دو چار اتھلیٹس کے کسی کو لمبے فاصلوں کی دوڑوں میں حصہ لینے کا تجربہ نہ تھا۔ پاکستانیوں میں اوّل آنے والے اتھلیٹ نے جو کہ ’’تجربہ کار‘‘ اتھلیٹ ہے، یہ دوڑ ۳۹:۲ گھنٹے میں مکمل کی۔

حکومت، عوام اور مختلف اداروں کی طرف سے دادوتحسین کے اظہار کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ۶ کلومیٹرز کی دوڑ میں حصہ لینے والے ہزاروں بچے، نوجوان، بوڑھے مردوخواتین کے اذہان پر منفی اثرات مرتب ہوئے کیونکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ نہ کرسکے۔ راقم نے بیسیوں اتھلیٹس سے گفتگو کی اور ان میں سے ہر ایک نے غصے اور رنج کا اظہار کیا۔ اس لیے لمبی دوڑوں کے منتظمین کو یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ دوڑیں منعقد کروانا نہیں بلکہ ان دوڑوں سے کھلاڑیوں کے شوق کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔

(بشکریہ : اردو ڈائجسٹ مارچ ۲۰ٍ۱۳)
 
آخری تدوین:
Top