الف نظامی
لائبریرین
میاں بردے خان بردا 1827 کو پشاور میں پیدا ہوئے اور 1897 کو انتقال کیا۔
مادری زبان پشتو یا فارسی تھی مگر جب پنجابی میں شاعری کی تو بڑے بڑوں کو مات کردیا۔ ان کے شعر پڑھ کر یوں احساس ہوتا ہے گویا وہ پشاوری نہیں بلکہ لاہوری یا امرتسری ہے۔ زبان بڑی صاف ستھری اور رواں ہے۔ بیت گوئی میں ان کو امتیازی مقام حاصل تھا۔
فضل حق قریشی کو میاں بردے خان کا ایک قلمی نسخہ ہاتھ لگا یہ 1879 کی تحریر ہے۔ ان کے کلام میں انگریزوں کے ظلم کے خلاف نفرت کا اظہار شدت سے ملتا ہے۔
غزل کا نمونہ ملاحظہ فرمائیے:
مادری زبان پشتو یا فارسی تھی مگر جب پنجابی میں شاعری کی تو بڑے بڑوں کو مات کردیا۔ ان کے شعر پڑھ کر یوں احساس ہوتا ہے گویا وہ پشاوری نہیں بلکہ لاہوری یا امرتسری ہے۔ زبان بڑی صاف ستھری اور رواں ہے۔ بیت گوئی میں ان کو امتیازی مقام حاصل تھا۔
فضل حق قریشی کو میاں بردے خان کا ایک قلمی نسخہ ہاتھ لگا یہ 1879 کی تحریر ہے۔ ان کے کلام میں انگریزوں کے ظلم کے خلاف نفرت کا اظہار شدت سے ملتا ہے۔
غزل کا نمونہ ملاحظہ فرمائیے:
لباں اتے پہرے نگاہواں تے پہرے
میں جتھوں وی لنگھاں اوہ راہواں تے پہرے
اودوں دی مری جان تے بن گئی اے
جدوں دے نیں لگے ایہہ ساہواں تے پہرے
جو جی اندر آیا اوہو کررہیا ہاں
نہ اج توڑی لگے نگاہواں تے پہرے
نہ لگے ، نہ بردے کدی لگ سکن گے
مرے دل دیاں درس گاہواں تے پہرے
میں جتھوں وی لنگھاں اوہ راہواں تے پہرے
اودوں دی مری جان تے بن گئی اے
جدوں دے نیں لگے ایہہ ساہواں تے پہرے
جو جی اندر آیا اوہو کررہیا ہاں
نہ اج توڑی لگے نگاہواں تے پہرے
نہ لگے ، نہ بردے کدی لگ سکن گے
مرے دل دیاں درس گاہواں تے پہرے
اقتباس از مضمون"پنجابی شاعری کا نوکلاسیکل دور" از ڈاکٹر حمید اللہ شاہ ہاشمی
ماخذ: پنجابی زبان و ادب کی مختصر تاریخ ، مقتدرہ قومی زبان پاکستان
آخری تدوین: