مہنگائی کا عفریت اور عوام

سیما علی

لائبریرین
مہنگائی کا عفریت اور عوام
ناصر الدین محمود
مہنگائی نے ملک کی بڑی اکثریت کو مشکل معاشی حالات میں دھکیل دیا ہے اور اب حقیقتاً ملک کی غالب اکثریت کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول ممکن نہیں رہا لیکن حکومت مہنگائی کو سنجیدہ مسئلہ ہی سمجھنے کو تیار نہیں ہے۔

آج کے حکمراں اپنی عوامی حمایت میں اضافے کے لیے ریاست مدینہ کے خوش کن نعرے تو ضرور لگا رہے ہیں لیکن اس کے تقاضوں کو ہرگز پورا نہیں کررہے ، وہ غربت کو بنیادی حیثیت کا مسئلہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ دوسری جانب ریاست مدینہ تو دور کی بات عہد حاضر میں کسی مہذب معاشرے یا ریاست میں عوام کو دو وقت کی روٹی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی حکومت وقت کی سب سے اولین ذمے داری ہوتی ہے لیکن یہاں صورتحال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔

پاکستان میں غربت اور بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کے حوالے سے کیے گئے ، مختلف سرویز کے مطابق اس وقت ملک میں ساڑھے 7 کروڑ عوام خط غربت کے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔ مئی 2021 سے اکتوبر 2021 تک پاکستانی کرنسی کی قدر میں 12فیصد کمی واقع ہو چکی ہے۔ اس وقت پٹرولیم مصنوعات ملک کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر فروخت کی جارہی ہیں۔ پٹرول کے موجودہ نرخ 137 روپے چند پیسے ہیں۔ ملک میں چونکہ سکہ متروک ہو چکا ہے لہٰذا پٹرول عملاً 138 روپے فی لیٹر فروخت کیا جا رہا ہے اور ساتھ ہی اس میں مزید اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ہونے کے باعث بجلی کی پیداوار میں کمی اور قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اسی بناء پر بجلی کی ہونے والی لوڈ شیڈنگ اور نرخوں میں مزید اضافے کا امکان بھی ہے۔ اگرچہ گزشتہ چند مہینوں میں یعنی سردیوں کی آمد سے قبل ہی گیس کی قلت میں اضافہ ہو چکا ہے اور اس کی بھی قیمتوں میں اب تک 141 فیصد اضافہ کیا جاچکا ہے اس کے باوجود ملک میں گیس کے بحران کا اندیشہ ہے۔ مختلف شماریاتی رپورٹس کے مطابق اس وقت خطے میں سب سے مہنگی بجلی، گیس اور LNG پاکستان کے عوام خرید رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے جب عنان اقتدار سنبھالا تو اس وقت حکومت نے پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ چونکہ ماضی کی حکومت ورثے میں گردشی قرضوں کا بہت بڑا بوجھ چھوڑ کر گئی ہے۔
لہٰذا اس پر قابو پانے کے لیے قوم کو یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑ رہا ہے، اس کے بعد معاشی حالات میں بہتری پیدا ہوتی جائے گی، لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس یعنی 2018 میں پٹرول 87 روپے فی لیٹر اور بجلی کے فی یونٹس اوسطاً 10 روپے کے حساب سے صارفین کو دیے جارہے تھے تو اس وقت ملک پر گردشی قرضوں کا کل حجم 1062 ارب روپے تھا اور اب جب کہ پٹرول 138 روپے فی لیٹر اور بجلی کے فی یونٹ اوسطاً 25 روپے ہوچکے ہیں تو گردشی قرضوں کے حجم کا بوجھ بڑھ کر تقریباً 2500 ارب ہوچکا ہے۔ مزید یہ کہ اس میں اب بھی استحکام نہیں ہے اور مسلسل اضافے کا رجحان ہے۔
نواز شریف دور حکومت میں قطر سے کیے گئے LNG کے معاہدے کے تحت حکومت پاکستان، قطر سے LNG اب تک 10 ڈالر میں خرید رہی تھی۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے دور حکومت میں LNG کی خریداری کے نئے معاہدے 25 ڈالر میں کیے گئے ہیں ، اس کے باوجود بھیLNG کا بحران ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق آنیوالی سردیوں کے موسم میں گیس کی کمی اور پٹرولیم مصنوعات میں ہوشربا اضافے کے باعث بجلی کی پیداوار کم رہنے کا امکان رہے گا اور اسی بناء پر بجلی اور گیس دونوں کی لوڈشیڈنگ کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔ ملک میں مہنگے ایندھن کے باعث صنعتی ترقی تو کجا، صنعتیں تیزی سے بند ہو رہی ہیں ، جس کی وجہ سے بیروزگاری کا عفریت ملک کو انارکی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ یہ امر بھی انتہائی قابلِ افسوس ہے کہ ہم ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود آج گندم میں خود کفیل نہیں رہے اور اب ہمیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے گندم اور چینی درآمد کرنا پڑ رہی ہیں۔
ہمیں ان امور کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ آخر ایسا کیوں کر ہوا کہ پاکستان جو سابقہ دور حکومت میں ان اجناس کو برآمد کیا کرتا تھا اب اسے ان ہی کی قلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مزید ہمیں اس جانب بھی توجہ دینی ہوگی کہ گزشتہ 30 برسوں کے مقابلے میں ان برسوں میں کپاس کی کاشت کی پیداوار میں شدید کمی کیوں واقع ہوئی ہے۔ ماضی میں کپاس کی برآمدات ہمارے زرمبادلہ کے حصول اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا کرتی تھی۔ زرمبادلہ کے حصول میں ناکامی کا ایک سبب یہ بھی رہا ہے کہ حکومت تقریباً ہر شعبے میں برآمدات بڑھانے میں ناکام رہی ہے۔
اگر عالمی سطح پر مہنگائی کاجائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آج پاکستان مہنگائی میں پوری دنیا میں تیسرے نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ محض ان ساڑھے تین سالوں میں ہمارے اوپر 60 فیصد قرضوں میں اضافہ ہوا ہے یعنی عام فہم الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ قیام پاکستان سے پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے تک ہماری تمام حکومتوں نے مل کر تقریباً کل 25 ہزار ارب روپے قرض لیا تھا جو اب بڑھ کر تقریباً 40 ہزار ارب روپے ہو چکا ہے یعنی موجودہ دور حکومت کے گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں تقریباً 15 ہزار ارب روپے قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان میں تین ماہ میں اشیا خورونوش کی قیمتوں میں 12فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ اس سے قبل مہنگائی کی شرح میں 17 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے ملک میں غربت اور بیروزگاری میں ناقابل برداشت اضافہ ہوا ہے۔ دگر گوں معاشی حالات کے باوجود حکومت اپنے اخراجات میں کمی لانے کے بجائے مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے اپنی آمدنی میں اضافے کا مصنوعی طریقہ اختیار کیے ہوئے ہے اور مہنگائی کا بوجھ مسلسل عوام کی طرف منتقل کر رہی ہے۔
موجودہ دور حکومت میں ساڑھے 7 کروڑ عوام خط غربت سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں جب کہ سابقہ دور حکومت میں یہ تعداد 5 کروڑ تھی۔ 2013 تا 2018 مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں 50 لاکھ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے اور 50 لاکھ لوگوں کو ملازمتیں ملیں، اسی بدولت سابقہ دور حکومت میں 2 کروڑ لوگوں کو خطِ غربت سے نکالنا ممکن ہوا۔اقتصادی ماہرین کی رائے کیمطابق مختلف شماریاتی اشاریے موجودہ دور حکومت میں مزید 2 کروڑ افراد کے خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے کی خبر سناتے ہیں۔
 
Top