یوسف-2
محفلین
تجزیہ تو تاریخ دانوں کا کام ہے۔مگر ہمیں اپنی قومی تاریخ کے جو قصے یاد آتے ہیں وہ موقع بے موقع بیان کیے جاتے ہیں۔ اور میرؔ بد دماغ کی طرح یہ دعوے بھی کیے جاتے ہیں کہ ۔۔۔ ’’باتیں ہماری یاد رہیں، پھر باتیں نہ ایسی سنیے گا +کہتے کسی کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا‘‘ ۔۔۔ یہ ذکر ہے 1974ء کا۔ فروری کے مہینے میں پاکستان کے تاریخی شہر لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا، دل شکستہ قوم کے لیے ایک اور حوصلہ افزا کارنامہ تھا۔مگر اس دودھ میں مینگنی یہ پڑ گئی کہ ’’بنگلادیش‘‘ کو ایک الگ ملک کی حیثیت سے تسلیم کرنے کی قرارداد بھی منظور کروا لی گئی۔ اِس اچانک اعلان سے پوری قوم کو تکلیف ہوئی۔ اُس وقت یہ صرف ملت اسلامیہ پاکستان ہی کا ’’جذباتی مسئلہ‘‘ نہ تھا، امت مسلمہ میں بھی کچھ اس قسم کے جذبات پائے جاتے تھے کہ ’’دُنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست‘‘ کو اب بھی کسی طور’’دولخت‘‘ ہوجانے سے بچالیا جائے۔پوراملک اُس وقت’’ بنگلا دیش نا منظور‘‘کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ حتیٰ کہ کراچی کے نشتر پارک میں عوامی نعروں کے جواب میں خود بھٹو صاحب بھی یہ نعرہ لگا چکے تھے کہ: ’’اگر تم کہتے ہو نامنظور تو میں بھی کہتا ہوں نامنظور ۔۔۔ نامنظور، نامنظور،بنگلا دیش نا منظور‘‘۔ مگر جب اسلامی سربراہی کانفرنس میں اچانک یہ قرارداد منظور کروالی گئی تو قوم کو یہ احساس ہوا کہ اُسے اعتماد میں لیے بغیر یہ کام کرکے اُس کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔پُرامید لوگوں کو اس وقت بھی یہ اُمید تھی کہ شیخ مجیب کو شریک اقتدار کرکے ’مشرقی پاکستان‘ کو بحال کروایا جاسکتاہے۔ شاہ فیصل شہید، طاغوتی طاقتوں کی خوشنودی کے لیے کیے جانے والے اس عاجلانہ فیصلے کے خلاف تھے۔ اُن کے مشورے کے بالکل برعکس عمل کربیٹھنے پر اُن کا دل دُکھا اور وہ کانفرنس کی باقی کارروائی چھوڑ کروطن واپس چلے گئے۔ انجمن طلبہ جامعہ پنجاب کے صدر جناب جاوید ہاشمی اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ، سخت پہرے کے باوجود لاہور کی مال روڈ پر نکل آئے اور ’’شیشۂ آمر چکنا چور ۔۔۔ بنگلا دیش نا منظور‘‘ کے نعرے لگانے لگے۔گرفتار ہوئے اور پس دیوارِ زنداں کر دیے گئے۔
قوم کے ساتھ قومی ترانے کے خالق جناب ابوالاثرحفیظؔ جالندھری کو بھی اس عاجلانہ فیصلے کا صدمہ تھا۔ اُنھوں نے ایک قطعہ کہا مگر جمہوریت کے چمپئن قائد عوام کے خوف سے کوئی اخبار اسے چھاپنے پر تیار نہ ہوا۔ آخر کارانگریزی روزنامہ ’’ڈان‘‘کے مدیر جناب احمد علی نے ہمت کی اور بڑی خوبصورت نستعلیق کتابت میں یہ قطعہ اُن کے انگریزی اخبار میں شایع ہوگیا:
اس واقعے کے بعد حفیظؔ صاحب نے ایک بڑی دلچسپ غزل کہی۔یہ غزل ہم نے پہلی بارجامعہ کراچی میں، انجمن طلبہ جامعہ کراچی کے تحت منعقد ہونے والے ایک مشاعرے میں سنی تھی۔ ہم بھی انجمن کے (غیر) ذمہ داروں میں سے ایک تھے۔حفیظؔ صاحب سے ہماری پہلی ملاقات بھی اسی مشاعرے میں ہوئی۔ایک ایسے بچے کے لیے جس نے حفیظؔ جالندھری کے ’’شاہ نامۂ اسلام‘‘ کے اشعار کی گونج میں آنکھ کھولی ہو اپنی آنکھوں سے حفیظؔ صاحب کو دیکھنا کسی نعمت سے کم نہ تھا۔مذکورہ بالا واقعہ ابھی تازہ تازہ تھا۔سو، حفیظؔ صاحب نے اپنے مخصوص ترنم سے غزل سنانی شروع کی:
یہ اور دور ہے، اب اور کچھ نہ فرمائے
مگر حفیظؔ کو یہ بات کون سمجھائے
وفا کا جوش تو کرتا چلا گیا مدہوش
قدم قدم پہ مجھے دوست ہوش میں لائے
اِس غزل کے بہت سے اشعار بہت مشہور ہوئے۔مثلاً:
پری رُخوں کی زباں سے کلام سُن کے مِرا
بہت سے لوگ مِری شکل دیکھنے آئےاورجب حفیظؔ نے لہک لہک کر یہ شعر پڑھاکہ:
ایک روزجدہ میں منعقد ہونے والے ایک عالمی مشاعرے میں حفیظؔ نے اس غزل کا ایک شعرعقب میں بیٹھے ہوئے مولانا ماہرؔ القادری کی طرف ہاتھ پھینک پھینک کر پڑھنا شروع کیا:
بہشت میں بھی ملا ہے مجھے عذابِ شدید
یہاں بھی مولوی صاحب ہیں میرے ہمسائے
مولانا ماہر ؔ القادری بھلا کب چُوکنے والے تھے۔اُٹھ کر مائک پرآئے اورحفیظؔ صاحب کامنہ ہٹاکر اپنا منہ مائک سے لگاتے ہوئے بولے: ’’دراصل حفیظؔ صاحب غلط جگہ پہنچا دیے گئے تھے‘‘۔اس پر ایک زبردست قہقہہ پڑا۔مولانا اپنی جگہ واپس چلے گئے۔حفیظؔ نے ہنستے ہوئے کوئی اور فقرہ چست کیا، مگر مولانا کی طرف سے اس کا جواب نہ ملا۔حفیظؔ نے سامعین ہی کی طرف منہ کیے کیے مولانا سے پوچھا: ’’مولانا ناراض ہوگئے کیا؟‘‘ مگرجب اس کا بھی جواب نہ ملا تو حفیظؔ نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔لوگ مولانا پر جھکے ہوئے تھے۔حفیظؔ بھی بھاگ کر پیچھے پہنچے۔مولانا ماہرؔ القادری پر دورۂ قلب کا حملہ ہوا تھا اور وہ اُسی وقت انتقال کر گئے تھے۔اِس اچانک صدمے سے حفیظؔ کی ہچکیاں بندھ گئیں۔وہ آنسوؤں سے روتے ہوئے مائک پر واپس آئے اورلوگوں کو بتایا: ’’مولانا ہم سے ناراض ہو گئے ہیں‘‘۔
ابونثر کا کالم مطبوعہ نئی بات 20 اگست 2013ء
قوم کے ساتھ قومی ترانے کے خالق جناب ابوالاثرحفیظؔ جالندھری کو بھی اس عاجلانہ فیصلے کا صدمہ تھا۔ اُنھوں نے ایک قطعہ کہا مگر جمہوریت کے چمپئن قائد عوام کے خوف سے کوئی اخبار اسے چھاپنے پر تیار نہ ہوا۔ آخر کارانگریزی روزنامہ ’’ڈان‘‘کے مدیر جناب احمد علی نے ہمت کی اور بڑی خوبصورت نستعلیق کتابت میں یہ قطعہ اُن کے انگریزی اخبار میں شایع ہوگیا:
سر پہ راہی کے، ’’سربراہی‘‘ میں
کس صفائی سے ہاتھ پھیرا ہے
کارواں رہبری میں کس کی چلے؟
کون سب سے بڑا لٹیرا ہے؟
بھٹو صاحب شعر تو کیا سمجھتے؟ فلمی گانے بھی نہیں سمجھتے تھے۔ اپنے ایک ابتدائی عوامی خطاب میں البتہ اُنھوں نے سلامت علی کا گایا ہوا ایک گانا بڑی بے سُری آواز میں گایاتھا کہ ۔۔۔ ’’آئی ہوا، گئی ہوا، ساتھ لے چلی، چلے‘‘۔۔۔ اس کے بعد اپنے مخصوص عوامی انداز میں ’’پیپلز پارٹی کی ہوا‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’یہ ہوا سلامت علیوں کو ساتھ لے چلی چلے گی، یہ ہوا نزاکت علیوں کو ساتھ لے چلی چلے گی، یہ ہوا اَٹافَٹ علیوں کو ساتھ لے چلی چلے گی‘‘۔ بعد کو وزارتِ اطلاعات و نشریات نے سلامت علی، نزاکت علی سے معذرت کی کہ : ’’اس سے نزاکت علی اور سلامت علی کی دِل آزاری وزیر اعظم کومقصود نہ تھی‘‘۔ مگر ’اٹافٹ علی‘ سے کسی نے معذرت نہ کی۔ گمان ہے کہ کسی نے وزیر اعظم کو حفیظؔ کا قطعہ پڑھ کر سنایا اور اس کا مفہوم سمجھایا۔نتیجہ یہ نکلا کہ حفیظؔ صاحب کو قومی ترانے کے خالق کی حیثیت سے جو وظیفہ ملتا تھاوہ بند کردیا گیا۔حفیظؔ صاحب بڑی پریشانی میں پڑ گئے۔وہ تو کچھ مشترکہ دوستوں نے بیچ میں پڑ کر اور مولانا کوثرؔ نیازی کو بیچ میں ڈال کر بیچ بچاؤ کرایا اور حفیظؔ صاحب کااعزاز اور وظیفہ بحال کروایا۔کس صفائی سے ہاتھ پھیرا ہے
کارواں رہبری میں کس کی چلے؟
کون سب سے بڑا لٹیرا ہے؟
اس واقعے کے بعد حفیظؔ صاحب نے ایک بڑی دلچسپ غزل کہی۔یہ غزل ہم نے پہلی بارجامعہ کراچی میں، انجمن طلبہ جامعہ کراچی کے تحت منعقد ہونے والے ایک مشاعرے میں سنی تھی۔ ہم بھی انجمن کے (غیر) ذمہ داروں میں سے ایک تھے۔حفیظؔ صاحب سے ہماری پہلی ملاقات بھی اسی مشاعرے میں ہوئی۔ایک ایسے بچے کے لیے جس نے حفیظؔ جالندھری کے ’’شاہ نامۂ اسلام‘‘ کے اشعار کی گونج میں آنکھ کھولی ہو اپنی آنکھوں سے حفیظؔ صاحب کو دیکھنا کسی نعمت سے کم نہ تھا۔مذکورہ بالا واقعہ ابھی تازہ تازہ تھا۔سو، حفیظؔ صاحب نے اپنے مخصوص ترنم سے غزل سنانی شروع کی:
یہ اور دور ہے، اب اور کچھ نہ فرمائے
مگر حفیظؔ کو یہ بات کون سمجھائے
وفا کا جوش تو کرتا چلا گیا مدہوش
قدم قدم پہ مجھے دوست ہوش میں لائے
پری رُخوں کی زباں سے کلام سُن کے مِرا
بہت سے لوگ مِری شکل دیکھنے آئے
میں کامیاب نہیں، ہاں میں کامیاب نہیں
جو کامیابِ محبت ہو سامنے آئے
تو ہمارا ایک شریر ساتھی جامعہ کا سیاہ گاؤن سر پر اوڑھ کر دوڑتا ہوا سٹیج پر جا چڑھا اورحفیظؔ کے منہ سے منہ بھڑا کر بولا: ’’سر!میں آگیا‘‘۔ سامعین کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے ایک طوفانی قہقہہ لگایا۔ کوئی اور ہوتا تو شاید بوکھلا جاتا۔مگر حاضرجواب حفیظؔ نے اُسے سر سے پیر تک دیکھا اور کہا: ’’پتر! پہلے پیدا تو ہولے‘‘۔جو کامیابِ محبت ہو سامنے آئے
ایک روزجدہ میں منعقد ہونے والے ایک عالمی مشاعرے میں حفیظؔ نے اس غزل کا ایک شعرعقب میں بیٹھے ہوئے مولانا ماہرؔ القادری کی طرف ہاتھ پھینک پھینک کر پڑھنا شروع کیا:
بہشت میں بھی ملا ہے مجھے عذابِ شدید
یہاں بھی مولوی صاحب ہیں میرے ہمسائے
ابونثر کا کالم مطبوعہ نئی بات 20 اگست 2013ء