مکتیسر کی آدم خور شیرنی

مکتیسر کی آدم خور شیرنی
جم کاربٹ



نینی تال سے اٹھارہ میل شمال مشرق کی طرف آٹھ ہزار فٹ اونچی اور پندرہ میل لمبی ایک پہاڑی ہے جو مغرب سے مشرق کو پھیلی ہوئی ہے۔ اس پہاڑی کا مغربی کنارا ایک دم اوپر کو اٹھا ہوا ہے اور اس کنارے کے نزدیک مکتیسر جانوروں کی بیماریوں کا تحقیقیاتی ادارہ ہے۔ جہاں ہندوستان میں حیوانات کی بیماریوں کی روک تھام کے لیئے مختلف ادویات کی تحقیق کی جاتی ہے۔ اس ادارہ کی تجربہ گاہ اور اسٹاف کے کوارٹر پہاڑی کے شمالی حصّے پہ واقع ہیں۔ پہاڑی کے اس شمالی حصّہ کا شمار ہمالیہ کے بہترین نظاروں میں ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے مکتیسر دیکھا ہے یا وہاں رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ یہ علاقہ کماؤں کا خوبصورت ترین علاقہ ہے اور یہاں کی آب و ہوا کا جواب نہیں۔
ممکن ہے مکتیسر کی خوبصورتی کا احساس ایک شیرنی کو بھی ہوگیا ہو کیونکہ اس نے وہاں کے قریبی گھنے جنگلات کو اپنا مسکن بنا لیا۔ وہاں اس کے دن بڑے مزے سے گزرتے تھے کیونکہ وہاں ہرن وغیرہ عام تھے، لیکن بدقسمتی سے ایک دن اس کا مقابلہ خارپشت سے ہوگیا۔ اس مقابلہ میں اس کی ایک آنکھ جاتی رہی اور اس کے جسم پہ کوئی پچاس زخم آئے جو ایک انچ سے نو انچ لمبے تھے۔ بعض زخموں میں خار پشت کے کانٹے ٹوٹ گئے تھے اور جب شیرنی نے انہیں اپنے دانتوں سے نکالنا چاہا تو وہ زیادہ گہرے زخم بن گئے۔ ایک دن جبکہ وہ بھوکی پیاسی ایک جگہ لمبی لمبی گھاس میں لیٹی اپنے زخم چاٹ رہی تھی ایک عورت اپنے مویشیوں کے لیئے گھاس کاٹنے ادھر آ نکلی۔ پہلے تو شیرنی نے اس کی پرواہ نہ کی لیکن جب وہ عورت گھاس کاٹتی کاٹتی بالکل اس کے قریب آگئی اور اس کی درانتی شیرنی کے جسم سے ٹکرائی تو شیرنی نے غصّے میں آکر اسے ایک تھپڑ رسید کیا۔ عورت وہیں ڈھیر ہوگئی۔ اس عورت کو وہیں چھوڑ کر شیرنی لنگڑاتی ہوئی ایک میل دور چلی گئی اور ایک اکھڑے ہوئے درخت کے خالی تنے میں پناہ گزیں ہوگئی۔ دو دن بعد ایک آدمی اس درخت سے ایندھن کاٹنے کے غرض سے وہاں آیا۔ شیرنی نے اسے بھی ہلاک کردیا۔ اس آدمی کا جسم درخت کے دونوں جانب لٹکنے لگا۔ ممکن ہے اس کے جسم سے خون کو بہتا دیکھ کر شیرنی کو پہلی مرتبہ خیال آیا ہو کہ یہ بھی کوئی کھانے والی چیز ہے اور وہ اس سے اپنی بھوک مٹا سکتی ہے۔ بحرحال بات کچھ بھی ہو، اپنے شکار کو چھوڑنے سے پہلے شیرنی نے اس کی پشت کا تھوڑا سا حصہ کھایا۔ تیسرے دن اس نے جان بوجھ کے ایک تیسرے شخص کو ہلاک کیا۔ اس کے بعد وہ ایک مسلّمہ آدم خور بن گئی۔
شیرنی نے ابھی انسانوں کو ہلاک کرنا شروع کیا ہی تھا کہ اس کی اطلاع مجھ تک پہنچ گئی۔ چونکہ مکتیسر میں شکاری پہلے ہی سے موجود تھے اور جن میں سے ہر ایک کی یہی کوشش تھی کہ وہ شیرنی کو شکار کرے لہذا میں نے ان کے معاملے میں دخل انداز ہونے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ لیکن جب شیرنی نے تقریباً چوبیس افراد ہلاک کر ڈالے اور وہاں کے باشندوں اور تحقیق گاہ میں کام کرنے والے ملازمین کی جانوں کو ہر وقت خطرہ رہنے لگا تو تحقیق گاہ کے انچارج افسر نے حکومت سے میری خدمات حاصل کرنے کی درخواست کی۔
حالات سے پتا چلتا تھا کہ میرا کام آسان نہ ہوگا کیونکہ اس وقت تک ایک تو میرا آدم خوروں کو ہلاک کرنے کا تجربہ خاصا محدود تھا۔ دوسرا شیرنی ایک وسیع رقبہ پر گشت کرتی تھی اور کوئی علم نہ تھا کہ اس سے کہاں سامنا ہوجائے۔
میں نینی تال سے دوپہر کے وقت تین ملازموں کے ہمراہ روانہ ہوا اور دس میل کا سفر طے کرکے رات رام گڑھ کے ڈاک بنگلے میں بسر کی۔ ڈاک بنگلے کا خانساماں میرا پرانا دوست تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ میں آدم خور شیرنی کو ہلاک کرنے جارہا ہوں تو اس نے مجھے تنبیہ کی کہ میں وہاں سے مکتیسر کے آخری دو میل بڑی احتیاط سے طے کروں کیونکہ گزشتہ چند دنوں میں شیرنی نے اس راستے پر تین چار مسافروں کو ہلاک کیا تھا۔
اپنے ملازموں کو یہ ہدایت کرکے کہ وہ سامان باندھ کر میرے پیچھے چلے آئیں، خود میں صبح سویرے بندوق لے کر نینی تال اور الموڑا سڑک کے سنگم پر پہنچ گیا۔ جہاں سے مکتیسر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں سے محتاط ہوکر سفر کرنا ضروری تھا کیونکہ اب میں آدم خور کی حدود میں داخل ہورہا تھا۔ یہاں سے سڑک تھوڑی دور تک سیدھی جاتی تھی اور پھر پیچاک میں الجھ جاتی تھی۔ سڑک کے سیدھے حصے پر دونوں جانب بڑے خوبصورت پہاڑی پھول کھلے تھے۔ اس پہاڑی پر چڑھنے کا میرا یہ پہلا موقع تھا۔ راستے میں قدم قدم پر غار تھے جن میں پہاڑی ہوائیں سستا رہی تھیں۔ سڑک پر جھکی ہوئی چٹانیں تھیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ بعض غار بےحد گہرے ہیں اور وہ زمین کی سطح کو چھو رہے ہیں۔
مکتیسر شروع ہونے سے پہلے پہاڑی پر ایک چھوٹا سا میدان ہے۔ جہاں مکتیسر کا ڈاک خانہ ہے اور وہیں سے بازار بھی شروع ہوجاتا ہے۔ ابھی تک ڈاک خانہ نہیں کھلا تھا۔ فقط ایک دوکان کھلی تھی جس کے مالک نے مجھے ڈاک بنگلے کا راستہ بتایا جو وہاں سے پہاڑی کے شمالی حصے پر تقریباً نصف میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ مکتیسر میں دو ڈاک بنگلے ہیں۔ ایک سرکاری ملازمین کے لیئے اور دوسرا عوام کے لیئے۔ مجھے یہ معلوم نہ تھا مگر میرے دوکاندار دوست نے مجھے سرکاری ملازم سمجھ کر سرکاری ڈاک بنگلے کا راستہ بتادیا جس کے باعث وہاں کے خانساماں کو میرے لیئے ناشتہ تیار کرنے کے لیئے مفت کی تکلیف اٹھانی پڑی۔
میں ناشتہ کرنے میں مصروف تھا اور اپنے سامنے پھیلے ہوئے برف کے دلفریب نظاروں سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ میرے سامنے بارہ انگریزوں کی ایک پارٹی گزری جنہوں نے رائفلیں اٹھا رکھی تھیں۔ ان کے پیچھے ایک سارجنٹ اور دو آدمی جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے۔ میرے پوچھنے پر سارجنٹ نے مجھے بتایا کہ یہ پارٹی آدم خور کے ڈر سے اکٹّھی ہوکر سفر کر رہی ہے۔ سارجنٹ ہی سے مجھے پتا چلا کہ حکومت نے ادویات کی تحقیق گاہ کے انچارج افسر کو بذریعہ تار اطلاع دے دی ہے کہ میں اس کی درخواست پر وہاں پہنچ رہا ہوں۔ سارجنٹ نے امید کا اظہار بھی کیا کہ میں آدم خور کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہو جاؤں گا کیونکہ اس بستی میں حالات بڑے ابتر ہوچکے تھے۔ دن کے وقت بھی کوئی تنہا چلنے پھرنے کی جرات نہیں کرتا اور شام پڑتے ہی لوگ گھروں کے دروازے مقفل کر لیتے ہیں۔ آدم خور کو ہلاک کرنے کی بہت سی کوششیں کی گئی تھیں لیکن سب بے سود ثابت ہوئیں کیونکہ شیرنی اپنے شکار کو دوبارہ کھانے کبھی نہ آتی تھی۔
ناشتے کے بعد میں نے خانساماں کو ہدایت کی کہ جب میرے آدمی وہاں پہنچ جائیں تو وہ انہیں بتادے کہ میں آدم خور کا اتا پتا لگانے نکل گیا ہوں اور نہ جانے کب واپس آؤں گا۔ پھر میں نے رائفل اٹھائی اور ڈاک خانہ کی طرف چل پڑا تاکہ اپنے گھر یہاں بخیریت پہنچنے کی اطلاع پہنچا سکوں۔
جب میں تار دینے ڈاک خانے میں آیا تو تار کے فارم پر میرے دستخط دیکھ کر پوسٹ ماسٹر میرے قریب آیا اور مجھے بڑے تپاک سے ملا۔ اور لوگ بھی وہاں جمع ہوگئے اور سب کے سب آدم خور کے متعلق باتیں کرنے لگے۔ وہ میری ہر طرح سے مدد کو تیار تھے۔ ان کے اس جذبے سے مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ ان کی باتوں سے مجھے آدم خور کے بارے میں بہت سی مفید اطلاعات حاصل ہوئیں۔ دیہی ہندوستان میں ڈاک خانہ اور بنیئے کی دوکان کی وہی حیثیت ہے جو دوسرے ملکوں میں سرائے اور کلبوں کی ہوتی ہے۔ ہندوستان میں اگر کسی خاص موضوع پر اطلاعات جمع کرنی ہوں تو اس کے لیئے ڈاک خانہ اور بنیئے کی دوکان مرکز ثابت ہوتے ہیں۔
ڈاک خانے سے کوئی دو میل بائیں جانب ایک ہزار فٹ نیچے ایک باغ ہے جسے بدری شاہ کا باغ کہا جاتا ہے۔ بدری میرے ایک پرانے دوست کا بیٹا تھا جو چند ماہ پہلے میرے پاس نینی تال آیا تھا اور اس نے وعدہ کیا تھا کہ آدم خور کو ہلاک کرنے میں وہ ہر طرح سے میری مدد کرے گا۔ یہ پیشکش اس وقت میں نے قبول نہ کی تھی۔ لیکن اب جب حکومت کی درخواست پر میں مکتیسر پہنچ گیا تھا میں نے فیصلہ کیا کہ بدری کے پاس جاؤں اور وہ جس قسم کی مدد مجھے دے اسے قبول کرلوں۔ خاص طور پر موجودہ حالات میں جبکہ شیرنی نے اپنا آخری انسانی شکار اس کے باغ کے تھوڑے فاصلے پہ کیا تھا۔
اپنے اردگرد کھڑے لوگوں کا شکریہ ادا کرکے اور ان سے یہ کہہ کر کہ میں ان کی مدد پر بھروسہ کروں گا۔ میں دھاری سڑک کی طرف چل پڑا۔ اب دن اچھی طرح نکل چکا تھا اور بدری کے گھر جانے سے قبل میں نے سوچا کہ گردونواح کی پہاڑیوں کا ایک چکر لگا لوں۔ سڑک پر کوئی سنگ میل نہ تھا۔ تقریباً چھ میل کا فاصلہ طے کرکے اور دو قریبی دیہاتوں کی سیر کرکے میں واپس چل پڑا۔ابھی میں نے نصف سفر طے کیا تھا کہ مجھے ایک چھوٹی سی لڑکی ملی جسے ایک بیل تنگ کررہا تھا۔لڑکی کی عمر کوئی آٹھ برس کی تھی۔ وہ بیل کا رسّہ آگے کی طرف کھینچ رہی تھی مگر بیل پیچھے کی طرف جارہا تھا۔ دونوں اپنی ضد پر اڑے ہوئے تھے۔ لڑکی کی مدد کے طور پر میں بیل کو پیچھے سے ہانکنے لگا۔
"تم کلوے کو چرا کر تو نہیں لے جارہی ہو؟" لڑکی بیل کو اسی نام سے بُلا رہی تھی۔
"نہیں تو۔" لڑکی نے قدرے ہتک محسوس کرکے اپنی بھوری آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
"یہ کس کا ہے؟"
"میرے باپ کا ہے۔"
تم اسے کہاں لے جا رہی ہو؟"
"اپنے چچا کے پاس۔"
"تمہارے چچا کو اس کی کیا ضرورت ہے؟"
"میرے چچا کا ایک بیل شیر نے ہلاک کردیا ہے۔ اب اس کے پاس فقط ایک ہی بیل ہے۔ کھیتی باڑی کے لیئے اسے دوسرے بیل کی ضرورت ہے۔" لڑکی خاموش ہوگئی۔ مگر دوسرے ہی لمحے خود ہی بول پڑی، "تم شیر کو ہلاک کرنے آئے ہو؟"
"ہاں! شیر کا شکار کرنے آیا ہوں۔"
"تو پھر تم میرے چچا کے مرے ہوئے بیل سے دور کیوں جارہے ہو۔"
"کلوا کو تمہارے چچا کے پاس جو پہنچانا ہوا۔"
لڑکی میرے جواب سے مطمئن سی ہوگئی۔ لڑکی نے مجھے ایک مفید اطلاع مبہم پہنچائی تھی۔ مگر میں اس سے مزید اطلاعات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لہذا میں نے اس سے پوچھا۔
"کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ شیر آدم خور ہے؟"
"ہاں اس نے ہمارے گاؤں کے دو تین آدمیوں کو ہلاک کیا ہے۔"
اتنے میں ہم ایک ایسے چھوٹے سے مکان کے سامنے پہنچ گئے جو ایک کھیت میں واقع تھا۔ لڑکی نے اپنے چچا کو آواز دی اور اس سے کہا کہ وہ کلوے کو لے آئی ہے۔ چچا نے اندر سے آواز دی کہ وہ کھانا کھا رہا ہے۔ لڑکی نے بیل کو باہر کھونٹ پر باندھ دیا اور واپس اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔ میں بھی اس کے ساتھ ہولیا۔
"کیا تم مجھے بتا سکتی ہو کہ تمہارے چچا کے بیل کو شیر نے کہاں ہلاک کیا تھا؟"
"کیوں نہیں۔" لڑکی نے بڑے شوق سے کہا۔
"کیا تم نے مرا ہوا بیل دیکھا ہے؟"
نہیں! وہ میرے چچا نے میرے باپ کو بتایا تھا کہ وہ کہاں ہے۔"
جہاں سے ہم گزر رہے تھے وہاں سے سڑک بڑی تنگ تھی اور ارد گرد گھنی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ لڑکی سے باتیں کرتے وقت میں گردوپیش کا بغور جائزہ بھی لیتا جارہا تھا۔ ہم نے کوئی میل بھر سفر طے کیا ہوگا کہ ہمیں سڑک سے ایک کچا راستہ جنگل میں جاتا ہوا دکھائی دیا۔ لڑکی وہاں ٹھہر گئی اور اس راستے کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگی۔
"چچا کا بیل اسی راستے میں کہیں مرا پڑا ہے۔"
اب مجھے ہر ضروری اطلاع مل چکی تھی۔ لڑکی کو بحفاظت اس کے گھر پہنچا کر میں واپس اسی جگہ پر آیا اور اس کچے راستے پر چلنے لگا کوئی دو فرلانگ چلنے پر مجھے ایک جگہ مویشیوں کے گہرے کھُروں کے نشان دکھائی دیئے۔راستے سے ہٹ کر میں متوازی سمت میں جنگل کے اندر داخل ہوگیا۔ پچاس قدم چلنے پر مجھے ایک بڑی سی لکیر نظر آئی جیسے کسی چیز کو گھسیٹا گیا ہو۔ اس لکیر پر کوئی پچاس گز چلنے کے بعد مجھے بیل کی لاش مل گئی جو ایک پہاڑی نالے کے کنارے سے بیس قدم دور پڑی تھی۔ نالے اور لاش کے درمیان ایک سوکھا ہوا درخت تھا جس پر خاردار بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ فقط یہ ہی ایک ایسا موزوں درخت تھا جس پر بیٹھ کر میں آدم خور کو ہلاک کرنے کی امید کرسکتا تھا۔ رات اندھیری ہونے کے باعث میں بیل کی لاش کے جس قدر زیادہ قریب ہوتا اسے شکار کرنے کے اتنے ہی زیادہ امکان ہوسکتے تھے۔
 
اس وقت دو بجے تھے۔ میرے پاس ابھی اتنا وقت تھا کہ بدری کے پاس جاسکوں۔ بدری نے میرے لیئے چائے تیار کرائی اور پھر چائے کے دوران ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ جب میں نے بدری سے پوچھا کہ اس بیل کے ہلاک کیئے جانے کی خبر مکتیسر میں دوسرے شکاریوں کو کیوں نہیں پہنچائی گئی تو اس نے جواب دیا کہ یہ شکاری اب تک اس آدم خور کو ہلاک کرنے سے معذور رہے ہیں جس کے باعث لوگوں کو اب ان پر اعتماد نہیں رہا۔ اب گاؤں والے ان تک ایسی کوئی اطلاع پہنچانا بےکار تصور کرتے ہیں۔ بدری کے نزدیک ان شکاریوں کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جب کبھی وہ آدم خور کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے تو اس سے پہلے بڑی شاندار تیاریاں کرتے۔ وہ راستے سے جھاڑیوں اور چھوٹے موٹے درختوں کو صاف کردیتے اور بڑی بڑی مچانیں تیار کرتے اور ان مچانوں پر کئی کئی آدمی بیٹھے ہوتے۔ آدم خور کو فوراً معلوم ہوجاتا کہ سب تیاریاں اس کے لیئے کی گئی ہیں۔ لہذا وہ اپنے شکار کے پاس دوبارہ کبھی نہیں آتا۔ بدری کو یقین تھا کہ مکتیسر کے علاقے میں فقط ایک ہی شیر ہے اور وہ بھی اپنی دائیں ٹانگ سے قدرے لنگڑا ہے۔ مگر اسے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ لنگڑا کیسے ہوا ہے اور وہ نر ہے یا مادہ۔
میں نے بدری کو اس درخت کے متعلق بتایا جس پر میں رات کو بیٹھنا چاہتا تھا۔ جب شام کے قریب میں شیر کے ہلاک کیئے ہوئے بیل کی طرف جانے لگا تو بدری اس بات پہ مصر ہوگیا کہ وہ اور اس کے دو آدمی بھی میرے ساتھ جائیں گے اور مچان تیار کرنے میں میری مدد کریں گے۔ جب انہوں نے وہ درخت دیکھا تو کہنے لگے کہ میں وہاں بیٹھ کر شیر کا انتظار نہ کروں اور اسے اتنی اجازت دوں کہ وہ اپنے شکار کو گھسیٹ کر کسی مناسب جگہ پر لے جائے جہاں سے اس پر گولی چلانا اور اسے ہلاک کرنا آسان ہو۔ اگر شیر آدم خور نہ ہوتا تو میں بھی یہی کچھ کرتا۔ مگر اب میں ہاتھ آیا ہوا موقع کھونا نہ چاہتا تھا۔ ایسا موقع جو شاید پھر کبھی میسر نہ ہو۔ اس جنگل میں ریچھ بھی تھے۔ اگر کسی ریچھ کو بیل کی خبر ہوجاتی تو اس صورت میں میں آدم خور پر گولی چلانے کا موقع بھی کھو بیٹھتا کیونکہ ہمالیہ کے ریچھ بڑے نڈر ہوتے ہیں اور وہ شیر کا شکار کھانے میں ذرا جھجک محسوس نہیں کرتے۔ جہاں تک ممکن ہوسکا میں درخت پر آرام سے بیٹھ گیا۔ بدری اور اس کے آدمی اگلی صبح آنے کا وعدہ کرکے رخصت ہوگئے۔
میرا منہ پہاڑی کی سمت اور پشت ندی کی جانب تھے۔ اگر پہاڑی سے کوئی جانور اترتا تو میں اسے صاف طور پہ دیکھ سکتا تھا۔ لیکن اگر شیر پیچھے کی جانب سے آتا، جیسا کہ مجھے توقع بھی تھی، وہ مجھے نہ دیکھ سکتا تھا۔ بیل کا رنگ سفید تھا اور اس کی ٹانگیں میری جانب تھیں۔ میرے اور اس کے درمیان کوئی پندرہ فٹ کا فاصلہ تھا۔ میں چار بجے اس درخت پر بیٹھ گیا اور کوئی ایک گھنٹے بعد مجھ سے دو سو گز دور ندی کی سمت ایک ککر کے بولنے کی آواز آنے لگی۔ شیر حرکت کررہا تھا۔ ککر اسے دیکھ کر چلانے لگا تھا۔ وہ بڑی دیر تک چلاتا رہا اور پھر حرکت کرنے لگا۔ اس کی آواز مدھم پڑتی گئی حتی کہ مجھ تک آنی بند ہوگئی۔ اس کا مطلب تھا کہ شیر اپنی شکار کی حدود میں داخل ہوکر کسی جگہ پر لیٹ گیا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ شیر کو یہ معلوم کرنے کے لیئے کہ آس پاس کوئی انسان ہے کہ نہیں وہاں لیٹ گیا تھا اور جب اسے یقین ہوجائے گا کہ گردونواح میں کوئی انسان نہیں تو وہ اپنے شکار کی سمت حرکت کرے گا۔ وقت کی رفتار مدھم ہوگئی۔ ہر طرف اندھیرا پھیل گیا۔ مرا ہوا بیل اب سفید دھبے جیسا دکھائی دے رہا تھا۔ اتنے میں ندی کی جانب مجھے ایک بھاری سر دکھائی دیا اور کسی کے چور قدموں چلنے کی آواز سنائی دی۔ پھر اچانک کوئی میرے نیچے آکر رک گیا۔ دو منٹ تک کوئی موت سی خاموشی طاری رہی اور پھر شیر درخت کے نیچے خشک پتّوں پر لیٹ گیا۔
غروب آفتاب کے وقت آسمان پہ گہرے بادل جمع ہوگئے جس سے رات اور زیادہ گہری ہوگئی۔ جس وقت وہ درخت کے نیچے سے اٹھ کر اپنے شکار کے پاس گیا تو اس وقت کثیف اندھیرے کے باعث ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں پر بےحد زور دیا مگر اب سفید بیل بھی مجھے نہ دکھائی دے رہا تھا۔ شیر کی تو بات ہی چھوڑیئے۔ اپنے شکار تک پہنچ کر شیر اسے سونگھنے لگا۔ مجھے شیر پر گولی چلانے کی کوئی جلدی نہ تھی۔ اگرچہ وہ میرے قریب تھا لیکن جب تک میں درخت پر حرکت نہ کرتا اسے معلوم نہ ہوسکتا تھا کہ میں وہاں موجود ہوں۔ میں تاروں کی روشنی میں آس پاس دیکھنے کا عادی ہوچکا ہوں۔ مگر اس رات تو آسمان پر کوئی تارا بھی نہ تھا اور نہ ہی بادلوں میں بجلی کی چمک تھی۔ شیر نے ابھی تک اپنے شکار کو ہلایا نہ تھا۔ میں جانتا تھا کہ وہ اپنے شکار کی دائیں جانب لمبائی کے رخ پر لیٹا ہوا تھا۔
گھنی تاریکی نے میری بصارت ناکارہ کردی تھی لہذا میں نے اپنی سماعت پر اعتبار کرنا مناسب خیال کیا۔ میں نے رائفل اٹھائی اور اپنی کہنی کو اپنے گھٹنے پر رکھ کر شیر کی آواز پر بڑی احتیاط سے نشانہ باندھا۔ نشانہ باندھ کر میں نے پھر اپنے کان آواز پر لگا دیئے اور مجھے احساس ہوا کہ میری نشست شیر سے ذرا اوپر ہے۔ لہذا میں نے بندوق کی نالی ذرا نیچے کی اور یقین کی خاطر پھر سے کان آواز پر لگادیئے۔ چند دفعہ میں نے یونہی کیا اور جب میں مطمئن ہوگیا کہ میرا نشانہ صحیح ہے تو میں نے لبلبی دبادی۔ دو ہی چھلانگوں میں شیر ندی کی بیس فٹ چوڑی پٹری پھلانگ چکا تھا۔ چند لمحے خشک پتّوں پر شیر کے قدموں کی آواز آتی رہی اور پھر گمبھیر خاموشی طاری ہوگئی۔ اس خاموشی کی دو طرح توجیہہ کی جاسکتی تھی۔ یا تو شیر وہاں پہنچ کر مرگیا تھا یا پھر اسے گولی لگی نہ تھی۔ رائفل کو کندھے پہ رکھے میں تین چار منٹ تک کوئی آواز سننے کی کوشش کرتا رہا۔ جب مجھے کوئی آواز سنائی نہ دی تو میں نے رائفل کندھے پر سے ہٹالی۔ دوسرے ہی لمحے ندی کے کنارے پر سے شیر کے غرانے کی آواز آئی جس کا مطلب تھا وہ زخمی نہیں ہوا اور اس نے مجھے دیکھ لیا ہے۔ میں درخت پر زمین سے کوئی دس فٹ بلندی پر بیٹھا تھا۔ چونکہ وہاں بیٹھنے کا انتظام تسلی بخش نہ تھا لہذا میں آہستہ آہستہ نیچے کو سرک رہا تھا اور اس وقت زمین سے کوئی آٹھ فٹ اونچا تھا اور میرے پاؤں نیچے کو لٹک رہے تھے اور مجھ سے بیس فٹ کے فاصلے پر ایک آدم خور شیر غرا رہا تھا۔
دن کے وقت اگر آپ نے شیر دیکھ لیا ہو مگر اس نے آپ کو نہ دیکھا ہو تو یہی صورت حال آپ کے خون کی گردش تیز کر دینے کے لیئے کافی ہوتی ہے۔ لیکن جب رات ہو اور وہ بھی اندھیری رات اور شیر بھی آدم خور ہو اور آپ یہ بھی جانتے ہوں کہ شیر آپ کی طرف گھور رہا ہے تو یہ صورت حال خون میں طوفان برپا کر دیتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ شیر اپنی ضرورت سےے زیادہ شکار نہیں کرتا۔ بشرطیکہ اسے تنگ نہ کیا جائے۔ شیر کے لیئے بیل دو تین دن کے لیئے کافی تھا اور اسے مجھے ہلاک کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اس کے باوجود میں بےچین تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ شیر غیر معمولی فطرت کا مالک نہ نکلے۔ ویسے میں درخت پر محفوظ تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ میں سوجاتایا درخت سے گر پڑتا اور شیر کے ہاتھ آ جاتا۔ میں نے سوچا اب بےکار بیٹھنے سے سگریٹ پینا بہتر ہوگا۔ میں نے سگریٹ سلگایا تو شیر ندی کے کنارے سے ذرا پرے ہٹ کر غرانے لگا۔ میں نے تین سگریٹ پیئے۔ اس دوران شیر میری طرف گھورتا رہا۔ آخر بارش آگئی۔ میں نے ہلکے کپڑے پہن رکھے تھے۔ تھوڑی دیر میں میں سردی سے ٹھٹھرنے لگا۔ مجھے معلوم تھا کہ بارش سے بچنے کے لیئے شیر کسی گھنے درخت یا کسی چٹان کے نیچے پناہ گزین ہوگیا ہوگا۔ بارش رات گیارہ سے صبح چار بجے تک ہوتی رہی۔جب یہ رکی تو مطلع صاف ہوگیا۔ اب میری تکلیف میں اضافہ کرنے کے لیئے تیز ہوا چلنے لگی اور میں سردی سے منجمد ہوا جارہا تھا۔
صبح کے وقت ابھی سورج ہی نکل رہا تھا کہ بدری گرم چائے کی کیتلی لیئے وہاں پہنچ گیا۔ اس نے میری رائفل پکڑی اور ااس کے دونوں آدمیوں نے مجھے بڑی احتیاط سے درخت پر سے اتارا۔ میری ٹانگیں جڑ گئی تھیں اور وہ کام کرنے سے انکار کر رہی تھیں۔ دونوں اچھے آدمی مجھے زمین پر لٹا کر میرے جسم کی مالش کرنے لگے جس سے تھوڑی دیر بعد میرا خون گردش کرنے لگا۔ میں نے اس سے پہلے فقط آواز پر نشانہ باندھ کر گولی چلانے کا تجربہ نہ کیا تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ میری گولی شیر کے سر سے فقط دو تین انچ ادھر لگی ہے تو مجھے بڑی خوشی ہوئی۔
واپسی پر راستے میں بارش کے سبب کیچڑ ہوگیا تھا۔ بدری کا ایک آدمی ناشتہ وغیرہ تیار کرنے کے لیئے ہم سے بیس منٹ پہلے روانہ ہوچکا تھا۔ جب ہم اس کچے راستے پر گئے جو بدری کے گھر جاتا تھا تو اس آدمی کے نشان صاف دکھائی دے رہے تھے۔ تھوڑی دور آگے چل کر یکایک ہمیں ایک شیرنی کے پنجوں کے نشان بھی دکھائی دیئے۔ جیسے وہ ندی کے کنارے سے ایک دم چھلانگ لگا کر اس راستے پر اتر آئی ہو۔
بدری کے آدمی کے قدموں اور شیرنی کے پنجوں کے نشانات سے پتہ چلتا تھا کہ وہ دونوں بڑی تیزی سے سفر کررہے تھے۔ بدری اور میں کچھ بھی نہ کرسکتے تھے۔۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں وہ شخص ہم سے بیس منٹ پہلے روانہ ہوچکا تھا۔ اگر وہ اب تک بدری کے گھر بحفاظت پہنچ چکا ہے پھر تو ٹھیک ہے ورنہ ہم اس کے لیئے کچھ نہ کرسکتے تھے۔ ہم نے اپنی رفتار تیز کردی اور یہ جان کر ہمارے دم میں دم آیا کہ بدری کے باغ سے تھوڑی دور اس طرف شیرنی نیچے کی طرف مڑ گئی تھی اور وہ آدمی خیریت سے باغ میں داخل ہوچکا تھا۔ بعد میں جب اس آدمی سے پوچھا گیا تو اس نے شیرنی کے تعاقب کے متعلق لا علمی کا اظہار کیا۔
کپڑے خشک کرتے وقت میں نے بدری سے اس راستے کے متعلق پوچھا جدھر شیرنی گئی تھی۔ اس نے بتایا کہ راستہ گھنے درختوں سے ڈھکے ہوئے ایک نالے کی طرف جاتا ہے جو کوئی دو میل آگے جاکر ایک اور نالے سے مل جاتا ہے۔ اس سنگم کے قریب گھاس کا ایک کشادہ قطعہ ہے۔ بدری کا خیال تھا کہ شیرنی وہاں جاکر دن بھر آرام کرے گی کیونکہ اس کے آرام کرنے کی وہ مثالی جگہ تھی۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ کسی طرح وہاں پہنچ کر شیرنی کو شکار کرنے کے لیئے قسمت آزمائی کرنی چاہیئے۔ لیکن ابھی ہمیں ابھی یہ یقین نہ تھا کہ شیرنی وہاں پہنچی ہے کہ نہیں۔ اس کے لیئے بہترین طریقہ یہ تھا کہ کچھ آدمی اکٹھے ہو جائیں جو نصف دائرے کی شکل میں ڈھول وغیرہ بجاتے ہوئے شیرنی کو گھاس کے اس قطعے تک لے جائیں۔ بدری نے اپنے مالی گوبند کو بلایا۔ گوبند نے بتایا کہ اس کے پاس تیس کے قریب آدمی موجود ہیں۔
اس منصوبے کے بعد میں اپنی رائفل صاف کرنے لگا۔ دوپہر کے وقت گوبند تیس آدمی لے کر آگیا۔ گوبند اور اس کے آدمی مقامی باشندے تھے اور جانتے تھے کہ انہیں کس جگہ آدم خور سے خطرہ ہوسکتا ہے۔ میں نے انہیں اپنے منصوبے سے آگاہ کردیا تو وہ اس پر عمل کرنے کو تیار ہوگئے۔ گوبند نے اپنے آدمی دو گروہوں میں تقسیم کردیئے۔ ایک کا انچارج وہ خود بن گیا اور دوسرے کا سربراہ ایک معتبر آدمی کو بنادیا۔ اب منصوبہ یہ تھا کہ ایک گھنٹے بعد بدری بندوق کی ایک گولی چلائے گا اور دونوں گروہ ندی کے دونوں کناروں پر شور مچاتے اور ڈھول پیٹتے روانہ ہوجائیں گے۔ یہ منصوبہ تو بہت اچھا تھا مگر مجھے شبہ تھا کیونکہ بعض اوقات شیر خلاف توقع حرکت کر جاتا ہے۔
 
صبح جس راستے پر میں نے آدم خور کے پنجوں کے نشانات دیکھے تھے ان پر چلتے ہوئے میں نے دیکھا کہ شیرنی جھاڑیوں کے گھنے خطے میں داخل ہوگئی تھی۔ چند سو گز چلنے کے بعد میں نے دیکھا کہ پہاڑی کو کئی چھوٹے چھوٹے ندی نالوں نے کاٹ رکھا تھا۔ اب میں گھاس کے اس قطعے کو تلاش کررہا تھا جہاں گوبند اور اس کے ساتھیوں نے شیرنی کو گھیر کر لانا تھا۔ چند قدم آگے گیا تو ایک جگہ مکھیاں بھنبھنارہی تھیں۔ وہاں ایک گائے کی لاش پڑی تھی جسے کم از کم ایک ہفتے پہلے ہلاک کیا گیا تھا۔ اس کی گردن پر پنجوں کے نشانوں سے معلوم ہوتا تھا کہ اسے کسی شیر نے ہلاک کیا ہے۔ میں اس ڈھانچے کو کھینچ کر پہاڑی کے کنارے پر لے آیا اور اسے نیچے وادی میں لڑھکا دیا۔ ڈھانچہ تھوڑی دیر تک لڑھکتا رہا اور پھر ایک کھڈ میں جاکر رک گیا۔ بائیں طرف مڑ کر جب میں نیچے کی طرف اترا تو مجھے کوئی تین سو گز کے فاصلے پر گھاس کا ایک کھلا قطعہ دکھائی دیا۔ یہ جگہ اس جگہ سے بہت مختلف تھی جس کا نقشہ میں نے اپنے ذہن میں بنا رکھا تھا۔ وہاں کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں میں آرام سے بیٹھ سکتا۔ شیرنی کسی بھی طرف سے آکر مجھ پر حملہ آور ہوسکتی تھی۔ لیکن اب دیر ہوچکی تھی اور میں کچھ نہ کرسکتا تھا کیونکہ بدری نے بندوق سے گولی چلادی تھی اور اس کے آدمی دو گروہوں میں بٹ کر ندی کے دونوں کناروں پر چلنے کو تیار تھے۔ اتنے میں دور فاصلے پر مجھے لوگوں کے شور مچانے کی آوازیں سنائی دیں۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ وہ لوگ میری طرف آرہے ہیں مگر شور بتدریج مدھم پڑتا گیا اور پھر اس کی آواز مجھ تک پہنچنی بند ہوگئی۔ ایک گھنٹے بعد مجھے پھر شور سنائی دیا۔ جب وہ میری داہنی سمت کو میری سطح پر آگئے تو میں نے انہیں بلند آواز میں شور بند کرنے اور اپنے قریب آنے کو کہا۔ ہمارا منصوبہ غلط ثابت ہوا تھا۔ میں نے گھاس کے قطعے کو پہلے سے نہ دیکھ رکھا تھا۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس آدمی بھی بہت کم تھے اور وہ بھی غیر تربیت یافتہ۔ وہ پہاڑی علاقہ بے حد وسیع اور گھنا تھا۔ وہاں تو سینکڑوں آدمیوں کی ضرورت تھی۔
ان آدمیوں کو جھاڑیوں میں سے گزرتے وقت بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ میرے گرد بیٹھے اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے کانٹے نکالنے اور میرے سگریٹ پینے لگے۔ اس دوران گوبند مجھے بتارہا تھا کہ ہمیں اپنا یہ منصوبہ کل پر ملتوی کرنا چاہیئے کیونکہ کل تک مکتیسر سے بہت سے آدمی جمع کیئے جاسکتے ہیں۔ اچانک گوبند نے اپنا ایک جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ جس سے پتا چلتا تھا کہ اس نے میرے پیچھے کوئی غیر معمولی چیز دیکھی ہے۔ میں نے ایک دم پلٹ کے دیکھا۔ وہاں ایک ویران کھیت میں شیرنی بڑی خاموشی سے چلی آرہی تھی۔ وہ ندی کے دوسرے کنارے پر ہم سے کوئی چار سو گز دور تھی اور ہماری سمت آرہی تھی۔
جب جنگل میں کوئی شیر آپ کی طرف بڑھ رہا ہو تو آپ کے ذہن میں بجلی کی سی تیزی سے وہ خیالات آتے ہیں جو شیر پر گولی چلانے یا اس کی تصویر اتارنے کے سلسلے میں آپ کی کوشش کو ناکام بناسکتے ہیں۔ شیرنی کو ندی تک پہنچنے کے لیئے ابھی تین سو گز طے کرنے تھے۔ ان میں سے دو سو گز زمین ایسی تھی جہاں کوئی درخت نہ تھا۔ شیرنی سیدھی ہماری طرف آرہی تھی اور وہ کسی لمحے بھی ہمیں دیکھ سکتی تھی۔ میں اسے دیکھنے کے سوا اور کچھ نہ کرسکتا تھا۔ مکتیسر کے باشندے اسے لنگڑی شیرنی کہتے تھے مگر مجھے وہ لنگڑی دکھائی نہ دیتی تھی۔ میرے ذہن میں بجلی کی طرح یہ منصوبہ آیا کہ جونہی شیرنی کھلے میدان سے جنگل میں داخل ہو تو میں بھاگ کر آگے جاؤں اور جب وہ ندی پار کرنے لگے تو اس پر قسمت آزمائی کروں۔ اگر میرے اور شیرنی کے درمیان کو باڑ وغیرہ ہوتی تو میں اسی وقت آگے بڑھ کر اس کے عقب سے شیرنی پر کھلے میدان میں ہی گولی چلادیتا اور اگر نشانہ خطا ہوجاتا تو اسے ندی پر روک کر دوبارہ گولی چلاتا۔ لیکن چونکہ وہاں باڑ موجود نہ تھی اس لیئے مجھے اس وقت تک انتظار کرنا پڑا جب شیرنی کھلے میدان سے جھاڑیوں میں داخل ہوئی۔ جب شیرنی نظروں سے اوجھل ہوئی تو میں آدمیوں سے یہ کہہ کر کہ میرے آنے تک وہ اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلیں، آہستہ آہستہ ندی کی طرف چل پڑا۔ تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ راستے میں مجھے جنگلی گلاب کی ایک جھاڑی دکھائی دی جو چند گز پھیلی ہوئی تھی۔ اس جھاڑی کے درمیان میں ایک سرنگ سی تھی۔ جب میں اس سے گزرنے لگا تو میرا ہیٹ کانٹوں میں الجھ کر گر پڑا جس سے میرے سر میں کئی کانٹے داخل ہوگئے جنہیں بعد میں گھر پہنچنے پر میری بہن میگی نے بڑی مشکل سے نکالا۔ میرے سر سے خون بہہ رہا تھا مگر میں اسی حالت میں اس گڑھے کی طرف بھاگ رہا تھا جہاں کچھ دیر پہلے میں نے مردہ گائے کا ڈھانچہ پھینکا تھا۔ آخر میں وہاں پہنچ گیا۔ وہ گڑھا چالیس گز لمبا اور تیس گز چوڑا تھا۔ اس گڑھے کا بالائی حصہ گھنی جھاڑیوں سے ڈھکا ہوا تھا مگر نچلا حصہ بالکل صاف تھا۔ جب میں اس گڑھے کے دھانے پر پہنچا تو اندر سے مجھے ہڈیاں ٹوٹنے کی آواز آئی۔ شیرنی مجھ سے پہلے وہاں پہنچ چکی تھی اور گزشتہ رات کی بھوک مٹا رہی تھی۔
اگر گائے کو چھوڑ کر شیرنی باہر نکلتی تو میں اس پر بخوبی گولی چلا سکتا تھا۔ لیکن اگر وہ گڑھے کے بالائی حصے سے جھاڑیوں کے اندر سے پہاڑی کی چوٹی کی سمت چلی جاتی تو میرے لیئے اسے دیکھنا محال تھا۔ گھنی جھاڑیوں سے جہاں سے شیرنی کی آواز آرہی تھی۔ ایک تنگ سا راستہ میرے پہلو سے گزرتا ہوا ایسی چٹان کی طرف جاتا تھا جس کے نیچے پچاس گز کے فاصلے پر ندی بہہ رہی تھی۔ وہاں کچھ کھلی زمین بھی تھی۔ میں اس امکان پر غور کررہا تھا کہ شیرنی کو کسی نہ کسی طرح اس کھلی زمین کی طرف لے جایا جائے۔ اس کی یہی صورت تھی کہ پہاڑی پر ایک پتھر پھینک کر شیرنی کو خبردار کیا جائے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے اپنے عقب سے آواز سنائی دی، پیچھے مڑکر دیکھا تو گوبند میرا ہیٹ لیئے کھڑا تھا۔ اس زمانے میں کوئی یورپین ہیٹ کے بغیر باہر نہ پھرا کرتا تھا۔ ہیٹ کو جھاڑیوں میں الجھا ہوا دیکھ کر گوبند اسے مجھے دینے آیا تھا۔ ہمارے نزدیک پہاڑی میں ایک غار سا تھا۔ میں نے اپنی ایک انگلی ہونٹوں پہ رکھتے ہوئے گوبند کو بازو سے پکڑا اور اسے اس غار میں دھکیل دیا۔ وہ اس غار میں دبک کر بیٹھ گیا، میرا ہیٹ اس کے ہاتھوں میں لٹک رہا تھا۔ گڑھے میں ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آواز سن کر اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا اور اس پر کپکپی طاری ہوگئی تھی۔ ادھر سے فارغ ہوکر جب میں دوبارہ گڑھے کے منہ پر آیا تو شیرنی نے گوشت کھانا بند کر دیا تھا یا تو اس نے مجھے دیکھ لیا تھا یا گائے کا گوشت اس کے لیئے ناکافی ثابت ہوا تھا۔ خاصی دیر تک نہ تو گڑھے میں کوئی حرکت ہوئی اور نہ ہی کوئی آواز سنائی دی۔ آخر وہ مجھے دکھائی دی۔ وہ مخالف سمت سے گڑھے کے کنارے پر چڑھی اور پہاڑی چڑھنے لگی۔ جھاڑیوں میں سے وہ مجھے تھوڑی تھوڑی دکھائی دے رہی تھی۔ اس امید کے ساتھ کہ میری گولی جھاڑیوں سے گزر کر شیرنی کو لگے گی۔ میں نے جلدی سے بندوق اٹھائی اور نشانہ لے کر لبلبی دبادی۔ گولی چلنے پر شیرنی ایک دم پیچھے کو مڑی اور دوبارہ گڑھے کے کنارے کی طرف آئی۔ اس کے پاس سے گزر کر میرے راستے کے قریب سے بھاگنے لگی۔ اس وقت مجھے معلوم نہ تھا کہ گولی اس کے کان کے قریب لگی ہے اور وہ ایک آنکھ سے اندھی ہے۔ وہ فقط گھبرائی ہوئی نظر آرہی تھی جیسا کہ خطرے کے وقت اکثر جانوروں کی کیفیت ہوجاتی ہے۔ اسے یہ معلوم ہوسکا تھا کہ گولی کس سمت سے آئی تھی۔ خیر جو کچھ بھی تھا، ایک زخمی اور بپھری ہوئی شیرنی میرے سمت آرہی تھی۔ جب وہ مجھ سے دو گز کے فاصلے پر رہ گئی تو میں نے جلدی سے نشانہ لے کر گولی چلادی۔ شیرنی پورے زور سے اچھلی اور اندھا دھند چٹان کے اوپر سے چھلانگ لگا کر بڑے دھماکے سے ندی میں کود گئی۔ میں نے اوپر سے جھانک کر دیکھا تو شیرنی کا جسم پانی میں ڈوبا ہوا تھا اور اس کی ٹانگیں اوپر کو اٹھی ہوئی تھیں۔ اس کے ارد گرد کا پانی خون سے سرخ ہورہا تھا۔
گوبند ابھی تک اسی غار میں دبکا بیٹھا تھا۔ میری طرف سے اشارہ پاکر وہ میرے پاس آگیا۔ شیرنی کو دیکھ کر وہ مڑا اور آدمیوں کی طرف منہ کر کے بلند آواز میں چلانے لگا، "شیر مرگیا! شیر مرگیا۔" وہ آدمی بھی شور مچانے لگے۔ ان کی آواز سن کر بدری نے اپنی رائفل سے ہوا میں دس فائر کردیئے۔ یہ فائر مکتیسر اور اس کے نواحی دیہات میں سنے گئے اور دیکھتے دیکھتے ندی کنارے بہت سے آدمی جمع ہوگئے۔ انہوں نے شیرنی کو پانی سے باہر نکالا اور بدری کے باغ کی طرف چل پڑے۔ اسے دیدار عام کے لیئے خشک گھاس کے بستر میں ڈال دیا گیا اور میں چائے پینے کے لیئے بدری کے مکان میں چلا گیا۔ ایک گھنٹے بعد لوگوں کے ایک بڑے ہجوم کے سامنے میں نے شیرنی کی کھال اتاری۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک آنکھ سے کانی تھی اور اس کے جسم پہ خارپشت کے زخموں کے کوئی پچاس نشان تھے جن میں سے بعض نشان نو انچ لمبے تھے۔ دس بجے میں اپنے کام سے فارغ ہوگیا۔ بدری نے بڑے خلوص سے مجھے رات وہاں ٹھہرنے کی دعوت دی جسے چند مجبوریوں کے باعث میں قبول کرنے سے معذور تھا۔ وہاں سے میں مکتیسر کی طرف روانہ ہو پڑا۔ میرے ہمراہ دو آدمی تھے جنہوں نے شیرنی کی کھال اٹھا رکھی تھی۔ ڈاک خانے کے سامنے کھلی زمین پر شیرنی کی کھال بچھادی گئی۔ مکتیسر کے باشندے اسے دیکھنے کے لیئے جمع ہو رہے تھے۔ ان کے چہروں پہ خوشی کے آثار تھے۔ وہ رات میں نے ڈاک بنگلے میں گزاری اور دوسرے دن تقریباً ۷۲ گھنٹوں کی غیر حاضری کے بعد میں دوبارہ اپنے گھر نینی تال میں موجود تھا۔
کسی آدم خور کو ہلاک کرنے سے ایک عجیب سے اطمینان کا احساس ہوتا ہے۔ جیسے کوئی شخص کسی بہت بڑے فرض سے عہدہ برا ہوا ہو۔ یہ اطمینان کہ میں نے ایک بہت بڑے خود غرض درندے کو اس کی اپنی زمین پہ شکست دی ہے اور کم از کم زمین کے ایک چھوٹے سے حصے کو اتنا محفوظ بنادیا ہے کہ ایک چھوٹی سی آٹھ سالہ لڑکی وہاں آزادی سے آ جا سکتی تھی۔
٭٭٭
 
Top