مکاتیبِ شبلی بنام عطیہ فیضی میں درس و تدریس

مولانا شبلی نعمانی نے اردواور فارسی زبان وادب بشمول سوانح نگاری، شاعری، تحقیق و تنقید اور مقالات کے ذریعے بلند مقام حاصل کیا اورجوعلمی سرمایہ چھوڑا اس سے تا حال عوام و خواص فیض یاب ہورہے ہیں ۔ان کے علمی ذخیرے میں عباسی خلیفہ مامون الرشید کی سوانح عمری’’المامون‘‘ (۱۸۸۸)،امام بو احنیفہ کی سیرت کے حوالے سے ’’سیرت النعمان‘‘(۱۸۹۱)،حضرت عمر فاروقؓ سے متعلق ’’الفاروق‘‘(۱۸۹۹ء )، امام غزالی سے متعلق ’’الغزالی‘‘(۱۹۰۱ء )، مولانا جلال الدین رومی کی سوانح’’سوانح مولانا روم ‘‘(۱۹۰۴)،’’ سیرۃ النبی ﷺ‘‘،’’علم الکلام‘‘(۱۹۰۲) ،’’الکلام‘‘(۱۹۰۴)،’’موازنہ انیس و دبیر‘‘( ۱۹۰۶)،’’شعر العجم (فارسی شاعری کی تاریخ )‘‘، ’’سفر نامہ روم و مصرو شام ‘‘(۱۹۸۴)اوراردو اور فارسی کلامِ شاعری بھی موجود ہے۔
مذکوہ تمام کتب کے علاوہ ان کے بکھرے ہوئے مقالات کومولانا شبلی نعمانی کے شاگردوں ۔: مولانا مسعود علی ندوی، مولوی معین الدین قدوائی نے مرتب کیا اور اس ترتیب سے شائع کیا :’’مقالاتِ شبلی ‘‘حصہ اول (مذہبی مضامین)، ’’مقالاتِ شبلی ‘‘حصہ دوم (ادبی مضامین)، ’’مقالاتِ شبلی‘‘ حصہ سوم (تعلیمی مضامین)،’’ مقالاتِ شبلی ‘‘حصہ چہارم (تنقیدی مضامین)،’’ مقالاتِ شبلی‘‘ حصہ پنجم (سوانحی مضامین)، ’’مقالاتِ شبلی ‘‘حصہ ششم (تاریخی مضامین)،’’مقالاتِ شبلی ‘‘حصہ ہفتم (فلسفیانہ مضامین)، ’’مقالاتِ شبلی‘‘ حصہ ہشتم(قومی و اخباری مضامین)(۱)مذکورہ کتب کے علاوہ ان کے ان کے خطوط کے تین مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ جن میں سے بالترتیب دو مجموعے مکاتیبِ شبلی (حصہ اول)اورمکاتیب ِ شبلی (حصہ دوم ) کو سید سلیمان ندوی نے مرتب کیا جب کہ تیسرا مجموعہ منشی محمد امین زبیری نے ترتیب دیا۔ (۲)
گو کہ مولانا شبلی نعمانی کی زندگی چوں کہ حرکت و عمل سے تعبیر تھی لیکن وہ بہر حال انسان تھے اور انسان متنوع رویوں، متضاد صفات اوربو قلمونی مزاجوں کامجموعہ ہے ۔اسی لیے کسی بھی انسان کے لیے ہمیشہ ایک سے مزاج یا رویے کا اظہار کرنا ممکن نہیں رہ سکتا۔ کبھی اسے معمولی غصہ آتا ہے تو کبھی وہ سراپا غضب بن جاتا ہے ، کبھی اس کے مزاج میں شفقت اور ر حم کے جذبات جنم لیتے ہیں اور کبھی سراپا عجز و انکسار بن جاتا ہے۔ اسی وجہ سے جہاں شبلی اپنے خطوط میں ندوۃ العلوم کے مستقبل اور نصاب سازی کے حوالے سے متفکر اور چڑ چڑا ہٹ کا شکار نظر آتے ہیں وہیں وہ چند خطوط بنام عطیہ فیضی میں عطیہ سے اظہارِ محبت و عقیدت کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں ۔ انھی چند خطوط کو سامنے رکھتے ہوئے چند ناقدین نے ’’شبلی کی حیاتِ معاشقہ ‘‘ ایسی کتب و مختلف مقالات میں بطور خاص ان کی نجی زندگی کوہدفِ تنقید بنانے کی کوشش کی ہے جب کہ مذکورہ خطوط ہی میں تعلیمِ نسواں کے حوالے سے ان کے مثبت افکار و نظریات اور تحریک کو بڑی بے دردری سے نظر انداز کردیا ہے ۔ یوں خطوطِ شبلی کے ایک اہم زاویے سے صرفِ نظر کیا گیا ہے جو کہ درست نہیں۔ظفر الدین اپنے مقالے’’ شبلی کی شخصیت : خطوط کے آئینے میں ‘‘ میں ان کے خطوط کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ان کا ایک حصہ جو مختلف نوعیت کا ہے وہ عطیہ اور ان کی بہن کے نام ہے۔ اس میں وہ زندہ دل اورخوش باش نظر آتے ہیں :
’’وہ خطوط جو انھوں نے عطیہ فیضی اور ان کی بہنوں کو لکھے ہیں ان خطوط میں ان کی شخصیت کا جمالی پہلو نمایاں ہوتا ہے اور یہاں وہ صرف ایک مولوی نہیں بلکہ زندہ دل اور زندہ جاوید انسان نظر آتے ہیں ۔ ‘‘(۳)
شبلی نعمانی ،عطیہ فیضی کو خطوط میں تعلیمِ نسواں پر زور دیتے اور اس کے حامی نظر آتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عطیہ کو اس ضمن میں تحریک بھی دیتے ہیں لیکن اس پہلو کو بھی مد نظر رکھتے ہیں کہ اس تعلیم میں بے حیائی اور بے ہودگی کا کوئی پہلو موجود نا ہو۔ باالفاظِ دیگر وہ خواتین کی ایسی تعلیم کیحق میں نہیں جو عورت کو عورت نا رہنے دے۔اکبر الہ آبادی کے افکار میں بھی تعلیم نسواںکے اس پہلو پر کڑی تنقیدی موجود ہے جو لڑکیوں کو اسلامی اور مشرقی تہذیب سے دور کردے اور دین و دنیا کہیں کا نا چھوڑے۔ شبلی نعمانی کے عطیہ کے علاوہ دیگر احباب کے نام خطوط میں بھی تعلیمِ نسواں کی حمایت ملتی ہے۔ اس ضمن میں مولانا حبیب الرحمان شیروانی کے نام ان کے ایک مکتوب کا یہ اقتباس ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:
’’ بمبئی میں عورتوں کے جلسے دیکھے، ان کی تقریریں سنیں ، ان کی قابلیت دیکھی لیکن ’’چنداں خوشی نہ ہوئی‘‘کیوں کہ ان کی سرگرمیوں میں مسلمان عورتوں کا کہیں پتہ نا تھا‘‘(۴)
شبلی چاہتے تھے کہ عورت کومردوں سے کم تر نا سمجھا جائے بلکہ اس میں زمانے کی مشکلات کو سمجھنے اور سہنے کی استعداد پیدا کی جائے تا کہ وہ نا صرف مردوں کے شانہ بشانہ قوم کی ترقی میں حصہ لے سکیں بلکہ ایک حوصلہ مند زندگی بھی گزاریں۔ اس اقدام کے لیے ان کی پہلی فکر مرد و خواتین دونوں کے لیے یکساں نصابِ تعلیم پر مرکوز تھی۔مرد و خواتین کے لیے تعلیم کا نصاب ایک ہونے کا مطلب یہی تھا کہ ان دونوں میں ذ ہنی ہم آہنگی جنم لیے اور ایک دوسرے کوکم تر نا سمجھیں۔ اسی افتراق کی وجہ سے وہ یورپی نظریہ تعلیم کے بھی خلاف تھے اور اسے بعید از عقل قرار دیتے تھے کہ اس کی وجہ سے مرد و خواتین دونوں کی فکری زندگی میں بعد کے تسلسل کے بڑھنے کے زیادہ روشن امکانات تھے۔ اس سلسلے میں عطیہ فیضی کو ۲۶ مئی ۱۹۰۹ء میں تحریر کردہ خط کا اقتباس ملاحظہ کیجیے :
’’نصابِ تعلیم کے متعلق میں سرے سے اس کا مخالف ہوں کہ عورتوں کے لیے الگ نصاب ہو ۔یہ ایک اصولی غلطی ہے جس میں یورپ بھی مبتلا ہورہا ہے۔ کوشش ہونی چاہیے کہ ان دونوں صنفوں میں جو فاصلہ پیدا ہوگیا ہے وہ کم ہوتا جائے نہ کہ اور بڑھتا جائے اور بات چیت رفتار گفتار، نشست، برخاست ، مذاقِ زبان سب الگ ہوجائیں یوں ہی تفرقہ رہتا رہا تو دونوں دو مختلف نوع ہوجائیں گے۔ ‘‘(۵)
شبلی کی تعلیمِ نسواں کی حمایت کے خطوط ہی کے حوالے سے ڈاکٹرراج بہادر گوڑ تحریر کرتے ہیں کہ وہ خواتین کی ایسی تعلیم کے حامی تھے جو اسلام کے مطابق ہو کیوں کہ اسلامی تعلیمات انھیں راہِ راست پر رکھنے میں مدد دیتی تھیں ۔ اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ:
’’ شبلی عورتوں کی تعلیم کے حامی تھے اور وہ بھی عصری۔ یہ نہیں کہ انھیں امورِ خانہ داری ہی میں محصور رکھا جائے لیکن لگتا ہے کہ کوئی انھیں پیچھے سے کھینچتا بھی ہے۔‘‘(۶)
اسی ضمن میں ان کا ایک نہایت اہم خط بنام عطیہ فیضی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جس میں وہ ندوۃ العلوم کے قیام کا مقصد یہ بیان کرتے ہیں کہ اسلامی اصولوں کے مطابق جدید دنیا کے ساتھ ہم قدم ہوا جائے نا کہ تعلیم کے ان پرانے طور طریقوںہی پر گامزن رہ کر قوم کو مزیدنقصان سے دوچار کیا جائے جو عصر حاضر میں بے سود ہوچکے ہوں۔ سر سید احمد خان کے سامنے بھی گو یہی مقصد موجود تھالیکن شبلی نے ان سے چند معاملات پر اختلاف کرتے ہوئے علیحدگی کی راہ اپنائی تھی۔عطیہ فیضی کو ندوہ کے مقاصد جو کہ درحقیقت ان کے اپنے تعلمّی کے مقاصد تھے ، کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ندوہ کا مقصد اسلام کی حمایت اور علوم دینی کا بقا ہے لیکن نہ اس طرح کہ جو پرانے خیال کے مولوی چاہتے ہیں ۔ پس گویا ندوہ مذہبی تعلیم کی اصلاحی صورت ہے۔ ‘‘(۷)
عطیہ فیضی کے نام ۲۶ مئی ۱۹۰۹ء میں تحریر کردہ ایک اور خط کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے جس میں وہ انھیں آگے بڑھنے، خواتین کی نمائندگی کرنے، علم کو عام کرنے اور تعلیمِ نسواں کے لیے کچھ کرگزرنے کے ہمت اور تحریک دیتے ہوئے فرانس کی رہنما خواتین کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔فرانس میں چوں کہ سب سے پہلی اکادمی کی بنیادبھی ایک خاتون نے ڈالی تھی، اس لیے اس خاتون کی خدمات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ:
عطیہ! تم کو معلوم ہوگا کہ فرانس میں سب سے پہلی اکاڈیمی ایک لیڈی نے قائم کی تھی۔ تم کو بھی یہ موقع ہے خود علمی مذاق ہے اور اہلِ مذاق بمبئی میں جمع ہوسکتی ہیں ۔(۸)
عطیہ فیضی کے نام تحریر کردہ ان کے ایک اورخط سے ان کے نظریہ تعلیمِ نسواں تک پہنچنے میںآسانی پیدا ہوتی ہے۔ اس میں وہ لکھتے اوریہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ مرد اس لیے عمومی طور پر ظالم تصور ہوتے ہیں کہ خواتین کو اپنے حقوق سے واقفیت نہیں یا پھر وہ معاشی طور پر بہت کمزور ہیں ۔ایک ایسی شریف النفس خاتون جو محض طلاق اور بعد از طلاق معاشی مسائل کی دھمکی کی وجہ سے ایک ساری زندگی ایسے مرد کے ساتھ گزاردیتی ہے جو جوا کھیلتا ہے، مار پیٹ کرتا ہے، نا اپنی عزت کا پا س رکھتا ہے اور نا ہی دوسروں کی عزت کا، نا کھاتا کماتا ہے اور نا ہی اولاد کی تربیت میں کسی بھی قسم کا کردار ادا کرتا ہے، تو اس میں قصور عورت کا بھی ہے۔ ان کے نزدیک یہ بھی اچھنبے کی بات ہے کہ خواتین خود پر ایک خول چڑھا لیں اور یہ تصور کر لیں کہ وہ نزاکت کا مجموعہ، روئی کا گولا یا چھوئی موئی ہیں۔ اگرچہ وہ مرد نما خواتین کو بھی پسند نہیں کرتے اور اس بات کا اظہار خطوط میں کرتے ہیں لیکن وہ بہر حال مرد نما خواتین کو اس حوالے سے چھوئی موئی خواتین پر ترجیح دیتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق سے واقف ہوں اور اپنی زندگی کے لیے لڑ سکیں ۔ گویا وہ حقوقِ نسواں کو تعلیمِ نسواں سے منسلک سمجھتے ہیں او ر اس کے حصول کے لیے انھیں ذہنی اور جسمانی دونوں سطحوں پر تیار کرنا چاہتے ہیں ۔ البتہ اس سب کے ساتھ ساتھ وہ خواتین کو اپنی گھریلو زندگی سے غافل ہوجانے کو بھی برا جانتے ہیں ۔ شبلی نعمانی چوں کہ تعلیم یافتہ تھے اور اس قسم کے خطوط کے پس منظر میں یقینا ان کے پیش نظر ایسی ماؤں کا تصور ہو گا جو قوی، با ہمت اور جرات مند ہو اور قوم کی بہتر پرورش کرسکے ۔۹ جون ۱۹۰۹ء میں تحریر کردہ خط کا یہ حصہ ملاحظہ کیجیے:
عورتوں کے متعلق تمھاری رائے ہے کہ وہ دنیوی اور معاشی علوم کم پڑھیں اور تم اس کو پسند نہیں کرتیں کہ عورتیں خود کمائیں اور کھائیں لیکن یاد رکھو مردوں نے جتنے ظلم عورتوں پر کیے اس بل پر کیے کہ عورتیں ان کی دست نگر تھیں۔ تم عورتوں کا بہادر اور دیو پیکر ہونا اچھا نہیں سمجھتی لیکن یہ تو پرانا خیال تھا کہ عورتوں کو وہاں پان چھوئی اور روئی کا گولا ہونا چاہیے ۔جمال اور حسن ، نزاکت پر موقف نہیں، تنو مندی، دلیری ، دیو پیرکی اور شجاعب میں بھی حسن وجمال قائم رہ سکتا ہے۔ مرد نما عورت زنانہ نزاکت سے زیادہ محبوب ہوسکتی ہے۔ ہاں یہ اعتراض صحیح ہے کہ موجودہ طرزِ تعلیم سے بچے خاندان سے اجنبی ہوجاتے ہیں لیکن خاندان سے زیادہ تر چسپیدگی بھی کوئی مفید چیز نہیں ۔(۹)
خطوطِ شبلی کے مطالعے سے یہ امر بھی سامنے آتا ہے کہ وہ نا صرف عطیہ فیضی کو خود تعلیمِ نسواں اور بنیادی حقوق سے آگاہ کرتے رہتے تھے بلکہ اس ضمن میں دیگر ذرائع جن میں اخبارات و رسائل وغیرہ شا مل تھے ،پڑھنے کا بھی مشورہ دیتے تھے۔ یوں ان کے خطوط عطیہ کی ذہن سازی کارجحان بہت نمایاں تھا ۔ گویا وہ عطیہ کو محض اپنی ذات تک محدود کرنے کے بجائے کائناتی حوالوں سے خود کفیل کرنا چاہتے تھے۔ ۱۹ اگست ۱۹۰۹ء کے خط مطالعے میں وسعت کی غرض سے لکھتے ہیں:
تم کو خط لکھ چکا تھا کہ ایک پولندہ آیا جس میں سلسلہ تعلیم نسواںکی چہہ ریڈریں آئیں ۔ ابتدائی حیثیت سے مجھ کو بہت پسند ہیں۔ ہر پہلو کا لحاظ رکھا ہے۔ تم بھی منگو اکر دیکھواور پسند ہوں تو وہاں استعمال کرو۔ (۱۰)
اس طرح ۲۸ اپریل ۱۹۰۹ء کو عطیہ فیضی کے نام تحریر کردہ ایک اور خط میں تحریر کرتے ہیں کہ وہ انھیں اس انداز میں فارسی پڑھانا چاہتے ہیں کہ ہر نکتہ با آسانی سمجھ میں بھی آجائے اور ’’تاج گنج ‘‘ایسی کتاب کو بھی پڑھتے ہوئے کسی مشکل کا سامنا نا کرنا پڑے۔
اپنے مکاتیب میں شبلی نعمانی نے نا صرف عطیہ فیضی کو تعلیمِ نسواں کا درس دیا، آگے بڑھنے کا حوصلہ اور ہمت پیدا کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ عملی طور پر بھی خود اس میں شریک ہوئے ۔ ان کے عطیہ فیضی کے نام ایسے متعدد خطوط موجود ہیں جن میں وہ انھیں نثر تحریر کرنے اور اس پر اصلاح لینے کی نصیحت کرتے ہیں ۔ وہ انھیں فارسی کی عالمہ بھی بنانا چاہتے تھے ۔ اس سلسلے میں ایک خط ملاحظہ کیجیے جس میں وہ عطیہ کی نثر میں محاورے کی اصلاح کرتے ہوئے درس دیتے ہیں کہ بہتر محاورہ ، زبان دانی کی علامت ہے اور تحریر و تقریر میں حسن پیدا کرتا ہے۔ اصلاح کا انداز ملاحظہ کیجیے :
آپ کی عبارت میں بعض محاورت بمبئی کے مخصوص ہیں آئندہ بچے مثلاً یہ لفظ ’’کتابیں برابر ملک گئیں‘‘ (میں)’’برابر ملنا‘‘بالکل غلط ہے۔’’بہن کا مال انھیں دے دیا‘‘مال کا لفظ ایسی چیزوں کے متعلق نہیں بولتے ۔ یہ لکھنا چاہیے کہ ’’ان کی چیزیں ان کو دے دیں‘‘(۱۱)
اسی ضمن میں ۱۰ مار چ ۱۹۰۸ء کے ایک اور خط کا نمونہ ملاحظہ کیجیے جس میں وہ بالکل بنیادی سطح کی اغلاط کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی کی اصلاح کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ وہ موازنہ انیس و دبیر اور سنخندانِ پارس کا دوسرا حصہ ملاحظہ کریں تاکہ مطالعہ میں وسعت آئے ۔
مفصل خط لکھ چکا ہوں ، ایک دو خفیف غلطیاں ظاہر کرچکاہوں اس خط میں دو ایک اور لکھتا ہوں ۔
غلط ——— صحیح
تا آپ دیکھ لیں —— تا کہ آپ دیکھ لیں
آپ کو کتنے کام ہوں گے —— آپ کو بہت سے کام ہوں گے
محاورہ کروں —— محاورہ پیدا کروں (۱۲)

اسی ضمن میں ۱۰ اپریل ۱۹۰۸ء کے ایک اور خط کا نمونہ ملاحظہ کیجیے جس میں محبت بھرے اندا ز میں سرزش کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ وہ اس اصلاح سے دل چھوٹا نا کریں اور یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں کہ مقصود ان کی اصلاح ِ زبان ہی ہے :
’’چٹکیوں میں اڑاتی ہیں‘‘رکیک اور اچھا محاورہ ہے اور جس موقع پر تم نے لکھا ہے اس کے لیے بالکل خلافِ تہذیب ہے، یہ محاورہ
سرے سے کبھی نہ لکھا کرو۔ میں تم کو بار بار ٹوکتا ہوں ، ممکن ہے کہ تم کو گراں گزرے لیکن جی نہیں مانتا تمھاری اردو کے روشن چہرہ پر داغ رہنے پائیں۔‘‘(۱۳)
مکاتیبِ شبلی کامطالعہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ عطیہ کے حوالے سے حسنِ سیرت کے زیادہ قائل تھے نا کہ حسنِ صورت کے اور حسنِ سیرت کے حوالے سے وہ اس بات کے قائل تھے کہ تعلیم کو بڑھایا جائے، اسے عملی زندگی میں اپنایا جائے اور اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی بھی لائی جائے۔ یہ خط عطیہ اور شبلی کے تعلقات کے اخلاص کا پتہ بھی دیتا ہے۔ حسن سیرت میں تعلیم کے کردار کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’تم جانتی ہو کہ حسن صورت کی نوبت ہوچکی۔ میری قسمت میں دونوں کا اجتماع نہ تھا ۔ اب کوئی چیز ما یہ تسکین ہوسکتی ہے تو صرف حسنِ سیرت ہے۔ اس کے لیے سب سے مقدم تعلیم ہے۔‘‘(۱۴)
عطیہ فیضی کی ناراضی یاسیکھنے کے عمل میں دل چھوٹانا کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے ان کی تقریر کی تعریف کرتے ہیں اور پھر اہلِ زبان کے مطابق روز مر ہ اور محاورے کی اصلاح کے ضمن میں ۱۱ اپریل ۱۹۰۸ء میں تحریر کرہ خط میں لکھتے ہیں کہ:
اس خط میں دوبارہ سے چٹکیوں میں اڑانا محاورہ کی تصحیح کے بعد دوبارہ اصلاح دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ:
’’ڈاکٹر کہتے ہیں سو رہو‘‘(میں) ’’سو رہو‘‘ کے بجائے ’’لیٹے رہو‘‘ لکھنا چاہیے ،میرا ہر خط جواب طلب نہیں ہوتا ۔اس لیے ان خطوں کو بارنہ خیال کرو اور جواب کے خیال سے نہ گھبراؤ۔(۱۵)
شبلی نعمانی کی اصلاح کے تسلسل ہی میں ایک اورخط ملاحظہ کیجیے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کی تدریس کے حوالے سے حقیقتاً سنجیدہ تھے اسی لیے ایسی باتیں بھی اصلاح کے ضمن میں تحریر کرجاتے تھے جن کی وجہ سے عطیہ فیضی کی دل شکنی ہوسکتی ہو۔ ۱۶ اکتوبر ۱۹۰۸ء کے خط میں لکھتے ہیں:
معاف کرویورپ جا کر انگریزی میںتم نے ترقی کی لیکن اردو زبان بگاڑ لائیں۔ ’’احسان مانتی ہوں ‘‘۔۔،’’تکلیف لیتے ہیں ‘‘،’’فائدہ لیتی ہوں ‘‘، ’’بہت تجویزا‘‘ یہ سب محاورے نہایت غلط اور عوامِ دکن کی زبان ہے۔ (۱۶)
اسی ضمن میں شبلی نعمانی کا ۲۹ مئی۱۹۰۹ ء کا خط بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جس میں وہ زبان دانی کی باقاعدہ تعلیم کے حوالے سے انھیں مراحل سکھاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس طرح تیزی سے اس میدان میںآگے بڑھا جاسکتا ہے۔اس ضمن میں پہلا مرحلہ انھوںنے محاورہ اور روز مرہ سیکھنے کا بیان کیا ہے، پھر اسے اپنی تحریر و تقریر میں رچا بسا لینے کا ہے، پھر شاعری کی تعلیم کا۔ لکھتے ہیں:
سب سے پہلا مرحلہ زبان کا ہے یعنی زبان محاورہ اور روز مرہ سے مزا لینا اور لطف اٹھانا۔ اول تو زبان اور محاورہ سے واقف ہونا چاہیے پھر یہ کافی نہیں ہے بلکہ اس سے طبیعت کو لطف اٹھانا شرط ہے۔ ۔۔معنی سمجھ لینا اور چیز ہے اور لطف اٹھانا اور چیز ہے ۔ گانا سب سنتے ہیں اور معمولی طور سے سمجھ بھی لیتے ہیں لیکن جو شخص گانا سن کر بے تاب ہوجاتا ہے اور تڑپ جاتا ہے اصل میں گانا اسی کے لے ہے۔۔۔میں رواں مثنوی اور اشعار پڑھنے کا طرز بتا سکوں گا جو عام صحبتوں کے قابل ہے۔ (۱۷)
شبلی نعمانی جہاں دیدہ شخص تھے ۔ زندگی میں بہت سے نزدیک و دور کے اسفار نے ان کاقوتِ مشاہدہ وسیع کردیا تھا اور ۔بال خصوص سفرِیورپ کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ قوم میں جب تک خواتین کو بیدار اور ذہنی سطح پر تیار نا کیا جائے، قوم کی بہتری ممکن نہیں۔ ایسے میں خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے اور تحریک دینے کے لیے وہ عطیہ فیضی کی خدمات لینا چاہتے تھے ۔اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ ان میں تحریر و تقریر کی خوبی بھی تھی اور وہ پر اعتماد بھی تھیں۔ ان کے عطیہ فیضی کے لیے نیک جذبات اور ان کے ذریعے قوم کو جگانے کے حوالے سے یہ گوشہ بھی ان کی نظر میں تھا کہ خواتین کی معاشرتی آزادی اگرچہ برصغیر میں ممنوعہ تھی لیکن عطیہ فیضی عام معاشرتی پابندیوں کی صف سے آگے نکل چکی تھیں اور باہمت و بلند حوصلہ بھی تھیں اس لیے انھیں اب پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے تھا۔ ۲۴ فروری ۱۹۰۸ء کو تحریر کردہ خط میں اس حوالے سے لکھتے ہیں :
’’میری تجویز جو آپ کے متعلق ہے وہ یورپ سے آنے کے بعد قابلِ اظہار ہوگئی یعنی میں چاہتا ہوں کہ آپ ان مشہور عورتوں کی سپیکر اور لیکچرار بن جائیں جو انگریزاور پارسی قوم میں ممتاز ہوچکی ہیں لیکن اردو میں تا کہ ہم لوگ بھی سمجھ سکیں ۔ آپ میں ہر قسم کی قابلیت موجود ہے صرف مشق کی ضرورت ہے ۔ ہم پرانے لوگ آزادی سے بے پردہ مجامع عام میں عورتوں کا تقریر کرنا پسند نہیں کرتے لیکن آپ اس میدان میں آچکیں اس لیے اب جو کچھ ہو کمال کے درجہ پر ہو۔ ‘‘(۱۸)
چوں کہ شبلی نعمانی مسلسل عطیہ فیضی کو خطوط میں پڑھنے لکھنے کی تحریک دیتے رہتے تھے اس لیے ایسے خطوط جو زیادہ توجہ طلب ہوتے اور عطیہ پوری توجہ نا دی پاتیں ، تو ان کے بارے میں بھی نصیحت کرتے کہ جب فراغت ہو تو پڑھ لیں۔۲۳ مارچ ۱۹۰۸ء کو تحریر کردہ ایک خط میں لکھتے ہیںکہ ’’جب تم یورپ کے سفر سے واپس آجاؤ(اسے پڑھنا کہ ) اس میں تمھاری تصنیفی اور لٹریری زندگی کی تجویزیں تھیں ۔‘‘۳۳۔ اسی خط میں وہ انھیں قرآنِ مجید کے نسخے کو ارسال کرنے کی بابت بھی بات کرتے ہیں ۔ ن کے خطوط کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عطیہ فیضی بھی ان سے مسلسل رہنمائی لیتی رہتی تھیں۔ عطیہ فیضی کے خط کے جوا ب میں تحریر کرتے ہیںکہ اردو چوں کہ مادری زبان ہے اور اس میں تقریر نسبتاً آسان ہے اس لیے دل نشین انداز میں اردو ہی میں تقریر کریں۔۱۰ اپریل ۱۹۰۸ء میں تحریر کردہ خط کااقتباس ملاحظہ کیجیے :
ریفارمیشن یا اشاعتِ تعلیم یا تصنیف و مضمون نگاری ، ان تینوں میں سے پہلے مقصد کے سوائے جس کا میں اہل نہیں ہوں ، باقی تمھارے مقصد میں تم کو کافی مدد سے سکتا ہوں۔۔۔اردو میں تم اپنے مطالب نہایت خوبی سے ادا کرسکتی ہو ، اردو میں کیوں تقریر نہ کرو۔ لیکن چوں کہ میں وہاں موجود نہیں ہوں ، جس زبان میں چاہو تقریر کرو مجھے کیا اعتراض ہے۔(۱۹)
عطیہ فیضی کے نام شبلی کے خطوط کی مزید ایک بڑی تعداد موجود ہے جس میں وہ انھیں بارہا پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں، فارسی اور عربی زبان سے شناسائی کرواتے ہیں،’’قانونِ موسیقی ‘‘ ایسی کتب ارسال کرتے ہیں اورشعر کہنے کی ترغیب کے ساتھ تحریک بھی دیتے ہیں ۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ خطوطِ شبلی بنام عطیہ فیضی میں درس و تدریس دیگر تمام مظاہر میں سے اہم ترین مظہر کی صورت میں سامنے آتے ہیں ۔
——-

حوالہ جات
۱۔ظفر احمد صدیقی،شبلی( ہندوستان ادب کے معمار)،دہلی: ساہتیہ اکیڈمی، ۱۹۸۸
۲۔ایضاً
۳۔ظفر الدین، شبلی کی شخصیت : خطوط کے آئینے میں، مضمون ، مشمولہ :سہ ماہی اردوادب، شمارہ ۱،۲،۳،نئی دہلی: انجمن ترقی اردو، ۱۹۹۶
۴۔راج بہادر گوڑ، ڈاکٹر، نشاہ الثانیہ اورعلامہ شبلی : مضمون ، مشمولہ :سہ ماہی اردوادب، شمارہ ۱،۲،۳،نئی دہلی: انجمن ترقی اردو، ۱۹۹۶
۵۔ظفر الدین، شبلی کی شخصیت : خطوط کے آئینے میں۔
۶۔راج بہادر گوڑ، ڈاکٹر، نشاہ الثانیہ اورعلامہ شبلی : مضمون ، مشمولہ :سہ ماہی اردوادب، شمارہ ۱،۲،۳،نئی دہلی: انجمن ترقی اردو، ۱۹۹۶
۷۔محمد امین زبیری و سید محمد قیصر، مرتبین:خطوطِ شبلی بنام زہرا بیگم فیضی و عطیہ بیگم فیضی، ، سلطان بک ایجنسی ، آگرہ:شمسی یشن پریس، س ن
۸۔ایضاً
۹۔ایضاً
۱۰۔ایضاً
۱۱۔ایضاً
۱۲۔ایضاً
۱۳۔ایضاً ۱۹۹۹
۱۴۔ مکاتیبِ شبلی ، جلد اول، طبع دوم، ص۱۰۴، مشمولہ شبلی اور ان کی تصانیف از آفتاب احمد صدیقی ، مقالہ برائے پی ایچ ڈی،
۱۵۔ایضاً
۱۶۔ایضاً
۱۷۔ایضاً
۱۸۔ایضاً
۱۹۔ایضاً

محمد خرم یاسین
 
@
مولانا شبلی نعمانی نے اردواور فارسی زبان وادب بشمول سوانح نگاری، شاعری، تحقیق و تنقید اور مقالات کے ذریعے بلند مقام حاصل کیا اورجوعلمی سرمایہ چھوڑا اس سے تا حال عوام و خواص فیض یاب ہورہے ہیں ۔ان کے علمی ذخیرے میں عباسی خلیفہ مامون الرشید کی سوانح عمری’’المامون‘‘ (۱۸۸۸)،امام بو احنیفہ کی سیرت کے حوالے سے ’’سیرت النعمان‘‘(۱۸۹۱)،حضرت عمر فاروقؓ سے متعلق ’’الفاروق‘‘(۱۸۹۹ء )، امام غزالی سے متعلق ’’الغزالی‘‘(۱۹۰۱ء )، مولانا جلال الدین رومی کی سوانح’’سوانح مولانا روم ‘‘(۱۹۰۴)،’’ سیرۃ النبی ﷺ‘‘،’’علم الکلام‘‘(۱۹۰۲) ،’’الکلام‘‘(۱۹۰۴)،’’موازنہ انیس و دبیر‘‘( ۱۹۰۶)،’’شعر العجم (فارسی شاعری کی تاریخ )‘‘، ’’سفر نامہ روم و مصرو شام ‘‘(۱۹۸۴)اوراردو اور فارسی کلامِ شاعری بھی موجود ہے۔
مذکوہ تمام کتب کے علاوہ ان کے بکھرے ہوئے مقالات کومولانا شبلی نعمانی کے شاگردوں ۔: مولانا مسعود علی ندوی، مولوی معین الدین قدوائی نے مرتب کیا اور اس ترتیب سے شائع کیا :’’مقالاتِ شبلی ‘‘حصہ اول (مذہبی مضامین)، ’’مقالاتِ شبلی ‘‘حصہ دوم (ادبی مضامین)، ’’مقالاتِ شبلی‘‘ حصہ سوم (تعلیمی مضامین)،’’ مقالاتِ شبلی ‘‘حصہ چہارم (تنقیدی مضامین)،’’ مقالاتِ شبلی‘‘ حصہ پنجم (سوانحی مضامین)، ’’مقالاتِ شبلی ‘‘حصہ ششم (تاریخی مضامین)،’’مقالاتِ شبلی ‘‘حصہ ہفتم (فلسفیانہ مضامین)، ’’مقالاتِ شبلی‘‘ حصہ ہشتم(قومی و اخباری مضامین)(۱)مذکورہ کتب کے علاوہ ان کے ان کے خطوط کے تین مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ جن میں سے بالترتیب دو مجموعے مکاتیبِ شبلی (حصہ اول)اورمکاتیب ِ شبلی (حصہ دوم ) کو سید سلیمان ندوی نے مرتب کیا جب کہ تیسرا مجموعہ منشی محمد امین زبیری نے ترتیب دیا۔ (۲)
گو کہ مولانا شبلی نعمانی کی زندگی چوں کہ حرکت و عمل سے تعبیر تھی لیکن وہ بہر حال انسان تھے اور انسان متنوع رویوں، متضاد صفات اوربو قلمونی مزاجوں کامجموعہ ہے ۔اسی لیے کسی بھی انسان کے لیے ہمیشہ ایک سے مزاج یا رویے کا اظہار کرنا ممکن نہیں رہ سکتا۔ کبھی اسے معمولی غصہ آتا ہے تو کبھی وہ سراپا غضب بن جاتا ہے ، کبھی اس کے مزاج میں شفقت اور ر حم کے جذبات جنم لیتے ہیں اور کبھی سراپا عجز و انکسار بن جاتا ہے۔ اسی وجہ سے جہاں شبلی اپنے خطوط میں ندوۃ العلوم کے مستقبل اور نصاب سازی کے حوالے سے متفکر اور چڑ چڑا ہٹ کا شکار نظر آتے ہیں وہیں وہ چند خطوط بنام عطیہ فیضی میں عطیہ سے اظہارِ محبت و عقیدت کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں ۔ انھی چند خطوط کو سامنے رکھتے ہوئے چند ناقدین نے ’’شبلی کی حیاتِ معاشقہ ‘‘ ایسی کتب و مختلف مقالات میں بطور خاص ان کی نجی زندگی کوہدفِ تنقید بنانے کی کوشش کی ہے جب کہ مذکورہ خطوط ہی میں تعلیمِ نسواں کے حوالے سے ان کے مثبت افکار و نظریات اور تحریک کو بڑی بے دردری سے نظر انداز کردیا ہے ۔ یوں خطوطِ شبلی کے ایک اہم زاویے سے صرفِ نظر کیا گیا ہے جو کہ درست نہیں۔ظفر الدین اپنے مقالے’’ شبلی کی شخصیت : خطوط کے آئینے میں ‘‘ میں ان کے خطوط کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ان کا ایک حصہ جو مختلف نوعیت کا ہے وہ عطیہ اور ان کی بہن کے نام ہے۔ اس میں وہ زندہ دل اورخوش باش نظر آتے ہیں :
’’وہ خطوط جو انھوں نے عطیہ فیضی اور ان کی بہنوں کو لکھے ہیں ان خطوط میں ان کی شخصیت کا جمالی پہلو نمایاں ہوتا ہے اور یہاں وہ صرف ایک مولوی نہیں بلکہ زندہ دل اور زندہ جاوید انسان نظر آتے ہیں ۔ ‘‘(۳)
شبلی نعمانی ،عطیہ فیضی کو خطوط میں تعلیمِ نسواں پر زور دیتے اور اس کے حامی نظر آتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عطیہ کو اس ضمن میں تحریک بھی دیتے ہیں لیکن اس پہلو کو بھی مد نظر رکھتے ہیں کہ اس تعلیم میں بے حیائی اور بے ہودگی کا کوئی پہلو موجود نا ہو۔ باالفاظِ دیگر وہ خواتین کی ایسی تعلیم کیحق میں نہیں جو عورت کو عورت نا رہنے دے۔اکبر الہ آبادی کے افکار میں بھی تعلیم نسواںکے اس پہلو پر کڑی تنقیدی موجود ہے جو لڑکیوں کو اسلامی اور مشرقی تہذیب سے دور کردے اور دین و دنیا کہیں کا نا چھوڑے۔ شبلی نعمانی کے عطیہ کے علاوہ دیگر احباب کے نام خطوط میں بھی تعلیمِ نسواں کی حمایت ملتی ہے۔ اس ضمن میں مولانا حبیب الرحمان شیروانی کے نام ان کے ایک مکتوب کا یہ اقتباس ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:
’’ بمبئی میں عورتوں کے جلسے دیکھے، ان کی تقریریں سنیں ، ان کی قابلیت دیکھی لیکن ’’چنداں خوشی نہ ہوئی‘‘کیوں کہ ان کی سرگرمیوں میں مسلمان عورتوں کا کہیں پتہ نا تھا‘‘(۴)
شبلی چاہتے تھے کہ عورت کومردوں سے کم تر نا سمجھا جائے بلکہ اس میں زمانے کی مشکلات کو سمجھنے اور سہنے کی استعداد پیدا کی جائے تا کہ وہ نا صرف مردوں کے شانہ بشانہ قوم کی ترقی میں حصہ لے سکیں بلکہ ایک حوصلہ مند زندگی بھی گزاریں۔ اس اقدام کے لیے ان کی پہلی فکر مرد و خواتین دونوں کے لیے یکساں نصابِ تعلیم پر مرکوز تھی۔مرد و خواتین کے لیے تعلیم کا نصاب ایک ہونے کا مطلب یہی تھا کہ ان دونوں میں ذ ہنی ہم آہنگی جنم لیے اور ایک دوسرے کوکم تر نا سمجھیں۔ اسی افتراق کی وجہ سے وہ یورپی نظریہ تعلیم کے بھی خلاف تھے اور اسے بعید از عقل قرار دیتے تھے کہ اس کی وجہ سے مرد و خواتین دونوں کی فکری زندگی میں بعد کے تسلسل کے بڑھنے کے زیادہ روشن امکانات تھے۔ اس سلسلے میں عطیہ فیضی کو ۲۶ مئی ۱۹۰۹ء میں تحریر کردہ خط کا اقتباس ملاحظہ کیجیے :
’’نصابِ تعلیم کے متعلق میں سرے سے اس کا مخالف ہوں کہ عورتوں کے لیے الگ نصاب ہو ۔یہ ایک اصولی غلطی ہے جس میں یورپ بھی مبتلا ہورہا ہے۔ کوشش ہونی چاہیے کہ ان دونوں صنفوں میں جو فاصلہ پیدا ہوگیا ہے وہ کم ہوتا جائے نہ کہ اور بڑھتا جائے اور بات چیت رفتار گفتار، نشست، برخاست ، مذاقِ زبان سب الگ ہوجائیں یوں ہی تفرقہ رہتا رہا تو دونوں دو مختلف نوع ہوجائیں گے۔ ‘‘(۵)
شبلی کی تعلیمِ نسواں کی حمایت کے خطوط ہی کے حوالے سے ڈاکٹرراج بہادر گوڑ تحریر کرتے ہیں کہ وہ خواتین کی ایسی تعلیم کے حامی تھے جو اسلام کے مطابق ہو کیوں کہ اسلامی تعلیمات انھیں راہِ راست پر رکھنے میں مدد دیتی تھیں ۔ اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ:
’’ شبلی عورتوں کی تعلیم کے حامی تھے اور وہ بھی عصری۔ یہ نہیں کہ انھیں امورِ خانہ داری ہی میں محصور رکھا جائے لیکن لگتا ہے کہ کوئی انھیں پیچھے سے کھینچتا بھی ہے۔‘‘(۶)
اسی ضمن میں ان کا ایک نہایت اہم خط بنام عطیہ فیضی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جس میں وہ ندوۃ العلوم کے قیام کا مقصد یہ بیان کرتے ہیں کہ اسلامی اصولوں کے مطابق جدید دنیا کے ساتھ ہم قدم ہوا جائے نا کہ تعلیم کے ان پرانے طور طریقوںہی پر گامزن رہ کر قوم کو مزیدنقصان سے دوچار کیا جائے جو عصر حاضر میں بے سود ہوچکے ہوں۔ سر سید احمد خان کے سامنے بھی گو یہی مقصد موجود تھالیکن شبلی نے ان سے چند معاملات پر اختلاف کرتے ہوئے علیحدگی کی راہ اپنائی تھی۔عطیہ فیضی کو ندوہ کے مقاصد جو کہ درحقیقت ان کے اپنے تعلمّی کے مقاصد تھے ، کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ندوہ کا مقصد اسلام کی حمایت اور علوم دینی کا بقا ہے لیکن نہ اس طرح کہ جو پرانے خیال کے مولوی چاہتے ہیں ۔ پس گویا ندوہ مذہبی تعلیم کی اصلاحی صورت ہے۔ ‘‘(۷)
عطیہ فیضی کے نام ۲۶ مئی ۱۹۰۹ء میں تحریر کردہ ایک اور خط کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے جس میں وہ انھیں آگے بڑھنے، خواتین کی نمائندگی کرنے، علم کو عام کرنے اور تعلیمِ نسواں کے لیے کچھ کرگزرنے کے ہمت اور تحریک دیتے ہوئے فرانس کی رہنما خواتین کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔فرانس میں چوں کہ سب سے پہلی اکادمی کی بنیادبھی ایک خاتون نے ڈالی تھی، اس لیے اس خاتون کی خدمات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ:
عطیہ! تم کو معلوم ہوگا کہ فرانس میں سب سے پہلی اکاڈیمی ایک لیڈی نے قائم کی تھی۔ تم کو بھی یہ موقع ہے خود علمی مذاق ہے اور اہلِ مذاق بمبئی میں جمع ہوسکتی ہیں ۔(۸)
عطیہ فیضی کے نام تحریر کردہ ان کے ایک اورخط سے ان کے نظریہ تعلیمِ نسواں تک پہنچنے میںآسانی پیدا ہوتی ہے۔ اس میں وہ لکھتے اوریہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ مرد اس لیے عمومی طور پر ظالم تصور ہوتے ہیں کہ خواتین کو اپنے حقوق سے واقفیت نہیں یا پھر وہ معاشی طور پر بہت کمزور ہیں ۔ایک ایسی شریف النفس خاتون جو محض طلاق اور بعد از طلاق معاشی مسائل کی دھمکی کی وجہ سے ایک ساری زندگی ایسے مرد کے ساتھ گزاردیتی ہے جو جوا کھیلتا ہے، مار پیٹ کرتا ہے، نا اپنی عزت کا پا س رکھتا ہے اور نا ہی دوسروں کی عزت کا، نا کھاتا کماتا ہے اور نا ہی اولاد کی تربیت میں کسی بھی قسم کا کردار ادا کرتا ہے، تو اس میں قصور عورت کا بھی ہے۔ ان کے نزدیک یہ بھی اچھنبے کی بات ہے کہ خواتین خود پر ایک خول چڑھا لیں اور یہ تصور کر لیں کہ وہ نزاکت کا مجموعہ، روئی کا گولا یا چھوئی موئی ہیں۔ اگرچہ وہ مرد نما خواتین کو بھی پسند نہیں کرتے اور اس بات کا اظہار خطوط میں کرتے ہیں لیکن وہ بہر حال مرد نما خواتین کو اس حوالے سے چھوئی موئی خواتین پر ترجیح دیتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق سے واقف ہوں اور اپنی زندگی کے لیے لڑ سکیں ۔ گویا وہ حقوقِ نسواں کو تعلیمِ نسواں سے منسلک سمجھتے ہیں او ر اس کے حصول کے لیے انھیں ذہنی اور جسمانی دونوں سطحوں پر تیار کرنا چاہتے ہیں ۔ البتہ اس سب کے ساتھ ساتھ وہ خواتین کو اپنی گھریلو زندگی سے غافل ہوجانے کو بھی برا جانتے ہیں ۔ شبلی نعمانی چوں کہ تعلیم یافتہ تھے اور اس قسم کے خطوط کے پس منظر میں یقینا ان کے پیش نظر ایسی ماؤں کا تصور ہو گا جو قوی، با ہمت اور جرات مند ہو اور قوم کی بہتر پرورش کرسکے ۔۹ جون ۱۹۰۹ء میں تحریر کردہ خط کا یہ حصہ ملاحظہ کیجیے:
عورتوں کے متعلق تمھاری رائے ہے کہ وہ دنیوی اور معاشی علوم کم پڑھیں اور تم اس کو پسند نہیں کرتیں کہ عورتیں خود کمائیں اور کھائیں لیکن یاد رکھو مردوں نے جتنے ظلم عورتوں پر کیے اس بل پر کیے کہ عورتیں ان کی دست نگر تھیں۔ تم عورتوں کا بہادر اور دیو پیکر ہونا اچھا نہیں سمجھتی لیکن یہ تو پرانا خیال تھا کہ عورتوں کو وہاں پان چھوئی اور روئی کا گولا ہونا چاہیے ۔جمال اور حسن ، نزاکت پر موقف نہیں، تنو مندی، دلیری ، دیو پیرکی اور شجاعب میں بھی حسن وجمال قائم رہ سکتا ہے۔ مرد نما عورت زنانہ نزاکت سے زیادہ محبوب ہوسکتی ہے۔ ہاں یہ اعتراض صحیح ہے کہ موجودہ طرزِ تعلیم سے بچے خاندان سے اجنبی ہوجاتے ہیں لیکن خاندان سے زیادہ تر چسپیدگی بھی کوئی مفید چیز نہیں ۔(۹)
خطوطِ شبلی کے مطالعے سے یہ امر بھی سامنے آتا ہے کہ وہ نا صرف عطیہ فیضی کو خود تعلیمِ نسواں اور بنیادی حقوق سے آگاہ کرتے رہتے تھے بلکہ اس ضمن میں دیگر ذرائع جن میں اخبارات و رسائل وغیرہ شا مل تھے ،پڑھنے کا بھی مشورہ دیتے تھے۔ یوں ان کے خطوط عطیہ کی ذہن سازی کارجحان بہت نمایاں تھا ۔ گویا وہ عطیہ کو محض اپنی ذات تک محدود کرنے کے بجائے کائناتی حوالوں سے خود کفیل کرنا چاہتے تھے۔ ۱۹ اگست ۱۹۰۹ء کے خط مطالعے میں وسعت کی غرض سے لکھتے ہیں:
تم کو خط لکھ چکا تھا کہ ایک پولندہ آیا جس میں سلسلہ تعلیم نسواںکی چہہ ریڈریں آئیں ۔ ابتدائی حیثیت سے مجھ کو بہت پسند ہیں۔ ہر پہلو کا لحاظ رکھا ہے۔ تم بھی منگو اکر دیکھواور پسند ہوں تو وہاں استعمال کرو۔ (۱۰)
اس طرح ۲۸ اپریل ۱۹۰۹ء کو عطیہ فیضی کے نام تحریر کردہ ایک اور خط میں تحریر کرتے ہیں کہ وہ انھیں اس انداز میں فارسی پڑھانا چاہتے ہیں کہ ہر نکتہ با آسانی سمجھ میں بھی آجائے اور ’’تاج گنج ‘‘ایسی کتاب کو بھی پڑھتے ہوئے کسی مشکل کا سامنا نا کرنا پڑے۔
اپنے مکاتیب میں شبلی نعمانی نے نا صرف عطیہ فیضی کو تعلیمِ نسواں کا درس دیا، آگے بڑھنے کا حوصلہ اور ہمت پیدا کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ عملی طور پر بھی خود اس میں شریک ہوئے ۔ ان کے عطیہ فیضی کے نام ایسے متعدد خطوط موجود ہیں جن میں وہ انھیں نثر تحریر کرنے اور اس پر اصلاح لینے کی نصیحت کرتے ہیں ۔ وہ انھیں فارسی کی عالمہ بھی بنانا چاہتے تھے ۔ اس سلسلے میں ایک خط ملاحظہ کیجیے جس میں وہ عطیہ کی نثر میں محاورے کی اصلاح کرتے ہوئے درس دیتے ہیں کہ بہتر محاورہ ، زبان دانی کی علامت ہے اور تحریر و تقریر میں حسن پیدا کرتا ہے۔ اصلاح کا انداز ملاحظہ کیجیے :
آپ کی عبارت میں بعض محاورت بمبئی کے مخصوص ہیں آئندہ بچے مثلاً یہ لفظ ’’کتابیں برابر ملک گئیں‘‘ (میں)’’برابر ملنا‘‘بالکل غلط ہے۔’’بہن کا مال انھیں دے دیا‘‘مال کا لفظ ایسی چیزوں کے متعلق نہیں بولتے ۔ یہ لکھنا چاہیے کہ ’’ان کی چیزیں ان کو دے دیں‘‘(۱۱)
اسی ضمن میں ۱۰ مار چ ۱۹۰۸ء کے ایک اور خط کا نمونہ ملاحظہ کیجیے جس میں وہ بالکل بنیادی سطح کی اغلاط کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی کی اصلاح کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ وہ موازنہ انیس و دبیر اور سنخندانِ پارس کا دوسرا حصہ ملاحظہ کریں تاکہ مطالعہ میں وسعت آئے ۔
مفصل خط لکھ چکا ہوں ، ایک دو خفیف غلطیاں ظاہر کرچکاہوں اس خط میں دو ایک اور لکھتا ہوں ۔
غلط ——— صحیح
تا آپ دیکھ لیں —— تا کہ آپ دیکھ لیں
آپ کو کتنے کام ہوں گے —— آپ کو بہت سے کام ہوں گے
محاورہ کروں —— محاورہ پیدا کروں (۱۲)

اسی ضمن میں ۱۰ اپریل ۱۹۰۸ء کے ایک اور خط کا نمونہ ملاحظہ کیجیے جس میں محبت بھرے اندا ز میں سرزش کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ وہ اس اصلاح سے دل چھوٹا نا کریں اور یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں کہ مقصود ان کی اصلاح ِ زبان ہی ہے :
’’چٹکیوں میں اڑاتی ہیں‘‘رکیک اور اچھا محاورہ ہے اور جس موقع پر تم نے لکھا ہے اس کے لیے بالکل خلافِ تہذیب ہے، یہ محاورہ
سرے سے کبھی نہ لکھا کرو۔ میں تم کو بار بار ٹوکتا ہوں ، ممکن ہے کہ تم کو گراں گزرے لیکن جی نہیں مانتا تمھاری اردو کے روشن چہرہ پر داغ رہنے پائیں۔‘‘(۱۳)
مکاتیبِ شبلی کامطالعہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ عطیہ کے حوالے سے حسنِ سیرت کے زیادہ قائل تھے نا کہ حسنِ صورت کے اور حسنِ سیرت کے حوالے سے وہ اس بات کے قائل تھے کہ تعلیم کو بڑھایا جائے، اسے عملی زندگی میں اپنایا جائے اور اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی بھی لائی جائے۔ یہ خط عطیہ اور شبلی کے تعلقات کے اخلاص کا پتہ بھی دیتا ہے۔ حسن سیرت میں تعلیم کے کردار کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’تم جانتی ہو کہ حسن صورت کی نوبت ہوچکی۔ میری قسمت میں دونوں کا اجتماع نہ تھا ۔ اب کوئی چیز ما یہ تسکین ہوسکتی ہے تو صرف حسنِ سیرت ہے۔ اس کے لیے سب سے مقدم تعلیم ہے۔‘‘(۱۴)
عطیہ فیضی کی ناراضی یاسیکھنے کے عمل میں دل چھوٹانا کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے ان کی تقریر کی تعریف کرتے ہیں اور پھر اہلِ زبان کے مطابق روز مر ہ اور محاورے کی اصلاح کے ضمن میں ۱۱ اپریل ۱۹۰۸ء میں تحریر کرہ خط میں لکھتے ہیں کہ:
اس خط میں دوبارہ سے چٹکیوں میں اڑانا محاورہ کی تصحیح کے بعد دوبارہ اصلاح دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ:
’’ڈاکٹر کہتے ہیں سو رہو‘‘(میں) ’’سو رہو‘‘ کے بجائے ’’لیٹے رہو‘‘ لکھنا چاہیے ،میرا ہر خط جواب طلب نہیں ہوتا ۔اس لیے ان خطوں کو بارنہ خیال کرو اور جواب کے خیال سے نہ گھبراؤ۔(۱۵)
شبلی نعمانی کی اصلاح کے تسلسل ہی میں ایک اورخط ملاحظہ کیجیے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کی تدریس کے حوالے سے حقیقتاً سنجیدہ تھے اسی لیے ایسی باتیں بھی اصلاح کے ضمن میں تحریر کرجاتے تھے جن کی وجہ سے عطیہ فیضی کی دل شکنی ہوسکتی ہو۔ ۱۶ اکتوبر ۱۹۰۸ء کے خط میں لکھتے ہیں:
معاف کرویورپ جا کر انگریزی میںتم نے ترقی کی لیکن اردو زبان بگاڑ لائیں۔ ’’احسان مانتی ہوں ‘‘۔۔،’’تکلیف لیتے ہیں ‘‘،’’فائدہ لیتی ہوں ‘‘، ’’بہت تجویزا‘‘ یہ سب محاورے نہایت غلط اور عوامِ دکن کی زبان ہے۔ (۱۶)
اسی ضمن میں شبلی نعمانی کا ۲۹ مئی۱۹۰۹ ء کا خط بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جس میں وہ زبان دانی کی باقاعدہ تعلیم کے حوالے سے انھیں مراحل سکھاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس طرح تیزی سے اس میدان میںآگے بڑھا جاسکتا ہے۔اس ضمن میں پہلا مرحلہ انھوںنے محاورہ اور روز مرہ سیکھنے کا بیان کیا ہے، پھر اسے اپنی تحریر و تقریر میں رچا بسا لینے کا ہے، پھر شاعری کی تعلیم کا۔ لکھتے ہیں:
سب سے پہلا مرحلہ زبان کا ہے یعنی زبان محاورہ اور روز مرہ سے مزا لینا اور لطف اٹھانا۔ اول تو زبان اور محاورہ سے واقف ہونا چاہیے پھر یہ کافی نہیں ہے بلکہ اس سے طبیعت کو لطف اٹھانا شرط ہے۔ ۔۔معنی سمجھ لینا اور چیز ہے اور لطف اٹھانا اور چیز ہے ۔ گانا سب سنتے ہیں اور معمولی طور سے سمجھ بھی لیتے ہیں لیکن جو شخص گانا سن کر بے تاب ہوجاتا ہے اور تڑپ جاتا ہے اصل میں گانا اسی کے لے ہے۔۔۔میں رواں مثنوی اور اشعار پڑھنے کا طرز بتا سکوں گا جو عام صحبتوں کے قابل ہے۔ (۱۷)
شبلی نعمانی جہاں دیدہ شخص تھے ۔ زندگی میں بہت سے نزدیک و دور کے اسفار نے ان کاقوتِ مشاہدہ وسیع کردیا تھا اور ۔بال خصوص سفرِیورپ کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ قوم میں جب تک خواتین کو بیدار اور ذہنی سطح پر تیار نا کیا جائے، قوم کی بہتری ممکن نہیں۔ ایسے میں خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے اور تحریک دینے کے لیے وہ عطیہ فیضی کی خدمات لینا چاہتے تھے ۔اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ ان میں تحریر و تقریر کی خوبی بھی تھی اور وہ پر اعتماد بھی تھیں۔ ان کے عطیہ فیضی کے لیے نیک جذبات اور ان کے ذریعے قوم کو جگانے کے حوالے سے یہ گوشہ بھی ان کی نظر میں تھا کہ خواتین کی معاشرتی آزادی اگرچہ برصغیر میں ممنوعہ تھی لیکن عطیہ فیضی عام معاشرتی پابندیوں کی صف سے آگے نکل چکی تھیں اور باہمت و بلند حوصلہ بھی تھیں اس لیے انھیں اب پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے تھا۔ ۲۴ فروری ۱۹۰۸ء کو تحریر کردہ خط میں اس حوالے سے لکھتے ہیں :
’’میری تجویز جو آپ کے متعلق ہے وہ یورپ سے آنے کے بعد قابلِ اظہار ہوگئی یعنی میں چاہتا ہوں کہ آپ ان مشہور عورتوں کی سپیکر اور لیکچرار بن جائیں جو انگریزاور پارسی قوم میں ممتاز ہوچکی ہیں لیکن اردو میں تا کہ ہم لوگ بھی سمجھ سکیں ۔ آپ میں ہر قسم کی قابلیت موجود ہے صرف مشق کی ضرورت ہے ۔ ہم پرانے لوگ آزادی سے بے پردہ مجامع عام میں عورتوں کا تقریر کرنا پسند نہیں کرتے لیکن آپ اس میدان میں آچکیں اس لیے اب جو کچھ ہو کمال کے درجہ پر ہو۔ ‘‘(۱۸)
چوں کہ شبلی نعمانی مسلسل عطیہ فیضی کو خطوط میں پڑھنے لکھنے کی تحریک دیتے رہتے تھے اس لیے ایسے خطوط جو زیادہ توجہ طلب ہوتے اور عطیہ پوری توجہ نا دی پاتیں ، تو ان کے بارے میں بھی نصیحت کرتے کہ جب فراغت ہو تو پڑھ لیں۔۲۳ مارچ ۱۹۰۸ء کو تحریر کردہ ایک خط میں لکھتے ہیںکہ ’’جب تم یورپ کے سفر سے واپس آجاؤ(اسے پڑھنا کہ ) اس میں تمھاری تصنیفی اور لٹریری زندگی کی تجویزیں تھیں ۔‘‘۳۳۔ اسی خط میں وہ انھیں قرآنِ مجید کے نسخے کو ارسال کرنے کی بابت بھی بات کرتے ہیں ۔ ن کے خطوط کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عطیہ فیضی بھی ان سے مسلسل رہنمائی لیتی رہتی تھیں۔ عطیہ فیضی کے خط کے جوا ب میں تحریر کرتے ہیںکہ اردو چوں کہ مادری زبان ہے اور اس میں تقریر نسبتاً آسان ہے اس لیے دل نشین انداز میں اردو ہی میں تقریر کریں۔۱۰ اپریل ۱۹۰۸ء میں تحریر کردہ خط کااقتباس ملاحظہ کیجیے :
ریفارمیشن یا اشاعتِ تعلیم یا تصنیف و مضمون نگاری ، ان تینوں میں سے پہلے مقصد کے سوائے جس کا میں اہل نہیں ہوں ، باقی تمھارے مقصد میں تم کو کافی مدد سے سکتا ہوں۔۔۔اردو میں تم اپنے مطالب نہایت خوبی سے ادا کرسکتی ہو ، اردو میں کیوں تقریر نہ کرو۔ لیکن چوں کہ میں وہاں موجود نہیں ہوں ، جس زبان میں چاہو تقریر کرو مجھے کیا اعتراض ہے۔(۱۹)
عطیہ فیضی کے نام شبلی کے خطوط کی مزید ایک بڑی تعداد موجود ہے جس میں وہ انھیں بارہا پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں، فارسی اور عربی زبان سے شناسائی کرواتے ہیں،’’قانونِ موسیقی ‘‘ ایسی کتب ارسال کرتے ہیں اورشعر کہنے کی ترغیب کے ساتھ تحریک بھی دیتے ہیں ۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ خطوطِ شبلی بنام عطیہ فیضی میں درس و تدریس دیگر تمام مظاہر میں سے اہم ترین مظہر کی صورت میں سامنے آتے ہیں ۔
——-

حوالہ جات
۱۔ظفر احمد صدیقی،شبلی( ہندوستان ادب کے معمار)،دہلی: ساہتیہ اکیڈمی، ۱۹۸۸
۲۔ایضاً
۳۔ظفر الدین، شبلی کی شخصیت : خطوط کے آئینے میں، مضمون ، مشمولہ :سہ ماہی اردوادب، شمارہ ۱،۲،۳،نئی دہلی: انجمن ترقی اردو، ۱۹۹۶
۴۔راج بہادر گوڑ، ڈاکٹر، نشاہ الثانیہ اورعلامہ شبلی : مضمون ، مشمولہ :سہ ماہی اردوادب، شمارہ ۱،۲،۳،نئی دہلی: انجمن ترقی اردو، ۱۹۹۶
۵۔ظفر الدین، شبلی کی شخصیت : خطوط کے آئینے میں۔
۶۔راج بہادر گوڑ، ڈاکٹر، نشاہ الثانیہ اورعلامہ شبلی : مضمون ، مشمولہ :سہ ماہی اردوادب، شمارہ ۱،۲،۳،نئی دہلی: انجمن ترقی اردو، ۱۹۹۶
۷۔محمد امین زبیری و سید محمد قیصر، مرتبین:خطوطِ شبلی بنام زہرا بیگم فیضی و عطیہ بیگم فیضی، ، سلطان بک ایجنسی ، آگرہ:شمسی یشن پریس، س ن
۸۔ایضاً
۹۔ایضاً
۱۰۔ایضاً
۱۱۔ایضاً
۱۲۔ایضاً
۱۳۔ایضاً ۱۹۹۹
۱۴۔ مکاتیبِ شبلی ، جلد اول، طبع دوم، ص۱۰۴، مشمولہ شبلی اور ان کی تصانیف از آفتاب احمد صدیقی ، مقالہ برائے پی ایچ ڈی،
۱۵۔ایضاً
۱۶۔ایضاً
۱۷۔ایضاً
۱۸۔ایضاً
۱۹۔ایضاً

محمد خرم یاسین
ظہیراحمدظہیر جاسمن نیرنگ خیال
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکتہ۔کافی عرصہ پہلے یہ مضمون یہاں شامل کیا تھا۔ نئے مضامین تو چوں کہ تیاری کے مراحل میں ہیں، آپ یہ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
مذکوہ تمام کتب کے علاوہ ان کے بکھرے ہوئے مقالات کومولانا شبلی نعمانی کے شاگردوں ۔: مولانا مسعود علی ندوی، مولوی معین الدین قدوائی نے مرتب کیا اور اس ترتیب سے شائع کیا :’’مقالاتِ شبلی ‘‘حصہ اول (مذہبی مضامین)، ’’مقالاتِ شبلی ‘‘حصہ دوم (ادبی مضامین)، ’’مقالاتِ شبلی‘‘ حصہ سوم (تعلیمی مضامین)،’’ مقالاتِ شبلی ‘‘حصہ چہارم (تنقیدی مضامین)،’’ مقالاتِ شبلی‘‘ حصہ پنجم (سوانحی مضامین)، ’’مقالاتِ شبلی ‘‘حصہ ششم (تاریخی مضامین)،’’مقالاتِ شبلی ‘‘حصہ ہفتم (فلسفیانہ مضامین)، ’’مقالاتِ شبلی‘‘ حصہ ہشتم(قومی و اخباری مضامین)(۱)مذکورہ کتب کے علاوہ ان کے ان کے خطوط کے تین مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ جن میں سے بالترتیب دو مجموعے مکاتیبِ شبلی (حصہ اول)اورمکاتیب ِ شبلی (حصہ دوم ) کو سید سلیمان ندوی نے مرتب کیا جب کہ تیسرا مجموعہ منشی محمد امین زبیری نے ترتیب دیا۔ (۲)
گو کہ مولانا شبلی نعمانی کی زندگی چوں کہ حرکت و عمل سے تعبیر تھی لیکن وہ بہر حال انسان تھے اور انسان متنوع رویوں، متضاد صفات اوربو قلمونی مزاجوں کامجموعہ ہے ۔اسی لیے کسی بھی انسان کے لیے ہمیشہ ایک سے مزاج یا رویے کا اظہار کرنا ممکن نہیں رہ سکتا۔ کبھی اسے معمولی غصہ آتا ہے تو کبھی وہ سراپا غضب بن جاتا ہے ، کبھی اس کے مزاج میں شفقت اور ر حم کے جذبات جنم لیتے ہیں اور کبھی سراپا عجز و انکسار بن جاتا ہے۔ اسی وجہ سے جہاں شبلی اپنے خطوط میں ندوۃ العلوم کے مستقبل اور نصاب سازی کے حوالے سے متفکر اور چڑ چڑا ہٹ کا شکار نظر آتے ہیں وہیں وہ چند خطوط بنام عطیہ فیضی میں عطیہ سے اظہارِ محبت و عقیدت کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں ۔ انھی چند خطوط کو سامنے رکھتے ہوئے چند ناقدین نے ’’شبلی کی حیاتِ معاشقہ ‘‘ ایسی کتب و مختلف مقالات میں بطور خاص ان کی نجی زندگی کوہدفِ تنقید بنانے کی کوشش کی ہے جب کہ مذکورہ خطوط ہی میں تعلیمِ نسواں کے حوالے سے ان کے مثبت افکار و نظریات اور تحریک کو بڑی بے دردری سے نظر انداز کردیا ہے ۔ یوں خطوطِ شبلی کے ایک اہم زاویے سے صرفِ نظر کیا گیا ہے جو کہ درست نہیں۔ظفر الدین اپنے مقالے’’ شبلی کی شخصیت : خطوط کے آئینے میں ‘‘ میں ان کے خطوط کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ان کا ایک حصہ جو مختلف نوعیت کا ہے وہ عطیہ اور ان کی بہن کے نام ہے۔ اس میں وہ زندہ دل اورخوش باش نظر آتے ہیں :
’’وہ خطوط جو انھوں نے عطیہ فیضی اور ان کی بہنوں کو لکھے ہیں ان خطوط میں ان کی شخصیت کا جمالی پہلو نمایاں ہوتا ہے اور یہاں وہ صرف ایک مولوی نہیں بلکہ زندہ دل اور زندہ جاوید انسان نظر آتے ہیں ۔ ‘‘(۳)
شبلی نعمانی ،عطیہ فیضی کو خطوط میں تعلیمِ نسواں پر زور دیتے اور اس کے حامی نظر آتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عطیہ کو اس ضمن میں تحریک بھی دیتے ہیں لیکن اس پہلو کو بھی مد نظر رکھتے ہیں کہ اس تعلیم میں بے حیائی اور بے ہودگی کا کوئی پہلو موجود نا ہو۔ باالفاظِ دیگر وہ خواتین کی ایسی تعلیم کیحق میں نہیں جو عورت کو عورت نا رہنے دے۔اکبر الہ آبادی کے افکار میں بھی تعلیم نسواںکے اس پہلو پر کڑی تنقیدی موجود ہے جو لڑکیوں کو اسلامی اور مشرقی تہذیب سے دور کردے اور دین و دنیا کہیں کا نا چھوڑے۔ شبلی نعمانی کے عطیہ کے علاوہ دیگر احباب کے نام خطوط میں بھی تعلیمِ نسواں کی حمایت ملتی ہے۔ اس ضمن میں مولانا حبیب الرحمان شیروانی کے نام ان کے ایک مکتوب کا یہ اقتباس ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:
’’ بمبئی میں عورتوں کے جلسے دیکھے، ان کی تقریریں سنیں ، ان کی قابلیت دیکھی لیکن ’’چنداں خوشی نہ ہوئی‘‘کیوں کہ ان کی سرگرمیوں میں مسلمان عورتوں کا کہیں پتہ نا تھا‘‘(۴)
شبلی چاہتے تھے کہ عورت کومردوں سے کم تر نا سمجھا جائے بلکہ اس میں زمانے کی مشکلات کو سمجھنے اور سہنے کی استعداد پیدا کی جائے تا کہ وہ نا صرف مردوں کے شانہ بشانہ قوم کی ترقی میں حصہ لے سکیں بلکہ ایک حوصلہ مند زندگی بھی گزاریں۔ اس اقدام کے لیے ان کی پہلی فکر مرد و خواتین دونوں کے لیے یکساں نصابِ تعلیم پر مرکوز تھی۔مرد و خواتین کے لیے تعلیم کا نصاب ایک ہونے کا مطلب یہی تھا کہ ان دونوں میں ذ ہنی ہم آہنگی جنم لیے اور ایک دوسرے کوکم تر نا سمجھیں۔ اسی افتراق کی وجہ سے وہ یورپی نظریہ تعلیم کے بھی خلاف تھے اور اسے بعید از عقل قرار دیتے تھے کہ اس کی وجہ سے مرد و خواتین دونوں کی فکری زندگی میں بعد کے تسلسل کے بڑھنے کے زیادہ روشن امکانات تھے۔ اس سلسلے میں عطیہ فیضی کو ۲۶ مئی ۱۹۰۹ء میں تحریر کردہ خط کا اقتباس ملاحظہ کیجیے :
’’نصابِ تعلیم کے متعلق میں سرے سے اس کا مخالف ہوں کہ عورتوں کے لیے الگ نصاب ہو ۔یہ ایک اصولی غلطی ہے جس میں یورپ بھی مبتلا ہورہا ہے۔ کوشش ہونی چاہیے کہ ان دونوں صنفوں میں جو فاصلہ پیدا ہوگیا ہے وہ کم ہوتا جائے نہ کہ اور بڑھتا جائے اور بات چیت رفتار گفتار، نشست، برخاست ، مذاقِ زبان سب الگ ہوجائیں یوں ہی تفرقہ رہتا رہا تو دونوں دو مختلف نوع ہوجائیں گے۔ ‘‘(۵)
شبلی کی تعلیمِ نسواں کی حمایت کے خطوط ہی کے حوالے سے ڈاکٹرراج بہادر گوڑ تحریر کرتے ہیں کہ وہ خواتین کی ایسی تعلیم کے حامی تھے جو اسلام کے مطابق ہو کیوں کہ اسلامی تعلیمات انھیں راہِ راست پر رکھنے میں مدد دیتی تھیں ۔ اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ:
’’ شبلی عورتوں کی تعلیم کے حامی تھے اور وہ بھی عصری۔ یہ نہیں کہ انھیں امورِ خانہ داری ہی میں محصور رکھا جائے لیکن لگتا ہے کہ کوئی انھیں پیچھے سے کھینچتا بھی ہے۔‘‘(۶)
اسی ضمن میں ان کا ایک نہایت اہم خط بنام عطیہ فیضی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جس میں وہ ندوۃ العلوم کے قیام کا مقصد یہ بیان کرتے ہیں کہ اسلامی اصولوں کے مطابق جدید دنیا کے ساتھ ہم قدم ہوا جائے نا کہ تعلیم کے ان پرانے طور طریقوںہی پر گامزن رہ کر قوم کو مزیدنقصان سے دوچار کیا جائے جو عصر حاضر میں بے سود ہوچکے ہوں۔ سر سید احمد خان کے سامنے بھی گو یہی مقصد موجود تھالیکن شبلی نے ان سے چند معاملات پر اختلاف کرتے ہوئے علیحدگی کی راہ اپنائی تھی۔عطیہ فیضی کو ندوہ کے مقاصد جو کہ درحقیقت ان کے اپنے تعلمّی کے مقاصد تھے ، کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ندوہ کا مقصد اسلام کی حمایت اور علوم دینی کا بقا ہے لیکن نہ اس طرح کہ جو پرانے خیال کے مولوی چاہتے ہیں ۔ پس گویا ندوہ مذہبی تعلیم کی اصلاحی صورت ہے۔ ‘‘(۷)
عطیہ فیضی کے نام ۲۶ مئی ۱۹۰۹ء میں تحریر کردہ ایک اور خط کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے جس میں وہ انھیں آگے بڑھنے، خواتین کی نمائندگی کرنے، علم کو عام کرنے اور تعلیمِ نسواں کے لیے کچھ کرگزرنے کے ہمت اور تحریک دیتے ہوئے فرانس کی رہنما خواتین کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔فرانس میں چوں کہ سب سے پہلی اکادمی کی بنیادبھی ایک خاتون نے ڈالی تھی، اس لیے اس خاتون کی خدمات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ:
عطیہ! تم کو معلوم ہوگا کہ فرانس میں سب سے پہلی اکاڈیمی ایک لیڈی نے قائم کی تھی۔ تم کو بھی یہ موقع ہے خود علمی مذاق ہے اور اہلِ مذاق بمبئی میں جمع ہوسکتی ہیں ۔(۸)
عطیہ فیضی کے نام تحریر کردہ ان کے ایک اورخط سے ان کے نظریہ تعلیمِ نسواں تک پہنچنے میںآسانی پیدا ہوتی ہے۔ اس میں وہ لکھتے اوریہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ مرد اس لیے عمومی طور پر ظالم تصور ہوتے ہیں کہ خواتین کو اپنے حقوق سے واقفیت نہیں یا پھر وہ معاشی طور پر بہت کمزور ہیں ۔ایک ایسی شریف النفس خاتون جو محض طلاق اور بعد از طلاق معاشی مسائل کی دھمکی کی وجہ سے ایک ساری زندگی ایسے مرد کے ساتھ گزاردیتی ہے جو جوا کھیلتا ہے، مار پیٹ کرتا ہے، نا اپنی عزت کا پا س رکھتا ہے اور نا ہی دوسروں کی عزت کا، نا کھاتا کماتا ہے اور نا ہی اولاد کی تربیت میں کسی بھی قسم کا کردار ادا کرتا ہے، تو اس میں قصور عورت کا بھی ہے۔ ان کے نزدیک یہ بھی اچھنبے کی بات ہے کہ خواتین خود پر ایک خول چڑھا لیں اور یہ تصور کر لیں کہ وہ نزاکت کا مجموعہ، روئی کا گولا یا چھوئی موئی ہیں۔ اگرچہ وہ مرد نما خواتین کو بھی پسند نہیں کرتے اور اس بات کا اظہار خطوط میں کرتے ہیں لیکن وہ بہر حال مرد نما خواتین کو اس حوالے سے چھوئی موئی خواتین پر ترجیح دیتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق سے واقف ہوں اور اپنی زندگی کے لیے لڑ سکیں ۔ گویا وہ حقوقِ نسواں کو تعلیمِ نسواں سے منسلک سمجھتے ہیں او ر اس کے حصول کے لیے انھیں ذہنی اور جسمانی دونوں سطحوں پر تیار کرنا چاہتے ہیں ۔ البتہ اس سب کے ساتھ ساتھ وہ خواتین کو اپنی گھریلو زندگی سے غافل ہوجانے کو بھی برا جانتے ہیں ۔ شبلی نعمانی چوں کہ تعلیم یافتہ تھے اور اس قسم کے خطوط کے پس منظر میں یقینا ان کے پیش نظر ایسی ماؤں کا تصور ہو گا جو قوی، با ہمت اور جرات مند ہو اور قوم کی بہتر پرورش کرسکے ۔۹ جون ۱۹۰۹ء میں تحریر کردہ خط کا یہ حصہ ملاحظہ کیجیے:
عورتوں کے متعلق تمھاری رائے ہے کہ وہ دنیوی اور معاشی علوم کم پڑھیں اور تم اس کو پسند نہیں کرتیں کہ عورتیں خود کمائیں اور کھائیں لیکن یاد رکھو مردوں نے جتنے ظلم عورتوں پر کیے اس بل پر کیے کہ عورتیں ان کی دست نگر تھیں۔ تم عورتوں کا بہادر اور دیو پیکر ہونا اچھا نہیں سمجھتی لیکن یہ تو پرانا خیال تھا کہ عورتوں کو وہاں پان چھوئی اور روئی کا گولا ہونا چاہیے ۔جمال اور حسن ، نزاکت پر موقف نہیں، تنو مندی، دلیری ، دیو پیرکی اور شجاعب میں بھی حسن وجمال قائم رہ سکتا ہے۔ مرد نما عورت زنانہ نزاکت سے زیادہ محبوب ہوسکتی ہے۔ ہاں یہ اعتراض صحیح ہے کہ موجودہ طرزِ تعلیم سے بچے خاندان سے اجنبی ہوجاتے ہیں لیکن خاندان سے زیادہ تر چسپیدگی بھی کوئی مفید چیز نہیں ۔(۹)
خطوطِ شبلی کے مطالعے سے یہ امر بھی سامنے آتا ہے کہ وہ نا صرف عطیہ فیضی کو خود تعلیمِ نسواں اور بنیادی حقوق سے آگاہ کرتے رہتے تھے بلکہ اس ضمن میں دیگر ذرائع جن میں اخبارات و رسائل وغیرہ شا مل تھے ،پڑھنے کا بھی مشورہ دیتے تھے۔ یوں ان کے خطوط عطیہ کی ذہن سازی کارجحان بہت نمایاں تھا ۔ گویا وہ عطیہ کو محض اپنی ذات تک محدود کرنے کے بجائے کائناتی حوالوں سے خود کفیل کرنا چاہتے تھے۔ ۱۹ اگست ۱۹۰۹ء کے خط مطالعے میں وسعت کی غرض سے لکھتے ہیں:
تم کو خط لکھ چکا تھا کہ ایک پولندہ آیا جس میں سلسلہ تعلیم نسواںکی چہہ ریڈریں آئیں ۔ ابتدائی حیثیت سے مجھ کو بہت پسند ہیں۔ ہر پہلو کا لحاظ رکھا ہے۔ تم بھی منگو اکر دیکھواور پسند ہوں تو وہاں استعمال کرو۔ (۱۰)
اس طرح ۲۸ اپریل ۱۹۰۹ء کو عطیہ فیضی کے نام تحریر کردہ ایک اور خط میں تحریر کرتے ہیں کہ وہ انھیں اس انداز میں فارسی پڑھانا چاہتے ہیں کہ ہر نکتہ با آسانی سمجھ میں بھی آجائے اور ’’تاج گنج ‘‘ایسی کتاب کو بھی پڑھتے ہوئے کسی مشکل کا سامنا نا کرنا پڑے۔
اپنے مکاتیب میں شبلی نعمانی نے نا صرف عطیہ فیضی کو تعلیمِ نسواں کا درس دیا، آگے بڑھنے کا حوصلہ اور ہمت پیدا کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ عملی طور پر بھی خود اس میں شریک ہوئے ۔ ان کے عطیہ فیضی کے نام ایسے متعدد خطوط موجود ہیں جن میں وہ انھیں نثر تحریر کرنے اور اس پر اصلاح لینے کی نصیحت کرتے ہیں ۔ وہ انھیں فارسی کی عالمہ بھی بنانا چاہتے تھے ۔ اس سلسلے میں ایک خط ملاحظہ کیجیے جس میں وہ عطیہ کی نثر میں محاورے کی اصلاح کرتے ہوئے درس دیتے ہیں کہ بہتر محاورہ ، زبان دانی کی علامت ہے اور تحریر و تقریر میں حسن پیدا کرتا ہے۔ اصلاح کا انداز ملاحظہ کیجیے :
آپ کی عبارت میں بعض محاورت بمبئی کے مخصوص ہیں آئندہ بچے مثلاً یہ لفظ ’’کتابیں برابر ملک گئیں‘‘ (میں)’’برابر ملنا‘‘بالکل غلط ہے۔’’بہن کا مال انھیں دے دیا‘‘مال کا لفظ ایسی چیزوں کے متعلق نہیں بولتے ۔ یہ لکھنا چاہیے کہ ’’ان کی چیزیں ان کو دے دیں‘‘(۱۱)
اسی ضمن میں ۱۰ مار چ ۱۹۰۸ء کے ایک اور خط کا نمونہ ملاحظہ کیجیے جس میں وہ بالکل بنیادی سطح کی اغلاط کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی کی اصلاح کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ وہ موازنہ انیس و دبیر اور سنخندانِ پارس کا دوسرا حصہ ملاحظہ کریں تاکہ مطالعہ میں وسعت آئے ۔
مفصل خط لکھ چکا ہوں ، ایک دو خفیف غلطیاں ظاہر کرچکاہوں اس خط میں دو ایک اور لکھتا ہوں ۔
غلط ——— صحیح
تا آپ دیکھ لیں —— تا کہ آپ دیکھ لیں
آپ کو کتنے کام ہوں گے —— آپ کو بہت سے کام ہوں گے
محاورہ کروں —— محاورہ پیدا کروں (۱۲)

اسی ضمن میں ۱۰ اپریل ۱۹۰۸ء کے ایک اور خط کا نمونہ ملاحظہ کیجیے جس میں محبت بھرے اندا ز میں سرزش کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ وہ اس اصلاح سے دل چھوٹا نا کریں اور یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں کہ مقصود ان کی اصلاح ِ زبان ہی ہے :
’’چٹکیوں میں اڑاتی ہیں‘‘رکیک اور اچھا محاورہ ہے اور جس موقع پر تم نے لکھا ہے اس کے لیے بالکل خلافِ تہذیب ہے، یہ محاورہ
سرے سے کبھی نہ لکھا کرو۔ میں تم کو بار بار ٹوکتا ہوں ، ممکن ہے کہ تم کو گراں گزرے لیکن جی نہیں مانتا تمھاری اردو کے روشن چہرہ پر داغ رہنے پائیں۔‘‘(۱۳)
مکاتیبِ شبلی کامطالعہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ عطیہ کے حوالے سے حسنِ سیرت کے زیادہ قائل تھے نا کہ حسنِ صورت کے اور حسنِ سیرت کے حوالے سے وہ اس بات کے قائل تھے کہ تعلیم کو بڑھایا جائے، اسے عملی زندگی میں اپنایا جائے اور اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی بھی لائی جائے۔ یہ خط عطیہ اور شبلی کے تعلقات کے اخلاص کا پتہ بھی دیتا ہے۔ حسن سیرت میں تعلیم کے کردار کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’تم جانتی ہو کہ حسن صورت کی نوبت ہوچکی۔ میری قسمت میں دونوں کا اجتماع نہ تھا ۔ اب کوئی چیز ما یہ تسکین ہوسکتی ہے تو صرف حسنِ سیرت ہے۔ اس کے لیے سب سے مقدم تعلیم ہے۔‘‘(۱۴)
عطیہ فیضی کی ناراضی یاسیکھنے کے عمل میں دل چھوٹانا کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے ان کی تقریر کی تعریف کرتے ہیں اور پھر اہلِ زبان کے مطابق روز مر ہ اور محاورے کی اصلاح کے ضمن میں ۱۱ اپریل ۱۹۰۸ء میں تحریر کرہ خط میں لکھتے ہیں کہ:
اس خط میں دوبارہ سے چٹکیوں میں اڑانا محاورہ کی تصحیح کے بعد دوبارہ اصلاح دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ:
’’ڈاکٹر کہتے ہیں سو رہو‘‘(میں) ’’سو رہو‘‘ کے بجائے ’’لیٹے رہو‘‘ لکھنا چاہیے ،میرا ہر خط جواب طلب نہیں ہوتا ۔اس لیے ان خطوں کو بارنہ خیال کرو اور جواب کے خیال سے نہ گھبراؤ۔(۱۵)
شبلی نعمانی کی اصلاح کے تسلسل ہی میں ایک اورخط ملاحظہ کیجیے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کی تدریس کے حوالے سے حقیقتاً سنجیدہ تھے اسی لیے ایسی باتیں بھی اصلاح کے ضمن میں تحریر کرجاتے تھے جن کی وجہ سے عطیہ فیضی کی دل شکنی ہوسکتی ہو۔ ۱۶ اکتوبر ۱۹۰۸ء کے خط میں لکھتے ہیں:
معاف کرویورپ جا کر انگریزی میںتم نے ترقی کی لیکن اردو زبان بگاڑ لائیں۔ ’’احسان مانتی ہوں ‘‘۔۔،’’تکلیف لیتے ہیں ‘‘،’’فائدہ لیتی ہوں ‘‘، ’’بہت تجویزا‘‘ یہ سب محاورے نہایت غلط اور عوامِ دکن کی زبان ہے۔ (۱۶)
اسی ضمن میں شبلی نعمانی کا ۲۹ مئی۱۹۰۹ ء کا خط بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جس میں وہ زبان دانی کی باقاعدہ تعلیم کے حوالے سے انھیں مراحل سکھاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس طرح تیزی سے اس میدان میںآگے بڑھا جاسکتا ہے۔اس ضمن میں پہلا مرحلہ انھوںنے محاورہ اور روز مرہ سیکھنے کا بیان کیا ہے، پھر اسے اپنی تحریر و تقریر میں رچا بسا لینے کا ہے، پھر شاعری کی تعلیم کا۔ لکھتے ہیں:
سب سے پہلا مرحلہ زبان کا ہے یعنی زبان محاورہ اور روز مرہ سے مزا لینا اور لطف اٹھانا۔ اول تو زبان اور محاورہ سے واقف ہونا چاہیے پھر یہ کافی نہیں ہے بلکہ اس سے طبیعت کو لطف اٹھانا شرط ہے۔ ۔۔معنی سمجھ لینا اور چیز ہے اور لطف اٹھانا اور چیز ہے ۔ گانا سب سنتے ہیں اور معمولی طور سے سمجھ بھی لیتے ہیں لیکن جو شخص گانا سن کر بے تاب ہوجاتا ہے اور تڑپ جاتا ہے اصل میں گانا اسی کے لے ہے۔۔۔میں رواں مثنوی اور اشعار پڑھنے کا طرز بتا سکوں گا جو عام صحبتوں کے قابل ہے۔ (۱۷)
شبلی نعمانی جہاں دیدہ شخص تھے ۔ زندگی میں بہت سے نزدیک و دور کے اسفار نے ان کاقوتِ مشاہدہ وسیع کردیا تھا اور ۔بال خصوص سفرِیورپ کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ قوم میں جب تک خواتین کو بیدار اور ذہنی سطح پر تیار نا کیا جائے، قوم کی بہتری ممکن نہیں۔ ایسے میں خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے اور تحریک دینے کے لیے وہ عطیہ فیضی کی خدمات لینا چاہتے تھے ۔اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ ان میں تحریر و تقریر کی خوبی بھی تھی اور وہ پر اعتماد بھی تھیں۔ ان کے عطیہ فیضی کے لیے نیک جذبات اور ان کے ذریعے قوم کو جگانے کے حوالے سے یہ گوشہ بھی ان کی نظر میں تھا کہ خواتین کی معاشرتی آزادی اگرچہ برصغیر میں ممنوعہ تھی لیکن عطیہ فیضی عام معاشرتی پابندیوں کی صف سے آگے نکل چکی تھیں اور باہمت و بلند حوصلہ بھی تھیں اس لیے انھیں اب پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے تھا۔ ۲۴ فروری ۱۹۰۸ء کو تحریر کردہ خط میں اس حوالے سے لکھتے ہیں :
’’میری تجویز جو آپ کے متعلق ہے وہ یورپ سے آنے کے بعد قابلِ اظہار ہوگئی یعنی میں چاہتا ہوں کہ آپ ان مشہور عورتوں کی سپیکر اور لیکچرار بن جائیں جو انگریزاور پارسی قوم میں ممتاز ہوچکی ہیں لیکن اردو میں تا کہ ہم لوگ بھی سمجھ سکیں ۔ آپ میں ہر قسم کی قابلیت موجود ہے صرف مشق کی ضرورت ہے ۔ ہم پرانے لوگ آزادی سے بے پردہ مجامع عام میں عورتوں کا تقریر کرنا پسند نہیں کرتے لیکن آپ اس میدان میں آچکیں اس لیے اب جو کچھ ہو کمال کے درجہ پر ہو۔ ‘‘(۱۸)
چوں کہ شبلی نعمانی مسلسل عطیہ فیضی کو خطوط میں پڑھنے لکھنے کی تحریک دیتے رہتے تھے اس لیے ایسے خطوط جو زیادہ توجہ طلب ہوتے اور عطیہ پوری توجہ نا دی پاتیں ، تو ان کے بارے میں بھی نصیحت کرتے کہ جب فراغت ہو تو پڑھ لیں۔۲۳ مارچ ۱۹۰۸ء کو تحریر کردہ ایک خط میں لکھتے ہیںکہ ’’جب تم یورپ کے سفر سے واپس آجاؤ(اسے پڑھنا کہ ) اس میں تمھاری تصنیفی اور لٹریری زندگی کی تجویزیں تھیں ۔‘‘۳۳۔ اسی خط میں وہ انھیں قرآنِ مجید کے نسخے کو ارسال کرنے کی بابت بھی بات کرتے ہیں ۔ ن کے خطوط کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عطیہ فیضی بھی ان سے مسلسل رہنمائی لیتی رہتی تھیں۔ عطیہ فیضی کے خط کے جوا ب میں تحریر کرتے ہیںکہ اردو چوں کہ مادری زبان ہے اور اس میں تقریر نسبتاً آسان ہے اس لیے دل نشین انداز میں اردو ہی میں تقریر کریں۔۱۰ اپریل ۱۹۰۸ء میں تحریر کردہ خط کااقتباس ملاحظہ کیجیے :
ریفارمیشن یا اشاعتِ تعلیم یا تصنیف و مضمون نگاری ، ان تینوں میں سے پہلے مقصد کے سوائے جس کا میں اہل نہیں ہوں ، باقی تمھارے مقصد میں تم کو کافی مدد سے سکتا ہوں۔۔۔اردو میں تم اپنے مطالب نہایت خوبی سے ادا کرسکتی ہو ، اردو میں کیوں تقریر نہ کرو۔ لیکن چوں کہ میں وہاں موجود نہیں ہوں ، جس زبان میں چاہو تقریر کرو مجھے کیا اعتراض ہے۔(۱۹)
عطیہ فیضی کے نام شبلی کے خطوط کی مزید ایک بڑی تعداد موجود ہے جس میں وہ انھیں بارہا پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں، فارسی اور عربی زبان سے شناسائی کرواتے ہیں،’’قانونِ موسیقی ‘‘ ایسی کتب ارسال کرتے ہیں اورشعر کہنے کی ترغیب کے ساتھ تحریک بھی دیتے ہیں ۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ خطوطِ شبلی بنام عطیہ فیضی میں درس و تدریس دیگر تمام مظاہر میں سے اہم ترین مظہر کی صورت میں سامنے آتے ہیں ۔
——-

حوالہ جات
۱۔ظفر احمد صدیقی،شبلی( ہندوستان ادب کے معمار)،دہلی: ساہتیہ اکیڈمی، ۱۹۸۸
۲۔ایضاً
۳۔ظفر الدین، شبلی کی شخصیت : خطوط کے آئینے میں، مضمون ، مشمولہ :سہ ماہی اردوادب، شمارہ ۱،۲،۳،نئی دہلی: انجمن ترقی اردو، ۱۹۹۶
۴۔راج بہادر گوڑ، ڈاکٹر، نشاہ الثانیہ اورعلامہ شبلی : مضمون ، مشمولہ :سہ ماہی اردوادب، شمارہ ۱،۲،۳،نئی دہلی: انجمن ترقی اردو، ۱۹۹۶
۵۔ظفر الدین، شبلی کی شخصیت : خطوط کے آئینے میں۔
۶۔راج بہادر گوڑ، ڈاکٹر، نشاہ الثانیہ اورعلامہ شبلی : مضمون ، مشمولہ :سہ ماہی اردوادب، شمارہ ۱،۲،۳،نئی دہلی: انجمن ترقی اردو، ۱۹۹۶
۷۔محمد امین زبیری و سید محمد قیصر، مرتبین:خطوطِ شبلی بنام زہرا بیگم فیضی و عطیہ بیگم فیضی، ، سلطان بک ایجنسی ، آگرہ:شمسی یشن پریس، س ن
۸۔ایضاً
۹۔ایضاً
۱۰۔ایضاً
۱۱۔ایضاً
۱۲۔ایضاً
۱۳۔ایضاً ۱۹۹۹
۱۴۔ مکاتیبِ شبلی ، جلد اول، طبع دوم، ص۱۰۴، مشمولہ شبلی اور ان کی تصانیف از آفتاب احمد صدیقی ، مقالہ برائے پی ایچ ڈی،
۱۵۔ایضاً
۱۶۔ایضاً
۱۷۔ایضاً
۱۸۔ایضاً
۱۹۔ایضاً

محمد خرم یاسین
بہت عمدہ مضمون ہے۔ ناشتہ کے ساتھ بہت مزا دے گیا۔ خواتین کی ترقی کے حوالے سے میرے خیالات مولانا صاحب کے خیالات کا پرتو ہیں۔
میں ان خطوط کا مطالعہ کرنا چاہوں گی۔ اگر ای کتابیں میسر ہوں تو آگاہی فرمائیے گا۔ آپ کا مضمون ایک بار پھر انتہائی فرصت میں پڑھنا چاہتی ہوں۔ اتنی خوبصورت تحریر کے لیے بہت مبارکباد۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔۔۔
 
آخری تدوین:
بہت عمدہ مضمون ہے۔ ناشتہ کے ساتھ بہت مزا دے گیا۔ خواتین کی ترقی کے حوالے سے میرے خیالات مولانا صاحب کے خیالات کا پرتو ہیں۔
میں ان خطوط کا مطالعہ کرنا چاہوں گی۔ اگر ای کتابیں میسر ہوں تو آگاہی فرمائیے گا۔ آپ کا مضمون ایک بار پھر انتہائی فرصت میں پڑھنا چاہتی ہوں۔ اتنی خوبصورت تحریر کے لیے بہت مبارکباد۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔۔۔
ذرہ نوازی۔ نہایت ممنون ہوں۔ جزاک اللہ خیرا۔ جی یہ خطوط یقینا ریختہ پر موجود ہیں۔ بدقسمتی سے ہمیں خطوط سے شبلی کی حیاتِ معاشقہ ہی ملی ، ہم نے اس تعلق کو کسی اور زاویے سے دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہ ایک ادنیٰ سی کوشش اسی ضمن میں کی گئی تھی۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت عمدہ محمد خرم یاسین صاحب! اور شرمندہ بھی ہوں کہ ایسا مضموں محفل پر موجود رہا اور میں اس سے بےخبر۔۔۔ اگرچہ میری یہ بےخبری کا عالم ہر معاملے میں ایک جیسا ہے۔
آپ نے بہت اہم نکتے کو اجاگر کیا ہے۔۔۔ شبلی صاحب کی ذات بابرکات پر بہت سے لوگ عطیہ کا ٹھپہ لگا کر ان کی کردار کشی کرتے رہتے ہیں۔ بدقسمتی یا خوش قسمتی سے چونکہ میں نے ان خطوط کا مطالعہ کر رکھا تھا۔ سو میں ان خطوط کے دوسرے پہلو سے بھی کسی حد تک واقف تھا۔ آپ نے تعلیم نسواں کے حوالے سے بہت اہم اقتباسات اپنے مضموں میں شامل کیے۔ میرا خیال ہے کہ آئندہ کسی کو بھی تعلیم نسواں پر کچھ لکھنا ہو تو یہ مضموں اس کے لیے مشعل راہ ہو سکتا ہے۔
 
بہت عمدہ محمد خرم یاسین صاحب! اور شرمندہ بھی ہوں کہ ایسا مضموں محفل پر موجود رہا اور میں اس سے بےخبر۔۔۔ اگرچہ میری یہ بےخبری کا عالم ہر معاملے میں ایک جیسا ہے۔
آپ نے بہت اہم نکتے کو اجاگر کیا ہے۔۔۔ شبلی صاحب کی ذات بابرکات پر بہت سے لوگ عطیہ کا ٹھپہ لگا کر ان کی کردار کشی کرتے رہتے ہیں۔ بدقسمتی یا خوش قسمتی سے چونکہ میں نے ان خطوط کا مطالعہ کر رکھا تھا۔ سو میں ان خطوط کے دوسرے پہلو سے بھی کسی حد تک واقف تھا۔ آپ نے تعلیم نسواں کے حوالے سے بہت اہم اقتباسات اپنے مضموں میں شامل کیے۔ میرا خیال ہے کہ آئندہ کسی کو بھی تعلیم نسواں پر کچھ لکھنا ہو تو یہ مضموں اس کے لیے مشعل راہ ہو سکتا ہے۔
نہایت ممنون ہوں۔ جزاک اللہ خیرا۔ آپ کی رائے سے میرے ناقص مطالعہ کی توثیق ہوگئی۔۔۔ بہت شکریہ ۔ خوش رہیے۔ یہ مضمون نورِ تحقیق تحقیقی مجلے میں شایع ہوا تھا ۔
 

سیما علی

لائبریرین
چند خطوط بنام عطیہ فیضی میں عطیہ سے اظہارِ محبت و عقیدت کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں ۔ انھی چند خطوط کو سامنے رکھتے ہوئے چند ناقدین نے ’’شبلی کی حیاتِ معاشقہ ‘‘ ایسی کتب و مختلف مقالات میں بطور خاص ان کی نجی زندگی کوہدفِ تنقید بنانے کی کوشش کی ہے جب کہ مذکورہ خطوط ہی میں تعلیمِ نسواں کے حوالے سے ان کے مثبت افکار و نظریات اور تحریک کو بڑی بے دردری سے نظر انداز کردیا ہے ۔ یوں خطوطِ شبلی کے ایک اہم زاویے سے صرفِ نظر کیا گیا ہے جو کہ درست نہیں۔ظفر الدین اپنے مقالے’’ شبلی کی شخصیت : خطوط کے آئینے میں ‘‘ میں ان کے خطوط کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ان کا ایک حصہ جو مختلف نوعیت کا ہے وہ عطیہ اور ان کی بہن کے نام ہے۔ اس میں وہ زندہ دل اورخوش باش نظر آتے ہیں :
’’وہ خطوط جو انھوں نے عطیہ فیضی اور ان کی بہنوں کو لکھے ہیں ان خطوط میں ان کی شخصیت کا جمالی پہلو نمایاں ہوتا ہے اور یہاں وہ صرف ایک مولوی نہیں بلکہ زندہ دل اور زندہ جاوید انسان نظر آتے ہیں ۔ ‘‘(۳)
شبلی نعمانی ،عطیہ فیضی کو خطوط میں تعلیمِ نسواں پر زور دیتے اور اس کے حامی نظر آتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عطیہ کو اس ضمن میں تحریک بھی دیتے ہیں لیکن اس پہلو کو بھی مد نظر رکھتے ہیں کہ اس تعلیم میں بے حیائی اور بے ہودگی کا کوئی پہلو موجود نا ہو۔ باالفاظِ دیگر وہ خواتین کی ایسی تعلیم کیحق میں نہیں جو عورت کو عورت نا رہنے دے۔
واہ واہ انتہائی مفید ومعلوماتی تحریر تعلیم نسواں کے موضوع پر ۔۔
مولانا کا یہ ایک جمالیاتی پہلو ہے ۔یہاں انکی شخصیت ایک مبلغ سے مختلف نظر آتی ہے ۔۔بہت عرصہ ہوا پڑھی تھی۔۔اس سے انکی نجی زندگی کو باعث تنقید بنانا کچھ اخلاقیات سے گری ہوئی بات محسوس ہوتی ہے ۔۔
سلامت رہیے ۔۔بہت خوبصورت تحریر داد و تحسین قبول کیجیے ۔۔۔
 
ماشاءاللہ بہت عمدہ، نہایت ہی سہل انداز میں آپ نے ایسے دقیق مضامین بیان کیے ہیں کہ نہ صرف ان کو سمجھنے میں آسانی ہو بلکہ ان کے مختلف پہلوؤں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
آپ نے بیک وقت دوگانہ مسائل یعنی تعلیم نسواں اور اردو زبان کی اہمیت اور اصلاح جیسے نازک لیکن اہم مسائل کو اجاگر کرنے کی سعی کی ہے۔
آپ نے نہایت ہی عمدہ اقتباسات کی روشنی میں عصر حاضر میں توجہ کو اس طرف مرکوز کروانے کی سعی کی ہے کہ تعلیم نسواں کا تعلق کسی ایک شخص سے نہیں بلکہ ایک معاشرے سے ہے۔
موجودہ دور میں اگر ہم سماجی حالات و واقعات پر نظر دوڑائیں تو "عطیہ و شبلی" کہ اشد ضرورت ہے
 
واہ واہ انتہائی مفید ومعلوماتی تحریر تعلیم نسواں کے موضوع پر ۔۔
مولانا کا یہ ایک جمالیاتی پہلو ہے ۔یہاں انکی شخصیت ایک مبلغ سے مختلف نظر آتی ہے ۔۔بہت عرصہ ہوا پڑھی تھی۔۔اس سے انکی نجی زندگی کو باعث تنقید بنانا کچھ اخلاقیات سے گری ہوئی بات محسوس ہوتی ہے ۔۔
سلامت رہیے ۔۔بہت خوبصورت تحریر داد و تحسین قبول کیجیے ۔۔۔
بہت شکریہ، ممنون ہوں۔ آغاز میں اس کا ذکر کیا ہے کہ ہمیں شبلی کی حیاتِ معاشقہ یاد رہی، ان کے تعلیمِ نسواں کو بھول گئے۔ آپ کے ذوقِ مطالعہ کو سلام پیش کرتا ہوں۔ جزاک اللہ
 
ماشاءاللہ بہت عمدہ، نہایت ہی سہل انداز میں آپ نے ایسے دقیق مضامین بیان کیے ہیں کہ نہ صرف ان کو سمجھنے میں آسانی ہو بلکہ ان کے مختلف پہلوؤں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
آپ نے بیک وقت دوگانہ مسائل یعنی تعلیم نسواں اور اردو زبان کی اہمیت اور اصلاح جیسے نازک لیکن اہم مسائل کو اجاگر کرنے کی سعی کی ہے۔
آپ نے نہایت ہی عمدہ اقتباسات کی روشنی میں عصر حاضر میں توجہ کو اس طرف مرکوز کروانے کی سعی کی ہے کہ تعلیم نسواں کا تعلق کسی ایک شخص سے نہیں بلکہ ایک معاشرے سے ہے۔
موجودہ دور میں اگر ہم سماجی حالات و واقعات پر نظر دوڑائیں تو "عطیہ و شبلی" کہ اشد ضرورت ہے
محترم عامر بھائی!بہت شکریہ۔ شادو آباد رہیں۔ سدا سلامتی ہو۔ آمین
 
Top