میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میری اٹھان گاؤں کی سادہ اور صحت مند فضا میں ہوئی۔ منہ اندھیرے اٹھنا ، ٹیوب ویل کے تازہ پانی سے غسل کر کے رب کائنات کی حمد کے لئیے مسجد جانا۔ دادی کے ہاتھ کی بنی لسی اور مکھن کے ساتھ دیسی گھی کے پراٹھے کھا کر تین کلو میٹر پیدل چل کر سکول جانا اور واپسی پر بھوک لگنے کی صورت میں کسی بھی کھیت سے شلجم ، مولی ، گاجریں یا گنا وغیرہ کھانے پر کوئی پابندی نہ تھی۔ سکول کا کام ختم کر کے اپنے دوستوں کے کھانے کا انتظام کرنا یعنی ڈھور ڈنگروں کے چارے کا کوئی چارہ کرنا۔ انہیں پانی پلانے لے جانا اور نہر میں نہاتی نشو کی کمر پر سوار ہونے کے مزے کبھی نہیں بھولیں گے (نشو ہماری بھینس کا نام تھا)۔
چارہ (پٹھے) کاٹتے ہوئے کبھی کبھی الٹے ہاتھ کی چھوٹی انگلی پر درانتی پھر جانے سے زخم ہو جانا تو حکیم ڈاکٹر کی کیا ضرورت؟ اسی کھیت کی مٹی اٹھا کر بہتے خوں پر لگا لو خون فوری بند اور دو دن بعد زخم کا نام نہیں۔ اس سے تیز اور تیر بہ ہدف علاج یہ ہوتا کہ کسی اوٹ میں جا کر زخمی انگلی کو اپنے ہی پیشاب کا نشانہ بنا ڈالتے اور چوبیس گھنٹوں کے اندر وہ ایک ہی علاج زخم کو ٹھیک کر دیا کرتا۔ حتیٰ کہ کھال نکالتے ہوئے کسی سے گہرا زخم لگنے کی صورت میں بھی یہ علاج کارگر ہوتا۔
لیکن پھر ہماری اچھی تعلیمی حالت نے ہمیں گاؤں سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ شہر آئے تو شہر ہی کے ہو کے رہ گئے تعلیم ، کاروبار ، شادی اور پھر نوکری بعد ازاں دیس پر دیس کے سفر ہمیں ہماری جنم بھومی سے جتنا زیادہ دور کرتے رہے ہم اتنی ہی شدت سے اپنے گاؤں اور دوستوں کو یاد کر کر کے اداس ہوتے رہے۔ سارا دن پینٹ شرٹ میں باؤ بن کر شہروں کے دفاتر اور کاروباری مراکز میں گم رہ کر شام کو ہم گھر میں آتے ہی تہہ بند باندھ کر گویا گاؤں کی ایک نشانی کو اپنا کر طمانیت محسوس کرتے۔ گاؤں کا کوئی یار بیلی ملنے آتا تو ہمیں اس کی اور اسے ہماری خوش قسمتی پر رشک آتا۔
میرے تمام چچا اپنے بچوں کے ساتھ گاؤں میں ہی آباد ہیں اور کوئی بھی اہم فیصلہ کرنا ہو تو مجھے "ارسطو" کا مقام دیا جاتا ہے۔ جب ہم اپنی فیملی کے ساتھ گاؤں جاتے ہیں تو ہمیں گویا نظر بندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ کوئی جبر نہیں بلکہ چچا لوگوں کا خیال ہے کہ گاؤں کا "آلودہ" ماحول ہماری صحت کے لئیے اچھا نہیں۔ یہ کسی حد ٹھیک بھی ہے۔ میں تو نہیں لیکن شہر کی پروردہ ہماری نصف بہتر اور بر خوردار مچھروں اور مکھیوں سے جنگ ہار کر زکام اور بخار کا شکار ہو جایا کرتے ہیں۔
اس بار گاؤں گئے تو مکھی اور مچھر کا موسم نہیں تھا لہذا بھتیجوں کے ہاتھ سے درانتی پکڑ لی کہ آج چارہ میں کاٹوں گا۔ برسوں بعد یہ کام کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا لیکن نامانوس نہیں۔ آہستگی سے تیزی کی طرف بڑھتے ہوئے درانتی نے وہی کام کیا جو اس کا خاصہ ہے یعنی ہمارے اُلٹے ہاتھ کی چھوٹی زخمی کر ڈالی۔ دماغ میں ماضی میں کئیے جانے والے علاج محفوظ تھے لیکن ہم چونکہ شہر میں رہ کر "صفائی پسند" ہو چکے ہیں لہذا ثانی الذکر کی بجائے اول الذکر یعنی مٹی لگانے والا علاج کر لیا۔ بھتیجے حیران کہ انکل جی یہ کیا کر رہے ہیں لیکن ان کی حیرانی پہ میں حیران کہ تھا کہ وہ اس علاج کو کیوں نہیں اپناتے۔ ان حیرانیوں کا جواب ایک ہی گھنٹے میں مل گیا جب ہماری زخمی انگلی بجائے ٹھیک ہونے کے شدید درد کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ متورم بھی ہو گئی۔ گاؤں میں موجود میڈیکل سٹور پر "ڈاکٹر" کے پاس گئے ، یہ ہمارے ایک پرانے سٹوڈنٹ کا چھوٹا بھائی ہے۔ اس نے اپنی پوری توجہ سے ہماری انگلی دیکھی اور قدرے جھینپتے ہوئے بولا کہ 'اب یہ مٹی وہ نہیں رہی جو آپ کے یہاں رہتے ہوا کرتی تھی'۔ ہم نے قدرے غصے سے پوچھا'کیا مطلب ہے تمہارا'؟۔اس نے کہا 'مطلب یہ ہے جی کہ جب آپ مٹی سے علاج کیا کرتے تھے تب یہ مٹی زہریلی دائیوں اور کیمیائی کھادوں سے آلودہ نہیں تھی۔ اس وقت اس کو نہروں کا جو پانی ملتا تھا ان نہروں میں شہروں کے گندے نالے نہیں گرائے جاتے تھے۔ اس وقت،،،،،'۔ وہ ابھی کچھ اور کہنا چاہ رہا تھا لیکن ہم نے اسے خاموش ہونے کا کہہ دیا کہ بات ہماری سمجھ میں آ چکی تھی۔
اب گاؤں سے واپس لاہور آئے بھی تین دن ہو چکے ہیں لیکن زخم ہنوز باقی ہے البتہ ورم ختم ہو گیا ہے اور تو اور ہمیں اب تشنج سے بچاؤ کا ٹیکہ بھی لگوانا پڑا۔
چارہ (پٹھے) کاٹتے ہوئے کبھی کبھی الٹے ہاتھ کی چھوٹی انگلی پر درانتی پھر جانے سے زخم ہو جانا تو حکیم ڈاکٹر کی کیا ضرورت؟ اسی کھیت کی مٹی اٹھا کر بہتے خوں پر لگا لو خون فوری بند اور دو دن بعد زخم کا نام نہیں۔ اس سے تیز اور تیر بہ ہدف علاج یہ ہوتا کہ کسی اوٹ میں جا کر زخمی انگلی کو اپنے ہی پیشاب کا نشانہ بنا ڈالتے اور چوبیس گھنٹوں کے اندر وہ ایک ہی علاج زخم کو ٹھیک کر دیا کرتا۔ حتیٰ کہ کھال نکالتے ہوئے کسی سے گہرا زخم لگنے کی صورت میں بھی یہ علاج کارگر ہوتا۔
لیکن پھر ہماری اچھی تعلیمی حالت نے ہمیں گاؤں سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ شہر آئے تو شہر ہی کے ہو کے رہ گئے تعلیم ، کاروبار ، شادی اور پھر نوکری بعد ازاں دیس پر دیس کے سفر ہمیں ہماری جنم بھومی سے جتنا زیادہ دور کرتے رہے ہم اتنی ہی شدت سے اپنے گاؤں اور دوستوں کو یاد کر کر کے اداس ہوتے رہے۔ سارا دن پینٹ شرٹ میں باؤ بن کر شہروں کے دفاتر اور کاروباری مراکز میں گم رہ کر شام کو ہم گھر میں آتے ہی تہہ بند باندھ کر گویا گاؤں کی ایک نشانی کو اپنا کر طمانیت محسوس کرتے۔ گاؤں کا کوئی یار بیلی ملنے آتا تو ہمیں اس کی اور اسے ہماری خوش قسمتی پر رشک آتا۔
میرے تمام چچا اپنے بچوں کے ساتھ گاؤں میں ہی آباد ہیں اور کوئی بھی اہم فیصلہ کرنا ہو تو مجھے "ارسطو" کا مقام دیا جاتا ہے۔ جب ہم اپنی فیملی کے ساتھ گاؤں جاتے ہیں تو ہمیں گویا نظر بندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ کوئی جبر نہیں بلکہ چچا لوگوں کا خیال ہے کہ گاؤں کا "آلودہ" ماحول ہماری صحت کے لئیے اچھا نہیں۔ یہ کسی حد ٹھیک بھی ہے۔ میں تو نہیں لیکن شہر کی پروردہ ہماری نصف بہتر اور بر خوردار مچھروں اور مکھیوں سے جنگ ہار کر زکام اور بخار کا شکار ہو جایا کرتے ہیں۔
اس بار گاؤں گئے تو مکھی اور مچھر کا موسم نہیں تھا لہذا بھتیجوں کے ہاتھ سے درانتی پکڑ لی کہ آج چارہ میں کاٹوں گا۔ برسوں بعد یہ کام کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا لیکن نامانوس نہیں۔ آہستگی سے تیزی کی طرف بڑھتے ہوئے درانتی نے وہی کام کیا جو اس کا خاصہ ہے یعنی ہمارے اُلٹے ہاتھ کی چھوٹی زخمی کر ڈالی۔ دماغ میں ماضی میں کئیے جانے والے علاج محفوظ تھے لیکن ہم چونکہ شہر میں رہ کر "صفائی پسند" ہو چکے ہیں لہذا ثانی الذکر کی بجائے اول الذکر یعنی مٹی لگانے والا علاج کر لیا۔ بھتیجے حیران کہ انکل جی یہ کیا کر رہے ہیں لیکن ان کی حیرانی پہ میں حیران کہ تھا کہ وہ اس علاج کو کیوں نہیں اپناتے۔ ان حیرانیوں کا جواب ایک ہی گھنٹے میں مل گیا جب ہماری زخمی انگلی بجائے ٹھیک ہونے کے شدید درد کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ متورم بھی ہو گئی۔ گاؤں میں موجود میڈیکل سٹور پر "ڈاکٹر" کے پاس گئے ، یہ ہمارے ایک پرانے سٹوڈنٹ کا چھوٹا بھائی ہے۔ اس نے اپنی پوری توجہ سے ہماری انگلی دیکھی اور قدرے جھینپتے ہوئے بولا کہ 'اب یہ مٹی وہ نہیں رہی جو آپ کے یہاں رہتے ہوا کرتی تھی'۔ ہم نے قدرے غصے سے پوچھا'کیا مطلب ہے تمہارا'؟۔اس نے کہا 'مطلب یہ ہے جی کہ جب آپ مٹی سے علاج کیا کرتے تھے تب یہ مٹی زہریلی دائیوں اور کیمیائی کھادوں سے آلودہ نہیں تھی۔ اس وقت اس کو نہروں کا جو پانی ملتا تھا ان نہروں میں شہروں کے گندے نالے نہیں گرائے جاتے تھے۔ اس وقت،،،،،'۔ وہ ابھی کچھ اور کہنا چاہ رہا تھا لیکن ہم نے اسے خاموش ہونے کا کہہ دیا کہ بات ہماری سمجھ میں آ چکی تھی۔
اب گاؤں سے واپس لاہور آئے بھی تین دن ہو چکے ہیں لیکن زخم ہنوز باقی ہے البتہ ورم ختم ہو گیا ہے اور تو اور ہمیں اب تشنج سے بچاؤ کا ٹیکہ بھی لگوانا پڑا۔