مُڑ مُڑ کے مجھے دیکھا، سمجھا، تو بہت رُویا

فاخر

محفلین
غزل
فاخر

ناگاہ وہ رستے سے بھٹکا، تو بہت رویا
مُڑ مڑُ کے مجھے دیکھا، سمجھا، تو بہت رُویا

وہ طنطنے میں مجھ سے ہر رشتہ بھلا بیٹھا
جب پاس مرے اک دن آیا، تو بہت رویا

منظور نہ تھا اُس کو ہجرت کا زمانہ، پر
ناچار خزاں رُت میں بچھڑا، تو بہت رویا

اُلفت میں شکست و غم، لازم ہے یقیناً، وہ
جب کربِ جدائی میں ٹوٹا، تو بهت رُويا

پتھر تھا طبیعت میں، فطرت میں بھی تلخی تھی
وہ نغمہ مرا جب جب گایا، تو بہت رُویا

تقدیر کے قاضی نے لکھا تھا شکست و ریخت
جب اپنے نصیبے کا پایا، تو بہت رُویا

میری یہ نوا گویا، اک آہ ہے ہجر ت کی
اس آہ کو لفظوں میں ٰٰڈھالا، تو بہت رویا

معصوم تھا نٹ کھٹ تھا جانا نہ تجھے فاخر
جب اس نے تجھے سمجھا ، جانا تو بہت رُویا
 
آخری تدوین:
Top