مَیں جیتنے سے نہیں ھارنے سے ڈرتا تھا -- رفیع رضا

مغزل

محفلین
غزل

مَیں جیتنے سے نہیں ھارنے سے ڈرتا تھا
اسی لئے مَیں کسی معرکے سے ڈرتا تھا

تُجھے پتہ ھے تُجھے کیسے یاد رکھوں گا
دِیا شناس نہیں تھا دیئے سے ڈرتا تھا

مُجھے نکال دیا تُو نے دل کے مکّے سے
یہ اب کُھلا تُو مُجھے ماننے سے ڈرتا تھا

ڈرانے والا تُو پہلا نہیں ھے ، یاد رھے
مَیں تُجھ سے پہلےکسی دُوسرے سے ڈرتا تھا

یہ میرا عکس نہیں ھے یہ تیرا چہرہ ھے
مَیں آئینے کے اِسی زاویئے سے ڈرتا تھا

قریب آ کے بھی صُورت وُھی ھے ڈرنے کی
مَیں پہلے پہل ذرا فاصلے سے ڈرتا تھا

گلے مِلا ھے تو پہچان بھی نکل آئی
پتہ چلا مَیں اِسی حادثے سے ڈرتا تھا

بہا دیا ھے وُہ آنسو بھی آنکھ سے مَیں نے
کہ جس میں عکس ترا ڈُوبنے سے ڈرتا تھا

مَیں کیسے کھیلنے دیتا تُجھے شرارے سے
مَیں سچ کہوں مَیں ترے بچپنے سے ڈرتا تھا


رفیع رضا​
 

جیا راؤ

محفلین
بہا دیا ھے وُہ آنسو بھی آنکھ سے مَیں نے
کہ جس میں عکس ترا ڈُوبنے سے ڈرتا تھا


واہ۔۔۔ بہت خوب۔۔۔۔!
 
Top