موٹروے واقعہ: حکومت ہوش کے ناخن لے اور پولیس میں سیاسی مداخلت روکے، چیف جسٹس

جاسم محمد

محفلین
مُقدمہ تندہی سے لڑتے ہی نہیں عدالتوں میں، تو نتیجہ یہی نکلنا ہوتا ہے۔ اب جب اس کیس کی گرد بیٹھے گی تو مُمکن ہے کہ جن پر الزام لگایا جا رہا ہے، وہ باعِزت بری ہو جائیں۔
پھر وہی وعدے پھر وہی دعوے۔ جب تک عدالتی نظام ٹھیک نہیں ہوتا ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے
 

جاسم محمد

محفلین
موٹروے واقعہ: حکومت ہوش کے ناخن لے اور پولیس میں سیاسی مداخلت روکے، چیف جسٹس
رانا بلال | ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 12 ستمبر 2020


5f5bc1a3b82f4.jpg

یہ بات شرمناک ہے کہ ہائی وے پر شہریوں کی حفاظت کا موثر نظام موجود نہیں، جسٹس گلزار احمد — فوٹو: ڈان نیوز
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے لاہور کے قریب موٹروے پر خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں پولیس میں سیاسی مداخلت عام ہوچکی ہے جس کے نتیجے میں عوام کی جان و مال محفوظ نہیں۔

پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے زیر اہتمام کمرشل و اوورسیز کورٹس ججز کے لیے منعقدہ چھ روزہ تربیتی ورکشاپ کے اختتامی سیشن سے خطاب کے دوران چیف جسٹس نے موٹروے واقعے سے متعلق کہا کہ امن و امان حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے اور اس ضمن میں پولیس کا شفاف نظام وقت کہ اہم ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں پولیس میں سیاسی مداخلت عام ہوچکی ہے جس کے نتیجے میں عوام کی جان و مال محفوظ نہیں، معصوم مسافروں کو ہائی وے پر سنگین جرائم کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حالیہ واقعہ بھی اسی کا نتیجہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات شرمناک ہے کہ ہائی وے پر شہریوں کی حفاظت کا موثر نظام موجود نہیں، حکومت ہوش کے ناخن لے اور محکمہ پولیس کی ساکھ کو بحال کرے اور پولیس میں کسی بھی سیاسی شخص کی مداخلت کا راستہ روکے۔


چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب پولیس میں ہونے والے تبادلے اس بات کی علامت ہے کہ پولیس کے محکمے میں کس قدر سیاسی مداخلت ہے، پولیس فورس نظم و ضبط کے بغیر کام نہیں کرسکتی اور اس وقت تک عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا جب تک پولیس فورس میں پیشہ ورانہ مہارت نہ ہو۔

واضح رہے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور موٹروے کے قریب 2 مسلح افراد نے مبینہ طور پر ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ گاڑی بند ہونے پر وہاں مدد کی منتظر تھیں۔

لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا، اس دوران جب وہ مدد کے لیے انتظام کرنے کی کوشش کر رہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے۔

بعد ازاں حملہ آوروں نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے کچھ وقت بعد پولیس اور خاتون کا ایک رشتے دار جسے پہلے کال کی گئی تھی وہ جائے وقوع پر پہنچے، تاہم تب تک حملہ آور فرار ہوگئے تھے اور خاتون سے کیش اور دیگر قیمتی سامان بھی لے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: مسلم لیگ (ن) کا سی سی پی او لاہور کی برطرفی کا مطالبہ

اس واقعے کے بعد سی سی پی او عمر شیخ کی جانب سے ایک متنازع بیان دیا گیا جس میں کہا گیا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔

سی سی پی او کے اس ریمارکس پر عوام کی جانب سے سخت مذمت کی گئی اور ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اسی معاملے پر آج وزیر قانون پنجاب راجا بشارت سے جب سی سی پی او لاہور عمر شیخ کے بیان سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ سی سی پی او کے بیان سے اتفاق نہیں کرتا اور سمجھتا ہوں کہ وہ مناسب بیان نہیں تھا، اس وقت ہماری مکمل توجہ ملزمان کو گرفتار کرنے میں ہے تاہم اس وقت اگر ہم انتظامی معاملات میں الجھ گئے تو ہم شاید اصل ہدف حاصل نہ کرسکیں۔

سی سی پی او کی برطرفی کے مطالبے پر انہوں نے کہا کہ حکومت اور وزیراعلیٰ اس مطالبے سے آگاہ ہیں اور یہ ان کا اختیار ہے کہ انہوں نے کیا فیصلہ کرنا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان آپ کی عدالتی اصلاحات کدھر ہیں؟ ان عادی مجرموں کو آپ کے معزز جج خود ضمانتیں دیتے پھرتے ہیں اور آپ کو حکومت کیخلاف بھاشن دینے سے فرصت نہیں مل رہی؟
 

جاسم محمد

محفلین
سی سی پی او کے اس ریمارکس پر عوام کی جانب سے سخت مذمت کی گئی اور ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
مسئلہ سی سی پی او لاہور نہیں وہ کرپٹ ججز ہیں جو خطرناک عادی مجرموں کو ڈھیلیں اور ضمانتیں دیتے ہیں۔ تاکہ مجرمان دوران ضمانت مزید کاروائیاں کر سکیں
 

جاسم محمد

محفلین
پس ثابت ہوگیا کہ سی سی پی او کو ہٹانے کی مہم کے پیچھے ن لیگ کا ہاتھ ہے۔ خطرناک عادی مجرموں کو عدالتیں ریلیف دیں اور اس کا خمیازہ اپوزیشن کے دباؤ پر پولیس افسران بھگتیں۔ ایسا نہیں چلے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
چیف جسٹس حکومت سے مطمئن نہیں
اپوزیشن اور میڈیا حکومت سے مطمئن نہیں
۲۰۱۳ میں جب اس کیس کے مرکزی کردار ایک اور ریپ کے کیس میں پکڑے گئے تھے تو اس وقت یہی اپوزیشن جو اس وقت حکومت میں تھی، ججز اور میڈیا خاموش تماشائی بنے رہے۔
پاکستان میں ہر اک کو اپنے سوا سب غلط نظر آتے ہیں
 

جاسم محمد

محفلین
عدلیہ میں ۲۰ لاکھ کیسز زیر التوا ہیں۔ حکومت شہریوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی: چیف جسٹس پاکستان
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کیا اس قسم کے تمام واقعات کا "روٹ کاز" بھی ملکی انتظامی ڈھانچے پر چھائے ہوئے وی آئی پی کلچر کی پیداوار نہیں ۔ جو ایلیٹ جماعت ان مسائل کا کبھی سامنا ہی نہیں کرتی وہ ان کے حل کے لیے کیا اقدامات کرے گی ؟ کیا حکومت اور کیا اپوزیشن!
ان کے لیے یہ مسائل ،مسائل ہی نہیں جو ہمیشہ بیچارے مجبور عوام ہی پر مسلط ہوتے ہیں ۔
افسوس صد افسوس ۔
 

شمشاد

لائبریرین
آخر میں کچھ بھی نہیں ہونا۔ مجرموں نے ناکافی ثبوت ہونے کی وجہ سے بری ہو جانا ہے کہ ہمارا بدبودار عدالتی نظام ایسا ہی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اس میں کوئی شک نہیں کہ مایوسی گناہ ہے اور نظام میں بہتری کی جد و جہد جاری رکھنی چاہیے لیکن آج تک ایسا کچھ ہوا نہیں۔
کوئی بھی کیس اٹھا کر دیکھ لیں، آخر میں یہی کچھ ہوتا ہے۔
تازہ ترین کیس کوئٹہ میں ٹریفک پولیس والے کو گاڑی سے ٹکر مار کر جان سے مار دیا۔ ویڈیو میں سب کچھ اظہر من الشمس ہے، لیکن جج کو پھر بھی ثبوت ناکافی لگے ہیں اور مجرم بری ہو گیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
تازہ ترین کیس کوئٹہ میں ٹریفک پولیس والے کو گاڑی سے ٹکر مار کر جان سے مار دیا۔ ویڈیو میں سب کچھ اظہر من الشمس ہے، لیکن جج کو پھر بھی ثبوت ناکافی لگے ہیں اور مجرم بری ہو گیا ہے۔
جس ملک میں ہر جگہ دو نمبری اور ملاوٹ کا راج ہو وہاں عدالتی کیسز میں پیش کئے جانے والے ثبوت و شواہد کیسے اصلی ہو سکتے ہیں؟ آپ قانون اور عدالتی نظام جتنا مرضی بہتر کر لیں۔ بہترین سے بہترین جج تعینات کر لیں۔ البتہ جب تک ججز کے سامنے جعلی ثبوت و شواہد پیش ہوتے رہیں گے ، نظام انصاف میں بہتری کا کوئی امکان نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
جس ملک میں ہر جگہ دو نمبری اور ملاوٹ کا راج ہو وہاں عدالتی کیسز میں پیش کئے جانے والے ثبوت و شواہد کیسے اصلی ہو سکتے ہیں؟ آپ قانون اور عدالتی نظام جتنا مرضی بہتر کر لیں۔ بہترین سے بہترین جج تعینات کر لیں۔ البتہ جب تک ججز کے سامنے جعلی ثبوت و شواہد پیش ہوتے رہیں گے ، نظام انصاف میں بہتری کا کوئی امکان نہیں۔
تو میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں کہ اوپر والے کیس میں بھی یہی ہو گا۔ اور مجرمین ناکافی ثبوتوں کی وجہ سے باعزت بری ہو جائیں گے۔
 
Top