رضوان

محفلین
مومن خان مومن (1800ء ۔۔۔۔1851ء)

مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اورحکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔مومن دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی ، طب، نجوم، اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسواخت ، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔
دلی سے پانچ مرتبہ باہر نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے۔ امراوء اور روساء کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ یہی ان کے کریکٹر کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔ مومن کی یادگار ایک دیوان اور چھ مثنویاں ہیں۔ اپنے کوٹھے سے گر کر وفات پائی۔

مومن کی جنسی توانائی کا اظہار عملی زندگی سے ہی نہیں بلکہ کلام سے بھی ہوتا ہے۔ لکھنوی شعراء کے برعکس انہوں نے جنس نگاری کو فحش اور ابتذال سے بچا کر صحت مند حدود میں رہنے دیا۔ بیشتر اشعار میں روایت یا مفروضات کم ہیں اور ذاتی تجربات زیادہ، اسی لیے شاعری میں عاشق کا تصور ابھرتا ہے وہ میر کی خود سپردگی اور خاکساری، لکھنوی شعراء کی ہوسناکی اور کجروی اور غالب کی نرگسیت اور خود پسندی سے قطعی مختلف ہے۔ مومن کا عاشق واضح طور پر ہرجائی ہے۔ ان کا یہ شعر عاشق کے تمام فلسفہ حیات کا نچوڑ ہے۔

ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کیا

یہ وہی انداز ہے جس نے داغ کے پاس جاکر رنڈی بازی کی صورت اختیار کر لی۔ اگر خالص جنس نگاری کے لحاظ سے دیکھیں تو مومن غالب سے بڑھ جاتے ہیں۔صرف اشعار کی تعداد کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ شدت اور وارفتگی میں بھی غالب کے ہاں بعض اوقات جنس کو مزاح وغیرہ سے کیمو فلاج کرنے کا رجحان ملتا ہے۔ لیکن مومن کاانداز کسی حقیقت نگار کا ہے۔ البتہ رشک میں دونوں کا یکساں حال ہے۔ یہی نہیں بلکہ مومن نے آواز سے اپنی خصوصی جنسی دلچسپی کا اظہار بھی کیا ۔ اسی طرح بعض ملبوسات اورزیورات سے وابستہ جنسی تلازمات بھی ابھارے گئےہیں اور ایسی غزلوں کی بھی کمی نہیں جن میں واضح طور پر ایسے اشارات کیےکہ کسی مخصوص ہستی کی جھلک دیکھنےپربھی اتنا اندازہ لگانا دشوار نہیں رہتا کہ خطاب صنف مخالف سے ہے اور لاجنس شاعری کے اس دور میں یہ بہت بڑی بات ہے۔

ان کی چند نمائندہ غزلیں درج ذیل ہیں:


وہ جو ہم ميں تم قرار تھا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو
وہي يعني وعدہ نباہ کا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو

وہ جو لطف مجھ پہ تھے پيش تر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے ياد ذرا ذرا تہمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو

وہ نئے گلے وہ شکايتيں وہ مزے مرے کي حکايتيں
وہ ہر ايک بات پہ روٹھنا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو

کبھي بيٹھے سب ميں جو روبو تو اشارتوں ہي گفتگو
وہ بيان شوق کا بر ملا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو

ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتائے کو دم بہ دم
گلہ ملامت اقربا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو

کوئي ايسي بات اگر ہوئي کہ تمہارے جي کو بري لگي
تو بياں سے پہلے ہي بھولنا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو

کبھي ہم ميں تم ميں بھي چاہ تھي کبھي ہم ميں تم ميں بھي راہ تھي
کبھي ہم بھي تم سے تھے آشنا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو

سنو ذکر ہے کئي سال کا کہ کيا اک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کيا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو

کہا ميں بات وہ کوٹھے کي مرے دے صاف اتر گئي
تو کہا کہ جانے مري بلا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہوs

وہ بگڑ وصل کي رات کا وہ نہ ماننا کسي بات کا
وہ نہيں نہيں کي ہر آن ادا تمہيں ياد ہو نہ ياد ہو

جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا
ميں وہي ہوں مومن مبتلا تمہيں ياد ہو کہ نہ ياد ہو
 

رضوان

محفلین
وصل کي شب شام سے ميں سو گيا
جاگنا ہجراں کا بلا ہو گيا

ساتھ نہ چلنے کا بہانہ تو ديکھ
آہ کے مري نعش پہ وہ رو گيا

صبر نہيں شام فراق آ بھي چکو
جس سے کہ بے زار تھے تم سو گيا

ہائے صنم ہائے صنم لب پہ کيوں
خير ہے مومن تمہيں کيا ہو گيا
 

رضوان

محفلین
قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق
سچ تو يہ ہے بري بلا ہے عشق

اثر غم ذرا بتا دينا
وہ بہت پوچھتے ہيں کيا ہے عشق

آفت جاں ہے کوئي پردہ نشيں
مرے دل ميں آ چھپا ہے عشق

کس ملاحت سرشت کو چاہا
تلخ کامي پہ با مزا ہے عشق

ہم کو ترجيح تم پہ ہے يعني
دل رہا حسن و جاں رہا عشق

ديکھ حالت مري کہيں کافر
نام دوزخ کا کيوں دھرا ہے عشق

ديکھتے کس جگہ ڈبو دے گا
ميري کشتي کا نا خدا ہے عشق

آپ مجھ سے نباہيں گے سچ ہے
با وفا حسن بے وفا ہے عشق

قيس و فرہاد وامق و مومن
مر گئے سب ہي کيا وبا ہے عشق
 

رضوان

محفلین
نہ کٹتي ہم سے شب جدائي کي
کتين ہي طاقت آزمائي کي

رشک دشمن بہانہ تھا سچ ہے
ميں نے ہي تم سے بے وفائي کي

کيوں برا کہتے ہو بھلا نا صح
مين نے حضرت سے کيا برائي کي

دام عاشق ہے دل دہي نہ ستم
دل کو چھينا تو دل رہائي کي

گر نہ بگڑو تو کيا بگڑتا ہے
مجھ ميں طاقت نہيں لڑائي کي

گھر تو اس ماہ وش کا دور نہ تھا
ليکن طالع نے نار سائي کي

دل ہوا خوں خيال ناخن يار
تو نے اچھي گرہ کشائي کي

مومن آئو تمہيں بھي دکھلا دوں
سير بت خانے ميں خدئي کي
 

رضوان

محفلین
ميں نے تم کو دل ديا، تم نے مجھے رسوا کيا
ميں نے تم سے کي کيا، اور تم نے مجھے سے کيا کيا

کشتہ ناز بتاں روز ازل سے ہوں مجھے
جان کھونے کے لئے اللہ نے پيدا کيا

روز کہتا تھا کہيں مرتا نہيں ہم مر گئے
اب تو خوش ہو بے وفا تيرا ہي لے کہنا گيا

سر سے شعلے اٹھتے ہيں آنکھوں سے دريا جاري ہے
شمع سے يہ کس نے ذکر اس محفل آرا کا کيا

کيا خجل ہوں اب علا ج بے قراري کيا کروں
دھر ديا ہاتھ اس نے دل پر تو بھي دھڑکا کيا

عرض ايماں سے ضد اس غارت گر ديں کو بڑھي
تجھ سے اے مومن خدا سمجھے يہ تو نے کيا کيا
 

رضوان

محفلین
جلتا ہوں ہجر شاہد و ياد شراب ميں
شوق ثواب نے مجھے ڈال عذاب ميں

کہتے ہيں تم کو ہوش نہيں اضطراب ميں
سارے گلے تمام ہوئے اک جواب ميں

رہتے ہيں جمع کوچہ جاناں ميں خاص و عام
آباد ايک گھر ہے جہاں خراب ميں

بد نام ميرے گر يہ رسوا سے ہو چکے
اب عذر کيا رہا نگہ بے حجاب ميں

ناکاميوں سے کامک رہا عمر بھر ہميں
پري ميں ياس ہے جو ہوس تھي شباب ميں

دونوں کا ايک حال ہے يہ مدعا ہو کاش
وہ ہي خط اس نے بھيج ديا کيوں جواب ميں

تقدير بھي بري مري تدبير بھي بري
بگڑے وہ پر سش سبب اجتناب ميں

کيا جلوے ياد آئے کہ اپني خبر نہيں
بے بادہ مست ہوں ميں شب ماہ تاب میں

پيہم سجود پائے صنم پر دم و داع
مومن خدا کو بھول گئے اضطراب ميں
 

رضوان

محفلین
ہر غنچہ لب سے عشق کا اظہار ہے غلط
اس مبحث صحيح کي تکرار ہے غلط

کہنا پڑا درست کہ اتنا رہے لحاظ
ہر چند وصل غير کا انکار ہے غلط

کر تے ہيں مجھ سے دعوي الفت وہ کيا کريں
کيونکر کہيں مقولہ اغيار ہے غلط

يہ گرم جوشياں تري گو دل سے ہوں ولے
تاثير نالہ ہائے شرر بار ہے غلط

کرتے ہو مجھ سے راز کي باتين تم اس طرح
گويا کہ قول محرم اسرار ہے غلط

اٹھ جا کہا تلک کوئي باتيں اٹھائے گا
نا صح تو خود غلط تري گفتار ہے غلط

سچ تو يہ ہے کہ اس بت کافر کے دور ميں
لاف و گزاف مومن ديندار ہے غلط​
 

رضوان

محفلین
دل ميں اس شوخ کے جو راہ نہ کي
ہم نے بھي جان دي پر آہ نہ کي

تھا بہت شوق وصل تو نے تو
کمي اے حسن تاب کاہ نہ کي

ميں بھي کچھ خوش نہيں وفا کر کے
تم نے اچھا کيا نباہ نہ کي

محتسب يہ ستم غريبوں پر
کبھي تنبيہ بادشاہ نہ کي

گريہ و آہ بے اثر دونوں
کس نے کشتي مري تباہ نہ کي

تھا مقدر ميں اس سے کم ملنا
کيوں ملاقات گاہ گاہ نہ کي

ديکھ دشمن کو اٹھ گيا بے ديد
ميرے احوال پر نگاہ نہ کي

مومن اس ذہن بے خطا پر حيف
فکر آمرزش گناہ نہ کي​
 

رضوان

محفلین
دکھاتے آئينہ ہو اور مجھ ميں جان نہيں
کہو گے پھر بھي کہ ميں تجھ سا بد گمان نہيں

ترے فراق ميں آرام ايک آن ہيں
يہ ہم سمجھ چکے گر تو نہيں تو جان نہيں

نہ پوچھو کچھ مرا احوال مري جاں مجھ سے
يہ ديکھ لو کہ مجھے طاقت بيان نہيں

يہ گل ہيں داغ جگر کے انہيںں سمجھ کر چھيڑ
يہ باغ سينہ عاشك گلستان نہيں

شب فراق ميں پہنچي نہ دل سے جان تلک
کہيں اجل بھي تو مجھ سي ہي ناتوان نہيں

وہ حال پوچھے ہے ميں چشم سرمگيں کو ديکھ
يہ چپ ہوا ہوں کہ گويا مري زبان نہيں

نکل کے دير سے مسجد ميں جا رہ اے مومن
خدا کا گھر تو ہے تيرے اگر مکان نہيں
 

محمد وارث

لائبریرین
بشکریہ سخنور (فرخ صاحب)

محشر میں پاس کیوں دمِ فریاد آگیا
رحم اس نے کب کیا تھا کہ اب یاد آگیا

الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں‌ صیّاد آگیا

ناکامیوں میں تم نے جو تشبیہ مجھ سے دی
شیریں کو درد تلخیِ فرہاد آگیا

ہم چارہ گر کو یوں ہی پہنائیں گے بیڑیاں
قابو میں اپنے گر وہ پری زاد آگیا

دل کو قلق ہے ترکِ محبت کے بعد بھی
اب آسماں کو شیوہء بے داد آگیا

وہ بدگماں ہوا جو کبھی شعر میں مرے
ذکرِ بتانِ خلخ و نوشاد آگیا

تھے بے گناہ جراءتِ پابوس تھی ضرور
کیا کرتے وہم خجلتِ جلاد آگیا

جب ہوچکا یقیں کہ نہیں طاقتِ وصال
دم میں ہمارے وہ ستم ایجاد آگیا

ذکرِ شراب و حور کلامِ خدا میں دیکھ
مومن میں کیا کہوں مجھے کیا یاد آگیا
 

محمد وارث

لائبریرین
بشکریہ سخنور (فرخ صاحب)

ہم جان فدا کرتے ، گر وعدہ وفا ہوتا
مرنا ہی مقدر تھا ، وہ آتے تو کیا ہوتا

ایک ایک ادا سو سو، دیتی ہے جواب اسکے
کیونکر لبِ قاصد سے، پیغام ادا ہوتا

اچھی ہے وفا مجھ سے، جلتے ہیں جلیں دشمن
تم آج ہُوا سمجھو، جو روزِ جزا ہوتا

جنّت کی ہوس واعظ ، بے جا ہے کہ عاشق ہوں
ہاں سیر میں جی لگتا، گر دل نہ لگا ہوتا

اس تلخیِ حسرت پر، کیا چاشنیِ الفت
کب ہم کو فلک دیتا، گر غم میں مزا ہوتا

تھے کوسنے یا گالی، طعنوں کا جواب آخر
لب تک غمِ غیر آتا، گر دل میں بھرا ہوتا

ہے صلح عدو بے خط، تھی جنگ غلط فہمی
جیتا ہے تو آفت ہے، مرتا تو بلا ہوتا

ہونا تھا وصال اک شب، قسمت میں بلا سے گر
تُو مجھ سے خفا ہوتا، میں تجھ سے خفا ہوتا

ہے بے خودی دایم، کیا شکوہ تغافل کا
جب میں نہ ہوا اپنا، کیونکر وہ مرا ہوتا

اس بخت پہ کوشش سے، تھکنے کے سوا حاصل
گر چارۂ غم کرتا، رنج اور سوا ہوتا

اچھی مری بدنامی تھی یا تری رُسوائی
گر چھوڑ نہ دیتا، میں پامالِ جفا ہوتا

دیوانے کے ہاتھ آیا کب بندِ قبا اُس کا
ناخن جو نہ بڑھ جاتے، تو عقدہ یہ وا ہوتا

ہم بندگئی بت سے ہوتے نہ کبھی کافر
ہر جاے گر اے مومن موجود خدا ہوتا
 
Top