مولویت کیا ہے؟ مولویت کی تاریخ اور اس کے اغراض و مقاصد؟

مولویت کے سیاسی نظام کے بارے میں‌اس آرتیکل سے ابتدا ہوئی۔ اور اس سلسلے میں، میں نے 4 آرٹیکل لکھے۔ چوتھے آخری آرٹیکل تک پہنچنے پر میں نے درج ذیل ہدف دیا:

نیاہدف، نیا خورشید: دین سب کے لئے
ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن 2، 3 پارے کرکے پہلی سے بارہویں تک اختیاری نصاب کا حصہ بنایا جائے، جو کہ معنی کے ساتھ پڑھایا جائے۔ دینی مدرسوں‌کے نصاب کا معائینہ کیا جائے، خطابت ( پبلک سپیکنگ)، امامت (لیڈرشپ) اور اسی طرح دوسرے علوم دینیہ کو اسکولوں میں بھی پڑھایا جائے ‌اور سنت، روایات، اقوال پر مبنی اعلی درجہ کے قانون سازی کی تعلیم یونیورسٹیز کے اعلی شعبوں میں منتقل کردی جائے۔ اس طرح مدرسوں کی ضروری تعلیم ہر شخص کے لئے عام ہو اور جو لوگ ان شعبوں کا انتخاب کریں وہ اسے حاصل کرسکیں۔ اپنے دین کو چند لوگوں پر چھوڑنے کی روش ترک کردی جائے۔ تاکہ ہر شخص اس معاشرہ میں اپنے کردار کا اندازہ کرسکے اور اسلامی و دینی تعلیم چند لوگوں کے لئے صرف ذریعہ معاش ہی نہ رہ جائے۔

تاکہ جدید تعلیم اور قرآن و سنت کی روشنی میں آزادی سے ایک نئے سیاسی نظام کا اغاز ہو سکے۔ تاکہ خوشیاں، تحفظات، فلاح وبہبود ، معاشی ترقی، شہری آزادی ، عدل و انصاف، قانون کا نفاذ، علمی ترقی، ایجادات، بہترین مالیاتی نظام اور سب سے بڑھ کر خوف خدا اور اس کے نتیجے میں امن و سکون ہمارے معاشرے میں قائم ہو۔

اس درج بالاء ہدف پر تمام ناقدین سے جو چاروں آرٹیکلز صبر سے پڑھ چکے ہیں، چوتھے آرٹیکل میں‌ تبصرات درکار ہیں۔ اس کے علاوہ جو تبصرات، یہاں جمع ہوئے اور جن ممکنہ معروضات سے اگر کسی کی بھی ممکنہ دل آزاری ہوتی ہے، کوشش کروں گا کہ آیندہ معروضات میں قلم پر گرفت سخت رہے اوراس کا ازالہ آیندہ آرٹیکلز میں‌کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ درستگی رہے۔ تمام تبصرات کا اور تبصرہ کرنے والوں کا شکریہ۔
 

ساجد

محفلین
میں نے ابھی ساری پوسٹیں نہیں پڑھیں مگر جو بھی سرسری طور پر پڑھا ہے اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہم مسلکی اور گروہی تعصب کا جلد شکار ہوجاتے ہیں ۔ ہم اختلافِ رائے کو دین سے بے خبری ، قرآن و سنت سے بغاوت سے کم تر کوئی حیثیت دینے کو تیار نہیں ہوتے ۔ علم کی دنیا میں اصل اہمیت دلیل اور استدلال کی ہے ۔ یہاں سوال در سوال کی بھر مار ہے ۔ اگر کہیں اختلاف ہے تو اسے مدبر اور سہل انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے ۔ دلیلیں دی جاسکتیں ہیں ۔ مگر مضمون کے اصل ماخذ کو چھوڑ ہم کہیں اور اُلجھ رہے ہیں ۔ جس سے اس مضمون کی افادیت ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ یہاں ایک نظام کی بات کی جارہی ہے جس نے اسلام کے تشخص کو شدید نقصان پہنچایا ہے ۔ اور اس نظام کو چلانے والوں کی کئی چہرے ہمارے آس پاس بکثرت پائے جاتے ہیں ۔ یہاں مجھے کسی کی اہانت اور برائی کرنا مقصود نہیں لگ رہا ۔ مگر جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم گروہی اور مسلکی تعصب کے آگے فکری اور عقلی دلائل کو بلکل رد کردیتے ہیں ۔ جو کسی بھی طور پر مثبت نہیں ہے ۔ یہاں کچھ حضرات، مولوی اور مولانا سے ملاقات کا ثبوت تو مانگتے ہیں‌ مگر ایسے مولوی اور مولانا کو بھی یہ کہہ کر ماننے سے انکار کردیتے ہیں کہ وہ علم کا لبادہ اُڑھتے ہیں ۔ یعنی وہی بات ہوگئی جس کی طرف یہاں یہ بحث شروع کی گئی ہے ۔ پہلے مضمون کے اصل ماخذ کو تو سمجھا جائے ۔ تنقید اور طنز کسی مناسب وقت کے لیئے اٹھا رکھا جائے تو کیا یہ اچھا نہ ہوگا ۔؟
ظفری صاحب ،
آپ کا فرمانا بجا ہے کہ ہم عقلی دلائل سے زیادہ گروہی اور مسلکی وابستگی کی بنیاد پر فیصلے لیتے ہیں۔ اور یہ بھی درست کہ اختلافات کو برداشت کرنے کا حوصلہ بہت کم رکھتے ہیں ۔
جس چیز کو فاروق صاحب "مولویت" کہہ رہے ہیں ، اگر میں اپنی حد تک بات کروں تو یہ لفظ یا اصطلاح اس طرزِ عمل کی تعبیر کے لئیے استعمال کرنا درست نہیں کہ جس کا اظہار فاروق بھائی نے اپنی پہلی پوسٹ میں کیا ہے۔
میں نے اسی لئیے لکھا تھا کہ مجھے ان بیان کردہ حقائق سے مفر نہیں لیکن ان افعال کے ذمہ دار لوگوں کو مولوی کہنا بالکل غلط ہے۔ اور اس "نظام" کو مولویت کا نام دینا بھی زیادتی ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں ۔ پہلی تو یہ کہ لفظ "مولوی" معنوی اور علمی لحاظ سے جن محترم شخصیات کے لئیے استعمال کیا جاتا ہے وہ بھی اس اصطلاح کے استعمال سے محرم سے مجرم کے مقام پر رکھ کر پرکھی جائیں گی۔
اور دوسری وجہ یہ کہ اگر ہم آمریت اور شخصی حکومتوں کی حمایت اور سخت سزاؤں کے نظام کو بھی صرف اسی گروہِ علماء کے ساتھ مخصوص کریں گے تو تاریخ میں دھاندلی کے مرتکب قرار پائیں گے۔ تاریخ ہی نہیں حال بھی دیکھئیے کہ بے دین اور جمہوری حکومتوں اور ان کے کار پردازان نے جو ظلم و ستم انسانیت پر ڈھائے ہیں اور ابھی بھی اس مکروہ کام میں بڑی ڈھٹائی سے مشغول ہیں وہ ان مبینہ "مولویوں" کے "سیاسی نظام" اور "جرائم" سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ جب بھی ہم ان "مولویوں" کی کارفرمائیوں کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ان کے پیچھے انہی "سیکولر اور جمہوری حکومتوں'" کا ہاتھ ہی نظر آتا ہے۔ وہ افغانستان کا سابقہ "جہاد" ہو یا موجودہ "دہشت گردی کے خلاف جنگ" دونوں مواقع پر یہی کیا گیا کہ "مولویوں" کو آگے رکھ کر گیم کسی اور نے کھیلی اور جب مطلب براری ہو گئی تو یہی "مولوی" دہشت گردی کے لقب سے نوازے گئے۔
اور پھر یہ "مولویت" پر ہی کیا موقوف ، بہت سے دیگر سیاسی نظام بھی فردِ واحد کی آمریت اور سنگین سزاؤں کا پرچار کرتے ہیں۔ سب سے بڑی مثال سوشل ازم کی ہے۔!!! اور یہ قبائلی نظامِ حکومت کیا ہے ؟ کیا یہ بھی فردِ واحد کی آمریت کی بد ترین شکل نہیں ہے؟ اور پھر دُنیا کے وہ غیر مسلم ممالک کہ جہاں اب بھی آمریت اور مخالفین کو قتل کرنے کا دور دورہ ہے وہاں ہم اس "مولویت" کے جواز میں کیا دلیل پیش کر سکیں گے؟ چین اور برما کی بڑی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اس سے آگے چلیں تو سری لنکا اور بھارت کی قبائلی ریاستوں میں موجود شدت پسندوں کو تو کسی "مولوی" نے ٹریننگ نہیں دی تو پھر وہاں تشدد کا راج کیوں ہے؟
جیسا کہ میں ہمیشہ عرض کرتا ہوں کہ انفرادی غلطی کی سزا کسی بھی گروہ کو اجتماعی طور پر نہیں دینا چاہئیے۔ مانا ، ہزار بار تسلیم کیا کہ مولویوں کی صفوں میں غلط لوگ کثرت سے گھس آئے ہیں لیکن سب کے سب مولویوں کو ایک ہی صف میں کھڑے کر کے ان کی اجتماعی کردار کشی انصاف اور عدل کے اصولوں کے بالکل خلاف ہے۔
آپ میری تحاریر دیکھئیے کہ یورپی اور امریکی حکومتی پالیسیوں کی سخت مخالفت کرتے ہوئے بھی میں نے کبھی ان کے عوام پر انگلی نہیں اٹھائی۔ اور یہاں بھی میں اسی اصول کا پاس کرتے ہوئے "مولویوں" کی اجتماعی کردار کشی سے براٰت کا اعلان کرتا ہوں۔
اس ڈر سے کہ دوستوں کے خیال میں میں موضوع سے ہٹ رہا ہوں ، مختصر عرض کروں کہ یہ موضوع اس وقت تک مکمل نہیں ہو گا جب تک ہم اس کہانی کے تمام کرداروں کو ایک ساتھ زیرِ بحث نہیں لائیں گے۔ تاریخ کی طرف رجوع کر کے حقائق نہیں جانیں گے۔ بصورتِ دیگر اس کی افادیت نہیں رہے گی اور یہ دھاگہ محض الزام اور جوابی الزام سے پُر ہو جائے گا۔
بیماری کے علاج سے زیادہ اہمیت اس کی تشخیص کی ہوتی ہے۔ میں نے بیماری کی علت سے انکار نہیں کیا بلکہ صرف یہ کہا تھا کہ پہلے اس کی ضروری تشخیص کر لی جائے کہ ہم کہیں غلط نتائج تو اخذ نہیں کر رہے؟
میں بصد احترام آپ سب دوستوں سے مخاطب ہوں کہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر لکھا جانے والا ایک ایک لفظ تحقیق و تدقیق کا متقاضی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے فاروق صاحب سے عرض کیا تھا کہ "مولویت" پر تو آپ کے خیالات میں نے پڑھ لئیے لہذا مہر بانی فرما کر "مولوی" کے مقام کا بھی تعین فرما دیجئیے تا کہ آگے چل کر غلط فہمی پیدا نہ ہو۔
 

ساجد

محفلین
برادر من ساجد، سب سے پہلے جو الفاظ آپ کو دلآزاری کرتے ہوئے لگیں، بناء توضیح ‌و توجیح واپس۔

اور اس کے بعد، جو مسئلہ آپ کو تنگ کر رہا ہے، مجھے بھی تنگ کرتا رہا ہے۔ میری نگاہ میں یہ ایک سیاسی نظام اور ایک نکتہ نگاہ ہے اور اگر آپ اس کے لئے ایک بہتر اصطلاح تجویز کرسکیں تو مجھے بھی آسانی ہوگی۔ محب اور دوسرے برادران نے 'ملائیت' تجویز کیا ہے، مناسب ہے۔ میں نے یہ اس لئے ڈراپ کردیا تھا کہ اس طرح زمرے میں صرف طعنہ زنی ہوئی ہے، مشکلات کی نشاندہی نہیں۔

اس نظام میں کون کون شامل تھے؟ اس کو اس طرح دیکھئے۔ میرا ایک پڑوسی ڈیموکریٹ ہے اور دوسرا ریپبلکن۔میرا اپنا جھکاؤ اگر ڈیموکریٹس کی طرف ہوگا تو ریپبلکن برے لگیں گے۔ اب اگر میں اس ری پبلکن کا نام لکھتا ہوں تو کوئی جانتا بھی نہیں۔ اسی طرح‌ شخصیات کے نام لینا بے کار ہے۔ اس نظام کی پہچان میرا مقصد ہے، کہ اس میں گیہوں اور گھن مساوی پستا ہے۔

کیوں؟ اس لئے کہ اس سے علمی انحطاط پیدا ہتا ہے ، آج بھی، اس نظام کے تحت چلنے والے بیشتر مدارس، جدید علوم کی تعلیم کس قدر دیتے ہیں، آپ خود جانتے ہیں۔ یہ علمی انحطاط معاشرہ کے تنزل کا ذمہ دار ہے۔ اس کے شرکاء کی شخصیت کیا ہیں، غیر ضروری ہے ، یہ نظام چلتا کیسے ہے اور اس کی انرجی کہاں سے جنریٹ ہوتی ہے، یہ زیادہ ضروری ہے۔

اس کے برعکس دیکھئے تو جدید مدارس میں دینی تعلیم کس قدر معدوم ہے، آپ جانتے ہی ہیں، یہ تصویر کا دوسرا رخ‌ ہے۔ میں مزید اسلامی تعلیم جدید مدارس میں شامل کرنے کا سپورٹر ہوں۔ کم از کم اتنا ہو کہ ہم ایک غیر مسلم کو بتا سکیں کے ہماری کتاب کہتی کیا ہے؟ ہائی اسکول کے پڑھے ہوئے لڑکے سے ذرا پوچھئے کہ زکوۃ کس کس مد میں خرچ ہونی چاہئیے اور یہ کس آیت میں‌ہے تو مجھے یقین ہے کے ایک بڑی تعداد حوالہ نہ دے سکے گی۔ جب کے یہ فرض‌ ہے تو اس کی تعلیم بھی فرض‌ہونی چاہئیے؟


یہ دیکھنا تو بہت آسان ہے کہ کوئی نام کا مولوی ہے۔ یہ اس آرٹیکل کا موضوع نہیں۔
لیکن اس مکمل پراسیس کا 100 سال اور 200 سال کے عرصے میں معاشرے پر کیا اثر ہوتا ہے؟
یہ ہے وہ سوال جس کا جواب دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔ امید ہے اس جواب سے آپ کو ایک اچھی اصطلاح ڈھونڈنے میں‌ آسانی ہوگی۔

اس تفصیل کے بعد امید ہے کہ آپ یا کوئی دوسرے صاحب، ایک بہتر اصطلاح تجویز کرسکیں گے۔ ایسی اصطلاح جو ذمہ داری تو ڈالتی ہو اس نظام پر لیکن باعث دل آزاری نہ ہو۔

والسلام
فاروق بھائی ،
دل آزاری والی کوئی بات نہیں کی آپ نے۔ بس ہم جس ماحول میں پلتے ہیں اس کی اور ہماری روایات کی ہماری سوچ پر گہری چھاپ ہوتی ہے اور شخصیت سازی میں انہی دو عوامل کا سب سے بڑا دخل ہوتا ہے اس لئیے دو الگ "دنیاؤں" مین رہتے ہوئے چھوٹے چھوٹے اختلافات کا ابھرنا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔
آپ کی تحریر کا بہت شکریہ۔
والسلام علیکم و رحمہ۔
 
بہت شکریہ آپ کے سمجھنے کا۔ دیکھئے مٰیں کسی بھی ایک شخص کی کردار کشی نہیں کرنا چاہتا۔ اگر کرنا چاہتا تو ایسے سوال اٹھاتا۔
کیا آج کے دور میں آپ 3 یا 4 'اعلی مولویوں' کا نام لکھ سکتے ہیں؟
فرض‌کیا لکھ لئے۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کے ان میں سے کتنے مولویوں نے 'دین برائے سیاست' کے نکتہ نگاہ سے کنگ عبداللہ یا کنگ عبدالعزیز کی 30 اور 30 سے زائید بیویوں کے بارے میں کوئی بھی فتوی دیا؟ یا کہا کہ سعودی عرب کو ایک اسلامی آئین کی ضرورت ہے؟

دینی نکتہ نگاہ سے ہم کو اس کا جواب معلوم ہے لیکن مولوی نہیں 'مولویت کا نظام' اور 'مولویت کا دور' ایک اچھے مولوی کو بھی مجبور کردیتا ہے کہ وہ تلوار کے ڈر سے چپ رہے۔
کیا مولویت کے دور میں اچھے مولوی رہے؟ یقیناَ
لیکن 'مولویت کے سسٹم' میں آکر ناانصافیاں ہوئی۔ ان نا انصافیوں‌ کا احاطہ ہم کیسے کریں اور اس کی وجہ سے ہونے والے دینی، علمی اور دنیاوی انحطاط کی وضاحت کس اصطلاح سے کریں؟ اگر کوئی صاحب ایک اچھی اصطلاح دے سکیں تو وعدہ ہے کہ نئی اور مناسب اصطلاح‌استعمال کرنا شروع کردوں گا۔

اصطلاح چاہے کوئی بھی ہو، میرا مقصد ان کمزوریوں کی طرف واضح‌اشارہ کرنا ہے جن کی دور ہونے سے ہر عام مسلمان قرآن کی تعلیم سے بہرہ ور ہوگا اور دین ایک گروپ کے ہاتھ سے نکل کر سب کی علم میں مثبت اضافہ کا باعث ہوگا۔
 

فرید احمد

محفلین
یہ بات طے ہے کہ کسی چیز سے جب تک مکمل واقفیت نہ ہو اس کے بارے میں کوئی مثبت یا منفی خیال قائم کرنا حقیقت پسندی نہیں ۔
فاروق سرور خاں سے دریافت ہے کہ کچھ دن مولویت کے نظام میں رہ کر آئے ہیں‌ ؟ کتنے مولویوں سے ان کی براہ راست ملاقاتیں اور گفت گو ہیں ؟
یا پھر یہ خیالات وہی ایک چھوٹے سے کمرے میں موجود کسی سی آئے اے کے تار و ٹرنک کال سے ترتیب دیے گئے ہیں ؟
سعودی عرب کی مملکت کو کس مولوی نے اسلامی خلافت کا نام دیا ہے ؟
کس نے کنگ عبداللہ کو خلفیۃ المسلمین کہا ہے ؟
کسی نے نہیں
اس نے زندگی میں کل 30 شادیاں کیں ، بیک وقت 30 بیویاں نہیں رکھیں ، ریفرنس پھر سے دیکھ لیں ،
کیا 30 شادیاں کرنا بر ا ہے یا آفس سیکریٹری سے صدر بش والی کرنا ؟
یاد رہیں وہاں ہند و پاک کی طرح مولوی نہیں تیار ہوتے ، بلکہ فروفیسر اور دکتور تیار ہوتے ہیں ۔
بات یہ کہ صحیح اسلام کی بات کرنے والا ( چاہے وہ بذات خود کیسا ہو ) اپنے اسلام کے نام لینے کی وجہ سے بدنام ہوتا ہے ، سعودی عرب میں وہ دکتور ہونے کے باوجود اور ہند پاک میں مولوی ہونے کے باوجود ۔
دین اسلام کے نام کوئی دوسرا نظام بھی اسلام کی ابتدا سے لے کر آج تک دنیا میں رہا بھی یا نہیں ؟ اس وقت ہے بھی یا نہیں ؟
یہ" اعجاب کل ذی رآی برایہ " والی بات ہے ۔
 
بھائی فرید، غور سے پڑھئے۔

دیکھئے مٰیں کسی بھی ایک شخص کی کردار کشی نہیں کرنا چاہتا۔ اگر کرنا چاہتا تو ایسے سوال اٹھاتا۔

اگر مولوی کے بارے میں لکھتا توجو پچھلی پوسٹ میں‌لکھا، ویسے سوالات اٹھاتا۔ آپ اس سلسلے میں آرٹیکل نمبر 4۔ مولویت میں دینی نظریات اور دینی کتب کا درست یا غلط استعمال پڑھئیے۔

سعودی عرب کے نظام کے سلسلے میں بحث بے کار ہے کہ آج تک تو کسی مولوی کو نہ عوام کی دولت کی حاکمیت اور عوام کی دولت کی ملکیت میں فرق نظر آیا اور نہ ہی آئے گا۔ یہ ('مولویت') نظام ہی ایک خاص گروپ کے لوگوں کو 'دولت، جنس مخالف اور دنیاوی شاہکاروں' سے نوازنے کے لئے وجود میں آیا۔ آپ میرا آرٹیکل 'قرآن کیا کہتا ہے' پڑھئے پھر دیکھئے کہ 'مولویت' کے سیاسی نظام اور 'قرآن' کے سیاسی نظام میں‌کچھ فرق ہے یا نہیں؟
آپ کو نمایاں طور پر نظر آئے گا کے کسی 'ایرے غیرے نتھو خیرے' کو ایک قول رسول مکرم صلعم دہرانے پر 'تارک رسول' اور 'تارک حدیث' کیوں اور عوام کی دولت کی حاکمیت کو 'ملکیت' بنا کر لوٹ ‌لے جانے والے کو 'شرعاَ‌جائز' کہہ کر مولویت معاف کیونکر کرتی ہے اور آپ کے ہمارے دین کو، ہمارے ہی خلاف، 'مولویت' کس طرح استعمال کرتی ہے۔
اس ناکام نظام سیاست کا نام مولویت ہے۔
آپ یہ سب بلکل نہ مانیئے، میں نے کچھ بہت ہی آسان سوالات یہاں‌ اٹھائے ہیں، آپ ان سوالات کے جوابات دیجئے، میں آپ کے سوالات کی تیاری کرتا ہوں :)
بھائی، کڑوی کسیلی باتیں میں بھی نہیں‌لکھتا، آپ بھی نہ لکھئے۔ یہاں‌ موضوع سخن اصل موضوعِ مضمون کی طرف ہی رکھئے۔ یہ نیا مسیحا، نئے بت، نئے صنم، نئے خدا ڈھونڈنے والی رسم اب ترک کرنی چاہئے۔

آپ کو موضوع سے زیادہ، صاحب موضوع میں دلچسپی ہے تو مجھے معاف رکھئے۔
 

فرید احمد

محفلین
وہ مولویت کا سیاسی نظام کہاں ہے ؟ کہاں رائج رہا ؟ کب ، کس زمانے میں ؟ کن کے ہاتھوں ؟
میرا اصل سوال یہ ہے کہ آپ کی تمام باتیں ہوا میں تیر پھینکنے کے برابر ہے ۔
 
وہ مولویت کا سیاسی نظام کہاں ہے ؟ کہاں رائج رہا ؟ کب ، کس زمانے میں ؟ کن کے ہاتھوں ؟

اس سلسلے کے 4 مضامین ہیں۔ کچھ لوگوں نے اس کے لئے۔ مولویت کے بجائے 'ملائیت' تجویز کیا کہ اول الذکر لفظ باعث دل آزاری ہے۔ میں‌اس سلسلے کسی بہتر اصطلاح کی تلاش میں اب تک ہوں۔ 'ملائیت' مولویوں ‌پر طعنہ زنی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، میں اس کے استعمال کے حق میں‌نہیں‌تھا۔ یہ مضمون کسی فرد کی نہیں بلکہ ایک دھارے ایک نظام کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کی زد میں‌ عام مسلمان تو کیا علماء‌کرام بھی آتے دیکھے گئے ہیں۔

اس کے برعکس، قرآن کا ایک اجتماعی فرائض‌پر مشتمل نظام ہے جو 'قرآن کیا کہتا ہے' کی شکل میں آپ کو مل جائے گا۔ آپ دیکھیں گے کہ قرآن کے اجتماعی فرائض کس طرح ' نظام مولویت' میں پس پشت ڈال دئے جاتے ہیں۔

یورپ کے تاریک دور سے تاریک تر، بر صغیر کا دور مولویت

مولویت کیا ہے؟ مولویت کی تاریخ اور اس کے اغراض و مقاصد؟

مولویت اور کتب مولویت

مولویت : دینی نظریات و دینی کتب کا درست یا غلط سیاسی استعمال؟

آپکے کی بہتر تر رائے کا انتظار رہے گا۔
والسلام۔
 

فرید احمد

محفلین
جناب یہ جواب نہ ہوا ، مولوی کب نظام حکومت پر قابض رہا اور اس نے کچھ غلط کام کیا ؟
قرآن کے جس اجتماعی نظام کی نشان دہی تم کرتے ہو وہ بھی اسی ملائی تشریح کے زمرے میں نہ آئے گا ؟ کیا آپ کے تجویز کردہ نظام پر آسمان سے مہر تصدیق آ گئی ہے ؟
کل کوئی آکر کہے گا کہ قرآن کی روشنی میں فاروق سرور کا پیش کردہ اجتماعی نظام بھی خودساختہ تشریح تھا ۔
خیر اصل بات ذہن میں رکھیں کہ آپ کی بات اگر چہ مولوی ، ملا یا علماء سو کے نام سے چل رہی ہے مگر وہ مولوی کے کرتوت نہیں ، بلکہ حکمرانوں کے ہیں ، جنہوں نے ہمیشہ حکمرانی مصلحت سے دین کو سیاست سے جدا رکھا ہے ،
یہی سوال ایک مولوی کی طرف سے میں حکمرانوں سے ، اور ان کی بیروکریسی بن رہے جدید تعلیم یافتہ افراد سے ، کروں کہ انہوں نے اقتدار پر قبضہ کے باوجود دین اسلام کے لیے کیا ؟ قرآن کے اجتماعی نظام کو نافذ کیوں نہیں کیا ؟
کیا وجہ ہے کہ اس کا قصور وار فقط مولویوں کو ٹھیرایا جاتاہے ؟
 
جو سوالات برادر ساجد نے اٹھائے ہیں اور جن اہم ترین نکات کی طرف اشارہ کیا ہے میرا خیال ہے اکثر احباب کے ذہن میں وہی خیالات ہیں اور ان سوالوں کے جوابات جب تکہ تشنہ رہیں گے بات آگے نہ بڑھے گی۔

ساجد بھائی نے ایک انصاف پسند اصول کی طرف توجہ مرکوز کروائی ہے ان الفاظ میں
انفرادی غلطی کی سزا کسی بھی گروہ کو اجتماعی طور پر نہیں دینا چاہئیے۔ مانا ، ہزار بار تسلیم کیا کہ مولویوں کی صفوں میں غلط لوگ کثرت سے گھس آئے ہیں لیکن سب کے سب مولویوں کو ایک ہی صف میں کھڑے کر کے ان کی اجتماعی کردار کشی انصاف اور عدل کے اصولوں کے بالکل خلاف ہے۔

اس کے بعد فرید صاحب کا اہم سوال ہے
انفرادی غلطی کی سزا کسی بھی گروہ کو اجتماعی طور پر نہیں دینا چاہئیے۔ مانا ، ہزار بار تسلیم کیا کہ مولویوں کی صفوں میں غلط لوگ کثرت سے گھس آئے ہیں لیکن سب کے سب مولویوں کو ایک ہی صف میں کھڑے کر کے ان کی اجتماعی کردار کشی انصاف اور عدل کے اصولوں کے بالکل خلاف ہے۔

بجا طور پر یہ سوال سب کے ذہن میں ہے ، ایک بڑی مثال برصغیر میں مغل دور کی ہی ہے جب شہنشاہ اکبر نے دین الہی ایجاد کرکے رائج کر دیا تھا اور جنہیں‌ آپ مولوی کہہ رہے ہیں انہی میں سے وقت کے سب سے بڑے عالم مجدد الف ثانی نے اس کا راستہ روکا ، قلم سے اس کی ہر جگہ تردید کی اور قید بھی ہوئے مگر اپنے مقصد سے نہ ہٹے اور بالآخر جہانگیر کو قائل کرکے دین الہی کا خاتمہ کیا۔ کیا اکبر کے اس اقدام کو بھی مولویت سے جوڑا جائے گا کیونکہ ایک اکابر عالم کے سوا باقی تمام لوگوں کا احتجاج قابل ذکر نہیں ملتا اور اگر اسے جوڑا جائے تو میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ مولویت کا پھر اسلام سے کیا تعلق رہ جاتا ہے جب ایک خلاف اسلام شے سے بھی اسے جوڑ دیا جائے۔ چند سوال اور بھی ہیں وہ کچھ توقف کے بعد۔
 

فاتح

لائبریرین
خان صاحب،
السلام علیکم!
ذرا اس فقرہ پر غور کیجیے گا۔
'ملائیت' مولویوں ‌پر طعنہ زنی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، میں اس کے استعمال کے حق میں‌نہیں‌تھا۔

مجھے ہنسی آ رہی تھی اس توجیہ پر اور سوچا شاید آپ بھی ہنس پڑیں اسے پڑھ کر:grin:
 
ًمعزز حضرات، سوالات کا جواب سوالات سے دینے کی پیشگی معذرت۔ درج ذیل سوالات کے جوابات کی مدد سے میں ان سوالات کے جوابات بہتر طریقے سے دے سکوں گا۔

درج ذیل سوالات کے جوابات، تھوڑے سے صبر سے صرف ہاں اور نہیں میں‌ دیجئے۔

1۔ سیاست، سیاسی کارکن، سیاست دان۔ کیا تینوں ایک ہیں؟
2۔ کیا اچھی بری سیاست کے لئے کسی اچھے یا برے سیاستداں کا تذکرہ کرنے کی ضرورت ہے؟
3۔ حق ملکیت (اولاد کو مملکت کی وراثت میں منتقلی) ‌اور حق حاکمیت ایک ہی حق کے دو نام ہیں؟
5۔ کیا فرد اور تنظیم دونوں ایک تصور کئے جاتے ہیں؟
6۔ کیا ایسی تحریک اور ایسے نظریہ کی تشکیل ممکن ہے جو ایک تنظیم، نظام یا انجمن کو جنم دے اور جس تحریک، نظریہ اور اس سے وجود میں آنے والے تنظیم نظام یا انجمن پر افراد کے شمولیت یا اخراج سے کوئی فرق نہ پڑے؟

اپنے اپنے جوابات کا اظہار کیجئے تو میں اس کی روشنی میں آپکے سوالات کے جوابات دیتا ہوں۔

والسلام
 

فاتح

لائبریرین
ًمعزز حضرات، سوالات کا جواب سوالات سے دینے کی پیشگی معذرت۔ درج ذیل سوالات کے جوابات کی مدد سے میں ان سوالات کے جوابات بہتر طریقے سے دے سکوں گا۔

درج ذیل سوالات کے جوابات، تھوڑے سے صبر سے صرف ہاں اور نہیں میں‌ دیجئے۔

1۔ سیاست، سیاسی کارکن، سیاست دان۔ کیا تینوں ایک ہیں؟
2۔ کیا اچھی بری سیاست کے لئے کسی اچھے یا برے سیاستداں کا تذکرہ کرنے کی ضرورت ہے؟
3۔ حق ملکیت (اولاد کو مملکت کی وراثت میں منتقلی) ‌اور حق حاکمیت ایک ہی حق کے دو نام ہیں؟
5۔ کیا فرد اور تنظیم دونوں ایک تصور کئے جاتے ہیں؟
6۔ کیا ایسی تحریک اور ایسے نظریہ کی تشکیل ممکن ہے جو ایک تنظیم، نظام یا انجمن کو جنم دے اور جس تحریک، نظریہ اور اس سے وجود میں آنے والے تنظیم نظام یا انجمن پر افراد کے شمولیت یا اخراج سے کوئی فرق نہ پڑے؟

اپنے اپنے جوابات کا اظہار کیجئے تو میں اس کی روشنی میں آپکے سوالات کے جوابات دیتا ہوں۔

والسلام

مجھ سے کم فہم کی طرف سے معذرت قبول کیجیے کہ اگر میں آپ جیسا کوئی عالم ہوتا تو آپ سے سیدھے سادے سوالات پوچھنے کی بجائے ان کے جوابات دیتا۔
مجھے تو جہاں جہاں آپ کی منطق سمجھ نہیں آئی آپ سے پوچھ لیا ہے۔
 
خان صاحب،
السلام علیکم!
ذرا اس فقرہ پر غور کیجیے گا۔


مجھے ہنسی آ رہی تھی اس توجیہ پر اور سوچا شاید آپ بھی ہنس پڑیں اسے پڑھ کر:grin:
جی، مولویت کو ایک ناکام سیاسی نظام کے طور پر اس آرٹیکل میں پیش کیا۔ جس میں 'مولویت' بطور ایک سیاسی نظام، پہلی دفاعی لائن کا کردار ادا کرتی رہی، تاکہ 'ملوکیت' کی ہوس زر، زن اور زمین کی تکمیل بنا کسی رکاوٹ کے ہوتی رہے۔۔

اس کے برعکس، مولویوں کے خیالات کا مذاق اڑانے کے لئے 'ملائیت' کا لفظ استعمال ہوا۔
آپ کو ان تمام آرٹیکلز میں دینی علم و اعلام، امامت، خطابت، اور دیگر علوم فاخرہ پر ملامت کا ایک لفظ بھی نہیں‌ملے گا۔ عموماَ ملائیت کی اصطلاح، آپ متفق ہونگے کہ اسی مقصد کے لئے استعمال ہوئی۔

میری تجویز کے ان تمام اعلی علوم کوعام اسکولوں میں ہر خاص وعام کے لئے مہیا کیا جائے۔ ان علوم و فنون اور ان علوم و فنون کے حامل افراد کی حوصلہ افزائی بطور ایک عالم، استاد اور ٹیچر ضروری ہے۔ تاکہ تمام علوم بشمول دینی علوم ایک شخص کو حاصل ہوں۔

'مولویت' کہ ایک سیاسی جہت (ڈائمنشن) کا نام ہے، دین کو سیاست کے نعروں کے لئے استعمال کرنے اور مخالف کو طرح طرح‌کے دینی ہتھکنڈوں سے زیر کرنے کے حق میں‌جو حضرات ہیں ہاتھ اٹھائیَں۔
 
ظفری صاحب ،
آپ کا فرمانا بجا ہے کہ ہم عقلی دلائل سے زیادہ گروہی اور مسلکی وابستگی کی بنیاد پر فیصلے لیتے ہیں۔ اور یہ بھی درست کہ اختلافات کو برداشت کرنے کا حوصلہ بہت کم رکھتے ہیں ۔
جس چیز کو فاروق صاحب "مولویت" کہہ رہے ہیں ، اگر میں اپنی حد تک بات کروں تو یہ لفظ یا اصطلاح اس طرزِ عمل کی تعبیر کے لئیے استعمال کرنا درست نہیں کہ جس کا اظہار فاروق بھائی نے اپنی پہلی پوسٹ میں کیا ہے۔
میں نے اسی لئیے لکھا تھا کہ مجھے ان بیان کردہ حقائق سے مفر نہیں لیکن ان افعال کے ذمہ دار لوگوں کو مولوی کہنا بالکل غلط ہے۔ اور اس "نظام" کو مولویت کا نام دینا بھی زیادتی ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں ۔ پہلی تو یہ کہ لفظ "مولوی" معنوی اور علمی لحاظ سے جن محترم شخصیات کے لئیے استعمال کیا جاتا ہے وہ بھی اس اصطلاح کے استعمال سے محرم سے مجرم کے مقام پر رکھ کر پرکھی جائیں گی۔
اور دوسری وجہ یہ کہ اگر ہم آمریت اور شخصی حکومتوں کی حمایت اور سخت سزاؤں کے نظام کو بھی صرف اسی گروہِ علماء کے ساتھ مخصوص کریں گے تو تاریخ میں دھاندلی کے مرتکب قرار پائیں گے۔ تاریخ ہی نہیں حال بھی دیکھئیے کہ بے دین اور جمہوری حکومتوں اور ان کے کار پردازان نے جو ظلم و ستم انسانیت پر ڈھائے ہیں اور ابھی بھی اس مکروہ کام میں بڑی ڈھٹائی سے مشغول ہیں وہ ان مبینہ "مولویوں" کے "سیاسی نظام" اور "جرائم" سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ جب بھی ہم ان "مولویوں" کی کارفرمائیوں کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ان کے پیچھے انہی "سیکولر اور جمہوری حکومتوں'" کا ہاتھ ہی نظر آتا ہے۔ وہ افغانستان کا سابقہ "جہاد" ہو یا موجودہ "دہشت گردی کے خلاف جنگ" دونوں مواقع پر یہی کیا گیا کہ "مولویوں" کو آگے رکھ کر گیم کسی اور نے کھیلی اور جب مطلب براری ہو گئی تو یہی "مولوی" دہشت گردی کے لقب سے نوازے گئے۔
اور پھر یہ "مولویت" پر ہی کیا موقوف ، بہت سے دیگر سیاسی نظام بھی فردِ واحد کی آمریت اور سنگین سزاؤں کا پرچار کرتے ہیں۔ سب سے بڑی مثال سوشل ازم کی ہے۔!!! اور یہ قبائلی نظامِ حکومت کیا ہے ؟ کیا یہ بھی فردِ واحد کی آمریت کی بد ترین شکل نہیں ہے؟ اور پھر دُنیا کے وہ غیر مسلم ممالک کہ جہاں اب بھی آمریت اور مخالفین کو قتل کرنے کا دور دورہ ہے وہاں ہم اس "مولویت" کے جواز میں کیا دلیل پیش کر سکیں گے؟ چین اور برما کی بڑی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اس سے آگے چلیں تو سری لنکا اور بھارت کی قبائلی ریاستوں میں موجود شدت پسندوں کو تو کسی "مولوی" نے ٹریننگ نہیں دی تو پھر وہاں تشدد کا راج کیوں ہے؟
جیسا کہ میں ہمیشہ عرض کرتا ہوں کہ انفرادی غلطی کی سزا کسی بھی گروہ کو اجتماعی طور پر نہیں دینا چاہئیے۔ مانا ، ہزار بار تسلیم کیا کہ مولویوں کی صفوں میں غلط لوگ کثرت سے گھس آئے ہیں لیکن سب کے سب مولویوں کو ایک ہی صف میں کھڑے کر کے ان کی اجتماعی کردار کشی انصاف اور عدل کے اصولوں کے بالکل خلاف ہے۔
آپ میری تحاریر دیکھئیے کہ یورپی اور امریکی حکومتی پالیسیوں کی سخت مخالفت کرتے ہوئے بھی میں نے کبھی ان کے عوام پر انگلی نہیں اٹھائی۔ اور یہاں بھی میں اسی اصول کا پاس کرتے ہوئے "مولویوں" کی اجتماعی کردار کشی سے براٰت کا اعلان کرتا ہوں۔
اس ڈر سے کہ دوستوں کے خیال میں میں موضوع سے ہٹ رہا ہوں ، مختصر عرض کروں کہ یہ موضوع اس وقت تک مکمل نہیں ہو گا جب تک ہم اس کہانی کے تمام کرداروں کو ایک ساتھ زیرِ بحث نہیں لائیں گے۔ تاریخ کی طرف رجوع کر کے حقائق نہیں جانیں گے۔ بصورتِ دیگر اس کی افادیت نہیں رہے گی اور یہ دھاگہ محض الزام اور جوابی الزام سے پُر ہو جائے گا۔
بیماری کے علاج سے زیادہ اہمیت اس کی تشخیص کی ہوتی ہے۔ میں نے بیماری کی علت سے انکار نہیں کیا بلکہ صرف یہ کہا تھا کہ پہلے اس کی ضروری تشخیص کر لی جائے کہ ہم کہیں غلط نتائج تو اخذ نہیں کر رہے؟
میں بصد احترام آپ سب دوستوں سے مخاطب ہوں کہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر لکھا جانے والا ایک ایک لفظ تحقیق و تدقیق کا متقاضی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے فاروق صاحب سے عرض کیا تھا کہ "مولویت" پر تو آپ کے خیالات میں نے پڑھ لئیے لہذا مہر بانی فرما کر "مولوی" کے مقام کا بھی تعین فرما دیجئیے تا کہ آگے چل کر غلط فہمی پیدا نہ ہو۔

جی، مولویت کو ایک ناکام سیاسی نظام کے طور پر اس آرٹیکل میں پیش کیا۔ جس میں 'مولویت' بطور ایک سیاسی نظام، پہلی دفاعی لائن کا کردار ادا کرتی رہی، تاکہ 'ملوکیت' کی ہوس زر، زن اور زمین کی تکمیل بنا کسی رکاوٹ کے ہوتی رہے۔۔

اس کے برعکس، مولویوں کے خیالات کا مذاق اڑانے کے لئے 'ملائیت' کا لفظ استعمال ہوا۔
آپ کو ان تمام آرٹیکلز میں دینی علم و اعلام، امامت، خطابت، اور دیگر علوم فاخرہ پر ملامت کا ایک لفظ بھی نہیں‌ملے گا۔ عموماَ ملائیت کی اصطلاح، آپ متفق ہونگے کہ اسی مقصد کے لئے استعمال ہوئی۔

میری تجویز کے ان تمام اعلی علوم کوعام اسکولوں میں ہر خاص وعام کے لئے مہیا کیا جائے۔ ان علوم و فنون اور ان علوم و فنون کے حامل افراد کی حوصلہ افزائی بطور ایک عالم، استاد اور ٹیچر ضروری ہے۔ تاکہ تمام علوم بشمول دینی علوم ایک شخص کو حاصل ہوں۔

'مولویت' کہ ایک سیاسی جہت (ڈائمنشن) کا نام ہے، دین کو سیاست کے نعروں کے لئے استعمال کرنے اور مخالف کو طرح طرح‌کے دینی ہتھکنڈوں سے زیر کرنے کے حق میں‌جو حضرات ہیں ہاتھ اٹھائیَں۔


مولویت کو ایک سیاسی نظام تسلیم کرنے سے پہلے کیوں نہ ہم سیاسی نظام کی تعریف اور اب تک کہ مشہور سیاسی نظاموں کی بات کر لیں اور یہ دیکھ لیں کہ کیا واقعی مولویت ایک سیاسی نظام تھا یا ہے یا ہو سکتا ہے۔
 
مجھ سے کم فہم کی طرف سے معذرت قبول کیجیے کہ اگر میں آپ جیسا کوئی عالم ہوتا تو آپ سے سیدھے سادے سوالات پوچھنے کی بجائے ان کے جوابات دیتا۔
مجھے تو جہاں جہاں آپ کی منطق سمجھ نہیں آئی آپ سے پوچھ لیا ہے۔
بہت شکریہ۔ اور آپ کا حسن نظر۔

ان آرٹیکلز کا دور بر صغیر میں مسلمانوں کی آمد سے 1857 (بہادر شاہ ظفرکی حکومت کے خاتمے) تک ہے۔ میں‌سب سے پہلے آرٹیکل میں یہ لکھ چکا ہوں۔ اسی لئے اسے تاریخ و فلسفہ میں‌ منتقل کیا گیا۔

میں نے نوٹ‌کیا ہے کہ بہت سے لوگوں نے اس کو کو آج کے دور کے تناظر میں رکھا ہے۔ اور کوشش کی ہے کہ میں افراد کی طرف اشارہ کروں۔ میرا خیال ہے اس سے تھوڑا کنفیوژن پیدا ہوا ہے۔ گو کہ ان روایات کا اثر آج کل بھی ملتا ہے لیکن پاکستان میں اب 'مولویت' اپنی شکست کے بعد 'نشاۃ ثانیہ' کی کوششوں میں مصروف ہے۔
اگر یہ 'اسلام اور عصر حاضر' کے بارے میں لکھا ہوتا تو پھر وہاں ملتا۔
 
دوستوں سے عرض ہے‌ کہ لا حاصل گفتگو کو ختم کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اس میں کوئی شریک ہی نہ ہو۔

کیا دنیا میں‌ مسائل ختم ہو چکے‌ ہیں؟
مولویوں کے‌ پیچھے‌ پڑنے‌ سے‌ بہتر ہے انسان اپنی زندگی سنوارے۔ مولویوں نے بھلا کیا دینا ہے آپ کو؟ اعمال اپنے اچھے ہونے‌ چاہئے دوسروں کی پگڑی اچھال کر اپنا اعمالنامہ خراب نہیں‌ کرنا چاہئے۔

خدا ہدایت دے۔ نہیں تو شر سے‌ بچائے

آمین
 
دوستوں سے عرض ہے‌ کہ لا حاصل گفتگو کو ختم کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اس میں کوئی شریک ہی نہ ہو۔

کیا دنیا میں‌ مسائل ختم ہو چکے‌ ہیں؟
مولویوں کے‌ پیچھے‌ پڑنے‌ سے‌ بہتر ہے انسان اپنی زندگی سنوارے۔ مولویوں نے بھلا کیا دینا ہے آپ کو؟ اعمال اپنے اچھے ہونے‌ چاہئے دوسروں کی پگڑی اچھال کر اپنا اعمالنامہ خراب نہیں‌ کرنا چاہئے۔

خدا ہدایت دے۔ نہیں تو شر سے‌ بچائے

آمین
گستاخی معاف۔ جی، ذاتی افعال اور عبادات میں عام آدمی کو مصروف رکھا جائے۔ اور کسے طور بھی اجتماعی اور سیاسی معاملات میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ جو انسٹی ٹیوشن سے باہر ہے، کبھی اندر نہ داخل ہوسکے۔

اگر آپ دوبارہ پڑھئے تو یہی جملے آپ کو ان آرٹیکلز میں‌ لکھ چکا ہوں۔

والسلام۔
 

shayar777

محفلین
احسان عظیم

احسان عظیم

سنگلاخ پہاڑیوں اور خاردار جنگل میں گھرا ہوا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جس میں مسلمانوں کے بیس پچیس گھر آباد تھے۔ ان کی معاشرت، ہندوانہ اثرات میں اس درجہ ڈوبی ہوئی تھی کہ رومیش علی، صدفر پانڈے، محمود مہنتی، کلثوم دیوی اور پر بھادئی جیسے نام رکھنے کا رواج عام تھا۔ گاؤں میں ایک نہایت مختصر کچی مسجد تھی جس کے دروازے پر اکثر تالا پڑا رہتا تھا جمعرات کی شام کو دروازے کے باہر ایک مٹی کا دیا جلایا جاتا تھا۔ کچھ لوگ نہا دھوکر آتے تھے اور مسجد کے تالے کو عقیدت سے چوم کر ہفتہ بھر کیلئے اپنے دینی فرائض سے سبکدوش ہوجاتے تھے۔
ہر دوسرے تیسرے مہینے ایک مولوی صاحب اس گاؤں میں آکر ایک دو روز کے لئے مسجد کو آباد کر جاتے تھے۔ اس دوران میں اگر کوئی شخص وفات پا گیا ہوتا، تو مولوی صاحب اس کی قبر پر جاکر فاتحہ پڑھتے تھے۔ نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دیتے تھے۔ کوئی شادی طے ہوگئی ہوتی تو نکاح پڑھوا دیتے تھے۔ بیماروں کو تعویذ لکھ دیتے تھے اور اپنے اگلے دورے تک جانور ذبح کرنے کے لئے چند چھریوں پر تکبیر پڑھ جاتے تھے۔ اس طرح مولوی صاحب کی برکت سے گاؤں والوں کا دین اسلام کے ساتھ ایک کچا سا رشتہ بڑے مضبوط دھاگے کے ساتھ بندھا رہتا تھا۔
برہام پور گنجم کے اس گاؤں کو دیکھ کر زندگی میں پہلی بار میرے دل میں مسجد کے ملّا کی عظمت کا کچھ احساس پیدا ہوا۔ ایک زمانے میں ملّاا اور مولوی کے القاب علم و فضل کی علامت ہوا کرتے تھے لیکن سرکار انگلشیہ کی عملداری میں جیسے جیسے ہماری تعلیم اور ثقافت پر مغربی اقدار کا رنگ و روغن چڑھتا گیا، اسی رفتار سے ملّا اور مولوی کا تقدس بھی پامال ہوتا گیا۔ رفتہ رفتہ نوبت بایں جارسید کہ یہ دونوں تعظیمی اور تکریمی الفاظ تضحیک و تحقیر کی ترکش کے تیر بن گئے۔ داڑھیوں والے ٹھوٹھ اور ناخواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں ملّا کا لقب ملنے لگا۔ کالجوں ، یونیورسٹیوں اور دفتروں میں کوٹ پتلون پہنے بغیر دینی رجحان رکھنے والوں کو طنز و تشنیع کے طور پر مولوی کہا جاتا تھا۔ مسجدوں کے پیش اماموں پر جمعراتی ، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درود پڑھ کر روٹیاں توڑنے والے قل اعوذئے ملّاؤں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں۔ لُو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں خس کی ٹٹیاں لگاکر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟ دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، دور ہو یا نزدیک، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی ، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد تھیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا تھا اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سرچھپا کر بیٹھ رہا تھا۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی، نہ کوئی فنڈ تھا، نہ کوئی تحریک تھی۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع ، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ برہام پور گنجم کے گاؤں کی طرح جہاں دین کی چنگاری بھی گل ہوچکی تھی، ملّا نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔ یہ ملّا ہی کا فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار رہے اور جب سیاسی میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان آبادی کے اعداد و شمار کی جنگ ہوئی تو ان سب کا اندارج مردم شماری کے صحیح کالم میں موجود تھا۔ برصغیرکے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہوسکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔
کتاب: …شہاب نامہ
تحریر: …قدرت اللہ شہاب
 
Top