مولویت : دینی نظریات و دینی کتب کا درست یا غلط سیاسی استعمال؟

صاحبو، موضوع بہت ہی نازک ہے، اس کو خالصتاَ سیاسی نکتہ نگاہ سے پڑھیں، دینی نکتہ نگاہ سے نہیں۔

اس کے لئے بہت ہی احتیاط سے لکھنے اور پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس آرٹیکل کی ابتداء ہم سوالات سے کریں‌گے اور ان سوالات کہ مدد سے یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ آیا کہ

1۔ کیا دینی نظریات اور کتب کا سیاسی استعمال ہوا؟
2۔ اور اگر ہوا تو کیا استعمال ہونا چاہئیے تھا اور کیا ہوا؟

تو آئیے دیکھتے ہیں۔
مثال نمبر 1۔ ہمارے معاشرے میں ناظرہ قرآن ہربچے کو پڑھایا جاتا ہے۔ درست؟ اور قرآن فہمی کی حتی الامکان حوصلہ شکنی ہے۔
سوال نمبر 1 - ناظرہ قران کی روایت کس نظام نے قایم کی اور کیوں؟ کیا قرآن فہمی کی حوصلہ شکنی کا یہ طریقہ درست ہے؟
سوال نمبر 2::قرآن فہمی کی کمی کا اثر مسلمانوں‌کے سیاسی نظام پر کیا پڑا؟

مثال نمبر 2: عموماَ ہماری مزید مقدس کتب جن کو 'صحاح ستہ' اور 'احادیث' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، پڑھانے پر زور رہا۔ جس کی علمی اہمیت اپنی جگہ ثابت ہے۔ لیکن ان کتابوں‌سے اس سیاسی نظام نے کیا سیاسی مفاد حاصل کیا؟

سوال نمبر 3: کیا ان کتبِ روایات کو صرف علم کے لئےپڑھایا گیا یا یہ مقاصد سیاسی تھے؟

میرے خیالات:
سوال نمبر 1 - ناظرہ قران کی روایت کس نظام نے قایم کی اور کیوں؟ کیا یہ طریقہ درست ہے؟
سوال نمبر 2::قرآن فہمی کی کمی کا اثر مسلمانوں‌کے سیاسی نظام پر کیا پڑا؟

سب سے پہلے تو یہ بھلا دیجئے کہ کسی شخص کی طرف اشارہ ہے۔ آپ کسی محلے کی مولوی سے پوچھ لیجئے۔ مندرجہ بالاء دونوں مثالوں کی نمائندہ مثال ہے۔ بہت آسانی سے ہم اس کو جاہل قرار دینے کی غلطی کرسکتے ہیں۔ اور اس کو ایک فرد واحد کا عمل کہہ سکتے ہیں۔ لیکن کیا سب مولوی یہی نہیں‌ کہتے جو اوپر مثال نمبر 1 میں‌موجود ہے۔ تو سب کا یہ اجتماعی خیال کہاں سے آیا؟ کسی نظام سے؟ کیوں کہ یہ ہمارا ایمان تو نہیں کہ اجتماعی و عوامی قران فہمی کی حوصلہ شکنی کی جائے؟

اب آپ سب اس سوال کا جواب دیجئے کہ کیا قرآن فہمی ضروری ہے؟
یقیناَ آپ کا جواب ہوگا ۔ ضروری ہے۔ تو پھر برعکس عادت پڑی کیوں؟
آسان جواب یہ ہوگا، قرآن کے سیاسی نظام سے دور رکھنے کے لئے۔ یہ سیاسی نظام بادشاہت یا مملکت کے لئے مضر تھا۔
قرآن ایک شورائی نظام کی ، عوامی دولت کی ریاست میں مناسب روانی اور عام آدمی کو اپنا نمائندہ چننے کا تعلیم دیتا ہے۔ جدید علوم حاصل کرنے کی تعلیم دیتا ہے، اور جدید علم کو استعمال کنے کی تلقین کرتا ہے۔
قرآن فہمی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی یہ آگہی معاشرے میں ترقی کی ضامن تو ہے، لیکن بادشاہت کے لئے نامناسب ہے۔ وہ کس طرح؟
وہ اس طرح کے بادشاہ عوام کی دولت پر حاکم ہوتا ہے اور اس حق حاکمیت کو وہ حق ملکیت بہت جلد سمجھنے لگتا ہے۔ قرآن فہمی، ان دو حقوق، حق ملکیت اور حق حاکمیت کا فرق‌ عوام الناس کو بتاتی ہے۔ بادشاہ کے لئے اس حق ملکیت کو قائم رکھنے کے لئے اور عوام کی دولت کو اپنی اولاد میں ورثہ کی صورت منتقل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ عوام کو قرآن فہمی سے دور رکھا جائے۔

اس مقصد کے لئے کن لوگوں نے قرآن کی سیاسی تعلیم کو ناظرہ تعلیم سے تبدیل کیا، اور سیاسی مقاصد کے لئے قائم 'سیاسی نظام' کب 'دینی نظام' میں نفوذ کر گیا۔ ہمیں پتہ نہ چلا۔ لیکن آج بادشاہت ختم ہوجانے کے بعد بھی قرآن فہمی کی تعلیم عام نہیں ہوئی۔ اور اس کی حوصلہ شکنی جاری ہے۔

آپ کچھ بنیادی سوال اپنے چند دوستوں‌سے کیجئیے اور دیکھیے کہ آیا وہ جانتے ہیں کی قرآن معاشرے میں عدل کے نظام کو تعلیم کن آیات میں کرتا ہے۔ یا قرآن معاشرے میں عوام کی دولت کی حاکمیت اور اس کی ملکیت میں تفریق کرتا ہے یا نہیں؟

اس علم کو ایک مخصوص طبقہ تک محدود رکھا گیا، جو کہ اس نظام کا خاصہ ہے کہ زیادہ تعلیم 'سرکار' کے لئے مصیبت کا باعث ہوتی ہے۔ البتہ شخصی عبادتوں کو فروغ دیا گیا تاکہ عوام صرف شخصی عبادتوں‌ تک محدود رہیں۔

قرآن فہمی کی اس کمی کی وجہ سے، مسلمانوں نے کبھی اپنی حکومت سے۔ ایک شوری کونسل بنانے کا تقاضا نہ کیا۔ ایک عالمگیر عدلیہ کے قیام کا تقاضا نہ کیا۔ تعلیم اور ریسرچ کے میدان میں اچھے اداروں‌ کا تقاضا نہ کیا، اور ایک مکمل اور مربوط کمیونیکشن (اتصالات) کے نظام کا مطالبہ نہ کیا۔ جبکہ مسلمان مسجدوں کی مدد سے ایک ایسا کمیونیکیشن کا نظام کی مثالیں، مشرق وسطی میں قائم کرچکے تھے کہ انتظامی خبریں ملک کے بیشتر حصوں میں رات بھر میں پہنچ جاتی تھیں۔

سوال نمبر 3: کیا ان کتبِ روایات کو صرف علم کے لئےپڑھایا گیا یا یہ مقاصد سیاسی تھے؟
کتب روایات کی دینی اور علمی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ لیکن ان کی ایک سیاسی حیثیت بھی ہے۔ جب بھی بات ہوتی ہے، تو 'مولویت' کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ صرف دینی حیثیت کی بات ہو، سیاسی حیثیت زیر بحث نہ آئے۔ ہم صرف اس کا سیاسی پہلو دیکھیں‌گے کہ دینی اور علمی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے۔

قرآن تو بادشاہت 'ملوکیت' اور اس کو سپورٹ کرنے والی مکمل تنظیم (انسٹی ٹیوشن) 'مولویت' کے لئے سیاسی طور پر مناسب نہ تھا، جس کی وجہ اوپر آچکی ہے۔ لہذا اب ضرورت تھی کتب کے ایک ایسے سیٹ کی جس پر مسلمانوں کو مناسب اعتقاد ہو اور جس کی مدد سے 'ملوکیت' (فرد واحد کی حکومت) کو 'مولویت' مکمل سیاسی سپورٹ فراہم کرتی رہے۔

چونکہ یہ سیاسی سپورٹ ایک شخص یا ایک گروپ کے لئے ہوتی تھی، لہذا لازم ہے کے یہ معاشرے کے دوسرے حصوں (سیگمینٹ) کے حق میں جبر و ناانصافی کو جنم دیتی تھی۔ اس ناانصافی کو دینی کتب کی مدد سے 'انصاف' ثابت کرنا بذات خود ایک بہت بڑی ناانصافی تھی۔

نظام 'مولویت' چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے، ایسے قوانین، اصول، اور فیصلے کرتا رہا جو معاشرہ کے تمام لوگوں‌کے لئے قابل قبول نہ تھے اور صرف اس فرد واحد اور اس کے حامیوں کے لئے قابل قبول تھے۔ زیادہ تر سیاسی فیصلے مذہب کے پردہ میں کئے گئے۔

اس کی سب سے بڑی مثال حق حاکمیت کو حق ملکیت میں بدلنا ہے۔ عموماَ‌اس کی توجیح و توضیح بس اتنی ہوتی تھی کہ " شرع تو یہی کہتی ہے " بعد میں ان "شرعی" فیصلوں کا نتیجہ جنگوں کی صورت میں نکلا۔

۔ کیا دینی نظریات اور کتب کا سیاسی استعمال ہوا؟
میرے حساب سے تو ہوا۔ توجیہات پیش کرچکا ہوں۔

2۔ اور اگر ہوا تو کیا استعمال ہونا چاہئیے تھا اور کیا ہوا؟
استعمال ہونا چاہئیے تھا قرآن کی روشنی میں نہ کہ خوفِ ملوکیت میں۔ لہذا زیادہ تر مناسب نہ ہوا۔

اب میں اگلا سوال کرتا ہوں۔
کیا اس سب کی ذمہ دار 'مولویت' ہے؟ اگر ہاں تو کیسے؟
جی اس کی ذمہ دار 'مولویت ہے'۔ اس لئے کہ 'مولویت' ہی ایک آرگنایزڈ عوامی ادارہ یا تنظیم تھی، اس نے اپنے تحفظ کے لئے مکمل اقدامات کئے۔ مسلمان عوام اپنے ایمان کی وجہ سے 'مولویت' کے اداروں اور شخصیات کو حد درجہ سپورٹ فراہم کرتے تھے۔ روز مرہ کے قوانین اور ضروریات کے لئے 'مولویت' کے ایک فرد سے ہی رجوع کیا جاتا تھا۔ 'مولویت' کے ذمہ داروں نے انفرادی فیصلے تو ہمیشہ درست کئے کہ ان کو حکومتی اور تنظیمی تحفظ حاصل تھا۔ لیکن سیاسی فیصلے، صرف تلوار کےخوف سے کئے۔ اور قرآنی احکامات کو بلا خوف کہنے اور پھیلنے سے روکنے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔

سند کیا ہے؟
'مولویت' نے اپنا تحفظ ایک شائستہ 'سندی' نظام سے کیا۔ 'مولویت' کے ادارے ایک مسجد کے امام سے لے کر مفتی اعظم تک کی تنظیمی درجہ بندی رکھتے تھے۔ یہ درجہ بندی صرف سیاسی خدمات کے لئے تھی۔ اس لئے کہ عام آدمی کے لئے ایک مسجد کا امام ہی کافی تھا۔ اس قسم کی سند کی ایک آرگنائزڈ تعلیمی نظام میں کوئی مناسب حیثیت نہیں۔ لیکن مدرسوں پر مشتمل یہ سندی نظام، کسی دوسری یونیورسٹی کی سند کو تسلیم نہیں کرتا۔

بنیادی طور پر یہ طریقہ ڈایریکٹ انتخابات سے بچنے کے لئے اور عوام کو اپنی رائے کے اظہار سے روکنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاکہ 'مولویت' کا انسٹی ٹیوشن محفوظ رہے۔ اور لوگ صرف اندد ہی اندر 'ترقی' کریں۔ اس میں اظہار رائے سے کسی کے انتخاب کی گنجائش نہیں۔

یہ سب ڈھکی چھپی 'تعلیمات' نہیں، بلکہ یہی تعلیمات، مدارس میں صرف پیرایہ بدل کر مکمل تاویلات کے ساتھ پڑھائی جاتی ہیں تاکہ ان تعلیمات، جیسے سند کا نظام، قانون سازی اور فتوی کا نظام اور فتوی کے لیئے سند درکار ہونے کا نظام۔ بغیر سند کے کسی بھی قسم کی قانون سازی کے باطل ہونے کی وجوہات۔ عوام سے ان کا اظہار رائے کا حق چھین لینے کی تعلیم، قرآن کوعوام میں ناظرہ رکھنے کی تعلیم، آج بھی کچھ اس طرح سکھائی جاتی ہیں کہ بالکل درست لگتی ہیں۔ آپ دیکھئے گا کہ ان تمام تاویلات کا دفتر پیش کیا جائے گا اس آرٹیکل کے جواب میں۔

'تارک حدیث' ، 'تارک رسول' ، 'قرانی' کیا ہے۔
ایک سیاسی ہتھیار۔
'تارک حدیث' ، 'تارک رسول' ، 'قرانی' وغیرہ کے القابات 'قران فہمی' کی ع۔۔۔ام تعلیم کی طرف اشارہ کرنے والوں کے لئے عام ہیں تاکہ 'مولویت' کے سیاسی نظام کا دفاع کیا جاسکے، جس کی ضرورت برِصغیر میں کم از کم 1857 کے بعد سے ختم ہو چکی ہے۔ 'برصغیر کے تاریک دور مولویت' میں ان ہی القابات کا استعمال بطور ہتھیار کیا جاتا تھا تاکہ 'مولویت' کے انسٹی ٹیوشن یا تنظیم کی حفاظت کی جائے۔ عموماَ ایسے لوگوں کی جو اس نتیجے میں 'تارک حدیث' یا 'تارک رسول' قرار پائے جاتے تھے، 'ملوکیت'، مولویت کو سپورٹ کرنے کے لئے عموماَ ان الزامات کو مرتد سے تبدیل کرکے حسب ضرورت سزا دیتی تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کبھی کسی کو 'تارک قرآن' کا الزام نہیں دیا جاتا تھا۔ یہی طریقہ اجماع کے لئے بھی مخصوص تھا، مولوی یا مفتی کا خطبہ یا فتوی، یا تو تعلیم کی کمی کی وجہ سے سمجھ میں نہیں آتا تھا، ( آئندہ جمعہ کو اپنے محلے کی مسجد میں خظبہ کو سمجھنے کی کوشش کریں )، لہذا مخالفت کرنے والے چند ہی ہوتے تھے، جن کا مقصد موجودہ دینی قیادت کو چیلنج کرنا ہوتا تھا یا سیاسی مخالف یا کوئی ایسا شخص، جو کسی سیاسی مخالف کا کارندہ ہوتا تھا، ایسے مخالف شخص کا انٹرویو الگ لیا جاتا تھا اور عموماَ فیصلہ جلد ہی کردیا جاتا تھا، اس طرح وہ شخص شہر سے غائب ہوجاتا تھا۔ یہی روایت آج بھی چلی آرہی ہے، آپ دو چار سوال کیجئے مولویت کے شکار لوگوں سے۔ آپ پر پہلی فرصت میں 'تارک حدیث'، 'تارک رسول' کا فتوی تھوپ دیا جائے گا۔ جبکہ علمی و دینی طور پر یہ علم و اعلام مسملمانوں کی میراث ہیں۔ بس سیاسی مقصد ان کے الگ ہیں۔ کہ مشکل سوالوں کا جواب، سوال کرنے والے کی کردار کشی سے دیا جائے اور سوالوں کو فتنہ میں بدل دیا جائے۔ عموماَ‌ یہ قدم قراں فہمی کی تعلیم عام کرنے والے کے لئے اٹھایا جاتا ہے تاکہ 'مولویت' کا سیاسی نظام قائم رہے، 'مولویت' کی ضرورت، 'ملوکیت' اور عوام میں یکساں قائم رہے۔ اور اس طرح 'مولویت' کا ایک متوازی (پیرالیل) ٹیکسیشن، متوازی قانون سازی، متوازی عدلیہ اور متوازی انتظامیہ کا سیاسی و معاشی نظام حکومت کے ساتھ ساتھ چلتا رہے، جوکہ چلتا رہا ہے اور چل رہا ہے۔ اس کے نظام کے مخالف 'تارک رسول' اور 'تارک حدیث' کے القابات سے نوازے جاتے رہے۔ مولویت کی طرف سے، ایسے ناجائز القابات پانے والوں میں سب سے بڑا نام سرسید احمد خان کا ہے، جو برصغیر کئ مسلمانوں میں علم کا پیامبر اور سیاسی سوچ بیدار کرنے کا خالق ہے۔

اس کی قیمت؟
اس معاشرتی ناانصافی کی ہم نے کیا قیمت ادا کی؟ ابتدائی سیاسی فتوحات کے نتیجے میں جب لوگوں نے اسلام کا عدل سے بھرپور سیاسی نظام دیکھا اور اس نظام میں اپنی ضرورت کا احساس کیا تو کفر ترک کرکے اسلام قبول کرنے کا رحجان عام رہا۔ لیکن ہندوستان میں 'مولویت' پر مبنی سیاسی نظام سے غیر مسلم، اسلام اور مسلمان دونوں سے نفرت کرتے رہے۔ اس لئے کے مدرسی درجہ بندی کی وجہ سے غیر مسلموں کو اس نئے سیاسی انسٹی ٹیوشن میں شامل ہونے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔ اس معاشرتی ناانصافی کے نتیجے میں مسلموں اور غیر مسلموں میں دشمنی، جبر، نفرت اور عداوت کی وہ فضا قائم ہوئی جس کی نظیر دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی ۔ جبکہ مسلمان عرب، ترکی، بلقان، لبنان ، شام اور ایران میں اپنی سیاسی فتوحات کے بعد، عدل و انصاف، امن و آشتی اور آسان طرز عمل سے لوگوں کے دل جیت کر ان کو مسلمان کر چکے تھے۔ اس وجہ سے برصغیر کا 'مولویت' کا سیاسی نظام ایک مکمل فیلیور ہے۔ اس کا دوبارا تجربہ کرنا ایک مکمل بیوقوفی ہوگا۔ اس کا ثبوت ہم اپنی ترقی سے پچھلے 60 سالوں میں دے چکے ہیں۔ تمامتر خرابیوں کے باوجود، ہماری ترقی، کسی بھی مسلم ملک کی ترقی سے زیادہ۔ اس نظام کو ترک کرنے کے بعد، اللہ کی ہم پر برکت کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی؟

اس میں قصور کس کا ہے؟
موجودہ 'مولویت' کی تنظیمیں صرف تقلیدی روش اختیار کرتی ہیں اور مناسب لیڈر شپ سے محروم ہیں۔ گو کہ 'ملوکیت' ختم ہوگئی لیکن 'مولویت' چونکہ ایک نظام ہے۔ اور ہر نظام و تنظیم کا اپنا ایک مومینٹم ہوتا ہے۔ لہذا اس کا پہیہ گھومے جارہا ہے اور مناسب لیڈر شپ کی کمی کی وجہ سے اس کا دھارا اسی سمت میں ہے جس سمت میں 200 برس پہلے تھا۔ وہ ضرورت گو کہ آج کے دور میں ' بادشاہت' ختم ہونے سے، ختم ہوگئی جس کے لئے دینی کتب کا سیاسی استعمال کیا گیا لیکن توجیہات آج بھی وہی دی جاتی ہیں اور اس سسٹم کو جس سے محرومیاں، تعلیم کے انحطاط اور جبر نے جنم لیا، آج بھی اس کو درست سمجھا جاتا ہے۔

مولوی ہے کون؟
ایک ایسا شخص جو اس سیاسی نظام کے مومینٹم کی وجہ سے اپنی ایسی رائے اس نظام کے حق میں رکھتا ہے، کہ قرآن فہمی عام نہ ہو، جدید تعلیم قرآن کے مخالف ہے، 'ملوکیت' یعنی حق حاکمیت کو حق ملکیت کی تاویلات 'شریعت' سے پیش کی جائیں۔ تمامتر علم و اعلام کا استعمال ان سیاسی مقاصد کے لئے کرتا ہو۔

ایسا شخص جو اپنے علم و اعلام کا استعمال صرف تعلیم فکر تک محدود رکھتا ہے، اور مفکریں اور علماء کرام کی صف میں کھڑا ہوتا ہے، 'مولویت' کی سیاسی نظام میں مبتلا نہیں ہوتا۔

نیاہدف، نیا خورشید: دین سب کے لئے
ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن 2، 3 پارے کرکے پہلی سے بارہویں تک اختیاری نصاب کا حصہ بنایا جائے، جو کہ معنی کے ساتھ پڑھایا جائے۔ دینی مدرسوں‌کے نصاب کا معائینہ کیا جائے، خطابت ( پبلک سپیکنگ)، امامت (لیڈرشپ) اور اسی طرح دوسرے علوم دینیہ کو اسکولوں میں بھی پڑھایا جائے ‌اور سنت، روایات، اقوال پر مبنی اعلی درجہ کے قانون سازی کی تعلیم یونیورسٹیز کے اعلی شعبوں میں منتقل کردی جائے۔ اس طرح مدرسوں کی ضروری تعلیم ہر شخص کے لئے عام ہو اور جو لوگ ان شعبوں کا انتخاب کریں وہ اسے حاصل کرسکیں۔ اپنے دین کو چند لوگوں پر چھوڑنے کی روش ترک کردی جائے۔ تاکہ ہر شخص اس معاشرہ میں اپنے کردار کا اندازہ کرسکے اور اسلامی و دینی تعلیم چند لوگوں کے لئے صرف ذریعہ معاش ہی نہ رہ جائے۔

تاکہ جدید تعلیم اور قرآن و سنت کی روشنی میں آزادی سے ایک نئے سیاسی نظام کا اغاز ہو سکے۔ تاکہ خوشیاں، تحفظات، فلاح وبہبود ، معاشی ترقی، شہری آزادی ، عدل و انصاف، قانون کا نفاذ، علمی ترقی، ایجادات، بہترین مالیاتی نظام اور سب سے بڑھ کر خوف خدا اور اس کے نتیجے میں امن و سکون ہمارے معاشرے میں قائم ہو۔


والسلام
 
نیاہدف، نیا خورشید: دین سب کے لئے
ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن 2، 3 پارے کرکے پہلی سے بارہویں تک اختیاری نصاب کا حصہ بنایا جائے، جو کہ معنی کے ساتھ پڑھایا جائے۔ دینی مدرسوں‌کے نصاب کا معائینہ کیا جائے، خطابت ( پبلک سپیکنگ)، امامت (لیڈرشپ) اور اسی طرح دوسرے علوم دینیہ کو اسکولوں میں بھی پڑھایا جائے ‌اور سنت، روایات، اقوال پر مبنی اعلی درجہ کے قانون سازی کی تعلیم یونیورسٹیز کے اعلی شعبوں میں منتقل کردی جائے۔ اس طرح مدرسوں کی ضروری تعلیم ہر شخص کے لئے عام ہو اور جو لوگ ان شعبوں کا انتخاب کریں وہ اسے حاصل کرسکیں۔ اپنے دین کو چند لوگوں پر چھوڑنے کی روش ترک کردی جائے۔ تاکہ ہر شخص اس معاشرہ میں اپنے کردار کا اندازہ کرسکے اور اسلامی و دینی تعلیم چند لوگوں کے لئے صرف ذریعہ معاش ہی نہ رہ جائے۔

تاکہ جدید تعلیم اور قرآن و سنت کی روشنی میں آزادی سے ایک نئے سیاسی نظام کا اغاز ہو سکے۔ تاکہ خوشیاں، تحفظات، فلاح وبہبود ، معاشی ترقی، شہری آزادی ، عدل و انصاف، قانون کا نفاذ، علمی ترقی، ایجادات، بہترین مالیاتی نظام اور سب سے بڑھ کر خوف خدا اور اس کے نتیجے میں امن و سکون ہمارے معاشرے میں قائم ہو۔

اس ہدف پر تمام ناقدین سے تبصرات درکار ہیں۔
 
اس سلسلے کے 4 مضامین ہیں۔ کچھ لوگوں نے اس کے لئے۔ مولویت کے بجائے 'ملائیت' تجویز کیا کہ اول الذکر لفظ باعث دل آزاری ہے۔ میں‌اس سلسلے کسی بہتر اصطلاح کی تلاش میں اب تک ہوں۔ 'ملائیت' مولویوں ‌پر طعنہ زنی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، میں اس کے استعمال کے حق میں‌نہیں‌تھا۔ یہ مضمون کسی فرد کی نہیں بلکہ ایک دھارے ایک نظام کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کی زد میں‌ عام مسلمان تو کیا علماء‌کرام بھی آتے دیکھے گئے ہیں۔

اس کے برعکس، قرآن کا ایک اجتماعی فرائض‌پر مشتمل نظام ہے جو 'قرآن کیا کہتا ہے' کی شکل میں آپ کو مل جائے گا۔ آپ دیکھیں گے کہ قرآن کے اجتماعی فرائض کس طرح ' نظام مولویت' میں پس پشت ڈال دئے جاتے ہیں۔

یورپ کے تاریک دور سے تاریک تر، بر صغیر کا دور مولویت
مولویت کیا ہے؟ مولویت کی تاریخ اور اس کے اغراض و مقاصد؟
مولویت اور کتب مولویت
مولویت : دینی نظریات و دینی کتب کا درست یا غلط سیاسی استعمال؟

آپکے کی بہتر تر رائے کا انتظار رہے گا۔
والسلام۔
 

دوست

محفلین
آج سے دو سال پہلے اپنے بلاگ پر ایک تحریر لکھی تھی۔ اس بحث میں‌ اسی کے ذریعے شریک ہونا چاہوں گا۔ اگرچہ موضوع سے کچھ ہٹ‌کر ہے۔
----------------------------------------------------
ایک متنازعہ موضوع پر قلم اٹھانے پر مجبور ہوا ہوں یا شاید حالات نے کردیا ہے۔ عنوان آپ کے سامنے ہے یعنی “علمائے دین“۔ میں نہ ہی کوئی طنز کا تیر چلاؤں گا نہ ہی ان کی تعریف کروں گا۔ بلکہ اپنے محدود علم اور تجربے کی روشنی میں کچھ حقائق بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ کچھ مسائل بیان کرنے کی کوشش کروں گا اور پھر اپنی محدود عقل کے مطابق ان کا حل پیش کرنے کی جسارت بھی کروں گا۔ میرا لکھا غلط بھی ہو سکتا ہے کیونکہ میرا علم خام ہے اس لیے میرے قارئین کو حق حاصل ہے کہ مجھے ٹوک دیں میں بصد احترام ان کی تنقیدوتصحیح پر لبیک کہوں گا۔ بات شروع کرتے ہیں۔ علماء کیا ہیں۔ آپ میں سب جانتے ہیں کہ ہر شعبے کے سپشلائزڈ لوگ ہوتے ہیں جنھوں نے متعلقہ شعبے کی تعلیم حاصل کی ہوتی ہے۔ جیسے ایک فزکس کے ڈاکٹر کو میں چیلنج نہیں کر سکتا کہ میرا علم اس سے کم ہے۔ آخر اس نے سالوں اس علم کے حصول میں لگا دیےہیں۔ کچھ تو ہوگا نا اس کے پاس جو اس کو مجھ سے ممتاز کرتا ہے ۔ اسی طرح علمائے دین ایسے لوگ ہیں جو دین کے معاملے میں سپیشلائزڈ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں دین کا صحیح پتا ہے ۔ ان لوگوں نے سالوں اس بات کی تعلیم حاصل کرنے میں لگا دیے ہیں کہ فلاں آیت کب نازل ہوئی،اس کا پس منظر کیا ہے، فلاں حدیث کب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے لبوں سے موتی بن کر بکھری اور اس کا پس منظر کیا تھا۔مختصرًا ان معلومات پر ان لوگوں کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو تھی بات کہ علماء کا مقام کیا ہے۔ اب بات کرتے ہیں ان کااسلام کے لیے کیا کردار ہے۔ یہ بات میں مانتا ہوں کہ ہر زمانے میں ایک ٹولہ ایسا رہا ہے جو درباری تھا سرکار کا کھا کر حق نمک ادا کرتا تھا ان لوگوں کو علمائے سوء کہتے ہیں ۔ یہ بات بھی میں مانتا ہوں کہ صوفیا کرام رحمتہ اللہ علیھم کا کردار اسلام کو پھیلانے میں انتہائی اہم بلکہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ مگر دین کو محفوظ کرنے کے لیے جن لوگوں نے ٹھوکریں کھائیں،رات کا چین اور دن کا سکون برباد کیا،حق بات کہنے کے لیے اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی ان میں علماء بھی ہیں۔ اصل میں دین کے معاملات کو علماء ہی چلا سکتے ہیں۔ صوفیا کا تبلیغ میں اہم کردار ہے رہا ہے اور رہے گا مگر عام لوگ براہِ راست صوفیا سے متعلق نہیں ہوتے۔ صوفیا کا ایک مخصوص اسلوب ہوتاہے وہ بات کچھ اور کرتے ہیں اور مطلب کچھ اور ہوتا ہے جسے صاحبِ نظر ہی پہچان سکتاہے ۔ دوسرے صوفیا کرام اللہ کے لیے اپنا سب کچھ چھوڑ بیٹھتے ہیں ظاہر ہے وہ جو کچھ دیکھیں گے،محسوس کریں گے وہ ہی بیان کریں گے اسی کی نصیحت کریں گے اکثر اوقات یہ باتیں عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آتیں(صوفیا باطن کو اہمیت دیتے ہیں ہم آپ ٹھہرے دنیا دار اس لیے ان کی باتیں جو ان کے لحاظ سے ٹھیک ہیں ہمارے لحاظ سے ٹھیک نہیں ہوتیں کیونکہ ان کا ایک مقام ہے اس مقام کے اپنے تقاضے ہیں۔ اسکی مثال ایسے لے لیں ایک بازی گر جو رسے پر چل رہا ہے اور ایک بندہ جو نیچے زمین پر۔ صوفیا رسے پر چلنے والے بازیگر کی طرح ہیں اپنی زندگی بلکہ اپنا ایمان تک خطرے میں ڈال کر اللہ کو پہچاننے کی کوشش کوئی دیوانہ ہی کر سکتا ہے اور سچ پوچھیں تو کئی لوگ اس رسے سے گر کر اپنے ہوش خرد بھی گنوا بیٹھے تاریخ کی کتابیں اس سے بھری پڑی ہیں اس لیے تفصیل میں نہیں جارہا جبکہ ہم عام لوگ سیدھی سادھی تشریح چاہتے ہیں ہمیں بازی گر سے کیا واسطہ ہم تو زمین پر چل رہے ہیں ہمارے تقاضے بھی مختلف ہیں) ۔ اس لیے ایک ایسے شخص کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو دین کی باتیں بتائے ان اصولوں کے مطابق ان راوایات کے مطابق ان واقعات کے مطابق جو اللہ کے رسول صلی علیہ وسلم سے ماخوذ ہیں۔چناچہ اس کل وقتی کام کو علماء بہتر طریقے سے سرانجام دے سکتے ہیں بہ نسبت صوفیاکے۔ اگلی بات مذہب کی تبلیغ میں بھی ان کا بڑا ہاتھ ہے۔ صوفیا کا اپنا انداز ہے وہ کسی کے منانے کے لیے ایسا طریقہ استعمال کرتے ہیں(یا ان کے ہاتھوں سرزد کرادیا جاتاہے) جو عقل تسلیم نہیں کرسکتی اس طرح سائل اسلام کی حقانیت جان کر مسلم ہو جاتاہے۔ علماء دلیل سے بات کرتے ہیں عام خوبیاں خامیاں گنواتے ہیں اور پھر نتیجہ کے طور پر اسلام کی حقانیت ثابت کرتے ہیں مگر ایک مختلف انداز میں۔(ہر مسلمان اسلام کا سفیر اور مبلغ ہے اور ہونا چاہیے اور ہم کوشش بھی کرتے ہیں کہ جب کوئی غیر مسلم ہم سے اسلام کے بارے میں پوچھے تو اس کو مطمئن کریں مگر بات وہی آجاتی ہے ہمارا علم خام ہے۔ ہمارے مقابلے میں ان لوگوں کا علم زیادہ ہے اس لیے وہ بہتر طریقے سے یہ کام کرسکتے ہیں بلاشبہ اسلام کی تبلیغ میں عام مسلمانوں کابھی ہاتھ ہے تاہم اس وقت موضوع گفتگو کچھ ایسا ہے کہ میں اس ذکر کو مختصرًا یہیں ختم کرتا ہوں۔) دین کی تبلیغ کے لیے علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس لیے اسلام کے شروع سے مختلف طریقے اپنائے گئے جو آخر کار ایک منظم نظام کی صورت میں سامنے آئے یعنی دینی مدارس۔ پہلے ان مدارس میں غیر دینی علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی جیسے سائینس ۔ قرونِ و:سطٰی کے مسلم سائنسداں اسکی واضح مثال ہیں۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ان اداروں میں علوم عمرانیات اور پھر دینی علوم تک محدود ہوگئے۔ ایک اور خرابی جو پیدا ہوئی وہ ہر ایک کا اپنا نکتہ نظر تھا۔ جب ہر کسی نے ریسرچ کی اپنی عقل کے مطابق جو بات اسے ٹھیک لگی اس نے اپنا لی جس سے مختلف مکتبہ فکر وجود میں آئے جنھیں مسالک یا فرقے کہاجاتاہے۔ اختلاف کوئی ایسی بات نہیں جسکی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ مثلاً ایک بار دو مختلف مسالک کے علماء آپس میں ملے تو نماز کے وقت دونوں نے ایک دوسرے کے احترام میں اپنا طریقہ نماز چھوڑ کر دوسرے کا طریقہ نماز اپنا لیا۔ یہ احترام تھا محبت تھی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ احترام نہیں رہا اب بات بہت مختلف ہوچکی ہے اب تو فرقے ایسے جزیرے ہیں جن کے مابین اختلافات کے سینکڑوں میل وسیع سمندر حائل ہیں۔ اب کچھ بات برِصغیر کے علماء کی اور یہاں کے دینی تعلیمی نظام کی۔یہ نظام انگریزوں کے دور میں انگریزی تعلیم کے خلاف رد عمل میں شروع ہوا جسے درسِ نظامی کہتے ہیں(میں پہلے عرض کر چکا ہوں میرا علم خام ہے اسلئے اگر یہاں غلطی پر ہوں تو درست فرما دیجیے گا۔) ایک طرف انگریزی تعلیمی نظام دوسری طرف درسِ نظامی۔ درسِ نظامی اصل میں دین کو بچانے کی ایک کوشش تھی مگر اس کوشش کے نتائج آج کل کچھ اچھے نہیں مل رہے۔ اس زمانے کے مطابق بھلے یہ ٹھیک تھی مگر آج کل جو دور چل رہا ہے یہ نظامِ تعلیم بدلنا چاہیے۔ بے شک اس بات میں کوئی شک نہیں اس نظام سے ہی وہ ہیرے نکلے جنھوں نے انگریز مشنری پادریوں کے ناطقے بند کردیے۔ جنھوں نے اس دور میں اسلام کو بچایا جب انگریز سرکار،انکے حمایت یافتہ مشنری اور ہندو قوم اسلام کو ہڑپ کرلینے کے چکر میں تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو مساجد کو آباد کرتے ہیں۔ انھی کی وجہ سے آج بھی سخت سردی میں فجر کی اذان وقت پر ہوتی ہے۔ بارش ہو،مینہ ہو ، سردی ہو گرمی ہو جنازہ یہی لوگ پڑھاتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے قابلِ صداحترام ہیں۔ بے شک یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارثین میں سےہیں (ظاہری علوم میں)۔ یہ ہم سے بر تر ہیں ہم وہ وقت گالم گلوچ یا خرافات میں گزارتے ہیں اور یہ لوگ وہی وقت قرآن کو سمجھنے اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرنے اور اس کا علم حاصل کرنے میں گزارتے ہیں۔ قابل صداحترام ہیں یہ علم حاصل کرنے والے اور اس کے اساتذہ۔ بے شک یہ ہی لوگ ہیں جنھوں نے اردو کو اس بات کا اعزاز بخشا کہ اس میں دینی علوم کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے جو شاید ہی کسی زبان میں ہو شاید عربی میں بھی نہیں۔ ہر قابل ذکر دینی کتاب خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہو کا اردو ترجمہ موجود ہے جو ان کاایک اور اعزاز ہے۔ مگر میں جو عرض کررہا تھا وہ بھی اپنی جگہ درست ہے۔ اس نظام میں اب تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مسالک کے پیچھے لگ کر علماء دین کی اصل کو بھلا بیٹھے ہیں۔ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانا معمول بن چکا ہے۔ ان کی ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک نہیں ہوتی۔ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہر مسلک کی الگ مسجد ہے اور ایک ہی محلے میں یوں کئی کئی مساجد ہیں۔ مسجد کے ساتھ لکھا ہے فلانی مسجد اہلحدیث،اہلسنت بریلوی،اہلسنت دیوبندی یا اہل تشیع ۔۔ انڈیا میں مسلم پرسنل لاء بورڈ میں اس قدر اختلافات ہوگئے کہ وہاں اہل تشیع نے آل انڈیا شیعہ مسلم پرسنل لاء بورڈ قائم کرلیا ان کے خیال میں انکے دینی تقاضے اکٹھے رہ کر پورے نہیں ہورہے تھے۔ پاکستان میں مدارس کے پانچ وفاق قائم ہیں یعنی ہر مسلک کا الگ وفاق(اسے آپ یوں سمجھ لیں جیسے یونورسٹی جو امتحان لینے کی ذمہ دار ہو اور سلیبس وغیرہ بھی مہیا کرے ساتھ ہی سند بھی امتحان پاس کرنے کے بعد جاری کرے )۔ آپ میں بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں بلکہ اندازہ کیا جانتے ہیں کہ ان مدارس سےنکلنے والے طلبا دوسرے مسلک بارے کس قدر متعصب ہوتے ہیں۔ جہاں دو عالم اکٹھے ہوجائیں عام سے مسائل پر بحث شروع ہوجاتی ہے جن پرپہلے ہی ہر فرقے نے مخالفت اور موافقت میں درجنوں کتب تحریر کر رکھی ہیں۔ہر فرقہ خود کو صحیح اور دوسرے کو غلط کہتا ہے۔ یہ سب کیوں ہورہا ہے آج کے دور میں جبکہ ہم دین کے پہلے سے بہتر جانتے ہیں۔ اس کی وجہ میری ناقص عقل کے مطابق یہ ہے کہ ہم لوگ اس طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دے ہے۔ بے شک تبدیلی کی مخالفت ہو رہی ہے تاہم تبدیلی ہونی چاہیے۔ دوسرے اس شعبے کو انتہائی حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ سچ پوچھیے تو ماں باپ اپنے بچے کو صرف اسی صورت میں اس شعبے میں بھیجتے ہیں جب یقین ہوجائے کہ یہ اب کسی کام کا نہیں۔ تو سوچا جاتا ہے کہ آخرت ہی سنوار لیں۔ یا وہ بچے جو یتیم ہیں۔ دیانتداری سے بتایے اگر یہ شعبہ خیرات پر نہ چلے، یہ لوگ بھی فیس لیں ،ان سے فارغ التحصیل افراد کی معاشرے میں ویسی ہی مانگ ہو جو کسی ڈاکٹر یا انجینئیر کی ہے تو کیا اس کا معیار بہتر نہیں ہوگا۔ بالکل ہوگا۔ مگر اس شعبے کے حصے میں وہ طلبا آتے ہیں جو کچرا ہوتے ہیں کند ذہن ماں باپ کی نظر میں جن کی کھپت اور کہیں نہیں۔(یاد رہے میں عمومی بات کر رہا ہوں ایسے لوگ بے شک موجود ہیں جو اپنے بچوں کے دین کی تعلیم خصوصًا دلواتے ہیں۔) دیانتداری سے بتایے اس سب کا فائدہ کس کو ہورہا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ہمارے دشمنوں کو ظاہر سی بات ہے۔ہم جو توانائیاں اس بات پر لگا رہے ہیں کہ فلانے کافر ہیں اپنے ہی بھائیوں کو ذلیل کر ہے ہیں کیا وہ ان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہییں جو اسلام پر قدغن لگا رہے ہیں ۔ میری مراد جدید دنیا کے ان غیر مسلم نام نہاد مفکرین سے ہے جن کی کتابیں اس بنیاد پر بیسٹ سیلر کا اعزاز حاصل کرتی ہیں کہ اسلام ایک غلط مذہب ہے اور مسلمان دہشت گرد۔(نیز نومسلموں کو بڑی دقت ہوتی ہے جب وہ مسلمان تو ہوجاتے ہیں اور پھر انھیں اندر کے حالات کا پتا چلتاہے ان سے بار بار پوچھا جاتا ہے کہ آپ کا مسلک کیا ہے۔ اس طرح اسلام کی بدنامی ہوتی ہے۔) علم کے محاذ پر،دلیل کے ساتھ میں یا میرے جیسے عام لوگ انھیں قائل نہیں کرسکتے انھیں شکست نہیں دے سکتے۔ انکے ساتھ بحث اور مناظرہ نہیں کرسکتے یہ کام علماء ہی کرسکتے ہیں ۔ کیونکہ انھیں تقابل ادیان کا خصوصی علم سکھایا جاتا ہے انھیں منطق پر عبور حاصل ہوتاہے وہ دلیل دینا اور دی گئی دلیل کو رد کرنے کے قاعدے جانتے ہیں جو میں اور میرے جیسے جاہل نہیں جانتے۔ تو اس سب کاحل کیاہے۔ میری نظر میں اور میرے ناقص علم و عقل کے مطابق اس کا حل یہ ہے کہ +علماء اپنی توجہ فروعات سے ہٹا کر دین کے پھیلانے پر مرکوز کریں۔ بے شک ہر کوئی اپنے طریقے سے دین کو سمجھے اس پر عمل کرے مگر ایک دوسرے پر الزام دھرنا اب بند ہوجانا چاہیے۔ +دینی تعلیمی اداروں میں اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ طلباء دینی علوم کے علاوہ دنیاوی علوم سے بھی مناسب حد تک لیس ہوکر نکلیں تاکہ انھیں معاشی زندگی میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ +انگریزی تعلیم کا بندوبست خاطر خواہ ہو کیونکہ اسی زبان میں اسلام کے خلاف زیادہ پروپیگنڈہ موجود ہے اور ہمارے سائیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تو فرمان ہے کہ جس نے دشن کی زبان سیکھ لی وہ اسکے شر سے محفوظ ہوگیا۔(یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ دینی اداروں کو اس کا احساس ہونے لگاہے ایک اخبار میں کراچی کے ادارے میں پوسٹ گریجویشن کورس بارے اشتہار پڑھ کر خوشی ہوئی جس کا مقصد ہی یہ تھا کہ مغربی ممالک میں تبلیغ کے لیے مبلغ تیار کیے جائیں اور اسکے لیے کم از کم تعلیم کی شرط گریجویشن،ساتھ انگریزی میں قابلیت بھی ضروری قرار دی گئی تھی۔) ۔علماء کو تقابل ادیان کی تعلیم دی جاتی ہے میں نہیں جانتا کہ اس میں اہم مذاہب کی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں یا نہیں۔ میں اس سلسلے میں انڈیا کے معروف مسلم سکالر ڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نائیک کی مثال دینا چاہوں گا جو اسلامی علوم کے ساتھ چاروں اناجیل اورہندوؤں کی کتب رامائن اور گیتا کے بھی عالم ہیں۔ اگر مدارس میں اس چیز کو نصاب میں شامل کر دیا جائے تو مسلم سکالرز دودھاری تلوار بن جائیں گے۔ آج کل سائنس پسند ہونا فیشن میں ہے۔ مغربی لوگ ہر بات سائنس کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود ان میں دین کے بار ےخلاء بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر مدارس کے نصاب میں سائنس کا اس حد تک خصوصی علم شامل کر دیا جائے کہ فارغ التحصیل عالم لوگوں پر اللہ کی واحدانیت سائنس سے بھی ثابت کرسکے تو کیا کہنے۔ میں پہلے ہی ایک جگہ کہہ چکا ہوں کہ اللہ کی ذات سائنس سے ثبوت کی محتاج نہیں مگر یہ ان کی بہتری کے لیے اور انکو آسانی سے سمجھانے کے لیے ہوگا جو صرف سائنس کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں۔(اس سلسلے میں ترکی کے معروف سکالر ہارون یحیٰی جن کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ سائنس کی روشنی میں دلیلیں دے کر اسلام کی حقانیت ثابت کرتے ہیں اور وہ اس میں کامیاب بھی ہیں موجودہ ترکی کا معاشرہ جو سیکولر طرزوں پر استوارہے وہاں نوجوانوں میں اس طریقے سے اسلام کی تڑپ پیدا ہورہی ہے۔) +انتہا پسندی نے جتنا اسلام کو آج نقصان پہنچایاہے پہلے کبھی نہیں پہنچایا تھا۔ آج کا دور اس بات کا متقاضی ہے کہ دوسرے کو دلیل دے کر قائل کیا جائے بم دھماکہ کرکے نہیں۔ اس لیے علماء کی تربیت میں یہ بات بھی شامل ہو کہ وہ جیو اور جینے دو کے اصول کو اہمیت دیں ۔ اپنی بات تمام سیاق و سباق کے ساتھ دوسرے کے سامنے رکھ کر پچھے ہو جائیں وہ قبول کر لیں تو ٹھیک ورنہ آپ کا فرض پورا ہوگیا۔ ہمیں تو تعلیم ہی اس بات کی دی گئی ہے کہ ہدایت دینا اللہ کا اختیار ہے ہمارا کام صرف بات پہنچا دینا ہے۔ +علماء کے ذہنوں میں یہ بات نہ بٹھا دی جائے کہ ٹی وی اور دوسرے جدید میڈیا گناہ ہیں۔آج کا دور پراپیگنڈہ کا دور ہے جس کا توڑ بھی پراپیگنڈہ ہے ۔ اسے مجبوری سمجھ کر ہی سہی مگر برداشت ضرورکریں اور استعمال بھی کریں ہمارا مطمع نظر اسلام کی اشاعت ہونا چاہیے اگر اسکے لیے ایک گناہ کرنا پڑتاہے تو کم از کم میں کر گزروں گا۔ (میرا ذہن اس سے آگے اس بارے میں کورا ہو رہا ہے تجاویز کئی ایک ہونگی جو کہ دوست اس تحریر کے جواب میں یقینًا پیش کریں گے اس لیے میں بات کو سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں۔) آج کے دور میں اگر ہم دیکھیں تو اہل مغرب جیسے اس بات کے انتظار میں بیٹھے ہیں کہ ذہنی سکون کا کوئی ذریعہ نصیب ہوجائے۔ اسلام اس کا واحد حل ہے مگریہ ان تک ایسے پہنچے کہ وہ اس سے محبت محسوس کریں اور اپنا لیں نہ کہ نفرت محسوس کریں۔ آج کے دور کے معروف سکالرز جیسے احمد دیدات،ہندوستان کے ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ترکی کے ہارون یحیٰی(پاکستان کے ایک معروف سکالر کا نام بھول رہا ہوں شاید ڈاکٹر حمید اللہ جن کے ہاتھ پر سینکڑوں فرانسیسیوں نے اسلام قبول کیا تھا) وغیرہ اسی لیے اسلام کے داعی اورنمائندوں کے طور پر جانے جاتے ہیں کہ ان کی تمام توانائیاں اسلام کی حقانیت غیر مسلموں پر ثابت کرنے پر مرکوز ہیں نہ کہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو مزید مسلمان کرنے پر۔یہ وہ لوگ ہیں جن کا ذکر متعصب مغربی میڈیا بھی انتہائی احترام سے کرتا ہے۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں اپنے دین کو پھیلانے کی توفیق دے تاکہ یہ صدیوں سے نشاتہ ثانیہ کی منتظر نگاہیں قرار پاسکیں۔ آنے والا دور اسلام کا ہے یہ بات لکھ لیجیے مگر اس کے لیے عمل کی ضرورت ہے۔ تو آئیے اسلام کی سر بلندی کے لیے اپنے وسائل استعمال کریں ۔اللہ ہمیں عمل کرنے کی توفیق دے۔
-----------------------
 
نیاہدف، نیا خورشید: دین سب کے لئے
ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن 2، 3 پارے کرکے پہلی سے بارہویں تک اختیاری نصاب کا حصہ بنایا جائے، جو کہ معنی کے ساتھ پڑھایا جائے۔ دینی مدرسوں‌کے نصاب کا معائینہ کیا جائے، خطابت ( پبلک سپیکنگ)، امامت (لیڈرشپ) اور اسی طرح دوسرے علوم دینیہ کو اسکولوں میں بھی پڑھایا جائے ‌اور سنت، روایات، اقوال پر مبنی اعلی درجہ کے قانون سازی کی تعلیم یونیورسٹیز کے اعلی شعبوں میں منتقل کردی جائے۔ اس طرح مدرسوں کی ضروری تعلیم ہر شخص کے لئے عام ہو اور جو لوگ ان شعبوں کا انتخاب کریں وہ اسے حاصل کرسکیں۔ اپنے دین کو چند لوگوں پر چھوڑنے کی روش ترک کردی جائے۔ تاکہ ہر شخص اس معاشرہ میں اپنے کردار کا اندازہ کرسکے اور اسلامی و دینی تعلیم چند لوگوں کے لئے صرف ذریعہ معاش ہی نہ رہ جائے۔

تاکہ جدید تعلیم اور قرآن و سنت کی روشنی میں آزادی سے ایک نئے سیاسی نظام کا اغاز ہو سکے۔ تاکہ خوشیاں، تحفظات، فلاح وبہبود ، معاشی ترقی، شہری آزادی ، عدل و انصاف، قانون کا نفاذ، علمی ترقی، ایجادات، بہترین مالیاتی نظام اور سب سے بڑھ کر خوف خدا اور اس کے نتیجے میں امن و سکون ہمارے معاشرے میں قائم ہو۔

اس ہدف پر تمام ناقدین سے تبصرات درکار ہیں۔
 
دینی تعلیمی اداروں میں اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ طلباء دینی علوم کے علاوہ دنیاوی علوم سے بھی مناسب حد تک لیس ہوکر نکلیں تاکہ انھیں معاشی زندگی میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

شاکر بھائی، بہت شکریہ۔ اس خوبصورت آرٹیکل کا۔
دینی تعلیمی اداروں میں مکمل جدید نصاب اور عام اسکولوں‌ میں دینی اسکولوں کا نصاب، فنون شامل کرکے ان تمام اسکولوں کو یکجان کیا جائے۔ اور دین کی تعلیم سے ہر اس شخص کو بہرہ ور کیا جائے جو اس کا طالب ہو۔ کسی کو بھی محروم نہ رکھا جائے۔

والسلام
 
نیاہدف، نیا خورشید: دین سب کے لئے
ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن 2، 3 پارے کرکے پہلی سے بارہویں تک اختیاری نصاب کا حصہ بنایا جائے، جو کہ معنی کے ساتھ پڑھایا جائے۔ دینی مدرسوں‌کے نصاب کا معائینہ کیا جائے، خطابت ( پبلک سپیکنگ)، امامت (لیڈرشپ) اور اسی طرح دوسرے علوم دینیہ کو اسکولوں میں بھی پڑھایا جائے ‌اور سنت، روایات، اقوال پر مبنی اعلی درجہ کے قانون سازی کی تعلیم یونیورسٹیز کے اعلی شعبوں میں منتقل کردی جائے۔ اس طرح مدرسوں کی ضروری تعلیم ہر شخص کے لئے عام ہو اور جو لوگ ان شعبوں کا انتخاب کریں وہ اسے حاصل کرسکیں۔ اپنے دین کو چند لوگوں پر چھوڑنے کی روش ترک کردی جائے۔ تاکہ ہر شخص اس معاشرہ میں اپنے کردار کا اندازہ کرسکے اور اسلامی و دینی تعلیم چند لوگوں کے لئے صرف ذریعہ معاش ہی نہ رہ جائے۔

تاکہ جدید تعلیم اور قرآن و سنت کی روشنی میں آزادی سے ایک نئے سیاسی نظام کا اغاز ہو سکے۔ تاکہ خوشیاں، تحفظات، فلاح وبہبود ، معاشی ترقی، شہری آزادی ، عدل و انصاف، قانون کا نفاذ، علمی ترقی، ایجادات، بہترین مالیاتی نظام اور سب سے بڑھ کر خوف خدا اور اس کے نتیجے میں امن و سکون ہمارے معاشرے میں قائم ہو۔

اس ہدف پر تمام ناقدین سے تبصرات درکار ہیں۔
 

فرید احمد

محفلین
1۔ یورپ کے تاریک دور سے تاریک تر، بر صغیر کا دور مولویت
2۔ مولویت کیا ہے؟ مولویت کی تاریخ اور اس کے اغراض و مقاصد؟
3۔ مولویت اور کتب مولویت
4۔ مولویت : دینی نظریات و دینی کتب کا درست یا غلط سیاسی استعمال؟

آسان یہ رہے گا کہ مندرجہ بالاء‌4 آرٹیکلز پر تبصرات یہاں‌فرمائیں۔ 4 جگہ تبصرات پر جواب دینا مشکل ہے۔
فاروق صاحب ، اپنی ضد چھوڑیے ، ان موضوعات کی بہت سی باتیں اراکین کی بحث کے بعد منقح ہو چکی ہیں ، پھر بھی ان موضوعات پر اڑے رہنا آپ کو زیب نہیں دیتا ، کم سے کم اس کا اعتراف آپ خود کر شکے ہو کہ "مولویت " کی اصطلاح آپ نے اپنے جہل کی بنیاد پر استعمال کی ہے ، میرے خیال میں آپ عنوان بدل دیں ، اور چاروں جگہ "مسلم حکمرانی " کا لفظ استعمال کریں ۔
 
یہ آرٹیکل قرآن کی تعلیم کی حمائت میں لکھا گیا ہے۔ کسی مسلم حکمران کے مرنے سے وہ نظام جس کی طرف اشارہ ہے ختم نہیں ہوگیا تھا۔

انسانی کتابوں‌ پر ضد، جہالت، اعتراف ۔ کردار کشی، جیسے الفاظ - جن سوچوں کی غمازی کرتے ہیں۔ انہی کا سدباب کرنے کے لئے لکھے گئے ہیں یہ آرٹیکلز۔

تمام نکات کا جواب دے چکا ہوں۔ اور یہ واضح‌کر چکا ہوں کہ قرآن کی تعلیم ایسی تمام سوچوں کا اچھا علاج کرتی ہے۔ کچھ قرآن کی تعلیم کو اپنی روز مرہ معمولات کا حصہ بنائیے۔ یہی سبق ہے اس آرٹیکل کا۔

یہ کم علمی کی نشانی ہے کہ کوئی مضمون نہ سمجھے اور مضمون لکھنے والے کو ملامت شروع کردے۔ مضمون پر توجہ دیجئے اور اگر سمجھ میں نہ آئے تو بھائی سمجھنے کی کوشش کیجئے، میرا اپنا موقف ہے، آپ کا اپنا موقف ہے۔ میں آپ کو اپنا موقف بدلنے کو نہیں کہتا آپ اپنا موقف مجھ پر کیوں ٹھونستے ہو؟

ہماراا تفاق رائے بس اتنا ہے کہ ہماری رائے مختلف ہے۔ دوسروں کا نکتہ نظر سمجھنے کی عادت ڈالئے۔ اگر اتفاق رائے نہیں تو کوئی اپنا نکتہ نظر پیش کیجئے، وہ دَور کہ ہر غیر متفق کو ملامت اور نصیحت کی جائے، چلا گیا۔ دیکھئے خود قرآن حکیم کس رخ‌کی طرف رہنمائی فرماتا ہے۔ اور آُپکا رخ‌کہاں ہے۔ وقت آپ کو جھنجوڑ رہا ہے کہ انسانوں کی لکھی ہوئی کتب کو چھوڑئے اور اللہ کی لکھی ہوئی کتاب پر دھیان دیجئے۔ اور جو اس طرف دھیان دلاتا ہے تو اس کو تو نہ روکئے :)
 

فرید احمد

محفلین
کتاب الہی کو کسی نے چھوڑا نہیں ، یہ متصور بھی نہیں ، لیکن یہ بار بار ہوچھا جا چکا ہے کہ کیا کتاب الہی کی تشریح وہ معتبر جو آپ کریں یا وہ جو نبی کر کے گئے ہیں ،
میں نے اس سلسلے میں
نماز ،
روزہ ،
زکوۃ ،
حج ،
جرائم کے سد باب ،
تجارت و معاملات کے قواعد ،
نکاح و طلاق
گرض زندگی ہر پہلو میں کتاب خداوندی نے جواصول بتائے ہیں ، وہ لسان نبوی سے واضح کیے گئے ہیں ، اور ان کی مرادیں متعین کی گئی ہیں ،
آج ایک اور مثال دے دوں ، نکاح کے صحیح ہونے کے لیے لڑکی اور لڑکے کی اجازت یعنی رضامندی کے ضروری ہونے کا بیان قرآن میں ہے ؟ اس کے گواہوں کی شرط کا ذکر قرآن میں ہے ؟
یہ متعین ہے کہ یہ سب حدیث سے معلوم ہوتا ہے ،
اور کتاب الہی کے ان احکام پر عمل کے لیے احادیث کو رہ نما بنانا لازم ہے ،
ہاں آپ یہ کہ دیں گے ہم نے نکاح حرمین میں ہوتے دیکھا ؟
یا شہنشاہت کے آلہ کار بنے ہوئے ، فقط ناظرہ قران میں قوم کو سلائے رکھنے والے اپنے محلہ کے امام سے دیکھا اور امام کی اس سنت جاریہ کو آپ نے مان لیا ۔
خیر آپ کے الفاظ آپ کو بتا دوں کہ آپ نے کس چیز کو تسلیم کیا تھا
یں‌سمجھتا ہوں کہ ایک تو میں نیا ہوں اور ایڈجسٹمنت کے پراسس سے گذر رہا ہوں ۔ دوسرے مجھے لفظ Clergy کا کوئی مناسب ترجمہ نہ مل سکا تو میں نے لفظ 'مولویت' استعمال کیا۔ ممکن ہے اس کی جگہ اگر 'مذہبی بادشاہ گر' استعمال کرتا تو شاید مخمل میں لپتے اس لفظ سے وہ مقصد تو نہ حاصل ہوتا لیکن صورتحال مختلف ہوتی؟
آپ نے مانا ہے کہ لفظ مولویت در اصل اس انگریزی اصطلاح کا ترجمہ نہ ملنے کی وجہ سے لکھا ؟ اور وہ انگریزی اصطلاح کہاں سے نازل ہوئی ہے ؟
اور ہاں
آپ نے لکھا کہ
اس کی جگہ اگر 'مذہبی بادشاہ گر' استعمال کرتا تو شاید مخمل میں لپتے اس لفظ سے وہ مقصد تو نہ حاصل ہوتا لیکن صورتحال مختلف ہوتی؟
کیا وہ یہی مولویت کے نام پر ایک گروہ کو بدنام کرنے کا یا محفل پر تناو پیدا کرنا مقصد تھا ِ
آپ نے آگے لکھا ہے :
میں نے سوچا چلو دو چار جوتے تو پڑیں گے مجھے، لیکن لوگوں کے ذہن میں یہ تو داخل ہوگا کہ معصوم مذہبی علما کو اس طرح بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور وہ پہیہ چل پڑتا ہے کہ صدیوں نہیں رکتا۔
بس یہی آپ کا سوچ کا منتہا ہے ۔ مان لیا نہ

آپ نے آگے لکھا ہے :
بہر صورت مقصد یہ ہے کہ من حیث القوم ہم تعلیم میں پیچھے ہیں اور پھر قرآن کی بنیادی تعلیم مفقود ہے۔

یہ من حیث القوم والی بات آپ کے الفاظ ہیں ،
پھر کیوں مولویت کی اصطلاح لیے پھرتے ہو ؟

آپ لکھتے ہیں :
ہمارا فرض ہے کہ ہم اس صورتحال کو تبدیل کریں۔ اور بہ معنی قرآن، خطابت (Public Speaking) اور امامت (LeaderShip) کو بنیادی جماعتوں کے اور اعلی علوم کو اعلی جماعتوں کے نصاب میں شامل کردیا جائے تاکہ اس پنیری سے ہم میں بہترین قانون ساز و معاشرہ ساز پیدا ہوسکیں جن کی اساس ان علوم دینیہ پر ہو۔ کہ نصیحت کے لئے عقل و دانش درکار ہے اور عقل و دانش کو جلا علم سے ہی ملتی ہے۔

کیجیے جناب ، اچھی طرح کیجیے ، اپنی لکیر کو بڑا دکھانے کے لیے دوسرے کی لکیر مت مٹائیے ، خود اپنی لکیر بڑی فرمائیں ۔
 
میری سمجھ میں کچھ بھائیوں‌کا مسئلہ آ رہا ہے۔ کہ ان کے مسلک کا یہ اصول رہا ہے کہ یہودیوں کی طرح، وہ صرف کسی مخصوص فرد کو یہ حق دیتے ہیں کہ صرف وہی احادیث یا آیات کو پڑھ سکے یا اس کا حوالہ دے سکے۔ اگر وہ شخص مخصوص‌اسناد کا مالک نہیں ہے تو اس کی جہاں تک ممکن ہو مخالفت کی جائے۔ اس سے خود اس مکتبہء فکر کا تحفظ مقصود ہے اور دوسرے مکتبہ فکر کی تذلیل۔ بریلوی اور دیوبندیوں کا بیر اس قدر مشہور ہے کہ اس کی اب مثال دی جاتی ہے۔

اس طرح یہ اصحاب ہرکس و ناکس سے قرآن و سنت کی تعلیم چھین لیتے ہیں۔ میں‌ رسول اللہ اور قرآن کے مطابق، قرآن و سنت کی تعلیم ہر شخص کے لئے کا داعی ہوں اور خود کو صرف ایک طالب علم سمجھتا ہوں۔ لہذا نہ میں‌امیدوار ہوں‌کہ آُپ میری تقلید کیجئے اور نہ امیدوار ہوں کہ آپ میرے ہاتھ پر بیعت کیجئے۔ جن آیات کا یا روایات کا حوالہ میں فراہم کردیتا ہوں ان پر آپ خود غور کیجئے اور اگر وہ حوالہ غلط ہو تو درستگی فرمائیے۔ اور کچھ سیکھنے یا سکھانے کی کوشش کیجئے۔ تاکہ قرآن کی تعلیم عام ہو اور یہ جو ہم نے دین کے ٹھیکیداروں کو، دین ٹھیکہ پر دیا ہوا ہے، یہ علم عام آدمی تک پہنچ جائے۔

اللہ تعالی فرماتے ہیں:
[ayah]54:17[/ayah] اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے۔

نصیحت قبول کرنے کے لئے اس کو صرف چند افراد پڑھیں اور سمجھائیں، یہ کس آیت سے ثابت ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اس تعلیم کو ڈایریکٹ قرآن سے رسول اللہ کی ہدایات کی روشنی میں حاصل کریں۔ کسی مولوی، ملا، آیت اللہ کی ٹھیکیداری نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ حدیث سے۔

لہذا اگر آپ کو کوئی روکتا ہے تو اس سے پوچھئے کہ جس کتاب پر ایمان رکھنے کا کہتے ہو اس کتاب کو پڑھنے کیوں‌نہیں‌دیتے؟

والسلام۔
 

فرید احمد

محفلین
مکرمی آپ کی باتیں قابل قدر ہیں ، میں اس کا احترام کرتا ہوں ۔
لیکن اس بات کا کیا ک ہو آپ جناب روایات کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے ، اس کو ایرانی سازش سمجھتے ہیں ، اس سے ثابت مسائل کو شہنشاہیت کو ،ضبوط کرنے کے لیے دیندار مولویوں کی طرف سے دینی کتب کا غلط استعمال قرار دیتے ہو ! ! !
آپ نے روایات پیش کرنے کا کہا ہے ، پیش فرمائیں ، حوالہ کے ساتھ ، اس کا کوئی انکار نہ کرے گا ،
ہاں اس کے مطلب میں آپ کا کوئی نطقہ نظر ہے تو دوسرے کا بھی ہوگا ، اور ایسا تو قرآن میں بھی ہوتا ہے ۔
ایک سوال یہ ہے کہ آپ کے سوا کسی اور کو روایات پیش کرنے کا اختیار ہے یا نہیں ؟
آپ کہیں گے یقینا ہے ،
تو جناب موسیقی کو حرام قرار دینے والی بیسیوں روایات ہیں ، میں اس سے قبل ایک لنک آپ کو دے چکا ہوں ، ان روایات کو آپ نے کیوں قابل اعتبار نہیں سمجھا ؟ جب کہ زبور کا حوالہ بہت اہتمام سے آپ دے رہے ہیں ۔
آپ نے ایک اور بات لکھی ہے :
میری سمجھ میں کچھ بھائیوں‌کا مسئلہ آ رہا ہے۔ کہ ان کے مسلک کا یہ اصول رہا ہے کہ یہودیوں کی طرح، وہ صرف کسی مخصوص فرد کو یہ حق دیتے ہیں کہ صرف وہی احادیث یا آیات کو پڑھ سکے یا اس کا حوالہ دے سکے۔ اگر وہ شخص مخصوص‌اسناد کا مالک نہیں ہے تو اس کی جہاں تک ممکن ہو مخالفت کی جائے۔ اس سے خود اس مکتبہء فکر کا تحفظ مقصود ہے اور دوسرے مکتبہ فکر کی تذلیل۔ بریلوی اور دیوبندیوں کا بیر اس قدر مشہور ہے کہ اس کی اب مثال دی جاتی ہے۔
میرے خیال سے یہ کسی کا مسلک نہیں ۔
حدیث رسول کوئی بھی پیش کر سکتا ہے ، پڑھ سکتا ہے ، اس سے فائدہ اتھا سکتا ہے ، عمل کر سکتا ہے
مسلمانوں میں آج تک ایسا کوئی فرقہ نہیں آیا جس نے مذہبی تعلیم کو ، کتب کو ،قرآن کو ، یا کسی بھی قسم کی مذہبی تعلیم و تعلم کو ایک طبقہ کے لیے خاص کر دیا ہو ۔
آپ ان مدارس میں جا کر دیکھ لیں جو ہند و پاک میں ہیں ، ہزاروں کی تعداد میں ہیں ۔ ان میں تمام قوموں کے ، تمام طبقہ کے ، تمام قسم کے طلبہ دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں ، آپ کو تعجب ہوگا کہ کسی بستی کے برسہا برس کا پس ماندہ اور اپنے کرتوت سے انتہائی ذلیل سمجھا جانے والا خاندان کا لڑکا ایسے مدارس میں آکر اچھے طریقہ سے تعلیم حاصل کرتا ہے تو اس کو وہی مولویت والا مقام بصد عز و افتخار حاصل ہو ہی جاتا ہے ، اور اس کے ساتھیوں ، اساتذہ ، اور طلبہ کو اس کے خاندان سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
خیر
اصل بات یہ ہے کہ کسی بھی موضوع کے متعلق بات کرنے کے لیے اس موضوع کی لیاقت ضرور مطلوب ہوتی ہے ، اس کے بغیر خامہ فرسائی بیکار ہے ۔
قران کو سمجھنے کے لیے عربی کا علم لازم ہے ، علم عربی کی بہت سے شاخیں ہیں ، مثلا عربی ادب ، بلاغت ، نحو و صرف ۔ پھر آیات کو سمجھنے کے لیے ان کے نزول کے وقت کے احوال جاننے کی ضروروت ، بہت سی آیات مخصوص واقعات کے ضمن میں نازل ہوئی ہیں ، اگر چہ اس کے بعد اس کا حکم عام ہے ، مگر وہ حکم کس پس منظر میں کیا معنی رکھتا ہے اس کے لیے واقعہ کا علم ضروری ہے ،
یہ سب باتیں حدیث سے معلوم ہوتی ہیں ، اس لیے حدیث سے معتبر واقفیت لازم ہے ،
پھر علم تفسیر و اصول تفسیر سے واقفیت ضروری ہے،
مثلا آپ کو قرآن کی بہت سے آیات میں " امر " کا صیغہ ملے گا۔ یہ کرو ، وہ کرو ۔ مثلا ۔
وانکحوا الیتاما والصالحین من عبادکم و امائکم
تمہارے یتیموں کا نکاح کرا دو، اور تمہارے صالح غلام اور بانڈیوں کا نکاح کرا دو ۔
یہ بات قران نے "امر: کے طور پر بیان کی ہے ، بالکل اسی طرح جیسے نماز کا حکم
اقیمواالصلوۃ وغیرہ
جس طرح نماز والی آیت سے "نماز کی فرضیت " مراد ہے ، اسی طرح حکم نکاح سے ’ یتیموں کے نکاح کی فرضیت " مراد ہے ؟ ہر گز نہیں ۔ نکاح اصلا فرض ہے ہی نہیں ، کوئی زندگی بھر نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔
پھر جہاں بھی امر کے صیغہ سے کوئی حکم ہو ، مثلا نماز پڑھو ، روزہ وکھو ، زکوۃ ادا کرو ۔
اس پر سوال یہ ہے کہ کتنی بار نماز پڑھیں ، روزہ کتنی بار کھیں ، زکوۃ کتنی بار ادا فرمائیں ؟
یعنی کسی چیز کا امر کرنا ، کیا مامور بہ کے تکرار کا تقاضا کرتا ہے ؟
مثلا آپ کو شاکر القادری نے کچھ حوالے پیش کرنے کو کہا ، کیا وہ فقط ایک مرتبہ کے لیے تھا یا پھر اب ہمیشہ کے لیے یہ حکم آپ کے لیے ہیں ؟
ذرا غور فرمائیں کہ اس اعتبار سے وہ فرائض کا اجتمای نظام جس کے تم علمبرادر بنے ہو ، قران سے تم کس طرح ثابت کر دکھاوگے ۔
بہر حال مسائل کے استخراج کا ایک فن ہے ، جو فن تفسیر ، فن اصول تفسیر ، فن فقہ ، فن اصول فقہ وغیر سے واقفیت کاتقاضا کرتا ہے ،
 

دوست

محفلین
ایک طالبعلم قرآن کے لیے یہ بہت قابل غور بات ہے۔
اوپر بتائی گئی تمام صورتوں کو مدنظر رکھ کر اگر قرآن کے ترجمے کا مطالعہ نہیں‌ تو سمجھ لو کہ تم رسے پر چل رہے ہو جس سے گرو گے تو ہڈیاں ہی تڑواؤ گے۔
 
ایک طالبعلم قرآن کے لیے یہ بہت قابل غور بات ہے۔
اوپر بتائی گئی تمام صورتوں کو مدنظر رکھ کر اگر قرآن کے ترجمے کا مطالعہ نہیں‌ تو سمجھ لو کہ تم رسے پر چل رہے ہو جس سے گرو گے تو ہڈیاں ہی تڑواؤ گے۔

دوست آپ کی نصیحت کا بہت شکریہ۔ سر آنکھوں‌پر۔

کیا آپ نے اس بحث کے باہر میرا کوئی آرٹیکل پڑھا ہے؟ اگر نہیں تو آپ کی آسانی کے لئے میں چند پوائنٹرز فراہم کر رہا ہوں۔ کسی وقت اگر وقت ملے تو دیکھئے، آپ کے تاثرات اور تبصرات سن کر خوشی ہوگی۔ اور اپنا محاسبہ کرنے میں آسانی ہوگی۔

چند لنکس یہ ہیں۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=7952
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=7947
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=7570

میری قرآن انڈیکس سایٹ
http://www.openburhan.net

آپ یا احبابوں میں سے کوئی کسی قسم کی تعمیری تبصرہ یا تنقید ان میں سے کسی مضمون پر فرمانا چاہیں تو بندہ کو مطلع فرمائیں تاکہ آپ کی مدد سے میرا محاسبہ اور دوسروں ساتھیوں کی مدد ہو۔

والسلام۔
 
Top