مولانا فضل الرحمان اور مولانا تقی عثمانی کی خدمت میں

حسینی

محفلین
ارتداد والی احادیث کن معانی میں خاص ہیں؟

اور عقائد والی وہ کتب جن پہ اپ کا یقین ہے کہ ان میں صحیح روایات ہیں، براہ مہربانی ان کے نام لکھ دیں۔ ہم دیکھ لیں گےان کتب کو۔ اس طرح نہ ہو لوگ محنت کریں اور یہ کہہ کر کنارہ کر جائیں کہ بھائی اس کتاب کی 110 جلدیں ہیں ہمیں کیا پتہ کونسی بات درست ہے کون سی غلط؟

ہیں جی؟
ارتداد والی احادیث کو اگر آپ نے ملاحظہ کی ہوں تو ان سب میں یہ بات مشترک ہے کہ پیغمبر اکرم ص کی زندگی کے بعد ایسا ہوا تھا۔
جس طرح ُ آپ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر کی وفات کے بعد فتنہ ارتداد واقع ہوا تھا اور مانعین زکات پیدا ہوائے تھے۔
اور ان میں ارتداد سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت اور خلافت سے روگردانی ہے۔۔۔ اگرچہ وہ اک لحظہ کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ جن اصحاب کا ان احادیث میں استثناء کیا گیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اک لحظہ کے لیے بھی ولایت علی ع سے روگرداں نہ ہوئے۔
باقی آپ عقائد کی کسی بھی کتاب کا حوالہ دے سکتے ہیں۔۔۔ بس صرف فرق ملحوظ رہے کہ احادیث اور عقائد کی کتابوں میں فرق کریں۔
مثلا آپ امام خمینی، شہید باقر الصدر، سید شرف الدین موسوی، علامہ جعفر مرتضی عاملی، سید علی خامنائی ، شیخ جعفر سبحانی وغیرہ کی کتابوں کا حوالہ دے سکتے ہیں۔
اور اگر آپ عربی جانتے ہوں تو شیعہ عقائد کی یہ مکمل ویب سائٹ ہے جس میں ہزاروں کتابیں پڑی ہیں:
http://www.aqaed.info/
 

محب اردو

محفلین
اگر سب صحیح نہیں ہیں تو پھر صحاح ستہ کیوں نام ہے؟

رنگی کو نارنگی کہیں اور بنے دودھ کو کھویا
چلتی کو وہ گڑی کہیں یہ دیکھ کبیرا رویا !
بھائی اگر آپ عربی لفظ ’’ صحاح ‘‘ سمجھتے ہیں تو عربی زبان کا مشہور اور اصولی قاعدہ ’’ لا مشاحۃ فی الاصطلاح ‘‘ بھی جانتے ہوں گے ۔
لہذا کسی اصطلاح کو کسی معنی کے لیے وضع کرنا اس میں کوئی حرج نہیں ۔
دوسری بات یہ سمجھیے کہ یہ اصطلاح ’’ صحاح ستہ ‘‘ اس کی عمر زیادہ نہیں ہے چند صدیاں پہلے بعض علماء سے یہ مشہور ہوئی ہے ۔
جبکہ جمہور علماء سے یہ منقول نہیں ہے ۔
تیسری بات یہ سمجھیں کہ جب سے یہ کتب لکھی گئی ہیں تمام علماء نے اس میں موجود ضعیف احادیث کی نشاندہی کی ہے ۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس میں موجود تمام احادیث کو ’’ صحیح ‘‘ نہیں سمجھتے تھے ۔
ایک اور بات بھی مد نظر رکھیں کہ بعض دفعہ کسی چیز پر کسی اصطلاح یا اسم کا اطلاق اغلبیت و اکثریت کی بنیاد پر بھی کردیا جاتا ہے ۔ چونکہ ان کتب میں اکثر احادیث صحیح تھیں اس لیے بعض علماء نے ان کو ’’ صحاح ‘‘ کہہ دیا ۔
جبکہ دوسری طرف ایسے علماء بھی ہیں جنہوں نے ان کتب کو ’’ صحاح ستہ ‘‘ کہنے کی بجائے ’’ کتب ستہ ‘‘ کہا ہے کہ ان میں سب احادیث صحیح نہیں ہیں ۔
 
آخری تدوین:

آبی ٹوکول

محفلین
ہمارے نزدیک کوئی کتاب سوائے قرآن کے مکمل "صحیح" نہیں ہے۔۔۔ ۔ جبکہ آپ کے ہاں چھ اور کتابوں کو بھی صحیح کہا جاتا ہے۔
[/quote]
السلام علیکم دخل در معقولات کہ لیے معذرت خواہ ہوں " صحاح ستہ " ایک علمی اصطلاح ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کتابوں میں پائی جانے والی ہر ہر حدیث صحیح ہے یہ اصطلاح علم حدیث میں حدیث کے طلباء کی آسانی کے لیے وضع کی گئی ہے وگرنہ صحیح احادیث تو صحاح کی تمام کتابیں رقم کیئے جانے اور انھے یہ اصطلاحی نام دیئے دیئے جانے سے پہلے بھی لکھی ہوئی اور سینہ بسینہ موجود تھیں ۔
اہل سنت کے ہاں بھی فقط قرآن پاک ہی وہ واحد کتاب ہے جو کہ لاریب ہے ۔ جبکہ احادیث کی صحت و ضعف کے علیحدہ سے اصول و معیارات ہیں انہی اصولوں پر پورا اتر کر کوئی حدیث صحیح و حسن ضعیف سقیم کہلاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کہ ہاں کتب احادیث کو صحت و ضعف کے اعتبار سے مختلف مدارج میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں سے سب سے زیادہ مشھور چار طبقات ہیں کہ جنھے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ رحمہ نے اپنی کتاب حجۃاللہ البالغہ میں بیان فرمایا ہے تحقیق کے رسیا وہاں رجوع کریں ۔۔
اور یہ کہ لفظ " صحیح " علم حدیث کی ایک اصولی اصطلاح ہے جس سے مراد کسی بھی روایت کا اتصال سند ،عدالت رواۃ و ضبط رواۃ و عدم شذوذ اور عدم علت ہے ۔ اور یہ کہ صحاح ستہ کو جوعمومی اعتبار سے صحاح سے تعبیر کیا جاتا ہے اسکی ایک بڑی وجہ نسبت و تناسب ہے یعنی ان میں دیگر کتب احادیث کی بنسبت زیادہ تعداد میں صحیح احادیث پائی جاتی ہیں نہ کہ یہ کے ان میں سے سرے سے کوئی ضعیف روایت موجود ہی نہیں ۔
اور یہی وجہ ہے کہ صحیح البخاری کو قرآن پاک کہ بعد سب سے زیادہ صحیح کتاب مانا جاتا ہے ، یاد رہے کہ قرآن پاک کے بعد یعنی " اصح الکتاب بعد کتاب اللہ " قرآن پاک کے بعد سب سے صحیح کتاب نہ کہ قرآن پاک کے مقابلے میں سب سے صحیح کتاب ۔ کیونکہ قران تو سارے کا سارا قطعی الثبوت بالتواتر ہے جبکہ احادیث کی کتب میں تو شاذا ہی " روایات تواترا " پائی جاتی ہیں ۔
باقی واللہ وعلم ورسولہ ۔۔والسلام
 
آخری تدوین:
Top