فارسی شاعری مولانا روم - قصہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی طرف ملکہ بلقیس کا ہدیہ

سید رافع

محفلین
ہمچو آں ہدیہ کہ بلقیس از سبا
اے صاحب! اس ہدیے کی مانند جو بلقیس نے شہر سبا سے

برسلیمان میفرستاد اے کیا
سلیمان ع کی طرف بھیجا
☆☆☆

ہدیہ بلقیس چل اشتر بدمست
ہدیہ بلقیس چالیس اونٹ کا تھا

بار آنہا جملہ خشت زر بدست
ان سب پر سونے کی اینٹیں لدی تھیں
☆☆☆

چوں بصحرائے سلیمان رسید
جب سلیمان ع کی قلمرو میں پہنچا

فرشآنرا جملہ زر پختہ دید
تو اسکا سارا فرش خالص سونے کا پایا
☆☆☆

برسر زر تا چہل منزل براند
بارہا انہوں نے کہا کہ ہم سونے کو واپس لے جائیں

تاکہ زر را در نظر آبے نماند
ہم کس جھگڑے میں ہیں
☆☆☆

عرصہ کش خاک زردوہ دہی ست
جس میدان کی مٹی خالص سونا ہو

زر بہدیہ بردن آنجا ابلہی ست
وہاں سونا بطور ہدیہ لے جانا حماقت ہے
☆☆☆

اے ببردہ عقل ہدیہ تا الہ
اے عقل کا ہدیہ اللہ تک لے جانے والے

عقل آنجا کمترست از خاک راہ
عقل تو وہاں راستے کی خاک سے بھی کمتر ہے

☆☆☆

چوں کساد ہدیہ آنجا شد پدید
جب ہدیے کی ناقدری وہاں ظاہر ہو گئی

شرمساری شاں ہمی واپس کشید
تو شرمندگی انکو واپس لے چلی
☆☆☆

باز گفتند از کسادو از روا
پھر انہوں نے کہا ہم پر اس ہدیے کے بے قدر ہونے کا کیا الزام

چیست برما بندہ فرمانیم ما
ہم تو حکم کے تابع ہیں
☆☆☆

گرزر و گر خاک مارا بردنی ست
اگرچہ سونا ہو کہ مٹی، ہم کو لے جانا چاہیے

امر فرماں دہ بجا آدرنی ست
حاکم کا حکم بجا لانا چاہیے
☆☆☆

گربفرمایند کہ واپس برید
اگر حکم دیں گے کہ واپس لے جاؤ

ہم بفرماں تحفہ را باز آورید
تو حکم کے مطابق اس تحفے کو لے جائیں گے
☆☆☆

امرو فرماں راہمی باید شنید
حکم و ارشاد کو سننا چاہیے

تا بدانجا ہدیہ را باید کشید
وہاں تک ہدیے کو لے جانا چاہیے
☆☆☆

پس رواں گشتند ہدیہ آوراں
پس ہدیہ لانے والے روانہ ہوئے

تابہ تخت آں سلیمان ع جہاں
ان جہاں کے بادشاہ سلیمان ع کی جانب
☆☆☆


جاری ہے۔۔۔​
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
خندش آمد چوں سلیماں ع آں بدید
جب سلیمان ع نے ہدیہ دیکھا تو مسکرائے

کزشمامن کے طلب کردم مزید
میں نے کب تم سے فضول طلب کیا
☆☆☆

من نمی گویم مرا ہدیہ دہید
میں نے کہتا مجھے ہدیہ دو

بلکہ گفتم لایق ہدیہ شوید
بلکہ کہتا ہوں کہ ہدیہ دینے کے لائق بنو
☆☆☆

کہ مرا از غیب نادر ہدیہاست
کہ مجھے غیب سے وہ نادر تحفے ملے ہیں

کہ بشر آنرا نیارد نیز خواست
کہ کوئی دوسرا بشر اس کی آرزو بھی نہیں کر سکتا
☆☆☆

مے پرستید اختر کوزر کند
تم ستارے کو پوجتے ہو کہ وہ سونے کی تربیت کرتا ہے

رو باد آرید کو اختر کند
اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ جو ستارے کو پیدا کرتا ہے
☆☆☆

مے پرستید آفتاب چرخ را
تم آسمان کے آفتاب کو پورج رہے ہو

خوار کردہ جاں عالی نرخ را
اپنی عالی قدر روح کو ذلیل کر لیا
☆☆☆

آفتاب از امر خق طبّاخِ ماست
سورج خدا کے حکم سے ہمارا باورچی ہے

ابلہی باشد کہ گویم او خداست
ہمارا اسکو خدا کہنا بیوقوفی ہے
☆☆☆

آفتابت گربگیر چوں کنی؟
تیرے معبود سورج کو اگر گہن لگ گیا تو کیا کرے گا؟

آں سیاہی زو تو چوں بیروں کنی
اس گہن کی سیاہی کو اس سے کیونکر دور کرے گا
☆☆☆

نے بدرگاہِ خدا آری صداع
تو کیا تو خدا کی درگاہ کی طرف یہ مشکل پیش نہیں کرے گا

کہ سیاہی را ببردادہ شعاع
کہ سیاہی کو دور کر کے اسکی روشنی واپس کر دے
☆☆☆

گر کشندت نیم شب خورشید کو
اگر آدھی رات کو تجھ پر قاتلانہ وار کیا جائے

تا بنالی یا اماں یابی ازو
تو پھر کون ہے جس سے تو فریاد کرے یا اس سے امن پائے
☆☆☆


جاری ہے۔۔۔
 

سید رافع

محفلین
حادثات اغلب بہ شب واقع شود
حادثات غالبا رات کو واقع ہوتے ہیں

آں زماں معبود تو غائب شود
اس وقت تمہارا معبود غائب ہوتا ہے
☆☆☆

سوئے حق گر راستانہ خم شوی
اگر تو صدق سے حق تعالی کی طرف جھک جائے

وا رہی از اختراں محرم شوی
تو ستاروں سے دور ہو کر محرم راز ہوجائے
☆☆☆

چوں شوی محرم کشایم با تو لب
جب تو محرم ہو جائے تو تیرے سامنے لب کشائی کروں

تابہ بینی آفتابِ نیم شب
تاکہ تو آدھی رات کے سورج کا مشاہدہ کرے
☆☆☆

جز روانِ پاک او راشرق نے
سوائے پاک روح کے اس کا مشرق نہیں

در طلوعش روز و شب را فرق نے
اس کے طلوع میں دن و رات کا تفاوت نہیں
☆☆☆

روز آں باشد کہ او شارق شود
دن وہ ہے جب وہ طلوع کرے

شب نماند چونکہ او بارق شود
جب وہ طلوع ہو تو اسکی تجلیات میں رات نہیں ٹہرتی
☆☆☆

چوں نماید ذرہ پیشِ آفتاب
اس آفتابِ خقیقت کی تابشِ انوار کا یہ عالم ہے کہ

خور چناں باشد دران انوار و تاب
جس طرح ذرہ آفتاب کے سامنے دکھائی دیتا ہے ویسے آفتاب اسکے انوار کے سامنے ہے
☆☆☆

ہمچو ذرہ بینیش در نور عشق
اسکو تم عشق کے نور میں

پیشِ نورِ بے حدِ موفورِ عشق
بے حد وکثیر نور کے آگے ایک ذرہ پاؤ گے
☆☆☆

بینیش مسکین و خوار و بے قرار
تم اس سورج کو مسکین و خوار اور بے قرار دیکھو گے

دیدہ را قوت شدہ از کردگار
آنکھوں کو خدا سے قوتِ بصارت ملتی ہے
☆☆☆

جاری ہے۔۔۔
 

سید رافع

محفلین
کیمیاے کہ ازو یک ماثرے
آفتاب حقیقت وہ کیمیا کہ

بردخاں افتاد و گشت اذا خترے
اسکا ایک ہی اثر دھوئیں پر پڑا اور وہ ستارہ بن گیا

☆☆☆

نادر اکسیرے کہ ازوے نیم تاب
آفتاب حقیقت وہ اکسیر ہے کہ اسکی آدھی چمک

برظلامے زو بکروش آفتاب
تاریکی پر پڑی تو اسکو آفتاب بنا دیا
☆☆☆

بوالعجب مینا گرے کزیک عمل
آفتاب حقیقت وہ عجیب کیمیا گر ہے جس نے ایک ہی عمل سے

بست چندیں خاصیت رابر زحل
زحل میں اس قدر خاصیتیں پیدا کر دیں
☆☆☆

باقی اختر ہاد گوہر ہائے جاں
باقی ستاروں اور روح کے موتیوں کو بھی

ہم بدیں مقیاس اے طالب بداں
اے طالب اسی قیاس پر سمجھ لو
☆☆☆

دیدہ حسی زبونِ آفتاب
حس کی آنکھ آفتاب سے مغلوب ہے

دیدہ ربانیے جو و بیاب
خدائی آنکھ کو تلاش کرو اور حاصل کرو
☆☆☆

کاں نظر نوری و ایں ناری بود
کیونکہ وہ نظر نورانی اور یہ آتشی ہے

نار پیشِ نور بس تاری بود
آگ نور کے سامنے بالکل تاریک ہے

☆☆☆

تازبوں گردو بہ پیشِ آں نظر
تاکہ اس نظر کے آگے

شعشعاتِ آفتابِ باشرر
اس چنگاریوں والے آفتاب کی شعاعیں مغلوب ہو جائیں
☆☆☆

 
Top