فرخ منظور
لائبریرین
موجِ صبا کی پوچھ نہ سفاک دستیاں
ڈوبی ہوئی ہیں خون میں پھولوں کی بستیاں
مستی ہو یا خُمار ہو، کر مے پرستیاں
بے سود رفعتیں ہیں نہ بیکار پستیاں
اے دوست کچھ تو سوچ کہ دنیا بدل گئی
اب اس قدر نہ ہوش نہ اس درجہ مستیاں
شاید مرے سوا کوئی اس کو سمجھ سکے
کس طرح اِک نظر سے بدلتی ہیں ہستیاں
اے کاروانِ راحت و غم دل ہے وہ مقام
دن رات جس دیار میں لُٹتی ہیں بستیاں
غم، کشتگانِ عشق سے اتنا نہ کر گریز
کچھ کام آ رہیں گی یہ بے کار ہستیاں
آواز پائے ناز کو بھی مدتیں ہوئیں
سونی پڑی ہیں کب سے ترے غم کی بستیاں
دونوں سے بے نیاز ہوں، کیا موت کیا حیات
ہیں رشکِ صد نشاط مری غم پرستیاں
اس جیبِ تار تار کو خالی نہ جاننا
بستی ہیں بیخودوں کے گریباں میں بستیاں
سنتے ہیں حسن درد کی تصویر ہو چلا
کچھ لا چلی ہیں رنگ مری غم پرستیاں
کب ہم خیالِ عشق ہوا حسنِ بدگماں
گو خود پرستیاں تھیں مری حق پرستیاں
اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
اُس کی نگاہِ ناز کی کیا بات ہے فراق
دامن میں ہوش ہے تو گریباں میں مستیاں
(رگھو پتی سہائے فراق گھورکھپوری)