محسن نقوی موجِ خُوشبو کی طرح بات اُڑانے والے

سیما علی

لائبریرین
موجِ خُوشبو کی طرح بات اُڑانے والے
تُجھ میں پہلے تو نہ تھے رَنگ زمانے والے

کِتنے ہیرے میری آنکھوں سے چُرائے تُو نے
چند پتّھر مِری جھولی میں گِرانے والے

خُوں بہا اَگلی بہاروں کا تِرے سَر تو نہیں؟
خُشک ٹہنی پہ نیا پُھول کِھلانے والے

آ تُجھے نذر کروں اپنی ہی شہ رگ کا لہُو
میرے دُشمن، میری توقیر بڑھانے والے

آستینوں میں چُھپائے ہُوئے خنجر آئے
مُجھ سے یاروں کی طرح ہاتھ مِلانے والے

ظُلمتِ شب سے شکایت اُنہیں کیسی محسنؔ
وہ تو سُورج کو تھے آئینہ دِکھانے والے
-----------------------
 
Top