موجِ بحر (۲)

عرفان سعید

محفلین
موجِ بحر
فرطِ طرب میں موجِ بحر اترائی جب
نازک ادا سےجوسحرشرمائی تب
خمِ موج گہنائے رخِ ماہِ حسیں
برقِ تموّج سے چھپا مہرِ مبیں
اٹھتی لپکتی اک ادائے ناز سے
سورج سے محوِ بوس اک انداز سے
مستی و شوقِ فوق میں یوں ناچنا
پشتِ ردائے موج سورج جھانکنا

(آج سے چھ ماہ قبل مبادیاتِ سخن سے ناشناسی کے باوصف شعر کہنے کی جرات کر ڈالی تھی ، جس کے بعد معلوم ہوا کہ موج تو سدا بحر میں ہے لیکن "موجِ بحر" کافی کچھ بے بحر ہے۔ بحور و عروض کے علم سے واجبی سی واقفیت کے بعد اپنی طرف سے چنداولین "موزوں" اشعار پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔اُمید ہے یہاں مشفق اساتذہ اور کہنہ مشق احباب ضرور اپنی قیمتی رہنمائی سے بہرہ یاب کریں گے)
 
آخری تدوین:
ماشاءاللہ عمدہ کاوش ہے ، داد قبول کیجیے۔ :)
اندازِ بیاں خوبصورت ہونے کے علاوہ بالکل منفرد ہے ، اگر آپ مسلسل لکھتے اور اصلاح کرواتے رہے تو یقیناً اردو ادب اور اہل ادب میں ایک ممتاز شاعر کا اضافہ ہوگا۔
۔ ۔ ۔ ۔
خمِ موج گہنائے رخِ ماہِ حسیں
## اگر آپ نے اسے مستفعلن مستفعلن مستفعلن میں موزوں کیا ہے تو یہ مصرع وزن سے خارج ہے ، البتہ اگر "خم" سے کسرہ ہٹا دیں تو وزن بھی درست ہوجائے گا اور مطلب بھی۔
پہلے شعر میں "تب" اور "جب" بھی محل نظر ہیں یا پھر لفظ "جو" کے بجائے کوئی اور مناسب لفظ لے آئیے۔
لفظ "فرط" جب مضاف ہوتا ہے تو عام طور پر اردو میں اس کے مضاف الیہ کے بعد "میں" کے بجائے "سے" لاتے ہیں ، فرطِ مسرت سے ، فرطِ جذبات سے ، فرطِ طرب سے۔
غالب در مثنوی:
یا یہ ہو گا، کہ فرط رافت سے
باغبانوں نے باغِ جنت سے
غالب در غزل:
فرطِ بے خوابی سے ہیں شب ہائے ہجرِ یار میں
جوں زبانِ شمع داغِ گرمیِ افسانہ ہم
۔ ۔ ۔ ۔
لفظ "گہنائے" بطور اضافتِ فارسی درست نہیں ہے ، کیونکہ اضافتِ فارسی میں مضاف اور مضاف الیہ دونوں کا عربی یا فارسی میں سے ہونا ضروری ہے۔ والشاذ کالمعدوم۔
۔ ۔ ۔ ۔
"برقِ تموج سے مہر مبیں کا چھپنا" میری سمجھ سے بالاتر ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔
"شوقِ فوق" میرے لیے غیر مانوس ترکیب ہے ، مگر معنویت کے لحاظ سے بھرپور ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔
آخری مصرع پر طائرانہ نظر دوڑانے سے ایک عدد "پر" کی کمی محسوس ہوئی ، نیز "سورج جھانکنا" کے بجائے "سورج کا جھانکا" کا محل ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔
ایک بار پھر اس خوبصورت منظر کشی پر آپ کو بہت سی داد دینے کو دل چاہ رہا ہے ، بلاشبہ اگر ان اشعار سے لفظیاتی خامیاں دور کرکے ان میں نکھار پیدا کردیا جائے تو یہ بہت ہی عمدہ کاوش ہے۔
بہت آداب!!!
 
(آج سے چھ ماہ قبل مبادیاتِ سخن سے ناشناسی کے باوصف شعر کہنے کی جرات کر ڈالی تھی ، جس کے بعد معلوم ہوا کہ موج تو سدا بحر میں ہے لیکن "موجِ بحر" کافی کچھ بے بحر ہے۔ بحور و عروض کے علم سے واجبی سی واقفیت کے بعد اپنی طرف سے چنداولین "موزوں" اشعار پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔اُمید ہے یہاں مشفق اساتذہ اور کہنہ مشق احباب ضرور اپنی قیمتی رہنمائی سے بہرہ یاب کریں گے)
ماشاءاللہ آپ کی نثر بھی قابلِ تعریف ہے۔ :)
 

عرفان سعید

محفلین
عنوان میں نمبر ۲ کا مطلب کیا ہے؟
دراصل موجِ بحر کے نام سے سب سے پہلا نتیجۂ سخن سازی چھ ماہ قبل پیش کیا تھا جس کے بارے بوجۂ عدم واقفیتِ عروض و بحور گمان تھا کہ غیر موزوں ہے، اور پھر احبابِ محفل کی آرا ء نے اس کی تصدیق کی۔ انہی خیالات کو موزوں کرنے کی کوشش ہے۔ اپنی سہولت کی خاطر (۲) سے ممیّز کیا ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
محترم محمد اسامہ سَرسَری صاحب!
آپ کی محبت و شفقت، پر خلوص اور دقیق و وقیع تبصرے اور اس ناچیز کی ادنیٰ سی کوشش پر اتنی حوصلہ افزائی پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مشکور ہوں۔
آپ ایسے کہنہ مشق استاد کی نگاہِ کرم رفیقِ حال رہی تو شعر وسخن کے بحر نا پیدا کنار کے ساحلوں پر علم کی لہروں سے اپنے شعور و آگہی کی خزف کو گوہرِ شاہوار کر پاؤں گا۔
آپ کی قیمتی اصلاحات کی روشنی میں ایک درستگی نیز چند اضافے کیے ہیں۔ مزید کام کرنے کے بعد ایک بار پھر پیش کروں گا۔
سر دست دل آپ کی ممنونیت کے احساس سے معمور ہے اور ایک بار پھر ہدیۂ تشکر پیش کرتا ہے۔
بہت بہت نوازش!
آپ کے لیے بہت سی دعائیں۔
 

نایاب

لائبریرین
واہ
بہت خوب
"ذرا نم " ہو جائے میسر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس
بہت سی دعاؤں بھری داد
بہت دعائیں
 
موجِ بحر
فرطِ طرب سے موجِ بحر اتراتی ہو
دیکھے اسے شقِّ سحر، شرماتی ہو
خمِ موج گہنائے رخِ ماہِ حسیں
برقِ تموّج سے چھپا مہرِ مبیں
اٹھتی لپکتی اک ادائے ناز سے
سورج سے محوِ بوس اک انداز سے
مستی و شوقِ فوق میں یوں ناچنا
پشتِ ردائے موج سورج جھانکنا
خورشید کی لیلیٰ اچھلتی کودتی
ہائے قیامت ! سا حرہ دل کھینچتی
دل مرتعش اس عالمِ سرگوشی سے
شاہد پریشاں منظرِ مدہوشی سے
دیوی سمندر کی سدا یوں ہی جواں
حیراں تجسس ہے، تخیل نا تواں
غائب کبھی، عریاں کبھی اظہار ہو
جنگ وجدل کا اک نہاں رہوار ہو
غازہ جو رخسارِ فلک پر بہہ رہا
عشق و محبت کا فسانہ کہہ رہا
رانی سمندر کی سناتی داستاں
حرکت پذیری ہے نشانِ کامراں

(آج سے چھ ماہ قبل مبادیاتِ سخن سے ناشناسی کے باوصف شعر کہنے کی جرات کر ڈالی تھی ، جس کے بعد معلوم ہوا کہ موج تو سدا بحر میں ہے لیکن "موجِ بحر" کافی کچھ بے بحر ہے۔ بحور و عروض کے علم سے واجبی سی واقفیت کے بعد اپنی طرف سے چنداولین "موزوں" اشعار پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔اُمید ہے یہاں مشفق اساتذہ اور کہنہ مشق احباب ضرور اپنی قیمتی رہنمائی سے بہرہ یاب کریں گے)
درست طریقہ یہ ہے کہ اصلاح کے بعد کا کلام اور جدید اضافہ الگ سے پوسٹ کیا جائے۔ :)
 

عرفان سعید

محفلین
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
کچھ ترمیم و اضافے کے ساتھ دوبارہ حاضر ہے۔مزید تراش خراش ابھی باقی ہے۔

موجِ بحر
فرطِ طرب سے موجِ بحر اتراتی ہو
دیکھے اسے شقِّ سحر، شرماتی ہو
خمِ موج گہنائے رخِ ماہِ حسیں
برقِ تموّج سے چھپا مہرِ مبیں
اٹھتی لپکتی اک ادائے ناز سے
سورج سے محوِ بوس اک انداز سے
مستی و شوقِ فوق میں یوں ناچنا
پشتِ ردائے موج سورج جھانکنا
خورشید کی لیلیٰ اچھلتی کودتی
ہائے قیامت ! سا حرہ دل کھینچتی
دل مرتعش اس عالمِ سرگوشی سے
شاہد پریشاں منظرِ مدہوشی سے
دیوی سمندر کی سدا یوں ہی جواں
حیراں تجسس ہے، تخیل نا تواں
غائب کبھی، عریاں کبھی اظہار ہو
جنگ و جدل کا اک نہاں رہوار ہو
غازہ جو رخسارِ فلک پر بہہ رہا
عشق و محبت کا فسانہ کہہ رہا
رانی سمندر کی سناتی داستاں
حرکت پذیری ہے نشانِ کامراں
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
محمد اسامہ سَرسَری
استاد محترم!
اپنی جانب سے حتمی مغز ماری کے بعد مکرر حاضر ہوں۔

موجِ بحر
فرطِ طرب سے موجِ بحر اتراتی ہو
نازک ادا سے جو سحر شرماتی ہو
زیبائی سے گھبرا گیا ماہِ حسیں
برقِ تموّج سے ڈرا مہرِ مبیں

اٹھتی لپکتی اک ادائے ناز سے
سورج سے محوِ بوس اک انداز سے
مستی و شوقِ فوق میں یوں ناچنا
سورج کا پشتِ موج سے صد جھانکنا
خورشید کی لیلیٰ اچھلتی کودتی
ہائے قیامت ! سا حرہ دل کھینچتی
دل مرتعش اس عالمِ سرگوشی سے
شاہد پریشاں منظرِ مدہوشی سے
گوشِ عروسِ خور کازیور ہے تو
قلزم کی آرائش کا گوہر ہے تو
یہ موج شمعِ گردوں کا پروانہ کیا؟
یا پھر سراجِ چرخ ہی دیوانہ کیا؟
توسیعِ نورِخورتری جنبش و ادا
فانوسِ بامِ ارض تجھ پر ہی فدا
ادراک کی پرواز کتنی ہے رسا؟
رفعت تری سوچوں سے بالا و ماورا
مسکن ترا جیسے وہ جنّت کا چمن
ذوقِ فرازِ عرش افروزِ سخن
توبہ شکن ہر ہر تری ظالم ادا
بربط تری فردوس کی ساحر نوا
غائب کبھی، عریاں کبھی اظہار ہو
جنگ وجدل کا اک نہاں رہوار ہو
دیوی سمندر کی سدا یوں ہی جواں
حیراں تجسس ہے، تخیل نا تواں
غازہ جو رخسارِ فلک پر بہہ رہا
عشق و محبت کا فسانہ کہہ رہا
اے موجِ دلکش! اےحسیں و نازاں پری!
عشرتِ نظر میری ترے دم سے ہری
قربان سرعت پر تری کوثرِ رواں
پوشیدہ ہر قطرے میں حکمت کا جہاں
رانی سمندر کی سناتی داستاں
حرکت پذیری ہے نشانِ کامراں
 
Top