موجودہ حالات پر ایک کاوش

کیسا منظر ہے یہ میرے دیدہ ء بیدار میں
آگ ہے ہر سو چمن میں‌اور دھواں گلزار میں

جنگ اپنی ذات کی سب لڑ رہےہیں روز و شب
بھوک اور افلاس ہے گلیوں میں اور بازار میں

منصفوں کو بھی جکڑ رکھتے ہیں زنجیروں میں‌ہم
عدل پھر کیسے کریں وہ سایہ ء تلوار میں

کل جو چُھوٹے تھے قفس سے آج خود صیاد ہیں
اٹھ گیا اب تو بھروسہ صحبتِ دلدار میں

نہ کوئی یوسف بکا یاں نہ حسینی سر کٹے
آگ سی کیوں لگ رہی ہے پھر میرے اشعار میں

یہ بظاہر دوست اپنے دشمن جاں ہیں‌انیس
کیوں نہ پھر ڈھونڈیں سکوں مل کر صفِ اغیار میں



آپ سب کی تجاویز کا منتظر رہوں گا۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ ہوئی نہ بات انیس۔ تمہاری شاعری کا ایک مخصوص لب و لہجہ ہے۔ اور یہ بڑی بات ہے کہ اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
بس دو ایک مشورے۔۔ وہ بھی بزرگی کا فائدہ اٹھا رہا ہوں۔
گلیوں میں اور بازار میں۔۔۔۔ اس میں ایک جمع اور ایک واحد کیوں؟ اس کو یوں کر دیں۔
ہر کوچہ و بازار میں
اور اس شعر کے بارے میں تو جس طرح نہ کا استعمال ہوا ہے، اس میں تو وارث سے میں متفق نہیں ہوتا۔
نہ کوئی یوسف بکا یاں نہ حسینی سر کٹے
آگ سی کیوں لگ رہی ہے پھر میرے اشعار میں

پہلے مصرعے کو یوں کہیں تو
نے کوئی یوسف بکا یاں نے حسینی سر کٹے۔

بعد میں کچھ اور بھی سوچتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں بھی غلطی ہے اسی قسم کی
آگ ہے ہر سو چمن میں‌اور دھواں گلزار میں
چمن کی جگہ ’روش‘ کر دو۔
 
نہ کوئی یوسف بکا یاں نہ حسینی سر کٹے
آگ سی کیوں لگ رہی ہے پھر میرے اشعار میں

پہلے مصرعے کو یوں کہیں تو
نے کوئی یوسف بکا یاں نے حسینی سر کٹے۔

بعد میں کچھ اور بھی سوچتا ہوں۔[/quote]

اگر اسے یوں‌کہیں تو شاید “نہ” کا استعمال مفید ہو جائے کہ

پھر کوئی یوسف بکا نہ کربلا میں سر کٹے
آگ سی کیوں لگ رہی ہے پھر میرے اشعار میں
 

الف عین

لائبریرین
اس میں بھیئ نہ تو بر وزن فع ہی آ رہا ہے۔ ‘نے‘ ہی درست بیٹھتا ہے یہاں بھی۔ اردو کا ’نہ‘ محض ن وزن میں آتا ہے درست طور پر۔
 
Top