رضوان
محفلین
فارسی اردو الفاظ
دفتری گھس گھس جسے ہم پاکستان میں حقارت سے کاغزی کاروائی کہتے ہیں ایران میں کاغز بازی کہلاتی ہے۔ کاروائی سے یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی نے کوئی نہ کوئی کام سر انجام دیا ہے۔ بازی زیادہ موزوں ہے کیونکہ جو کچھ کاغزات میں ہوا وہ ایک کھیل تھا جو نالائق عملہ بڑی مہارت سے کھیلتا ہے۔ جو کام اردو ہاتھوں ہاتھ کرتی ہے وہ کام فارسی دستا دست کرتی ہے۔ جو کام مقررہ وقت سے زائد وقت میں کیا جائے اس کے لیے اردو کی اپنی کوئی اصطلاح نہیں ہے لٰہذا انگریزی لفظ اوورٹائم سے کام چلاتے ہیں۔ فارسی میں اسے اضافہ کاری کہتے ہیں۔ کام کرنے کے لیے یہاں بھی کمر باندھی (کمرِ مردانگی را بستہ) اور آستین چڑھائی جاتی ہے ( آستین ہمت را بالا زدہ)۔ کام کے ہر مرحلے کے لیے فارسی کے دامن میں ایک نہ ایک موتی موجود ہے۔ کام نہ ملے تو بیکار، کام ملے مگر تنخواہ نہ ملے تو بیگار، محض ضابطے کی پیروی ہو تو کاغز بازی، کام مستعدی سے ہو جائے تو کارگزاری، مقررہ وقت سے زیادہ عرصے میں ہو تو اضافہ کاری۔ کام کرنے والا کام سیکھ رہا ہو تو کار آموز، تجربہ کر رہا ہو تو کار آزما، چالاک ہو تو کاریگر، ماہر ہو تو کارشناس۔ کام کرے اور کوئی نہ پوچھے تو کارکن، کام نہ کرے اور نائب وزیر ہوجائے تو کاردار- وزارت میں آ کر اصل پر جائے تو خراب کار- فارسی بھی کیا شائستہ اور کارآمد زبان ہے۔
Archive اردو میں بھی آرکائیو ہے۔ جو زیادہ قدامت پسند ہیں وہ اسے محافظ خانہ کہتے ہیں۔ فارسی میں یہ اوراق بایگانی ہے۔ استنبول میں کہ جہاں زبان یار من کے عربی سے ترکی میں تبدیل ہوجانے کی وجہ سے آرکائیو کا کوئی اچھا سا نام سننے کی توقع نہ تھی وہاں اسے خزانہ اوراق کہتے ہیں۔ معتمد وزارتِ ثقافت نے یہ نام سنا تو کہنے لگے کہ میں اسے پاکستان میں سرکاری طور پہ رائج کروں گا۔ سرکار نے انہیں موقع ہی نہیں دیا۔ کلچر سے فیملی پلاننگ کی طرف بھیج دیا۔ دفتر میں اصلاحات اور نئی اصطلاحات رائج کرنے کے بجائے عوام میں جو پرانی عادت رائج ہے اسے روک کر دکھاؤ۔
سائکل کا پیڈل ہم نے انگریزی سے لیا ہے اس لیے اردو میں بھی پیڈل ہے۔ بلکہ اردو نے تو پوری سائیکل ہی انگریزی سے لے لی۔ فارسی میں پیڈل فرانسیسی سے آیا ہے اس لیے پدال بن گیا ہے۔ سائیکل معلوم نہیں کون سے رستے سے ایران پہنچی ہے اور کون اس پر سوار تھا کہ وہ دو چرخہ بھی ہے اور بیسیکلیت بھی۔ Crocodile Tears کو آج کل صحافی بلا تکلف مگر مچھ کے آنسو لکھ دیتے ہیں۔ جھوٹ موٹ کا رونا اور ٹسوے بہانا صرف نول کشور کی کتابوں میں ملتا ہے۔ فارسی میں ان بناوٹی آنسوؤں کو اشکِ دروغی کہتے ہیں۔ کریم کو خمیر کہتے ہیں۔ چہرے کے لئے خمیر رخسار، شیو بنانے کے لئے خمیر ریش اور دانت مانجھنے کے لئے خمیر دنداں۔ وہ بلندوبالا عمارتیں جنہیں ہم فلک بوس لکھتے ہیں یہاں آسمان خراش کہلاتی ہیں۔ ہمارے سکائی سکریپر نیلی چھتری کو چومتے ہیں اور ان کے اسے رگڑتے اور چھیلتے ہیں۔ انگریزی میں جو تقریب کینسل اور اردو میں منسوخ ہوتی ہے او فارسی میں لغو قرار دی جاتی ہے۔ اردو زبان میں تجویز نامنظور ہوتی ہے مگر فارسی میں نوبت مردود شد تک جا پہنچتی ہے۔ روٹی کا کنارہ یہاں لبِ نان ہے۔ پستہ اتنا بڑا ہو کہ غلاف شق ہوجائے اور دانہ اندر سے جھانکنے لگے تو وہ پستہء خنداں۔
آوارہ مویشی جسے اردو بولنے والے کانجی ہاؤس میں داخل کرا دیتے ہیں ایران میں جانور بے صاحب کہلاتا ہے۔ جو پاکستان میں بے آواز ہے وہ ایران میں بے صدا ہے۔ اردو میں جو شیش محل ہے وہ فارسی میں آئینہ خانہ یا جام خانہ ہے۔ جام طرح طرح کے ہوتے ہیں اور دونوں ملکوں میں پائے جاتے ہیں مگر جامِ فرعونی صرف ایران میں ہوتا ہے۔ جام بسیار بزرگ پُرازبادہ۔پینے والے کے ظرف کی بات ہے۔ سوَیاں یہاں رشتہء فرنگی کہلاتی ہیں۔ حالانکہ ہماری سوَیوں کی فرنگی میکرونی سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے۔
کال گرل اردو افسانہ میں کال گرل ہی کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔ فارسی میں اسے فاحشہء تلفونی کہتے ہیں۔
دفتری گھس گھس جسے ہم پاکستان میں حقارت سے کاغزی کاروائی کہتے ہیں ایران میں کاغز بازی کہلاتی ہے۔ کاروائی سے یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی نے کوئی نہ کوئی کام سر انجام دیا ہے۔ بازی زیادہ موزوں ہے کیونکہ جو کچھ کاغزات میں ہوا وہ ایک کھیل تھا جو نالائق عملہ بڑی مہارت سے کھیلتا ہے۔ جو کام اردو ہاتھوں ہاتھ کرتی ہے وہ کام فارسی دستا دست کرتی ہے۔ جو کام مقررہ وقت سے زائد وقت میں کیا جائے اس کے لیے اردو کی اپنی کوئی اصطلاح نہیں ہے لٰہذا انگریزی لفظ اوورٹائم سے کام چلاتے ہیں۔ فارسی میں اسے اضافہ کاری کہتے ہیں۔ کام کرنے کے لیے یہاں بھی کمر باندھی (کمرِ مردانگی را بستہ) اور آستین چڑھائی جاتی ہے ( آستین ہمت را بالا زدہ)۔ کام کے ہر مرحلے کے لیے فارسی کے دامن میں ایک نہ ایک موتی موجود ہے۔ کام نہ ملے تو بیکار، کام ملے مگر تنخواہ نہ ملے تو بیگار، محض ضابطے کی پیروی ہو تو کاغز بازی، کام مستعدی سے ہو جائے تو کارگزاری، مقررہ وقت سے زیادہ عرصے میں ہو تو اضافہ کاری۔ کام کرنے والا کام سیکھ رہا ہو تو کار آموز، تجربہ کر رہا ہو تو کار آزما، چالاک ہو تو کاریگر، ماہر ہو تو کارشناس۔ کام کرے اور کوئی نہ پوچھے تو کارکن، کام نہ کرے اور نائب وزیر ہوجائے تو کاردار- وزارت میں آ کر اصل پر جائے تو خراب کار- فارسی بھی کیا شائستہ اور کارآمد زبان ہے۔
Archive اردو میں بھی آرکائیو ہے۔ جو زیادہ قدامت پسند ہیں وہ اسے محافظ خانہ کہتے ہیں۔ فارسی میں یہ اوراق بایگانی ہے۔ استنبول میں کہ جہاں زبان یار من کے عربی سے ترکی میں تبدیل ہوجانے کی وجہ سے آرکائیو کا کوئی اچھا سا نام سننے کی توقع نہ تھی وہاں اسے خزانہ اوراق کہتے ہیں۔ معتمد وزارتِ ثقافت نے یہ نام سنا تو کہنے لگے کہ میں اسے پاکستان میں سرکاری طور پہ رائج کروں گا۔ سرکار نے انہیں موقع ہی نہیں دیا۔ کلچر سے فیملی پلاننگ کی طرف بھیج دیا۔ دفتر میں اصلاحات اور نئی اصطلاحات رائج کرنے کے بجائے عوام میں جو پرانی عادت رائج ہے اسے روک کر دکھاؤ۔
سائکل کا پیڈل ہم نے انگریزی سے لیا ہے اس لیے اردو میں بھی پیڈل ہے۔ بلکہ اردو نے تو پوری سائیکل ہی انگریزی سے لے لی۔ فارسی میں پیڈل فرانسیسی سے آیا ہے اس لیے پدال بن گیا ہے۔ سائیکل معلوم نہیں کون سے رستے سے ایران پہنچی ہے اور کون اس پر سوار تھا کہ وہ دو چرخہ بھی ہے اور بیسیکلیت بھی۔ Crocodile Tears کو آج کل صحافی بلا تکلف مگر مچھ کے آنسو لکھ دیتے ہیں۔ جھوٹ موٹ کا رونا اور ٹسوے بہانا صرف نول کشور کی کتابوں میں ملتا ہے۔ فارسی میں ان بناوٹی آنسوؤں کو اشکِ دروغی کہتے ہیں۔ کریم کو خمیر کہتے ہیں۔ چہرے کے لئے خمیر رخسار، شیو بنانے کے لئے خمیر ریش اور دانت مانجھنے کے لئے خمیر دنداں۔ وہ بلندوبالا عمارتیں جنہیں ہم فلک بوس لکھتے ہیں یہاں آسمان خراش کہلاتی ہیں۔ ہمارے سکائی سکریپر نیلی چھتری کو چومتے ہیں اور ان کے اسے رگڑتے اور چھیلتے ہیں۔ انگریزی میں جو تقریب کینسل اور اردو میں منسوخ ہوتی ہے او فارسی میں لغو قرار دی جاتی ہے۔ اردو زبان میں تجویز نامنظور ہوتی ہے مگر فارسی میں نوبت مردود شد تک جا پہنچتی ہے۔ روٹی کا کنارہ یہاں لبِ نان ہے۔ پستہ اتنا بڑا ہو کہ غلاف شق ہوجائے اور دانہ اندر سے جھانکنے لگے تو وہ پستہء خنداں۔
آوارہ مویشی جسے اردو بولنے والے کانجی ہاؤس میں داخل کرا دیتے ہیں ایران میں جانور بے صاحب کہلاتا ہے۔ جو پاکستان میں بے آواز ہے وہ ایران میں بے صدا ہے۔ اردو میں جو شیش محل ہے وہ فارسی میں آئینہ خانہ یا جام خانہ ہے۔ جام طرح طرح کے ہوتے ہیں اور دونوں ملکوں میں پائے جاتے ہیں مگر جامِ فرعونی صرف ایران میں ہوتا ہے۔ جام بسیار بزرگ پُرازبادہ۔پینے والے کے ظرف کی بات ہے۔ سوَیاں یہاں رشتہء فرنگی کہلاتی ہیں۔ حالانکہ ہماری سوَیوں کی فرنگی میکرونی سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے۔
کال گرل اردو افسانہ میں کال گرل ہی کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔ فارسی میں اسے فاحشہء تلفونی کہتے ہیں۔