منفی شعور کا اک ورق - زاہد مسعود

کیا اس نظام کو جاگیر بدلے گا؟
جو
میرے ووٹ سے منتخب ہوتا ہے
اور
میرے خوابوں پر ٹیکس لگاتا ہے
کیا
اس نظام کو سرمایہ دار بدلے گا؟
جو
مجھ سے بارہ گھنٹے کی بیگار لیتا ہے
مگر
آٹھ گھنٹے کی اجرت دینے پر بھی تیار نہیں!
کیا دانشور اس نظام کو بدل سکتا ہے؟
مگر وہ تو
ایک پلاٹ یا غیر ملکی دورے کے عوض
حکمرانوں کے لیے لغت میں سے ستائشی الفاظ
جمع کرتا رہتا ہے!
تاجر اس نظام کو کیسے بدلے گا؟
وہ تو بجٹ کی تمام مراعات سمیٹ کر
ساری مہنگائی
میرے کھاتے میں درج کر دیتا ہے
سیاست دان اس نظام کا محافظ کیوں نہ ہو!
کہ اس کی برکت سے
وہ سرکاری اسکول اور ڈسپنسری میں اپنی بھینس باندھ سکتا ہے
اور
سایہ دینے والے غیر سرکاری درخت کے نیچے
کلاس لینے والے ضدی ٹیچر کو
اپنی پجارو سے باندھ کر گھسیٹے جانے کی دھمکی دیتا ہے
میں نے
صحافی سے اس نظام کو بدلنے کی درخواست کی
مگر وہ
تھانہ محرر کے پاس بیٹھ کر چائے پینے اور خبریں لکھنے میں مگن تھا
یہ سب جانتے ہوئے
میں اگلے پانچ سال کے لیے
اپنا چہرہ اپنے حلقے کے پٹواری کو دے دوں گا
جو اسے
عکس شبرہ میں لپیٹ کر رکھ لے گا
اور
ووٹ کی پرچی پر میرا انگوٹھا خود ہی لگا لے گا
 
Top