امجد اسلام امجد منظر کے اردگرد بھی اور آر پار دُھند۔۔امجد اسلام امجد

فرحت کیانی

لائبریرین
منظر کے اردگرد بھی اور آرپار دُھند
آئی کہاں سے آنکھ میں یہ بےشمار دُھند

کیسے نہ اس کا سارا سفر رائیگاں رہے
جس کاروانِ شوق کی ہے راہگزار دُھند

ہے یہ جو ماہ و سال کا میلہ لگا ہوا
کرتی ہے اس میں چھپ کر مرا انتظار دُھند

آنکھیں وہ بزم، جس کا نشاں ڈولتے چراغ
دل وہ چمن کہ جس کا ہے رنگِ بہار دُھند

کمرے میں میرے غم کے سوا اور کچھ نہیں
کھڑکی سے جھانکتی ہے کسے بار بار دُھند

فردوسِ گوش ٹھہرا ہے مبہم سا کوئی شور
نظارگی کا شہر میں ہے اعتبار ، دُھند

ناٹک میں جیسے بکھرے ہوں کردار جابجا
امجد فضائے جاں میں ہے یوں بےقرار دُھند
 
Top