منظرکشی..

محمد وارث ، الف عین ، چھوٹاغالبؔ ، محمد خلیل الرحمٰن ، نایاب و دیگر احباب و اساتذہ سے منظر کشی میں کمک مطلوب ہے۔
Qa8xxUSJuBEdat9IA_yxnGBLZGpUxfqtdcMq-h1WphSYAMbUKGLJiwL_3Qbf1pxk23470mW0FUg
 
ایک منظر
کیا حسین جھٹ پٹا ہے، نیلے اور گہرے آسمان پر بادلوں کے سفید دھبے ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے حسیناؤں کے گالوں پر سرخی اور انہیں بادلوں کا سینہ چیرتی ہوئی روشنی سیدھا زمین کی سطح پر زور سے ٹکرا کر دوبارہ اپنے سر چشمہ کی طرف پلٹتی محسوس ہوتی ہے جو کہ اب نظروں سے اوجھل ہوا چاہتا ہے۔ آسمان اور زمین کے نقطہ اتصال کے عین بیچ میں سورج مکھی کے پھولوں کا خط، افق کی طرف بڑھتا معلوم ہوتی ہے۔
یہ پھول اس امید سے ڈوبتے سورج کی طرف منہ کئے ہیں کہ شاید آج وہ غروب نہ و۔ ہر پھول اداس معلوم ہوتا ہے۔ پھولوں کی سطح پر چھلکتی شبنم اس طرح معلوم ہوتی ہے جیسے کسی ریشمی گال پر بہت رونے کے بعد آنسو ٹھہرے ٹھہرے رہتے ہیں۔ ہری پتیاں پھولوں سے اس طرح چمٹ گئیں ہیں جیسے شفیق ماں اپنے سہمے بچے کو بھینچ کر گلے لگاتی ہے اور آئندہ کے لئے امیدوار کرتی ہے۔ خاک کا ہر ذرہ گرتے ہوئے پھول کو تازہ صبح کی امید دلاتا نظر آتا ہے۔ اس کی خوشبو اس مٹی کی سی ہے جو ہلکی بارش کے بعد جنگلوں میں مہکتی ہے اور اس کے دم سے سبھی مینا و بلبل چہکنے لگتے ہیں۔
 
کیا خوب منظر کشی کی ہے، گویا نثر میں نظم ہے۔ اس شاعری پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔تشبیہات واستعاے ہیں کہ نگینے کی طرح جڑے ہیں۔ حقیقی اور سرئیل کا یہ حسین امتزاج ، اللہ اللہ۔اب ذرا اسی منظر کو ڈرامے کے لیے دوبارہ لکھیے تمام یشبیہات و استعاروں کو نکال کر، حقیقی منظر کشی۔

منہ کا ذائقہ بدلنے کی خاطر دو عدد ٹائیپو یعنی املا کی غلطیاں نکالے دیتے ہیں۔

ایک منظر
کیا حسین جھٹ پٹا ہے، نیلے اور گہرے آسمان پر بادلوں کے سفید دھبے ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے حسیناؤں کے گالوں پر سرخی اور انہیں بادلوں کا سینہ چیرتی ہوئی روشنی سیدھا زمین کی سطح پر زور سے ٹکرا کر دوبارہ اپنے سر چشمہ کی طرف پلٹتی محسوس ہوتی ہے جو کہ اب نظروں سے اوجھل ہوا چاہتا ہے۔ آسمان اور زمین کے نقطہ اتصال کے عین بیچ میں سورج مکھی کے پھولوں کا خط، افق کی طرف بڑھتا معلوم ہوتی تاہے۔
یہ پھول اس امید سے ڈوبتے سورج کی طرف منہ کئے ہیں کہ شاید آج وہ غروب نہ و۔ ہر پھول اداس معلوم ہوتا ہے۔ پھولوں کی سطح پر چھلکتی شبنم اس طرح معلوم ہوتی ہے جیسے کسی ریشمی گال پر بہت رونے کے بعد آنسو ٹھہرے ٹھہرے رہتے ہیں۔ ہری پتیاں پھولوں سے اس طرح چمٹ گئیں گئی ہیں جیسے شفیق ماں اپنے سہمے بچے کو بھینچ کر گلے لگاتی ہے اور آئندہ کے لئے امیدوار کرتی ہے۔ خاک کا ہر ذرہ گرتے ہوئے پھول کو تازہ صبح کی امید دلاتا نظر آتا ہے۔ اس کی خوشبو اس مٹی کی سی ہے جو ہلکی بارش کے بعد جنگلوں میں مہکتی ہے اور اس کے دم سے سبھی مینا و بلبل چہکنے لگتے ہیں۔

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
 
اب ذرا اسی منظر کو ڈرامے کے لیے دوبارہ لکھیے تمام یشبیہات و استعاروں کو نکال کر، حقیقی منظر کشی۔
آپ کا بہت شکریہ محترم۔۔۔ بندہ نوازی ہے آپ کی ویسے بھی ہم موزون شاعری "کرنے" سے تو قاصر ہیں نثری شاعری ہی سہی لیکن ہوتی شاعری ہی ہے۔۔۔ پہلی مرتبہ نثر کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے کی "پر روئی" کی تھی سو وہ بھی شاعری سے منصوب ہو کر رہ گئی۔۔۔ اب آپ ہی رہنمائی فرمادیجے کہ منظر کشی کس طرح کرے بندہ؟؟۔۔:rolleyes:
 

زبیر مرزا

محفلین
واہ جناب بہت عمدہ اور کمال کی منظرکشی کی آپ نے تصویر کو زبان دے دی گویا
مزید مناظراور ان پرنثری تبصرے کا انتظاررہےگا
 
واہ جناب بہت عمدہ اور کمال کی منظرکشی کی آپ نے تصویر کو زبان دے دی گویا
مزید مناظراور ان پرنثری تبصرے کا انتظاررہےگا
حضور آپ کا ممنون ہوں لیکن جیسا کہ آپ نے دیکھا یہ ہماری "منظر کشی" منظر کشی کے زمرے سے خارج ہے۔۔۔ اوپر استاد محترم نے اشارہ کیا ہے۔۔۔ در ہر حال بہت شکریہ جناب۔۔ اگر ہمیں خلیل صاحب منظر کشی سکھا دیتے ہیں تو ہم بیشک مزید سمع خراشی بلکہ چشم خراشی یا منظر تراشی کریں گے۔:)
 

نبیل

تکنیکی معاون
مہدی نقوی حجاز صاحب، آپ نے بہت اچھے موضوع کا آغاز کیا ہے۔ میں نے کئی مرتبہ سوچا تھا کہ اسی طرح کوئی تصویر پیش کرکے اس کی منظر کشی کا کہا جائے۔ اس سے ملتا جلتا آئیڈیا کسی کی تصویر پیش کرکے اس کا روپ بیان کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ :)
 
Top