منشی رام سہائے، تعلیمی نظام اور پٹواری کی بیٹی

حاتم راجپوت

لائبریرین
201132185722431371_10-1.jpg


چند روز قبل مرزا عظیم بیگ چغتائی کا افسانہ ’چلہ کشی‘ پڑھتے ہوئے مجھے رہ رہ کر یہی خیال آتا رہاکہ ہم نے منشی رام سہائے جی یعنی اپنے ڈاکٹر عبدالسلام کی باتوں پر توجہ دی ہوتی تو اب تک ہم اس امتحان میں نہ صرف بخوبی کامیاب ہو چکے ہوتے بلکہ اب تک پٹواری کی صاحبزادی بھی بیاہ کر لے آچکے ہوتے ۔ لیکن اس میں کسی کا دوش نہیں ، ساری نالائقی ہماری اپنی ہے۔ نالائقی کیا صاحب بس ہم ایسے گم راہ ہوئے کہ ابھی تک ہمارے چُھو منتری ٹوٹکے اپنا جادو نہیں دکھا پائے۔

اگر میں اس بات کو یوں کہوں کہ اس افسانے میں شاہ جی سیاست دان یا حکمران طبقہ ہیں ، بیوروکریسی ان کا وہ خلیفہ خاص ہے جو منتری ٹوٹکوں کے ساتھ ساری ضروری ہدایات بتاتا ہے اور طالب علم یعنی مرکزی کرداروہ عوام ہے جو پاس ہونے کے لیے ان منتری ٹوٹکوں پر پوری خلوص نیت کے ساتھ عمل پیراہے تو بات سمجھ آجاتی ہے۔ اس نے اپنے گرد حفاظتی حصارکھینچ رکھے ہیں ۔ ہر مثبت بات انہیں بھوت پریت اور دشمنوں کی سازش دکھائی دیتی ہے اور تشکیک میں مبتلا کر دیتی ہے ۔ تشکیک چونکہ ایمان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے لہٰذا حتیٰ الامکان اپنے منتروں سے اسے بھگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پھر بھی وہ جہنم واصل نہ ہو تو اسے واہمہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ شاہ جی نے چلہ کشی کے دوران ایسے دشمنوں کے نمودار ہونے کا اشارہ دیا تھا۔ ہمارا یہی رویہ تمام علوم کی طرف ہے۔ لیکن بات اِس سے زیادہ گہری ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کے نقائص اور اس کی بنیادی خرابیوں کے تخم کہاں ہیں؟ اور وہ پُتلا کہاں ہے جس میں سوئیاں چبھو کر ہمارے اوپر جادو پھونکا گیا ہے کہ ہم اس طالب علم کو سب کچھ پڑھاتے ہیں لیکن یہ اِس کی علمیت میں اضافہ نہیں کرتا؟

ہمارے اجتماعی مزاج میں منطق اور سائنسی طرز فکرا بھی تک لادینی تصورات سمجھے جاتے ہیں۔ غیر منطقی سوچ اور غیر سائنسی طرز فکر ہمارا قومی مزاج ہیں ۔لیکن یہ چند برسوں کی بات نہیں۔ اس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی مسلمانوں کے زوال کی تاریخ۔ ہماری تدریسی کتابوں میں سکھایا جاتا ہے کہ جب اس خطے میں مسلمان وارد ہوئے تو اپنے ساتھ تہذیب و ترقی اور جدیدیت لے کر آئے۔ اس تہذیب و ترقی نے علمائے دین، شعراء، انشا پرداز اور موسیقار پیدا کیے ۔ یہ تو ہوا لیکن عقلی علوم اور سائنسی طرز فکر نا پید رہی۔ اس کی بنیادی وجہ امام غزالی اور اشعری کے عقلیت مخالف نظریات تھے جو اس طرح رائج ہو گئے کہ اس کے بعد مسلمانوں کا اجتماعی مزاج عقلیت پسندی کے خلاف ہی رہا۔ اور جب اسلام بر صغیر میں داخل ہوا تو یہی تقلید پسندی ساتھ لایا۔ یہ خطہ پہلے ہی رومانوی مزاج رکھتا تھا اس لیے اسلام کی جدت پسندی عقلی سطح پر کوئی انقلاب برپا نہ کر پائی۔

برصغیر میں مسلمان بادشاہوں کے دور حکمرانی میں ذاتی عیش و عشرت کے لیے محلات، مقبرے اور باغات وغیرہ تو اپنے فنی عروج پر تھے لیکن پورے دور حکومت میں کوئی عظیم درس گاہ یا یونیورسٹی قائم نہ کی جاسکی۔ سلطنتوں کے بھرے ہوئے خزانے عیاشیوں اور پرُ شکوہ عمارتوں کی تعمیر کے لیے تو صرف ہوتے رہے لیکن عوامی خوش حالی اور علم و حکمت کے لیے سلطنتوں کی جیبیں خالی ہی رہیں ۔ ان مسلم ریاستوں میں کوئی عظیم فلسفی اور سائنس دان پیدا نہ ہو سکا۔ اس کی بنیاد ی وجہ یہی تھی کہ مسلمانوں کے نظریہ تعلیم میں عقلیت پسندی اور سائنس و حکمت کو ناقص و کم ترتصور کرتے ہوئے غیر ضروری قرار دے دیا گیا تھا۔ لہٰذا سوال اٹھانا ، انسانی عقل استعمال کرنااور مروجہ تصورات پر تشکیکی رویہ اپنانا کفر قرار دیا جاتا ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ رویہ آج بھی ہمارے روز مرہ کا حصہ ہے ۔ ہمارے ہاں اب سائنس تو پڑھائی جاتی ہے ، انجینئرنگ یونیورسٹیاں اور بنیادی و نظریاتی سائنس کے ادارے بھی موجود ہیں لیکن ابھی تک وہ منطقی اور سائنسی سوچ موجود نہیں جو قوموں کو ترقی اور خود انحصاری کی طرف لے جاتی ہے۔ ہمارے ہاں سائنسی اور غیر سائنسی علوم ایک ہی طرز سے پڑھائے جاتے ہیں ۔ سائنس کے اساتذہ سائنسی علوم پڑھاتے ہوئے بھی لاشعوری سطح پر یہی عقائد رکھتے ہیں کہ یہ علوم دنیاوی ضرورتیں پوری کرنے کی حد تک ٹھیک ہیں لیکن فکری سطح پر یہ علوم غیر اسلامی اور کفر پر مبنی ہیں ۔ جب کہ مذہبی علم ہی اصل حقیقت ہے۔ بحیثیت قوم یہ دوہرا پن ہماری معاشرتی پستی کا سبب ہے۔ بر صغیر میں سرسید اور پھر پاکستان میں ڈاکٹر عبدالسلام نے مسلمانوں کوعقلیت پسندی اور سائنسی علوم کی جانب راغب کرنے میں جو مقدور بھر کوششیں کیں اُن کی سخت مخالفت کی گئی۔

اس علمی بدحالی اور معاشرتی پستی سے نکلنے کا ایک راستہ یہ ہے کہ اب اگر کسی ڈاکٹر سلام کی شکل میں منشی رام سہائے جی آئیں تو انہیں جِن بھوت تصور کرتے ہوئے اپنے گرد حصار بندی نہ کریں اور ان پر منتر پڑھ کر پھونکنے کی بجائے ان کا کہا مانتے ہوئے سائنسی سوچ اور عقلیت پسندی کو اپنا لیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ چُھو منتری ٹوٹکے اُلٹے پڑجائیں اور پھر نہ پٹواری کی بیٹی سے بیاہ ہو سکے اور نہ اپنے گھر جوگے رہیں ۔ آپ کو تو معلوم ہے کہ منتر الٹا پڑ جائے تو اکثر لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں اور یہ تاکید تو شاہ جی نے بھی کی تھی۔


از زاہد امروز۔
ربط۔
 
Top