منسوخ القران

طالوت

محفلین
منسوخ القران​
(رحمت اللہ طارق) صفحہ 105-106

منسوخ کی چھ قسمیں :
قسم اول:
ایسا قران جس پر کسی "علت" کی وجہ سے عمل کرنا فرض ہو گیا تھا بعد میں وہ "علت" جو کہ موجب عمل تھی باقی نہیں رہی۔ لہذا عمل منسوخ اور الفاط قرانی باقی رہ گئے
تبصرہ:
اصولی طور پر اس قسم کے منسوخ کو نسخ کی ذیل میں لایا ہی نہیں جا سکتا کیونکہ حکم جب کسی "علت" سے وابستہ ہو گا تو علت کے بدلنے سے وہ بھی بدل جائے گا۔ پھر علت جب دوبارہ ظہور میں آئے گی ، تو حکم بھی از سر نو عائد ہو گا۔ لہذا علتوں سے وابستہ احکام کو نسخ کے دائرے میں نہیں لایا جا سکتا۔۔


قسم دوم:
ایسا قران جس کا رسم الخط (لفظ اسٹائل) اور تلاوت منسوخ ہو گئی مگر بغیر "بدل" کے (یعنی اس کے عوض تلاوت کے الفاظ نہیں اترے تاکہ لفظی اسٹائل جو قران کے لیے خاص تھا اس کی صورت میں باقی اور محفوظ رہتے) لیکن حکم باقی رہ گیاجیسے آیہ رجم الشیخ و الشیخیۃ
تبصرہ:
آیہ رجم کا تعلق اگر کتاب اللہ سے ہوتا تو ضروری تھا کہ رسول اللہ اسے بھی صورت خط (قرانی اسٹائل ہی میں) عطا کرتے اور تلاوت کے لیے قران پاک ہی میں درج فرما دیتے لیکن مفہوم کی ٹیکنیکل فاحش غلطی اور الفاظ کے غیر معجز ہونے کے عیب کی وجہ سے قران محکم کی شایان شان نہ سمجھ کر آپ نے نہ تو خود ہی اسے قران سمجھا اور نہ ہی عمر بن خطاب کے اصرار پر قران میں درج کرنا پسند اور جائز قرار دیا۔اسے قران کی بجائے حدیث کہہ سکتے ہیں۔ ایسی حدیث جسے خود بخاری و مسلم نے بھی قبول نہیں کیا۔

قسم سوم:
ایسا قران جس کا حکم تو مماثل قران سے منسوخ ہو گیا ، لیکن لفظی اعتبار سے دونوں ہی قران میں رہ گئے ، جیسے اللذین یاتیا نھا منکم (عمران) اور فاجلدواکل واحد منھا ماۃ جلدۃ (نور) ۔۔
تبصرہ:
یہ ایک وہم ہے کہ اس قسم کا کوئی نسخ قران پاک میں واقع ہوا ہے ؟ اور جن آیات کا حوالہ دیا گیا ہےوہ سو فہم کا نتیجہ ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو منسوخ نمبر 212اور نمبر 51 وغیرہ۔

قسم چہارم:
ایسا قران جس کا حکم اور رسم (لفظی اسٹائل جو قران کے لیے خاص ہے) حتٰے کہ خزانہ دماغ میں اس کا دھندلا سا تصور بھی باقی نہیں رہا اور اخبار احاد کے ذریعے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کی ایسی قسم ضرور ہی تھی۔ جیسے ابو موسٰی اشعری سے روایت ہے کہ "قران میں سورۃ براۃ جتنا ایک سورۃ تھا جو اٹھا لیا گیا "۔
تبصرہ:
اخبار احاد میں قران بننے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ابو موسٰی کے قول سے (بشرط ثبوت) یہ ثابت ہوتا ہے کہ کتاب اللہ کا ایک حصہ خبر واحد قسم کا بھی تھا جو کہ سراسر خلاف واقعہ ہے۔ اگر اس قسم کا آحادی قران کہیں موجود ہوتا تو لوگوں کے پاس بطور نمونہ کچھ نہ کچھ باقی ضرور رہتا۔

قسم پنجم:
ایسا قران جس کا حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہو گئے مگر سینوں سے الفاظ محو نہیں ہوئے جیسے سیدہ عائشہ صدیقہ سے "عشر رضعات" والی آیت۔
تبصرہ:
سیدہ عائشہ صدیقہ کی طرف سے منسوب قران کی حقیقت اپنے مقام پر واضح ہو چکی ہے ۔ مختصر تعارف کے لیے ملاحظہ ہو منسوخ 58۔
نیز ہمارے نزدیک ایسا قران نہ صرف لغو اور باطل ہے ، نفسیات وحی کی روشنی میں اسلام کے خلاف بدترین سازش بھی ہے کیونکہ اس طرح تو ہزاروں اشخاص "سینوں میں حفاظت" کا بہانہ بنا کر وحی قران کے متوازی دیگر قران پیش کر کے کہہ سکتے ہیں کہ یہ قران امام غائب یا خاص خاص روایان احادیث سے سینہ بہ سینہ ہمارے پاس چلا آ رہا ہے۔ اور پھر اس وقت کوئی نہ ہو گا جو ان کے دعوے کو چیلنج کا جواز رکھتا ہو۔

قسم ششم:
ایسا قران جس کے الفاظ تو نطق اور تلاوت کے لحاظ سے باقی رہے لیکن مفہوم نسخ ہو گیا۔
تبصرہ:
اگر الفاظ باقی رہے اور مفہوم منسوخ ہو گیا تو ایسے بے مہمل و بے معنٰی الفاظ کے باقی رکھنے میں قران کے اعجاز کا دعوٰی ختم ہو جاتا ہے کیونکہ اس طرح یہ ماننا پڑے گا کہ اس میں کچھ مہمل اور کچھ حسہ بیکار بھی ہے۔ بے معنٰی الفاظ باقی رکھنے سے قران اور صاحب قران کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا تھا ۔ قران کی آفادی حیثیت اس کے الفاظ بامعنٰی میں مضمر ہے۔ اس کا ہر لفظ باعث ہدایت اور اس کا تمامتر نطق موجب نجات ہے۔ لیکن جب اس کے الفاظ بے معنٰی ، جملے بے مفہوم اور عبارتیں مہمل ہوں تو اس وقت ہمارے لیے اخذ و استنباط کی کیا صورت باقی رہ سکتی ہے؟ خاص کر علمائے اصول نے بارہا اس بات کی وضاحت کی ہے کہ:
" مفہوم حجت نہیں ہوتا بلکہ اکثر نے تو مفہوم سے استدلال کرنا بھی جائز نہیں سمجھا" لہذا مفہوم جب دلیل کی حیثیت نہیں رکھتا تو ناسخ منسوخ کی صلاحیت کیونکر رکھنے لگا ؟-------

یہ تھیں آیات قرانی کی وہ چھ قسمیں ، جنھیں لے کر ہمارے علماء حضرات قرن ہا قرن قران پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں کم از کم ان چھ قسموں کی تحلیل سے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ کلمۃ لا مدلول لہا ایسے کلمات ہیں جن کا نہ کوئی مفہوم ہے نہ کوئی مقصد۔ بے زبان جانوروں کی بے مقصد بولیاں ہیں اور بس ! ۔۔ اور قران پاک "بے مقصد بولی" نہیں ہے۔ وہ ہر عیب سے منزہ اور سقم سے پاک ہے۔۔۔


مکمل کتاب منسوخ القران (رحمت اللہ طارق) پڑھنے کے لیے
------------------------------------------
وسلام
 
Top