منزل (۲)

غزل قاضی

محفلین
اہلِ منزل کی مُسافِر پہ یہ تِرچھی نظریں
میزباں کی سُوئے مہماں یہ نگاہ ِ اکراہ

اَلحذَر خون بہاتے ہُوئے آدابِ کَرَخت
الاَماں تِیر چلاتے ہُوئے اخلاق ِ سیاہ

یہ خَط و خال سے چَھنتی ہُوئی نفرت کی شُعاع
یہ جَبینوں کی لکیروں سے اُبَلتی ہُوئی ڈاہ

شہر کے زَلزلہ بردوش ، گلی کُوچوں میں
یہ کڑکتے ہُوئے لَہجے ، یہ جگر سوز نگاہ

اُس ترازُو میں بٹھایا ہے فلک نے مُجھ کو
جِس میں تُلتے ہیں حریفانِ تَمدُّن کے گُناہ

آدمیّت کا یہ فُقدان کہ دیکھا نہ سُنا
اجنبیّت کا یہ قامُوس کہ مِلتی نہیں تھاہ

نہ وُہ رِم جِھم نہ وُہ پُروا ، نہ وُہ کُوئی لب ِ جُو
رُخ ِ گردُوں پہ دُھواں ہے ، لبِ گیتی پہ کراہ

میرے ہمراز، مِرے ناز اُٹھانے والے
کون سے دیس میں ہیں کوئی بتا دےلِللّٰہ

اُف یہ طُوفان ، یہ گرداب ، یہ پچھیاؤ ، یہ رات
کِس طرف ہیں مِری کَشتی کے پرانے ملّاح

تُند جذبات کا پَھیلاؤ ، الٰہی توبہ
سخت الفاظ کا پتھراؤ ، عَیاذ " بِاللہ

( مصطفیٰ زیدی از قبائے سَاز )
 
Top