مناجات۔ حفیظ جالندھری

فرحت کیانی

لائبریرین
مناجات

الہٰی ! انتہائے عجز کا اقرار کرتا ہوں
خطاء و سہو کا پُتلا ہوں ، استغفار کرتا ہوں
ہوائے شوق کی ہر موج طوفانی رہی اب تک
مری کشتی غریق بحرِ نادانی رہی اب تک
اگرچہ رُوح میں اِک شورِ محشر خیز لایا تھا
اگرچہ شیشہ ٔدل درد سے لبریز لایا تھا
رہی لیکن سُکوں میں زندگی کی جُستجو مجھ کو
دماغِ خام نے رکھا شہیدِ رنگ و بُو مجھ کو
مری تسکین و راحت تھی جہانِ نغمہ و گُل میں
سمجھتا تھا کہ ہے فردوسِ گوشِ آواز بُلبُل میں
اگرچہ رُوح میں موجود تھی لہروں کی طُغیانی
رہا شرمندۂ ساحل مرا ذوقِ تن آسانی
میں سمجھا تھا سکونِ خواب کو سامانِ بیداری
مری نا تجربہ کاری ! مری نا تجربہ کاری
یہ تیرا فضل ہے بیشک کہ ابتک زندہ ہوں یا رب
گذشتہ زندگانی پر بہت شرمندہ ہوں یا رب
ترے لطف و کرم نے آج میری رہنمائی کی
مری پستی نے اُٹھ کر بامِ ہستی تک رسائی کی
کہاں قسمتِ خوابیدہ میں یہ کیفِ بیداری
ہے سر چشمہ نشاطِ زندگی کا شعلہ رفتاری
پہاڑوں میں جہاں بہتی ہے آبِ تند کی دھارا
مری آنکھوں نے دیکھا آج وہ پُرجوش نظارہ
نظر آئیں مجھے اٹھتی ہوئی بڑھتی ہوئی موجیں
وفورِ شوق میں موجوں کے سر پڑھتی ہوئی موجیں
مجھے توفیق دے ان گرم رو موجوں سے مل جاؤں
مرا مقصد ہے اسلام کی فوجوں سے مل جاؤں
روانی سے مبد ہو چکی افتادگی میری
اسی میدان کی جانب ہے اب آمادگی میری
وہی میدان جس میں گونجتی ہیں زندہ تکبیریں
جہاں مرقوم شمشیروں پہ ہیں پایندہ تقدیریں
وہی میدان یعنی آخری منزل عبادت کی
جہاں بکھری پڑی ہے خاک پر دولت شہادت کی
قلم ہی تک نہ رکھ محدود یا رب ولولہ میرا
بڑھا دے حوصلہ میرا ، بڑھا دے حوصلہ میرا

حفیظ جالندھری
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ! بہت شکریہ فرحت کیانی! شاہنامہء اسلام بچپن میں بہت پڑھا کرتا تھا اور پڑھ کے اپنے دادا جان کو سنایا کرتا تھا۔
 
Top