ممتاز مفتی کی کتاب "تلاش "سے کچھ اقتباسات

عائشہ عزیز

لائبریرین
علمائے دین ۔۔۔۔۔ بھڑوں کا چھتہ

ہماری پرابلم صرف یہ تھی کہ یورپی سائنس دانوں کو قرآن کے سائنسی اشارات مہیا کرتے۔ یہ علمائے دین کا فرض تھاکہ یورپ میں قرآن کی اشاعت کرتے لیکن ہمارے علمائے دین تو آپس میں اختلافات میں اس بری طرح سے پھنسے ہوئے ہیں کہ انھیں ایسے کام کی توفیق نہیں ہے۔
1968ء میں جب میں حج کرنے گیا تو اسی سال حکومت ِ پاکستان نے چند علمائے دین کا ایک وفد سرکاری خرچ پر حج کرنے بھیجا ۔ سعودی عرب میں چارا یک مقام پر ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ جہاں بھی علماء کی گاڑی کو ٹیکس کے لیے روکا گیا، علماء نے جھگڑا کرنا شروع کردیا کہ ہم سرکاری مہمان ہیں، لہٰذا ہم ٹیکس ادا نہیں کریں گے۔ اس پر ٹول ٹیکس کے سٹاف نے چندہ کرکے خود ٹیکس ادا کیا کیونکہ وہاں کوئی ٹیکس سے مستثنٰی نہیں۔ پھر مدینہ منورہ میں مجھے علماء کے وفد سے ملنے کا اتفاق ہوا ۔ مسجد نبوی عام طور پر رات کو مقفل کردی جاتی ہے۔ کبھی کبھار خصوصی مہمانوں کی درخواست پر اسے چند گھنٹوں کے لیے کھول دیا جاتاہے۔ حکومت ِ پاکستان کی درخواست پر مسجد نبوی کو علمائے کرام کےلیے کھول دیا گیا۔
وہاں عجب صورت حال دیکھنے میں آئی ۔ وہاں علماء کے ذاتی اختلافات کُھل کر سامنے آگئے۔ بھن بھن کرتا بھڑوں کا چھتہ چھڑ گیا۔ کوئی کسی کی امامت میں نماز پڑھنے کے لیے تیار نہ تھا۔ جس کو مسجد کا جو مقام ہاتھ آیا ، اس نے اس پر قبضہ جما لیا اور کسی دوسرے کو وہاں آنے کی اجازت نہ دی۔ اس کے برعکس بزرگانہ رویہ کیا تھا۔ ایک روز حضورﷺ کی جالی تک ہماری رسائی ہوگئی ۔ ابھی میں پڑھ ہی رہا تھا کہ قدرت اللہ شہاب بولے، یہاں زیادہ دیر مت رکو، دوسرو ں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ اس روز اپنےرہبر کو نفسا نفسی کے عالم میں دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ ہمارے مبلغوں کا یہ حال ہے تو ہمارا کیا بنے گا؟ بہر حال ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ تبلیغ اسلام کریں گے ، کار لاحاصل ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
سب سے بڑی رکاوٹ

انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کی حیثیت میں ہندوستان آئے تو آتے ہی انھیں اس بات کا احساس ہوگیا کہ ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہیں۔
ابتدائی رپورٹ میں انھوں نے اس رکاوٹ کو دور کرنے کےلیے پروگرام تجویز کیے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کا رخ بدل دو۔ ان کی توجہ قرآن سے ہٹاکر فروعات میں الجھا دو۔ ان پڑھ مُلّا اور اجارہ داروں کی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرو۔ دوسری تجویز تھی کہ ہندوستان میں مغربی تعلیم رائج کردو۔ نصاب ایسا مرتّب کرو کہ مسلمان نوجوانوں کی توجہ سب سے ہٹ جائے اور وہ سیکولر خیالات کی طرف مائل ہو جائیں۔

زبان

سب سے بڑی مشکل تو یہ تھی کہ ہندوستان کے بیشتر حصوں میں پٹھانوں اور مغلوں کے ادوار کی وجہ سے جو سرکاری زبان رائج تھی ، اس میں عربی اور فارسی زبانوں کی آمیزش تھی۔ زبان کی وجہ سے ہندی مسلمانوں کا جذباتی تعلق فارس اور عرب ممالک سے تھا۔ اس تعلق کو ختم کرنا از بس ضروری تھا۔ لہٰذا انھوں نے اردو زبان کی بنیاد ڈالی جو مقامی زبانوں اور ہندی کی آمیزش سے مرتّب کی گئی تھی۔ صاحبو! یوں ہم اردو سے ہوتے ہوئے انگریزی زبان تک پہنچے اور آج صورتحال یہ ہے کہ ہماری کوئی قومی زبان نہیں ۔ اردو جسے ہم رابطہ زبان تسلیم کرتے ہیں، وہ ہمارے سیکرٹریٹ کے باہر دھتکاری ہوئی کھڑی ہے۔
سیکرٹریٹ کے اندر گورا صاحب کے بجائے کالا صاحب ہے جو گورے کی نسبت زیادہ سٹیٹس زدہ ہے۔ انگریزی ہماری سرکاری زبان ہےاور سماجی طور پر سٹیٹس سمبل ہے۔ ہمارا دارلحکومت ایک سٹیٹس کالونی ہےجس میں گریڈوں کی ذات پات سختی سے رائج ہے ۔ یہاں کے لوگ اپنے بچوں کو اردو سکول میں داخل کرنے کو کسر شان سمجھتے ہیں۔ بچے میٹریکولیشن کو نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ او لیول اور اے لیول کرنے کے خواہشمند ہیں۔ انگلش سکول یوں دھڑا دھڑ قائم ہوتے جارہے ہیں جس طرح برسات میں کھمبیا ں اُگتی ہیں۔ گورے کا پروگرام پھل لا یا ہے۔ نوجوان ، تہذیب کو عقل سے گری ہوئی گھٹیا چیز سمجھنے لگے ہیں۔ مذہب پرشرمسارہیں۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
موسیقی

صرف مذہب ہی نہیں ،ہمارا تمام ورثہ ان کی نظر میں مضحکہ خیز چیز ہے، یہاں تک کہ نوجوانوں میں انگریزی گانے گنگنانے کا رواج چل نکلا ہے اور ان کی بے سُری بھدی آوازوں کو ہمارا ٹیلی ویژن بڑے اہتمام سے پیش کرتاہے۔
ہماری موسیقی سُر کی موسیقی تھی جو سیدھی دل پر اثر کرتی تھی۔ انگلش موسیقی تال کی موسیقی ہےجو ٹانگیں جھلانے پر مجبور کرتی ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ اہل مغرب نے ٹانگیں جھلا جھلا کر اپنا سوا ستیاناس کر لیا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے نوجوان ٹانگیں جھلانا سیکھ رہے ہیں۔
 
Top