ممتاز مفتی کی کتاب "تلاش "سے کچھ اقتباسات

عائشہ عزیز

لائبریرین
بہتر مخلوق
صاحبو ! میں علمائے اکرام سے بے حد مایوس ہوں۔وہ صرف دو باتیں کرنا جانتے ہیں۔۔دورحاضرہ پر تنقید اور ماضی کی مدح سرائی صرف یہ ہی نہیں! مجھے علمائے اکرام کے خلاف کئی ایک شکایات ہیں۔مجھے ان سے بنیادی شکایت یہ ہے کہ وہ مجھ جیسے نہیں ہیں،عوامی نہیں ہیں ،ہم میں سے نہیں ہیں۔ان کا پہناوہ اور طرح کا ہے ، رہن سہن اور طرح کا ہے ۔آواز کی سر تال اور طرح کی ہے آواز حلق کے نچلے پردوں سے نکلتی ہے ۔۔۔نکلتی نہیں ،نکالی جاتی ہے۔بڑی مشق اور محنت سے نکالی جاتی ہے تاکہ اس میں ایک امتیازی شان پیدا ہوجائے ۔
ان کی چال عوامی نہیں ہے ۔اس میں ایک امتیازی ٹھمک ہے ۔معرزیت کی ٹھمک ۔ان کے میک اپ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے وہ کوئی اور مخلوق ہوں، بہتر مخلوق۔۔۔انسان اور فرشتے کی درمیانی مخلوق یا جیسےوہ کسی تاریخی کاسٹیوم پلے کے اداکار ہوں۔ان کا میک اپ اتنا بھاری ہوتا ہے کہ فلمی ستاروں کا میک اپ پیچھے رہ جاتاہے۔
صاحبو ! سیانے کہتے ہیں کہ اگر تم کسی پر اثر ڈالنا چاہتے ہوکہ کوئی تمہاری بات توجہ سے سنے کانوں سے نہیں بلکہ دل کے کانوں سے ،تو تم پر لازم ہے کہ پہلے تم ویسے بن جاؤ جیسے وہ لوگ ہیں جن پر تم نے اثر ڈالنا ہے ۔یہاں تک ویسے بن جاؤ کہ وہ لوگ سمجھیں کہ یہ شخص ہم میں سے ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
صوفیائے اکرام
اس کے برعکس صوفیائے اکرام نے مساوات کو اپنایا ۔وہ جانتے تھے کہ جن لوگوں پر اثر ڈالنا ہے، ہمیں ویسا بننا پڑے گا ،اس حد تک کہ وہ سمجھیں یہ شخص ہم میں سے ہے ۔
صوفیائے اکرام سینکڑوں میل دور ، وسط ایشیا سے ہندوستان میں آتے تھے ۔ یہاں پہنچ کر سچے دل سے اسے اپنا وطن سمجھتے ، پورے طور پر ہمیں اپنالیتے ،ہماری بولی سیکھتے ، ہمارا پہناواپہنتے ، ہمارا رہن سہن اپناتے ، ہماری رسومات ورواج کو اپناتے پھر وہ ہم سے بات کرتے۔ وہ اس بھید سے واقف تھے کہ جب تک ہم جیسے نہیں بنیں گے ، ان کی بات ہم تک نہیں پہنچے گی ۔جب مکمل طور پر میں رچ بس جاتے تو وہ ہماری زبان میں ہماری عوامی کہانیاں لکھتے ۔ ان تصانیف میں وہ ہمارے لیے پیغامات رکھ دیتے تھے ۔
ان کی تصانیف اتنی اپنائیت لیے ہو تیں کہ عوام انھیں حفظ کر لیتے ۔ پھر تقریبات میں ،محفلوں میں ، داروں میں لوگ انھیں والہانہ پڑھتے اور سننے والے سر دھنتے ۔
صوفیائے اکرام نے کبھی اسلام کی تبلیغ نہیں کی تھی ۔ انھوں نے کبھی تقریریں نہیں کی تھیں ۔ وہ اسلام کا ڈنکا نہیں بجاتے تھے ۔ صرف اسلام کے لیے جیتے تھے ۔ا ن کے پاس صرف دو ہتھیار تھے ، اخلاق اور حسن کردار، اس دونوں ہتھیاروں میں مساوات کی دھار تھی جو لوہے کی دھار سے زیادہ کاٹ کرتی ہے۔
داتا صاحب نے کبھی کسی سائل سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ میاں ہندو ہے یامسلمان ۔وہ صرف دینا جانتے تھےاور وہ واحد قادر مطلق ، جو دینے پر قادر ہے ، اپنے چاکر کی لاج رکھتا تھا۔ نتیجہ یہ ہواکہ چند سالوں میں آدھا لاہور مسلمان ہوگیا۔ متعصب لوگ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے ۔ وہ سچ کہتے ہیں لیکن یہ تلوار فولاد کی نہیں اسلام کردار کی تھی ۔ صاحبو! جان لو کہ مساوات سے زیادہ خطرناک ہتھیار کوئی نہیں ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
"اللہ ہا"
اس کے برعکس ہمارے علمائے اکرام عوام میں گھلتے ملتے نہیں ۔ وہ اپنی امتیازی شان برقرار رکھتے تھے۔ اٹھنے میں ، بیٹھنے میں ، کھانے میں ، پینے میں، رہنے سہنے میں ، بات چیت میں ان کا انداز الگ ہوتا ہے ، ہونٹ سنوار کر بات کرتے ہیں۔ گلے کے نچلے پردے سے آواز نکالتے ہیں تاکہ وقار پیدا ہو۔ یہاں تک کی وہ اللہ بھی مخصوص سر تال سے کہتے ہیں ۔ "اللہ ہا"! ایسے لگتا ہے کہ ان کا اللہ بھی ہمارے اللہ سے مختلف ہے جیسے ان کے اللہ نے بھی سر پر بھاری عمامہ لپیٹ رکھا ہو۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
ابو لہب اور یہودی
فالسی فیکشن ٹیسٹ کے سلسلے میں گیری ملر نے دو بڑی دلچسپ باتیں لکھی ہیں ۔ لکھتا ہے:
محمدﷺ کا ایک چچا تھا ۔ اس کا نام ابو لہب تھا۔
ابولہب کو حضورﷺسے عداوت تھی ۔ اس کی زندگی کا واحد مقصد قرآن ، اسلام اور حضورﷺ کو جھٹلانا تھا۔ وہ محمدﷺ کا پیچھا کیا کرتا تھا ۔ جہاں بھی آپ ﷺ جاتے تھے، وہ پیچھے پیچھے جاتا۔ آپ ﷺ کی ہر بات کو جھٹلاتا۔ اگر آپ ﷺ کہتے کہ یہ چیز سفید ہے تو وہ جھٹ بول اٹھتا، نہیں یہ چیز کالی ہے۔ اگر آپ ﷺ کہتے کہ دن ہے تو وہ کہتا ، نہیں رات ہے ۔قرآن میں ابو لہب کا ذکر بھی آیا ہےکہ
وہ دوزخ کی آگ میں جلے گا۔ دوزخ کی آگ میں جلنااس کا مقدر ہے ۔ مطلب یہ کہ وہ کبھی اسلام قبول نہیں کرے گا کافر ہی رہے گا۔
گیری ملر لکھتا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ابو لہب دس سال زندہ رہا۔ اس کے لیے قرآن کو جھٹلانا بہت آسان تھا۔ وہ مسلمانوں سے کہتا دوستو! میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں ، مجھے مسلمان بنا لو۔۔۔ جب وہ مسلمان بنا لیتے تو کہتا لو بھئی ! تمہارا قرآن جھوٹا ثابت ہوگیا۔ اب بولو۔ لیکن ابو لہب نے ایسا نہیں کیا حالانکہ اس کی زندگی کا مقصد ہی یہ تھاکہ وہ قرآن کو جھوٹا ثابت کرے حضور ﷺ کو جھٹلائے۔
گیری ملر ایسی ہی ایک اور مثال دیتا ہے ۔ لکھتا ہے:
قوموں کی حیثیت سے انسانی رشتوں کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہتاہے کہ بحیثیت قوم ،یہودیوں کی نسبت عیسائی مسلمانوں سے بہتر سلوک روا رکھیں گے۔لہٰذا یہودیوں کے لیے قرآن کو جھٹلانا بڑا آسان کام تھا۔
یہودی مسلمانوں سے میل جول بڑھاتے ۔ ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ۔ انھیں اپناتے۔۔۔پھر کہتے مسلمانو! تمہارا قرآن غلط ہے۔ چونکہ ہم مسلمانوں سے عیسائیوں کی نسبت بہتر تعلقات کے حامل ہیں لیکن یہودیوں نے ایسا نہیں کیا ۔ اور لگتاہے کہ مستقبل میں بھی ایسا نہیں کریں گے۔
گیری ملر نے تو بڑی رواداری سے بات کی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں کا مسلمانوں سے جو رویہ ہے وہ قرآن کو جھٹلانے کی بجائے اس کے دعوے کو شدت سے تقویت دیتاہے۔
قرآن پڑھنے سے پہلے میں حیران ہوا کرتا تھا کہ یہ کیسی کتاب ہے کہ ہر فرقہ وار اپنے نظریات کے جواز کے لیے قرآن کا حوالہ دیتا ہے حالانکہ ان کے نظریات مختلف یا متضاد ہوتے ہیں ۔
عقل وشعور کو ماننے والے بھی قرآن کا حوالہ دیتے ہیں ۔ جذبے اور وجدان کو ماننے والے بھی قرآن کا حوالہ دیتے ہیں ۔ تنگ خیال کٹر مسلمان بھی اپنے مسلک کا جواز قرآن سے اخذ کرتے ہیں۔ وسعت قلب کو ماننے والے بھی قرآن کو کوٹ (quote) کرتے ہیں۔
پرانی بات ہے ، ان دنوں میں سرکاری میڈیا کے ایک محکمے میں کام کرتا تھا۔اوپر سے حکم آتا کہ قرآن سے فلاں بات کے جواز کے لیے آیت تلاش کرو اور حکومت کے فلاں اقدام کے حق میں سکرپٹ لکھ کر اسے نشر کرو۔ حکم موصول ہونے پر ہم مولوی صاحب کو بلا بھیجتے جو میڈیا کے سٹاف پر تھے ۔ مولوی صاحب بغیر کسی تردد کے آیت ڈھونڈ کر مجھے اس کا ترجمہ لکھا دیتے اور میں سکرپٹ لکھ دیتا۔ان دنوں مجھے کبھی احساس نہ ہوا تھا کہ ہم قرآن کو استعمال کر رہے ہیں اور لاجک کے اصولوں کی خلاف ورزی کررہے ہیں.premisis سے نتیجہ نہیں نکالتے بلکہ نتیجہ کے لیے premisis تلاش کرتے ہیں ۔ اسے لاجک میں " کارٹ بی فور دی ہارس (Cart before the horse)" کہتے ہیں یعنی الٹی گنگا۔۔۔۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
آوارہ علم
دراصل سارا جھگڑا سائنس کے بارے میں ہماری خوش فہمی نے پھیلا رکھا ہے۔ ہم سمجھنے لگے ہیں کہ سائنس ایک مکمل علم ہے۔۔۔دراصل آج کی سائنس اللہ کی حکمتوں کو سمجھنے کی ایک نامکمل آوارہ کوشش ہے جس کی کوئی منزل نہیں۔
سائنسی تحقیق کی ابتدا مسلمانوں نے کی ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب یورپ زمانہ جہالت کے دور سے گزر رہا تھا ۔ مسلمانوں کی سائنسی تحقیق کی پشت پر کائنات کا خالق تھا ۔ کائنات ایک کنفیوزڈ (confused) پھیلاؤ نہیں تھا ۔ کائنات کا ایک مقصد تھا ،ایک نظم تھا، ایک منصوبہ بندی تھی ، ایک منزل تھی۔ مسلمان سائنس دانوں کی تحریروں میں قرآن کریم کے حوالے ملتے تھے ۔ پھر بدقسمتی سے مسلمانوں کی توجہ کائناتی فکر سے ہٹ کر دینی مشاغل تک محدود ہوگئی ۔
یوں سائنسی تحقیق یورپین محققوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ۔ یورپی محققوں میں خلوص ہے ، صلاحیت ہے ، Devotion ہے سبھی کچھ ہے ، صرف ایک کمی ہے، وہ کائنات کو تخلیق کار کے حوالے سے نہیں دیکھتے ، صرف تخلیق کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ خالق کے حوالے سے نہ دیکھو تو کائنات ایک جنگل بن جاتی ہے ۔ اس میں مقصد رہتاہے نہ منزل ، منصوبہ بندی نہ نظام ۔ اس لیے تحقیق آوارہ ہو جاتی ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
نیوٹن اور سیب
نیوٹن نے سیب کو گرتے ہوئے دیکھا اورکشش کا بھید پا لیا ۔ اس نے سیب کے گرنے عمل کو دیکھا سیب کو نہ دیکھا۔ سیب کو دیکھتا ،تو دیکھتا کہ اتنے چھوٹے سے بیج میں کیا کیا رکھ دیا گیا؟ایک درخت تنا ،شاخیں ، پتے ، پھل۔
سیب کو دیکھتا ۔۔۔تو دیکھتا کہ درخت پر پھل جب تک کچا ہوتا ہے ،سبز رنگ کا ہوتا ہے ، سبز پتوں میں چھپا رہتا ہے ۔ جب پک جاتا ہے (کھانے کے قابل ہوجاتا ہے) تو رنگ بدل جاتاہے ، لال ہو جاتا ہے تاکہ نظر آئے۔ پھر وہ ہر راہ گیر کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتا ہے۔ آؤ مجھے توڑو ، کھاؤ ۔ میری غایت کھائے جانا ہے۔ میں انسان کی خوراک بننے کے لئے پیدا کیا گیا ہوں۔
قرآن کہتا ہے کہ لو گو! ہم نے یہ تمام قوتیں ۔۔۔۔ نعمتیں تمھارے لیے بکھیر رکھی ہیں تاکہ تم انھیں مسخر کرو اور اپنے استعمال میں لاؤ۔ یہ کائنات تمھارے لیے ہے ۔ تم اشرف المخلوقات ہو۔ سبحان اللہ ! اللہ نے انسان کو کیا مقام دے رکھا ہے۔
کبھی کسی راہبر نے ہمیں آواز دے کر نہیں کہا کہ لو گو ! ہوش کرو۔ کیا کر رہے ہو؟ اس شرف کا خیال کرو جو اللہ نے تمھیں دے رکھا ہے۔ صاحبو! مجھے سے تو جو راہبر ملتا ہے ، یہی کہتا ہے کہ تم غلیظ ہو ، گنہگار ہو، ناپاک ہو۔
سال میں ایک مرتبہ محلے کی مسجد سے چند بزرگ صورت اصحاب تشریف لاتے ہیں۔ وہ میرے گھر کا دروازہ بجاتے ہیں ۔ میں باہر آتا ہوں تو کہتے ہیں : "بھائی صاحب ! آپ نماز پڑھا کریں ۔"
"بہت بہتر جناب ۔" میں جواب دیتا ہوں ۔" آپ بجا فرماتے ہیں لیکن میں بھی آپ کی خدمت میں ایک عرض کرنا چاہتا ہوں ۔"
وہ پوچھتے ہیں : " جی فرمائیے! "
میں کہتاہوں : "عالی جاہ! نماز کی فرضیت بسروچشم لیکن کبھی آکر یہ بھی کہیے کہ بانٹ کر کھایئے ۔ بانٹ کر کھانے سے چیز حلال ہو جاتی ہے۔ عالی جاہ! کبھی کسی داڑھی والے کا دروازہ کھٹکھٹا کر پوچھئے ، جناب ! آپ نے جو داڑھی رکھی ہے، کیا آپ اس کی لاج پال رہے ہیں؟ آپ نے دکان کو مال سے بھر لیا ہے یا خالی دکان پر بورڈ لگا رکھا ہے؟"
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
حکم ، مصلحت

مبلغ کہتے ہیں ، نماز قائم کرلو تو کردار خوبخود قائم ہوجاتا ہے۔ ممکن ہے کچھ نمازیوں میں ہو جاتا ہو ، بیشتر نمازی محروم رہتے ہیں۔ ہمارے مبلغ کہتے ہیں کہ نماز کا اس لیے حکم دیا گیا کہ وہ ہمیں برائیوں سے بچاتی ہے ، حفظان صحت ہے، میرے دانست میں اللہ کے حکم کوrationalise کرنا ، اس میں مصلحتیں تلاش کرنا ، حکم کے لفظ کی توہین کے مترادف ہے۔ نماز قائم کرو، اس لیے کہ اللہ کا حکم ہے۔ بس ، اس کے بعد بات کرنے کی گنجائش بھی ہو۔
قدرت اللہ شہاب کی بیگم ڈاکٹر عفت لندن کے ایک ہوٹل میں بیٹھی تھیں ۔ اسی ٹیبل پر ایک فوجی افسر وردی پہنے بیٹھا تھا ۔ فوجی افسر نے ڈاکٹر عفت سے پوچھا : "لیڈی! آپ مسلمان ہیں؟"
"الحمدللہ !" ڈاکٹر عفت نے کہا۔
فوجی بولا :" کیا میں آپ سے ایک بات پوچھ سکتاہوں ؟"
"پوچھئے! " ڈاکٹر عفت نے کہا۔
فوجی بولا:"آپ سؤر کا گوشت کیوں نہیں کھاتے ؟"
عفت نے کہا:" میرے اللہ کا حکم ہےکہ مت کھاؤ ، اس لیے نہیں کھاتے ۔"
فوجی بولا:"اس حکم کے پیچھے کیا دلیل ہے؟"
عفت نے کہا :" آپ فوجی ہو کر حکم کے مفہوم کو نہیں جانتے ، حکم کی عظمت کو نہیں جانتے ۔ حکم ، دلیل اور مصلحت سے بے نیاز ہوتا ہے۔"
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
ایک عالمی شہرت کے آرٹسٹ نے کہا تھا: " لوگو ! شکر کرو کہ مانوسیت کے پردے کی وجہ سے ہمیں اس دنیا کا حسن نظر نہیں آتا۔ اگر ہمیں نظر آجائے کہ پتے پتے میں ، ذرے ذرے میں ، کتنی حکمت ہے ، کتنا حسن ہے ، تو ہم پر ایسا عالم حیرت طاری ہوجائے کہ کھڑے کے کھڑے رہ جائیں اور کسی کام جوگے نہ رہیں ۔
قرآن حکیم میں بھی باری تعالٰی بار بار فرماتے ہیں کہ لوگو دیکھو غور سے دیکھو ۔ تم دیکھتے کیوں نہیں ؟دیکھو تو سہی کہ ہم نے کیا کیا بنایا ہے ۔ جب قرآن کہتا ہے کہ دیکھو ۔ تو مطلب سرسری دیکھنا نہیں ہوتا۔ دیکھو سے مراد see نہیں بلکہ look ہوتا ہےیعنی خالی دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ سمجھنے کے لیے دیکھو ۔ یہ سائنسی رویہ ہے ۔ سائنس نے یہ رویہ قرآن سے لیا ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
سر جیمس جینز

جیمس جینز اور خوف خدا کے متعلق ایک واقعہ مشہور ہے۔ یہ واقعہ عنایت اللہ خان مشرقی نے بیان کیا ہے جسے میں نے عزیز احمد کی قابل قدر تصنیف "اللہ کی عظمت " سے اخذ کیا ہے ۔
1909ء کا ذکر ہے ۔ اتوار کا دن تھا۔ ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی ۔ علامہ مشرقی کسی کام کے لیے باہر نکلے تو دیکھا کہ مشہور ماہر فلکیات سر جیمس جینز چرچ کی طرف جارہے ہیں ۔ علامہ مشرقی یہ دیکھ کر حیران ہوئےکیونکہ عام طور پر سائنس دان مذہبی رسومات کے قائل نہیں ہوتے ۔
علامہ مشرقی نے بڑھ کرسر جیمس جینز کو مؤدبانہ سلام کیا۔ سر جیمس جینز نے ان کے سلام کا نوٹس نہ لیا اور چلتے رہے ۔ مشرقی نے ان کا پیچھا کیا اور دوبارہ سلام کیا۔ سر جیمس جینز رک گئے ۔ حیرت سے پوچھا : "بولوکیا چاہتے ہو؟"
اہل مغرب بے مقصد ادب و احترام بھرے سلام سے واقف نہیں ہوتے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سلام کرنے والے کا کوئی مقصد ہوتاہے ۔ اس لیے سر جیمس نے کہا :" بولو، کیا چاہتے ہو؟"
مشرقی نے کہا :" دو باتیں عرض کرنا چاہتاہوں ۔"
سر جیمس بولے ۔ "ہاں ہاں کہیئے !"
مشرقی نے کہا : " پہلی بات یہ ہے کہ بوندا باندی ہورہی ہے لیکن آپ نے چھاتا بغل میں رکھا ہے اسے کھولا نہیں ۔"
سر جیمس اپنی بد حواسی پر مسکرائے اور چھاتا کھول لیا ۔
مشرقی نے کہا :" دوسری بات یہ کہ آپ چرچ کی طرف عبادت کے لیے جارہے ہیں ؟"
مشرقی کے اس سوال پر سر جیمس لمحہ بھر کے لیے خاموش ہوئے پھر بولے :آپ آج شام کو چائے میرے ساتھ پیئں ، بیٹھ کر چائے پر بات کریں گے ۔"
مشرقی شام کو سر جیمس کے گھر پہنچے ۔ سر جیمس انتظار کر رہے تھے ۔ تپائی پر چائے لگی ہوئی تھی ۔
سر جیمس نے اجرام فلکی کے حیرت انگیز نظام کی بات شروع کی ۔ ان کے لامتناہی فاصلے ، پہنائیاں ، پچیدہ مدار کی تفصیلات بیان کرنے لگے ۔ان کی باتیں سن کر مشرقی کا دل اللہ کی کبریائی اور جبروت سے دہلنے لگا۔ خود سر جیمس کی یہ کیفیت تھی کہ ان کے بال کھڑے تھے ، آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں ، ہاتھ کانپ رہے تھے، آواز لرز رہی تھی ۔ بولے: "عنایت اللہ خان ! جب میں خدا کے تخلیقی کارناموں پر نظر ڈالتا ہوں تو میرا رواں رواں اللہ کے جلال لرزنے لگتاہے۔ جب گرجے میں جاکر کہتاہوں ، اللہ! تو عظیم ہے تو میرے جسم کا رواں رواں اس کی شہادت دیتا ہے۔ مجھے عبادت میں دوسروں کی نسبت ہزار گنا زیادہ کیف حاصل ہوتاہے۔"
علامہ مشرقی نے کہا : عالی جاہ! " اس بات پر مجھے قرآن حکیم کی ایک بات یاد آگئی ہے اجازت ہو تواس کا مطلب بیان کروں ؟"
"ضرو رضرور "۔ سرجیمس بولے۔
مشرقی نے عربی میں آیت پڑھی اور ، کہنے لگے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ سے صرف اہل علم ہی ڈرتے ہیں۔"
"کیا واقعی؟" سر جیمس حیرت سے چّلائے ۔ " یہ وہ حقیقت ہے جسے میں نے سالہا سال کے مطالعے اور مشاہدے کے بعد جانا ہے ۔ محمد ﷺ کو اس عظیم حقیقت کا علم کیسے ہوا؟ اگر یہ آیت قرآن میں موجود ہے تو بے شک قرآن الہامی کتاب ہے۔"
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
اپنی اپنی آگ

دوزخ کے متعلق تذکرہ غوثیہ کی ایک کہانی مجھے اپیل کرتی ہے۔
پہاڑ کی کھوہ میں ایک فقیر رہتا تھاجو دن رات عبادت میں مصروف رہتاتھا۔ اس کے ساتھ ایک بالکا بھی تھا۔ فقیر حُقّہ پینے کا شوقین تھا ، اس لیے اس نے اپنے بالکے کو حکم دے رکھا تھا ہر وقت آگ کا انتظام رکھے۔ ایک روز آدھی رات کے وقت فقیر نے بالکے کو حکم دیا کہ چلم بھردے۔ بالکے نے دیکھا کہ بارش کی وجہ سے آگ بجھ چکی تھی۔ اتفاق سے ماچس بھی ختم ہو چکی تھی۔
بالکا گھبرا گیا کہ اب کیا کرے۔ اس نے فقیر سے کہا :" عالی جاہ ! آگ تو بجھ چکی ہے، ماچس ہے نہیں کہ سلگا لوں ۔ فرمائیے اب کیا کروں ۔"
فقیر جلال میں بولا:" ہم تو چلم پئیں گے ، چاہے آگ جہنم سے لاؤ۔"
بالکا چل پڑا ۔ چلتے چلتے جہنم جا پہنچا۔ دیکھا کہ جہنم کے صدر دروازے پر ایک چوکیداربیٹھا اونگھ رہا ہے۔
بالکے نے اسے جھنجھوڑا۔ پوچھا:" کیا یہ جہنم کا دروازہ ہے؟"
چوکیدار بولا:" ہاں ، یہ جہنم کا دروازہ ہے ۔"
بالکے نے کہا:" لیکن یہاں آگ تو دکھائی نہیں دیتی ؟"
چوکیدار نے کہا :" ہر جہنمی اپنی آگ اپنے ساتھ لاتاہے۔"
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
دادی امّاں

پرانے زمانے کی بات ہے جب میں بچہ تھا ۔ ان دنوں دادی امّاں نوے بیانوے کی ہوں گی۔ وہ بیشتر وقت اپنے کمرے میں ایک تخت پر بیٹھی رہتی تھیں ۔ یہ تخت ایک کھڑکی کے پاس تھاجس پر جائے نماز بچھی ہوتی تھی۔ اس تخت کے دائیں ہاتھ کھڑکی تھی ، بائیں ہاتھ ایک بہت بڑا لکڑی کا صندوق تھا جس پر ڈھکنا نہیں تھا۔ اس صندوق میں الم غلم چیزیں پڑی رہتی تھیں۔
دادی امّاں بیٹھ کر نماز پڑھا کرتی تھیں۔
جب وہ نماز پڑھ رہی ہوتیں تو میں اکثر اپنے کمرے میں داخل ہوکر چلاتا:"دادی امّاں ! میراگیند کہاں ہے؟" میں نے کبھی نہیں سوچا کہ دادی امّاں نماز پڑھ رہی ہیں ۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوجائیں تو گیند کی بات کروں ۔
"دادی امّاں ! میرا گیند ، دادی امّاں ! میراگیند۔"
سجدے میں جانے سے پہلے دادی امّاں کانی آنکھ سے صندوق کی طرف دیکھتیں جہاں گیند رکھا ہوتا۔پھر وہ جب سجدے میں جاتیں تو بایاں ہاتھ صندوق میں ڈال کر گیند اٹھا لیتیں اور پھر سجدے سے اٹھ کر وہ گیند میری طرف پھینک دیتیں ۔
صرف میرے گیند کی بات نہ تھی۔
جب دادی امّاں نماز پڑھ رہی ہوتیں تو باہر صحن سے کوئی خاتون چولہے کے سامنے بیٹھے ہوئے چلاتی، "اب میں چاولوں کو دم دے دوں ؟" دادی امّاں نماز پڑھتے ہوئے زور سے کہتیں : " اوں ہوں" اور نماز جاری رکھتیں۔
محلے کی بڑی بوڑھیاں دادی امّاں کی اس عادت پر ہنسا کرتی تھیں۔ دادی امّاں سے مخاطب ہوکر کہتیں " نواب بی بی تویہ کیا کرتی ہے۔ نماز پڑھتے ہوئے یکسوئی کا خیال نہیں رکھتی۔" اس پر دادی امّاں ہاتھ چلا کر کہتیں :" اے ہے!صرف اس کی نماز ہی تو ضروری نہیں اور کام بھی ضروری ہوتے ہیں۔ یہ لڑکا گیند کے لیے روتا رہے اور میں نماز پڑھتی رہوں ۔ ایسی نماز کس کام کی ۔اسے نہیں پتا کہ دنیاوی کام بھی ضروری ہوتے ہیں۔ میں تو کہتی ہوں دیں اور دنیاساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ خالی نماز کا چھنکنا چھنکاتے رہو۔"
ان دنوں محلے والیاں سب دادی امّاں کی باتوں پر ہنسا کرتی تھیں۔کہتی تھیں :" نواب بی بی سٹھیا گئی ہے۔" اب جو میں سوچتاہوں تو محسوس کرتاہوں کہ دادی امّاں نے دین اور دنیا میں کتنا سادہ ،قابل عمل اور خوشگوار توازن قائم کر رکھا تھا۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
دادی امّاں

پرانے زمانے کی بات ہے جب میں بچہ تھا ۔ ان دنوں دادی امّاں نوے بیانوے کی ہوں گی۔ وہ بیشتر وقت اپنے کمرے میں ایک تخت پر بیٹھی رہتی تھیں ۔ یہ تخت ایک کھڑکی کے پاس تھاجس پر جائے نماز بچھی ہوتی تھی۔ اس تخت کے دائیں ہاتھ کھڑکی تھی ، بائیں ہاتھ ایک بہت بڑا لکڑی کا صندوق تھا جس پر ڈھکنا نہیں تھا۔ اس صندوق میں الم غلم چیزیں پڑی رہتی تھیں۔
دادی امّاں بیٹھ کر نماز پڑھا کرتی تھیں۔
جب وہ نماز پڑھ رہی ہوتیں تو میں اکثر اپنے کمرے میں داخل ہوکر چلاتا:"دادی امّاں ! میراگیند کہاں ہے؟" میں نے کبھی نہیں سوچا کہ دادی امّاں نماز پڑھ رہی ہیں ۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوجائیں تو گیند کی بات کروں ۔
"دادی امّاں ! میرا گیند ، دادی امّاں ! میراگیند۔"
سجدے میں جانے سے پہلے دادی امّاں کانی آنکھ سے صندوق کی طرف دیکھتیں جہاں گیند رکھا ہوتا۔پھر وہ جب سجدے میں جاتیں تو بایاں ہاتھ صندوق میں ڈال کر گیند اٹھا لیتیں اور پھر سجدے سے اٹھ کر وہ گیند میری طرف پھینک دیتیں ۔
صرف میرے گیند کی بات نہ تھی۔
جب دادی امّاں نماز پڑھ رہی ہوتیں تو باہر صحن سے کوئی خاتون چولہے کے سامنے بیٹھے ہوئے چلاتی، "اب میں چاولوں کو دم دے دوں ؟" دادی امّاں نماز پڑھتے ہوئے زور سے کہتیں : " اوں ہوں" اور نماز جاری رکھتیں۔
محلے کی بڑی بوڑھیاں دادی امّاں کی اس عادت پر ہنسا کرتی تھیں۔ دادی امّاں سے مخاطب ہوکر کہتیں " نواب بی بی تویہ کیا کرتی ہے۔ نماز پڑھتے ہوئے یکسوئی کا خیال نہیں رکھتی۔" اس پر دادی امّاں ہاتھ چلا کر کہتیں :" اے ہے!صرف اس کی نماز ہی تو ضروری نہیں اور کام بھی ضروری ہوتے ہیں۔ یہ لڑکا گیند کے لیے روتا رہے اور میں نماز پڑھتی رہوں ۔ ایسی نماز کس کام کی ۔اسے نہیں پتا کہ دنیاوی کام بھی ضروری ہوتے ہیں۔ میں تو کہتی ہوں دیں اور دنیاساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ خالی نماز کا چھنکنا چھنکاتے رہو۔"
ان دنوں محلے والیاں سب دادی امّاں کی باتوں پر ہنسا کرتی تھیں۔کہتی تھیں :" نواب بی بی سٹھیا گئی ہے۔" اب جو میں سوچتاہوں تو محسوس کرتاہوں کہ دادی امّاں نے دین اور دنیا میں کتنا سادہ ،قابل عمل اور خوشگوار توازن قائم کر رکھا تھا۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
صاحبو! لوگ مجھ سے ملنے آتے ہیں۔

"شکایات ہی شکایات "

جو بھی آتاہے ، اللہ کی شکایت کرتاہے ۔ چھوٹے چھوٹے گلے شکوے ۔ کوئی کھل کر شکایت کا اظہار کرتاہے ۔ کوئی دبے دبے الفاظ میں ، کوئی صاف صاف کہہ دیتاہے۔ کوئی کہے بغیر جتادیتاہے، کوئی "شُکر "ہے کے پردے میں شکایت کو چھپا دیتاہےجیسے کہ شاعر نے کہاہے:
جب کھینچ کے آہ سرد
کہتا ہے کوئی بندہ
جس حال میں بھی رکھے
صد شکر ہے اللہ کا
میں سوچنے لگتا ہوں
یہ شکر کیا اس کے
یا طعنہ دیا اس نے
رزاق دو عالم کو
سبھی اس پر گلے کرتے ہیں ، شکایات کرتے ہیں ، اعتراضات کرتےہیں۔ وہ سب کی سنتا ہے اور مسکراتا رہتا ہے۔ ہماری نا شکر گزاریوں پر اسے کبھی غصہ نہیں آتا۔ اس کا دل ہماری جانب سے کبھی میلا نہیں ہوا۔
ہماری گلی میں ایک فقیر آتاہے۔ وہ صدا دیتا ہے۔ ہر چند منٹ کےبعد اُس کی صدا ساری گلی میں گونجتی ہے:
"مری بار کیوں دیر اتنی کری "
اس کی صدا سن کر مجھے غصہ آتاہے ۔ میرے اندر کی بھٹیارن چڑ چڑ دانے بھونتی ہے۔
ایک روز میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ۔ میں نے دوڑ کر فقیر کو پکڑ لیا۔
" یہ تو کیا کر رہا ہے بابے؟"میں نے غصے سے پوچھا۔
"صدا سے دے رہا ہوں بابوجی!" وہ بولا۔
کیامطلب ہے تیرا اس صدا سے ؟"میں نے اسے ڈانٹا۔
" میں منگتاہوں ،مانگ رہاہوں ۔" وہ بولا۔
" کیا ایسے مانگاکرتے ہیں۔ احمق ! پہلے مانگنا سیکھ ۔ جو مانگنا ہے منت کرکے مانگ، ترلے کر ، سیس نوا ، دینے والے کا ادب کر، احترام کر، تُو تو اس کے خلاف شکایت کر رہا ہے۔ اسے طعنے دے رہا ہے۔"مری بار کیوں دیر اتنی کری"۔ بے وقوف! دینے والے کی مرضی ہے ،چاہے جلدی دے چاہے دیر سے دے ، چاہے کم دے، چاہے زیادہ دے ۔ چاہے دے چاہے نہ دے۔"
فقیر بولا:" جا بابوجا ، اپنا کام کر۔ ہمارے معاملے میں دخل نہ دے ۔ مانگنے والا جانے اور دینے والا جانے، تو ماما لگتاہے۔ میں نے ساری زندگی یہی صدا دی ہے۔ اس نے کبھی نہیں ٹوکا مجھے ، کبھی غصہ نہیں کیا۔ الٹا وہ مجھے دیتا رہا ہے ، دیتارہا ہے۔"
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
اللہ کی سول سروس میں طرح طرح کے لوگ شامل ہوتے ہیں ۔ کوئی موچی ہے، کوئی گڈریا ہے ، کوئی افسر ہے ، کوئی سادھو ہے ، کوئی فوجی ہے ، کوئی عالم ہے، کوئی بھڑوا ہے ، کوئی شاعر ہے، کوئی گداگر ہے ، کوئی سر مایہ دار ہے۔ اس سروس میں فقیر کی گڈری کی طرح ۔۔۔۔ طرح طرح کی "ٹلیاں " لگی ہوتی ہیں۔ یہ کھدر ہے ، یہ کمخواب ہے، یہ نائیلون ہے ، یہ زربفت ہے۔۔۔۔
اللہ تعالٰی نے ایسا پاکھنڈ مچا رکھا ہے کہ خلق خدا پر حیرت کا عالم طاری ہے۔
کئی ایک بزرگوں نے وجدان کی مستی کے عالم میں بھید کھولنے کی کوشش کی ۔ ایک بولا:" تیری بکل دے وچ چور۔" دوسرے نے کہا :" میں ہی تو ایک راز تھا سینہ کائنات میں ۔" تیسرا چلایا:" انالحق "۔ پھر بھی بھید نہ کُھلا۔
داتاؒ نے کہا ، میں بھید کھول دو ں گا۔
اس نے فرمایا ، کھول دو اگر کھول سکتے ہو تو ۔
داتاؒ نے ایک کتاب لکھ دی ، کشف المحجوب ، مطلب " بھید کھولو" کتاب۔
صاحبو! میں نے داتاؒ کی کتاب بھید کھولو چار پانچ دفعہ پڑھی ہےلیکن بھید نہیں کُھلا۔ جو تھوڑی سی عقل ذہن میں تھی، وہ بھی گڑبڑا گئی۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
جزو اور کُل

صاحبو! جب بھی میں حضورﷺ کے بارے میں سوچتاہوں تو میرے ذہن میں ایک عظیم انسان کی تصویرابھرتی ہے۔ عہدے دار کی نہیں ،انسان کی ۔ ایک دن میں نے قدرت اللہ سے پوچھا، یہ بتائیے کہ سب سے افضل عبادت کون سے ہے؟
انھوں نے کہا: سب سے افضل عبادت Identification with Mohanmmadہے۔ حضرت محمد ﷺ جیو۔ لیکن کیسے؟
بولے حضورﷺ کی سوانح سرہانے تلے رکھو۔ روز ایک واقعہ پڑھو۔ پھر سوچو کہ اس وقت حضورﷺ کے احساسات اور جذبات کیا ہوں گے؟ پھر آپ انکے جذبات سے واقفیت حاصل کرلینے کے بعد جب بھی کسی سچویشن سے دوچارہوں تو سوچئے کہ ان حالات میں حضورﷺ کا ردعمل کیا ہوتا؟
حضرت محمدﷺ جیو کے عظیم اصول کو ہم نے یوں اپنایا کہ کُل کو چھوڑ کر جزو پر توجہ مرکوز کر لی ۔ دودھ کو نظرا نداز کر کے پیالے کو اپنا لیاکہ پیالہ کس چیز کا بنا ہے؟ اس کی شکل کیسی ہے؟ اس پر کس طرح کے نقش ونگاربنے ہیں؟ ہم سوچنے لگے کہ حضورﷺ کتنی لمبی داڑھی رکھتے تھے؟ کمرے میں داخل ہوتے تو کون سا پاؤں پہلے اندر دھرتے؟ پانی پیتے تو کٹورہ کس ہاتھ میں پکڑتے ؟ کس قسم کا لباس پہنتے؟
ہم نے دودھ کو نظر انداز کر دیا پیالے کو اہم سمجھ لیا ۔ ہم نے کردار کو نظر انداز کردیا، جسمانی ہیئت کو اہم سمجھ لیااور ہم نے اس جزو پرستی کو سنت کا نام دے دیا ۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
معذرت

صاحبو! میں معذرت خواہ ہوں۔ یہ تحریریں جومیں " تلاش " نے عنوان سے آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں ، ان کی کوئی عالمانہ حیثیت نہیں ہے۔ الحمدللہ! کہ میں عالم نہیں ہوں۔ بے شک قرآن میں با ر بار علم حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ایک شرط ملفوف ہے کہ علم حاصل کرو لیکن دھیان رہے کہ عجز کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے ۔
صاحبو! علم تفاخر پیدا کرتاہے، انا میں پھونک بھر دیتا ہے۔ سیانے کہتے :
" Masters are monsters" عالم فرعون بن جاتے ہیں۔
ہمارے عالمائے دین کو دیکھئے ۔ درسگاہوں کے اساتذہ اکرام کو دیکھئے ۔ ان کے رویے کو دیکھ کر مجھے ٹی وی کی وہ اشتہاری بچی یاد آجاتی ہےجو بچوں کو دانت صاف کرنے کے طریقے بتانے کے بعد کہتی ہے: " سمجھے؟ شاباش۔"
میری یہ تحریریں دانشورانہ حیثیت نہیں رکھتیں ۔ الحمدللہ ! کہ میں دانشور نہیں ہوں ۔ میں تو خود تلاش میں ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہوں۔ منزل کا پتا ہے نہ راستے کا۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
اسلامی مساوات

میرے پیارے نوجوان دوستو! مجھے اجازت دو کہ میں تاریخ عالم سے ایک دو مثالیں پیش کروں۔
ایک مسلمان بادشاہ جو آدھی دنیا پر حکومت کرتا تھا، اپنے ایک غلام کے ساتھ سفر پر جاتاہے۔ سواری صرف ایک ہے۔ بادشاہ اور غلام باری باری اونٹ پر بیٹھتے ہیں۔ بادشاہ اونٹ پر بیٹھتا ہے تو غلام اونٹ کی نکیل پکڑ کر پیدل چلتاہے ، پھر غلام کی باری آتی ہےتو غلام اونٹ پر بیٹھتا ہے اور بادشاہ اونٹ کی نکیل پکڑکر پیدل چلتا ہے ۔
بولو میرے پیارے نوجوانو! کیا تاریخ عالم میں ایسی مساوات کی کوئی مثال ملتی ہے۔ یہ مساوات اسلام کاعطیہ ہے۔
تاریخ ایک اور مسلمان بادشاہ کا قصہ سناتی ہے۔
یہ بادشاہ ذاتی اخراجات کے لیے سرکاری خزانے سے پیسہ لینا گناہ سمجھتا تھا۔ وہ انتظامی امور سے فارغ ہوکر قرآن حکیم کی آیات کی کتابت کرتا تھا اور پھر اسے کسی ناشر کے ہاتھ بیچ کر جو رقم حاصل ہوتی ہے، اس سے اپنے اور متعلقین کے لیے روٹی خرید کر کھاتاتھا۔
بولو میرے پیارے! کیا کسی ملک میں کسی تہذیب نے دیانت کی ایسی مثال پیش کی ہے؟ کیاہمارے لیے یہ فخر کی بات نہیں کہ ہم اس مذہب کے پیروکار ہیں جس نے ایسے عظیم کردار تخلیق کیے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
صاحبو ! میں صوفیا اور دوسرے بزرگوں کا احترام کرتا ہوں ۔ یہ سب بڑے لوگ تھے۔ اللہ کے عاشق تھے لیکن اللہ سے عشق کرنا افرادکا کام ہے ، قوم کا کام نہیں۔ صاحبو! ذرا سوچو، ایک خاتون کا عشق فرد کو پاگل کردیتاہےاور وہ کسی جوگا نہیں رہتا تو اللہ کا عشق کیا ہوگا؟ شاعرکہتاہے:
ہوش اڑا دیتا ہے اک خاک کے پتلے کا جمال
خود وہ کیا ہوگا اسے ہوش میں لانے والا
اگر میر ے جیسے عام مسلمان بھی اللہ کے عشق میں گرفتار ہوجائیں تو سارا کھیل ہی ختم ہو جائے۔ نہ دنیا رہے گی نہ دین رہے گا۔ نہ اسلام رہے گا نہ جزا نہ سزا کچھ۔
سیانے کہتے ہیں اللہ کی طرف ایک قدم بڑھاؤ تو وہ تمہاری جانب دس قدم بڑھائے گا۔ صاحبو! میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اللہ کی جانب ایک سے زیادہ قدم نہ بڑھانا ورنہ اگر اس نے تمہیں جپھا ڈال لیا تو کسی جوگے نہ رہو گے۔

ساتھی۔۔۔۔۔ محبوب

بے شک اسے دوست بنا لو، ساتھی بنالو، پر اس سے عشق نہ کرنا۔ وہ بہت ہی اچھادوست ہے، بڑا ہی پیارا ساتھی ہے۔ اس کے حکم کی تعمیل میں پانچ وقت اسے سلام کرو۔ حاضری دو، ضرور دولیکن صرف حاضری کیونکہ پانچ وقت حاضری دینے سے وہ ساتھی نہیں بنتا۔ ساتھی بنانا ہو تو ہر وقت اسے ساتھ رکھو۔ انگلی لگاکر لیے پھرو۔ پھول کو دیکھو تو کہو ، واہ بھئی واہ ! کیا حسین چیز بنائی ہے تو نے۔ گائے کو دیکھو تو گائے تو نہ دیکھو، دیکھو کہ اس نے ایک چلتا پھرتا پاکیزہ دودھ کا چشمہ بنا دیا ہے ۔ کوئی چیز اس کے حوالے کے بغیر نہ دیکھو ۔
کھانا کھانے لگو تو اسے پاس بٹھا لو اور کہو بلّے او بلّے کیا کیا نعمتیں بنائی ہیں تو نے میرے لیے۔ ہر وقت اس کے وجود کا احساس رہے ، اس کی کرم فرمائیوں کا احساس رہے۔ بے شک اس سے گلے شکوے بھی کرو لیکن ساتھی سمجھ کر، اپنا جان کر، بیگانہ جان کر نہیں ۔ بے گانہ جانو گے تو وہ بے گانہ بن جائے گا۔ اپنا جانو گے تو وہ اپنا بن جائے گا ۔ وہ تو پانی سمان ہے ، چاہے کٹورے میں ڈال لو یا گلاس میں یا رکابی میں۔ نہ نہ نہ اسے محبوب نہ بنانا۔ محبوب بناؤ گے تو وہ محبوبانہ شان دکھائے گا، آزمائے گا، نخرے دکھائے گا، چھیڑے گا۔ اس کی محبوبانہ شان کا متحمل ہو جانا بڑے بڑے صوفیوں بزرگوں کا کام ہے، ہم عام لوگوں کا نہیں۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
ڈر اور پیار

ایک روز میں نے اپنے گرو سے کہا، ایک بات پوچھوں ؟ بولے ، پوچھو۔ میں نے کہا ، اللہ تعالٰی قرآن میں فرماتے ہیں، مجھ سے ڈرو۔
بولے ۔ اچھا! پھر؟
میں نے کہا، پتا نہیں کیوں مجھے اللہ سے ڈر نہیں لگتا، حالانکہ میرا ایمان ہے اللہ کے سوا کوئی قوت نہیں ، کوئی خوف نہیں ہے لیکن مجھے ایسا لگتاہے جیسے وہ بچوں کی طرح معصوم ہو۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہو جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے وہ ہمارے لیے بے پناہ ہمدردی سے بھرا ہوا ہے۔ اتنا دیالو ہے کہ دینے کے لیے بہانے ڈھونڈتا پھرتاہے۔
وہ ہنسے ، بولے : مفتی ! تم زیادہ نہ سوچا کرو۔ یہ جو سوچیں ہیں ، یہ گھمن گھیریاں ہیں۔ ڈوبنے دیتی ہیں نہ تیرنے ۔ بہت سے بھید ایسے ہیں جو سامنے دھرے ہیں مگر ہمیں دکھتے نہیں چونکہ باری تعالٰی نہیں چاہتے کہ وہ ُکھل جائیں۔
میں نے کہا ، عالی جاہ! میں تو ڈرنے کی بات پوچھ رہا تھاکہ مجھے اس سے ڈر نہیں لگتا ، اس پر پیار آتاہے۔
بولے ، جنھیں ڈر لگتاہے، وہ بھی خوش قسمت ہیں ، جنھیں پیار آتا ہے ، وہ بھی خوش قسمت ہیں۔
یہ کیا بات ہوئی؟ میں نے چڑ کر کہا۔
مسکرا کر بولے: ڈر بھی ایک تعلق ہے، محبت بھی ایک تعلق ہے، مطلب تو یہ ہے کہ اس کےساتھ تعلق قائم رہے۔ سارا کھیل تعلق کا ہے۔ اگر اللہ سے تعلق قائم ہے تو سب اچھا۔ ہماری سرکاری فوج ایکسر سائز کیا کرتی ہے نا! آدھی فوج ایک طرف ہوجاتی ہے، آدھی دوسری طرف۔ آدھی سرکاری ، آدھی باغی ۔ پھر وہ آپس میں باقاعدہ جنگ کرتے ہیں۔ چاہے باغی فوج جیت جائے ، چاہے سرکاری، ہر صورت میں فتح سرکار کی ہوتی ہے۔ زیادہ سوچوں میں نہ پڑو ، اس رام لیلا کو دیکھو، دیکھتے رہو۔ یہ جو رنگ ہیں ، سب سرکاری ہیں۔ ایک ہی پرزم( prism ) سے نکلتے ہیں۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
جوڑے

ہمیں راستہ دکھانے والے خود کو بڑا سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں ، سب کچھ جانتے ہیں۔ ہمارا تو کام یہ ہے کہ لوگوں کو سیدھا راستہ دکھائیں ۔ ادھر اللہ کی عادت ہے کہ وہ چلتے چلتے برسبیل تذکرہ اتنی بڑی بات کہہ دیتے ہیں کہ زندگی بھر سوچتے رہو اور بھید نہ پاؤ۔ اللہ کی ہر بات ہفت پہلو ہوتی ہے۔ باری تعالٰی نے برسبیل تذکرہ قرآن میں کہہ دیا کہ ہم نے زمینی چیزوں کو جوڑوں میں بنایاہے۔ ہمارے بڑے ، جو سمجھتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں، بولے یہ تو سیدھی سیدھی بات ہے۔ مطلب ہےکہ جاندار مخلوق کو جوڑوں میں بنایاہے۔ انسان میں مرد اور عورت ، باقی جانداروں میں نر اور مادہ۔
بچہ چلّایا ، نہیں ! اللہ کہ باتیں سطحی نہیں ہوتیں، ان میں گہرائی ہوتی ہے۔ توجہ فرمائیے ، سوچئے ، غور کیجئے ، ضرور اس میں کوئی بھید ہوگا۔ بڑے بولے ، ہشٹ بچے ! خواہ مخواہ کہ گڑ بڑ نہ کر، ہمیں سوچوں میں نہ الجھا۔
کچھ لوگ تحقیق کے رسیا تھے ، کہنے لگے ، اس کا مطلب یہ ہےکہ نباتات میں بھی جوڑے ہوتے ہیں۔ یہ بات بالکل نئی تھی۔ یہ انکشاف سب سے پہلے قرآن نے کیا تھا۔

Polarity

پھر صدیوں بعد جب سائنس دانوں نے polarity کا راز فاش کیا اور غیر مادی جوڑے سامنے آئے، جب انرجی کے جوڑوں کا پتا چلا، کشش اور دور ہٹانے والی طاقتوں کا راز فاش ہوا توسائنس دان حیرانی سے چلّائے کہ یہ بات تو قرآن نے 14 سوسال پہلے بتادی تھی۔ یہ انکشاف تو قرآن نے واضح الفاظ میں کردیا تھابلکہ یہاں تک کہہ دیاتھا کہ ایسے بھی جوڑے ہیں جنھیں تم نہیں جانتے۔
صاحبو! مقام شکر ہے کہ ہم اللہ کی کائنات کی بہت سی باتو ں کو نہیں سمجھتے ۔اگر خدانخواستہ ہمیں سوجھ بوجھ ہوتی تو ہم حیرت زدہ ہوکر آسمان کی طرف بٹ بٹ تکتے اور اللہ کی عظمت کے احساس سے یوں بھیگ جاتے کہ کسی کام جوگے نہ رہتے۔
بڑی باتوں کو چھوڑئیے ، یہ سوچئے کہ ہم دو متضاد حرکتوں کی زد میں رہتے ہیں۔۔۔۔ کشش ثقل اور گردشی حرکت۔ اگر ان دونوں کے توازن میں ذرہ برابر فرق آجائےتو ہمارا تو پٹاخہ بول جائے۔ ذرا سو چئے ، میرے صاحب کہ ہماری زمین کشش ثقل اور دور ہٹانے والی قوتوں کے درمیان توازن رکھنے کی کوشش میں چار مختلف محوروں کے گر د گھوم رہی ہے، چار مختلف سفروں پر رواں دواں ہے۔ آج جب محقق لوگوں کو احساس ہوتاہےکہ قرآن چودہ سو سال پہلے جوڑوں کے بیان میں ہمیں کیا کچھ سمجھا گیا ہے تو حیرت ہوتی ہے۔
 
Top