ملک بھرمیں یوم دفاع ، یکجہتی کشمیرکے طور پرمنایا جارہا ہے

جاسم محمد

محفلین
ملک بھرمیں یوم دفاع اوریکجہتی کشمیرکے طور پرمنایا جارہا ہے
ویب ڈیسک جمع۔ء 6 ستمبر 2019
1800489-youmedifayoumeyakjehtikashmir-1567714270-282-640x480.jpg

صوبائی دارالحکومتوں میں یوم دفاع اور کشمیر کی مختلف تقریبات منعقد ہورہی ہیں۔

اسلام آباد: ملک بھرمیں آج 6 ستمبر کویوم دفاع پاکستان اورکشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پرمنایا جارہا ہے جب کہ مرکزی تقریب جی ایچ کیو میں ہوئی۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے یوم دفاع پر ملک بھر میں یوم یکجہتی کشمیر منانے کی ہدایت دی ہے جس کے بعد سرکاری اداروں اور صوبائی دارالحکومتوں میں یوم دفاع اور کشمیر پر مختلف تقریبات منعقد ہورہی ہیں۔

مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی تقریب ہوئی، پاکستان رینجرز پنجاب کے دستے نے سلامی دی اور گارڈز کی ذمہ داری سنبھالی، میانی صاحب قبرستان میں میجر شبیر شریف شہید کی قبر پر پھول چڑھائے گئے اورفاتحہ خوانی ہوئی، پاک فوج کے جوانوں نے سلامی دی۔

برکی علاقہ میں میجر عزیز بھٹی شہید، باٹا پور اور مناواں میں 1965ء کی جنگ میں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے پاک فوج کے شہدا کی یادگاروں پر حکومتی، فوجی شخصیات اور عام شہریوں کی طرف سے پھول چڑھائے گئے اور فاتحہ خوانی کی گئی۔

پاکستان ایئر فورس کے زیر اہتمام ائیر بیس لاہور میں پاک فضائیہ کے زیر استعمال جنگی طیاروں اور دیگر سازو سامان کی نمائش ہوئی جبکہ ایئر فورس کے جدید طیاروں نے فلائی مارچ کیا۔

وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ یوم دفاع کے ساتھ یوم یکجہتی کشمیر منایا جائے گا، وزیراعظم نے کہا ہے کہ پاکستان کے عوام یوم دفاع پر شہداء کے خاندانوں کے پاس پہنچیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
6 ستمبر 1965 کی جنگ: آغازکس نے کیا؟ کون ہارا کون جیتا؟ اور معاہدۂ تا شقند
06/09/2019 مہدی حیات


قدرت اللہ شہاب اپنیکتاب ”شہاب نامہ“ میں لکھتے ہیں: ”صدر ایوب جنگ کا نام لیتے ہی کانوں کو ہاتھ لگایا کرتے تھے اور ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے کہ تنازعہ کشمیر کا حل ہم نے پاکستان کے مفاد کی خاطر ڈھونڈنا ہے۔ اس حل کی تلاش میں پاکستان کو داؤ پر نہیں لگانا۔“ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے محرکات تھے جن کی بنا پر جنگ کا نام لیتے ہی کانوں کو ہاتھ لگانے والے ایوب خان کو بھی یہ جنگ لڑنا پڑی؟

جنوری 1965 میں پاکستان کا بھارت کے ساتھ ”رن آف کچھ“ کا تنازع شروع ہوا اور جنوری 1965 میں ہی صدر ایوب قائدِ اعظم کی ہمشیرہ فا طمہ جنا ح سے صدارتی انتخابات جیتے۔ ان صدارتی انتخابات میں صدر ایوب کو جتوانے کے لیے جو حرکات کی گئیں اُن کی وجہ سے صدر ایوب کا امیج کافی خراب ہو گیا، ”گڈ امیج“ بنانے کی خاطر کشمیر آزاد کرانے کا ”آپریشن جبرالٹر“ منصوبہ بنایا گیا۔

صدر ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب نے اپنی کتاب ”ایوان اقتدار کے مشاہدات“ میں لکھ رکھا ہے کہ آپریشن جبرالٹر کا منصوبہ اس وقت کے وزیرِ خارجہ ذولفقار بھٹو کی رپورٹ پر بنایا گیا۔ اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ بھٹو نے صدر ایوب کو یقین دلایا تھا کہ اگر پاکستان نے کشمیر میں فوجی کارروائی کی، تو بھارت بین الاقوامی سرحد پار نہیں کرے گا۔ معلوم نہیں ”حتمی فیصلے“ کا اختیار رکھنے والے ایوب خان نے اس بات پر اندھا یقین کیوں کیا؟

گوہر ایوب لکھتے ہیں: ”آپریشن جبرالٹر سرکاری طور پر 8 اگست 1965 کو شروع کیا جانا تھا۔ تاہم مجاہدین کو کشمیر کے اندر داخل کرنے کی کارروائی 5 اگست 1965 کو ہی شروع کر دی گئی۔ اگست کے اوائل میں تقریباً چار ہزار مجاہدین کو تربیت دے کر بھارتی مقبوضہ کشمیر بھیج دیا گیا۔ انہوں نے کشمیر میں بھارتی فوج کے مواصلاتی نظام کو درہم برہم کر دیا اور بعض فوجی پوسٹوں پر حملے کیے۔ مجاہدین کی کارروائیاں زور پکڑنے کے ساتھ بھارتی فوج نے مجا ہدین کے داخلی پوا ئنٹس کی طرف تیزی سے پیش قدمی شروع کر دی۔

”انہوں نے مجاہدین کے خلاف آپریشن شروع کر دیا جس میں کافی تعداد میں مجاہدین شہید ہو گئے اور بعض گرفتار بھی ہوئے۔ بھارتی فوج نے 26 اگست کو دفاعی لحاظ سے اہم علاقہ پیر صحابہ پاس پر قبضہ کر لیا۔ اگر بھارتی تھوڑی سی پیش رفت کرتے تو مظفر آباد پر قبضہ ہو سکتا تھا۔ دو دن بعد بھارتی فوج نے حاجی پیر پاس کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا۔ یوں آپریشن جبرالٹر سخت مشکلات کا شکار ہو گیا۔“

آپریشن جبرالٹر تقریباً ناکام ہوا، گوہر ایوب نے مخصوص حلقوں کی عزت داری کے لیے صرف مجا ہدین کا ذکر کیا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ جبرالٹر فورس کے کمانڈوز بھی گرفتار ہوئے۔ آپریشن جبرالٹر اتنا خفیہ رکھا گیا تھا کہ ایئر چیف مارشل نور خان کو بھی اس کی بھنک نہ پڑنے دی گئی۔ بھارت کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظر آپریشن جبرالٹر کے بعد آپریشن گرینڈ سلیم 31 اگست 1965 کو شروع کیا گیا، جس کا مقصد لائن آف کنٹرول پر دباؤ میں کمی لانا، جھمب چوڑیاں پر قبضہ اور اکھنور میں کشیدگی پیدا کر کے مظفر آباد کی طرف بھارتی پیش قدمی کو روکنا تھا۔

اس واسطے پیش قدمی جاری تھی اور عین ممکن تھا کہ یہ آپریشن کامیاب ٹھہرتا مگر پاکستان کے سپہ سالار جنرل موسٰی خان نے گھوڑا بدلنے کا فیصلہ کیا اور جنرل اختر حسین ملک کی جگہ جنرل یحیٰی خان کو ڈویژن کمانڈر تعینات کر دیا گیا۔ کمانڈر کی اس تبدیلی سے جو وقفہ ملا وہ بھارت کے لیے غیبی امداد ثابت ہوا، یوں ”آپریشن گرینڈ سلیم“ بھی ناکام ہو گیا۔

اس کمانڈر کی اچانک تبدیلی کے حوالے سے قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ”جنرل اختر ملک نے اپنے پلان کے مطابق کارروائی شروع کی اور اکھنور کو فتح کرنے کے قریب ہی تھے کہ فوج میں جنرل موسیٰ سمیت کئی اور جرنیل بھی تشویش میں پڑ گئے کہ اگر اختر ملک کی مہم کامیاب ہوئی تو وہ ایک فوجی ہیرو کی حیثیت سے ابھریں گے۔ صدر ایوب سمیت غالباً باقی بہت سے فوجی اور غیر فوجی صاحبان یہ نہیں چاہتے تھے کہ جنرل اختر ملک اس جنگ کے ہیرو بن کر ابھریں اور فوج کے اگلے کمانڈر انچیف کے عہدے کے حق دار بن سکیں کیوں کہ یہ عہدہ صدر ایوب نے ذہنی طور پر پہلے ہی جنرل یحیٰی خان کے لیے محفوظ کر رکھا تھا۔

”چنانچہ عین اس وقت جب میجر جنرل اختر ملک انتہائی کامیابی سے جھمب اکھنور سیکٹر پر تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے، انہیں معاً اُن کی کمانڈ سے ہٹا کر ان کی جگہ جنرل یحیٰی خان کو یہ کمانڈ سو نپ دی گئی۔ غالباً اسی لیے کہ وہ پاکستان کو اکھنور فتح کرنے کی کوشش سے باز رکھ سکیں۔ یہ فریضہ انہوں نے نہایت کامیابی سے سرانجام دیا۔“ (حوالہ: شہاب نامہ ص، 635 )

اب آتے ہیں اس سوال کی جانب کہ یہ جنگ کس نے شروع کی تھی؟ ہمیں نصابی کتابوں میں ”پختہ ایمان“ کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے کہ 6 ستمبر 1965 کو رات کی تاریکی میں بز دل دشمن نے اچانک حملہ کر دیا۔ مگر یہ بات حقیقت سے کوسوں دور محسوس ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہ جنگ 6 ستمبر کو شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ 6 اگست کو ہی شروع ہو چکی تھی۔ دوسرا اگر 6 ستمبر کا دعو یٰ مان بھی لیا جائے تو الطاف گوہر اپنی کتاب ”ایوب خان۔ پاکستان کے پہلے فوجی حکمران“ کے صفحہ نمبر 336 پر لکھتے ہیں کہ ”نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن نے ترک وزیر کی وساطت سے ایک پیغام بھجوایا تھا کہ بھارت 6 ستمبر کو پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ دفترِ خارجہ کو یہ پیغام 4 ستمبر 1965 کو مل چکا تھا۔“ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ بز دل دشمن نے یہ حملہ اچانک نہیں کیا تھا۔

اس وقت کے پاک فضائیہ کے دو سابق سر براہان، ایئر چیف مارشل (ر) اصغر خان اور ایئر چیف مارشل (ر) نور خان نے بالترتیب 4 مئی 2001 اور 2 اگست 2004 کو دعویٰ کیا کہ 6 اگست 1965 کو کشمیر میں مداخلت کار بھیج کر پاکستان نے جنگ کا آغاز کیا۔ ایئر مارشل نور خان نے 6 ستمبر 2005 کو ”ڈان“ کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا: ”بری فوج نے ایک بڑا جھوٹ بول کر قوم کو گمراہ کیا کہ یہ جنگ بھارت نے چھیڑی تھی۔“

6ستمبر کو شروع ہونے والی جنگ کے 17 روز بعد 23 ستمبر کو جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ یہ رائے بھی موجود ہے کہ اگر یہ جنگ چند روز اور جاری رہتی تو پاکستان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا۔ جنگ بندی کے بعد یہ سوال اٹھا کہ یہ جنگ کون جیتا؟ پاکستانی عوام نے اس بات پر جشن منایا کہ ہم نے بھارتیوں کو لاہور میں ناشتہ کرنے کی سعادت نصیب نہیں ہونے دی جبکہ بھارتی عوام نے اس بات پہ جشن منایا کہ پاکستان نے یہ جنگ کشمیر آزاد کروانے کے لیے لڑی تھی اور وہ اس کوشش میں ناکام رہے۔

اس حوالے سے ایئر چیف مارشل نور خان نے 6 ستمبر 2005 کو ڈان کو انٹر ویو میں پاکستان کی فتح کو جھوٹ قرار دیا اور کہا ”چونکہ اس جھوٹ کی تصیح نہیں کی گئی اس لئے فوج اپنے ہی گھڑے افسانے پر یقین کرنے لگی ہے۔“ 4 ستمبر 2015 کو جامعہ کراچی میں ممتاز دانش ور ڈاکٹرسید اکبر زیدی نے اپنے خطاب کے دوران کہا ”1965 کی جنگ کا جشن جب کونے تک آ گیا ہے، تو اس سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں ہو سکتا کہ پاکستان نے 1965 کی جنگ جیتی تھی۔ دراصل ہم 1965 میں بُری طرح ہارے تھے۔“ (بحوالہ: ڈان، 5 ستمبر 2015 )۔ یہ جنگ کو ن جیتا؟ یہ جا نچنے کا ایک پیمانہ ”معاہدہ تاشقند“ بھی ہے، جس کے مطابق بھارت نے 710 مربع میل کا علاقہ پاکستان کو لو ٹایا جبکہ پاکستان نے 210 مربع میل کا علاقہ واپس کیا۔

اکتوبر 1964 کے بعد صدر ایوب اکثر اوقات بھارتی وزیرِ اعظم لال بہادر شاستری کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ”اس بالشت ڈیڑھ بالشت کے آدمی کے ساتھ کوئی سنجیدہ گفتگو کرنا بیکار وقت ضائع کرنا ہے۔“ روس کے وزیرِ اعظم کے سامنے ایوب خان نے لال بہادر شاستری کے لیے یہی الفاظ استعمال کیے تو سامنے سے کافی ”عزت افزائی“ ہوئی۔ 10 جنوری 1966 کو ایوب خان نے اسی بالشت ڈیڑھ بالشت کے آدمی کے ساتھ ”معاہدہ تاشقند“ پر دستخط کیے۔ اس معا ہدے کے فوراً بعد بہادر شاستری کی موت کے حوالے سے قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں :

”دو تین دن بعد میں نے ہالینڈ کے ایک اخبار میں“ معا ہدہ تاشقند ”کی تفصیلات پڑھیں۔ ساتھ ہی ایک فوٹو دیکھی جس میں صدر ایوب روسی وزیرِ اعظم کے ہمراہ بہادر شاستری کے تابوت کو کندھا دے کر دہلی جانے والے ایک جہاز کے طرف جا رہے تھے۔ اس تابوت میں صرف شاستری جی کا جسد خاکی ہی نہ تھا بلکہ اس میں مسئلہ کشمیر پر یو این او میں ہماری تمام پیش رفت بھی لپیٹ کر مقفل کر دی گئی تھی کیونکہ 10 جنوری 1966 کے بعد مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سیکیورٹی کونسل کی قرار دادیں نہ رہی تھیں بلکہ معاہدہ تاشقند کی وہ شق تھی جس میں ریا ستِ جموں وکشمیر کا ذکر محض ضمنی طور پر آیا تھا“۔ باقی، ”زندہ دل“ قوم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ”ایمان“ برقرار رکھے کہ یہ جنگ ہم نے کشمیر کے لیے لڑی تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
’بھارتی فوجی ناشتہ کرنے آئے تھے، بندوقیں چھوڑ کر بھاگ گئے‘
677126_6227516_1_updates.JPG


6ستمبر 1965ء میں بھارتی افواج نے چوروں اور ڈاکوؤں کی طرح پاکستان کے دل لاہور پر اچانک حملہ تو کردیا مگر جب پاک فوج کے جوانوں نے جوابی حملہ کیا تولاہور میں ناشتہ کرنے کے خواب دیکھنے والی بھارتی فوجیوں کے اوسان خطا ہوگئےاور وہ بندوقیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔

بھارتی مصنف آر، ڈی پردھان نے اپنی کتاب ’1965 وار-دی ان سائیڈ اسٹوری‘ میں جنگ ستمبر کی تفصیلی روداد لکھی ہے۔

اس کتاب کے باب نمبر 8 میں ’گھبراہٹ اور بزدلی‘کے عنوان سے 65 کی جنگ میں لاہور سیکٹر میں کمانڈ کرنے والے میجر جنرل نرنجن پرساد کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔

پردھان نے اپنی کتاب میں ایک عجیب و غریب واقعہ درج کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ’1965ءکی جنگ میں میجر جنرل نرنجن پرساد واہگہ سیکٹر پر جی او سی تھے۔ لاہور پر حملے کے دوران جب بھارتی فوج پر جوابی حملہ ہوا تو نرنجن پرساد میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔

کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہرنجش سنگھ کو اطلاع ملی تو وہ موقع پر پہنچے۔ فوجی ٹرک اور گاڑیاں جل رہی تھیں۔ گاڑیوں کے انجن اسٹارٹ تھے مگر انکے ڈرائیور غائب تھے۔

نرنجن پرساد کور کمانڈر کو دیکھ کر گنے کے کھیت سے باہر نکل کر دوڑتے ہوئے آئے مگر اُن کے سر پر ٹوپی نہیں تھی انہوں نے اپنے تمام بیجز اُتارے ہوئے تھے اور بوٹ مٹی کیچڑ سے اٹے پڑے تھے۔ کورکمانڈر نے پرساد کو دیکھ کر کہا تم جی او سی ہو یا قلی‘ اس سوال کا نرنجن پرساد کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

ڈاکٹر پردھان اور ہربخش سنگھ دونوں وہ بھارتی ہیں جنہوں نے 65ء کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔ پردھان ایک سویلین تھے جو اس وقت کےبھارتی وزیر دفاع ’وائی بی چاون ‘ کے ساتھ کام کرتے تھے جبکہ جنرل ہربخش سنگھ فرنٹ لائن پر اپنی فوجوں کی کمان کر رہے تھے۔

دونوں نے اپنے ذاتی مشاہدے کی بنا پر کتابیں لکھی ہیں جن میں تفصیل سے ذکر ہے کہ جنگ کا آغاز کیسے ہوا، دوران جنگ کیا ہوا اور ستمبر میں اسکا اختتام کس طرح ہوا۔ اس کے علاوہ بھارتی فوجی ڈویژن کمانڈنگ آفیسر کے بارے میں بزدلی کی کئی داستانیں رقم ہیں۔

65ء کی جنگ میں پاک فوج کے تابڑ توڑ حملوں نےبھارتی فوجیوں کو اتنا خوفزدہ کر دیا تھا کے وہ کئی اہم دستاویزات چھوڑ کر میدان جنگ سے بھا گ نکلے۔

ہر بخش سنگھ تفصیل سے بتاتے ہیں کہ 65ء کی جنگ میں جو جنرل اچوچوگلی کنال پر موجود ڈویژن کی کمانڈ کر رہا تھا وہ گبھراہٹ میں اپنی جیپ، وائرلس سیٹ چلتی حالت میں اور بریف کیس چھوڑ گیا تھا جس میں حساس نوعیت کی دستاویزات تھیں۔ وہ دستاویزات دوران جنگ ہی ریڈیو پاکستان سے پڑھ کر سنائی گئیں۔‘

بھارتی جنرل جو جیپ چھوڑ کر بھاگ نکلا تھا اسے پاک فوج کے لاہور میوزیم میں رکھا گیا ہے۔

لاہور جمخانہ میں شرا ب پینے کا اعلان کرنے والے ہربخش سنگھ نے ایک جگہ تحریر کیا کہ ’ ایک بڑی جنگ دریائے بیاس کے مغرب میں بھارتی فوج کی مکمل تباہی کی شکل میں ختم ہو جائے گی اور دشمن فوجیں ( پاک فوج ) بلا مذاحمت دہلی کے دروازوں پر پہنچ جائیں گی۔

بھارتی وزیر دفاع وائے پی چاؤن نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ ’تمام محاذوں ہی پر6ستمبر 1965کا دن ہمارے لیے بہت کٹھن تھا، ہم پر حددرجہ خوفناک جوابی حملے کیے گئے۔چیف آف آرمی اسٹاف خود بھی بے یقینی کا شکار تھے۔‘

یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 17 دن تک جاری رہنے والی اس جنگ میں بھارت کی ایک لاکھ فوج کا پاکستان کی 60 ہزار فوج سے مقابلہ تھا۔

پاکستان ہر سال چھ ستمبر کو اس جنگ کی یاد میں’یومِ دفاعِ پاکستان‘ مناتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
صدر ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب نے اپنی کتاب ”ایوان اقتدار کے مشاہدات“ میں لکھ رکھا ہے کہ آپریشن جبرالٹر کا منصوبہ اس وقت کے وزیرِ خارجہ ذولفقار بھٹو کی رپورٹ پر بنایا گیا۔ اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ بھٹو نے صدر ایوب کو یقین دلایا تھا کہ اگر پاکستان نے کشمیر میں فوجی کارروائی کی، تو بھارت بین الاقوامی سرحد پار نہیں کرے گا۔ معلوم نہیں ”حتمی فیصلے“ کا اختیار رکھنے والے ایوب خان نے اس بات پر اندھا یقین کیوں کیا؟
بھٹو نےاگر ایوب کو قائل کیا بھی تھا تو جنگ شروع کرنے کا فیصلہ بہرحال ایوب کا تھا۔ اور وہی اس کے نتائج کا ذمہ دار تھا۔
 

فرقان احمد

محفلین
لڑی کا عنوان ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ فی الوقت عنوان کچھ یوں ہے:

ملک بھرمیں یوم دفاع اوریکجہتی کشمیرکے طور پرمنایا جارہا ہے
 

جاسم محمد

محفلین
اس واسطے پیش قدمی جاری تھی اور عین ممکن تھا کہ یہ آپریشن کامیاب ٹھہرتا مگر پاکستان کے سپہ سالار جنرل موسٰی خان نے گھوڑا بدلنے کا فیصلہ کیا اور جنرل اختر حسین ملک کی جگہ جنرل یحیٰی خان کو ڈویژن کمانڈر تعینات کر دیا گیا۔ کمانڈر کی اس تبدیلی سے جو وقفہ ملا وہ بھارت کے لیے غیبی امداد ثابت ہوا، یوں ”آپریشن گرینڈ سلیم“ بھی ناکام ہو گیا۔
اس کمانڈر کی اچانک تبدیلی کے حوالے سے قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ”جنرل اختر ملک نے اپنے پلان کے مطابق کارروائی شروع کی اور اکھنور کو فتح کرنے کے قریب ہی تھے کہ فوج میں جنرل موسیٰ سمیت کئی اور جرنیل بھی تشویش میں پڑ گئے کہ اگر اختر ملک کی مہم کامیاب ہوئی تو وہ ایک فوجی ہیرو کی حیثیت سے ابھریں گے۔ صدر ایوب سمیت غالباً باقی بہت سے فوجی اور غیر فوجی صاحبان یہ نہیں چاہتے تھے کہ جنرل اختر ملک اس جنگ کے ہیرو بن کر ابھریں اور فوج کے اگلے کمانڈر انچیف کے عہدے کے حق دار بن سکیں کیوں کہ یہ عہدہ صدر ایوب نے ذہنی طور پر پہلے ہی جنرل یحیٰی خان کے لیے محفوظ کر رکھا تھا۔
”چنانچہ عین اس وقت جب میجر جنرل اختر ملک انتہائی کامیابی سے جھمب اکھنور سیکٹر پر تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے، انہیں معاً اُن کی کمانڈ سے ہٹا کر ان کی جگہ جنرل یحیٰی خان کو یہ کمانڈ سو نپ دی گئی۔ غالباً اسی لیے کہ وہ پاکستان کو اکھنور فتح کرنے کی کوشش سے باز رکھ سکیں۔ یہ فریضہ انہوں نے نہایت کامیابی سے سرانجام دیا۔“ (حوالہ: شہاب نامہ ص، 635 )
قادیانی جنرل اختر ملک ہیرو نہ بن جائے اس لئے اسے ہٹانا ناگزیر تھا۔ ملک کی فتح نہیں دیکھی بس اپنا مفاد دیکھا۔
 

فرقان احمد

محفلین
لڑی کا عنوان ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ فی الوقت عنوان کچھ یوں ہے:

ملک بھرمیں یوم دفاع اوریکجہتی کشمیرکے طور پرمنایا جارہا ہے
کشمیریوں سے یک جہتی کا اظہار تو سُنا تھا؛ آپ تو کشمیر سے یک جہتی کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں! :)
 
Top