ملالہ یوسفزئی پر بنی دستاویزی فلم 171ممالک میں 45زبانوں میں نشر ہوگی!

arifkarim

معطل
2015-06-20_17-07-41.jpg

واشنگٹن،19جون(ایجنسی) نیشنل جیوگرافک چینل اکیڈمی ایوارڈ یافتہ Davis Guggenheim's کے دستاویزی فلم "He Named Me Malala" کو نشر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے. اس دستاویزی فلم کو 171 ممالک اور 45 زبانوں میں نشر کیا جائے گا. ملالہ یوسفزئی پر بنے اس دستاویزی فلم کو دنیا بھر کے تھیٹر میں ریلیز کرنے کے لئے نیشنل جیوگرافک چینل نے فاکس سرچ لائٹ پیکچر سے ہاتھ ملایا ہے.
Fox Searchlight Pictures نے ایک بیان میں کہا کہ اس شراکت کے تحت نیشنل جیوگرافک چینل اور نیشنل جیوگرافک سوسائٹی اکتوبر میں اس تھیٹر میں کارکردگی کو تعاون دینے کے لئے عالمی شروع مہم سے جڑےگے. اس کے علاوہ، 2016 میں یہ دستاویزی فلم 171 ممالک میں 45 زبانوں میں نیشنل جیوگرافک چینل پر نشر ہوگی۔
ماخذ
اس دستاویزی فلم کا ٹریلر کل جاری کر دیا گیا ہے:

ملالہ یوسفزئی پر دستاویزی فلم
رابعہ سید

آئی بی سی اردو، اسلام آباد



ملالہ یوسفزئی (پیدائش 12 جنوری 1997) پاکستان میں پیدا ہونے والی خواتین کی تعلیم کی سرگرم رکن ہے اور اسے کسی بھی شعبے میں نوبل انعام وصول کرنے والے سب سے کم سن فرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

اس کی وجہ شہرت اپنے آبائی علاقے سوات اور خیبر پختونخواہ میں انسانی حقوق، تعلیم اور حقوق نسواں کے حق میں کام کرنا ہے جب مقامی طالبان کے لڑکیوں کو سکول جانے سے روک دیا تھا۔ اب ملالہ کی تحریک بین الاقوامی درجہ اختیار کر چکی ہے۔

سوات میں خوشحال پبلک اسکول ملالہ کے والد ضیاٗ الدین کی ملکیت ہے جہاں ملالہ طالبہ تھی ۔ بارہ سالہ ملالہ نے “گل مکئی” کے قلمی نام سے بی بی سی کے لئے ایک بلاگ لکھا جس میں اس نے طالبان کی طرف سے وادی پر قبضے کے خلاف لکھا تھا اور اپنی رائے دی تھی کہ علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی جانی چاہیئے۔اگلی گرمیوں میں جب پاکستانی فوج نے سوات کی دوسری جنگ میں اس علاقے سے طالبان کا خاتمہ کیا تو نیویارک ٹائمز کے صحافی ایڈم بی ایلک نے پاکستانی صحافی سید عرفان اشرف کے ساتھ مل کر ملالہ کی زندگی کے بارے ڈاکومنٹری بنائی۔ ملالہ مشہور ہو گئی اور اس کے انٹرویو اخبارات اور ٹی وی کی زینت بننے لگے۔

ملالہ کا نام بین الاقوامی امن ایوارڈ برائے اطفال کے لئے جنوبی افریقہ کے ڈیسمنڈ ٹوٹو نے پیش کیا۔ 9 اکتوبر 2012 کو ملالہ سکول سے واپس گھر جارہی تھی کہ ایک مسلح شخص نے بس روک کر اس کا نام پوچھا اور اس پر پستول تان کر تین گولیاں چلائیں۔ ایک گولی اس کے ماتھے کے بائیں جانب لگی اورکھوپڑی کی ہڈی کے ساتھ ساتھ کھال کے نیچے سے حرکت کرتی ہوئی اس کے کندھے میں جا گھسی۔ حملے کے کئی روز تک ملالہ بے ہوش رہی اور اس کی حالت نازک تھی۔ تاہم جب اس کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو اسے برمنگھم کے کوئین الزبتھ ہسپتال کو بھیج دیا گیا تاکہ اس کی صحت بحال ہو۔

12 اکتوبر کو پاکستان کے 50 علماء ملالہ کے قتل کی کوشش کے خلاف فتویٰ دیا۔ تاہم کئی پاکستانی ابھی تک یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حملہ سی آئی اے نے کرایا تھا اور اس بارے سازشی نظریات پائے جاتے ہیں۔

اس قاتلانہ حملے کی وجہ سے قومی اور بین الاقوامی طور پر ملالہ کی حمایت میں اچانک اضافہ ہوا۔ ڈوئچے ویلے نے جنوری 2013 میں ملالہ کے بارے لکھا کہ وہ دنیا کی مشہور ترین کم عمر بچی بن گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی تعلیم کے نمائندے گورڈن براؤن نے اقوامِ متحدہ کی ایک پٹیشن بنام “میں ملالہ ہوں” جاری کی اور مطالبہ کیا کہ دنیا بھر کے تمام بچوں کو 2015 کے اواخر تک سکول بھیجا جائے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں پہلی بار تعلیم کے حق کا بل منظور ہوا۔ 29 اپریل 2013 کو ملالہ کو ٹائم میگزین کے اولین صفحے پر جگہ ملی اور اسے دنیا کے 100 با اثر ترین افراد میں سے ایک گردانا گیا۔ ملالہ پاکستان کے پہلے یوتھ پیس پرائز کی وصول کنندہ ہے۔

12 جولائی 2013 کو ملالہ نے اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر میں خطاب کیا اور مطالبہ کیا کہ دنیا بھر میں تعلیم تک رسائی دی جائے۔ ستمبر 2013 میں ملالہ نے برمنگھم کی لائبریری کا باضابطہ افتتاح کیا۔ ملالہ کو 2013 کا سخاروو انعام بھی ملا۔ 16 اکتوبر 2013 کو حکومتِ کینیڈا نے اعلان کیا کہ کینیڈا کی پارلیمان ملالہ کو کینیڈا کی اعزازی شہریت دینے کے بارے بحث کر رہی ہے۔ فروری 2014 کو سوئیڈن میں ملالہ کو ورلڈ چلڈرن پرائز کے لئے نامزد کیا گیا۔ 15 مئی 2014 کو ملالہ کو یونیورسٹی آف کنگز کالج، ہیلی فیکس کی جانب سے اعزازی ڈاکٹریٹ دی گئی۔

10 اکتوبر 2014 کو ملالہ کو بچوں اور کم عمر افراد کی آزادی اور تمام بچوں کو تعلیم کے حق کے بارے جدوجہد کرنے پر 2014 کے نوبل امن انعام دیا گیا جس میں ان کے ساتھ انڈیا کے کیلاش ستیارتھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو 1979 میں طبعیات کے نوبل انعام کے بعد ملالہ نوبل انعام پانے والی دوسری پاکستانی بن گئی ہے۔


اب ملالہ یوسفزئی پر ایک دستاویزی فلم بن چکی ہے جس کا ٹریلر جاری کر دیا گیا ہے ۔ اس فلم میں ملالہ کی جدوجہد اور زندگی کو موضوع بحث بنایا گیا ہے ۔
ماخذ

ملالہ یوسف زئی کی اس عظیم کامیابی پر ہم تمام جہادیوں کے شکر گزار ہیں۔ امید ہے یہ آئندہ بھی اسی طرح پاکستان کا نام روشن کرنے کیلئے اپنی ’’خدمات‘‘ پیش کرتے رہیں گے۔ :p

فاروق احمد بھٹی زہیر عبّاس ummargul ابرارحسین محمد سعد فاتح عائشہ عزیز ثاقب عبید محمد امین اوشو تجمل حسین وجی عمار ابن ضیا asakpke ادب دوست محب علوی محمدصابر امیداورمحبت حمیر یوسف سلمان حمید موجو اوشو شہزاد وحید عبدالقیوم چوہدری لئیق احمد ایچ اے خان x boy طالوت
 
مدیر کی آخری تدوین:

arifkarim

معطل
طالبان بھی تو ایک عرصہ دراز سے سعودی اغیار جیسے اسامہ بن لادن کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے ہیں :)۔ الغرض، مسلمانوں کا اغیار کے ہاتھوں میں کھیلنے کوئی نئی بات نہیں :p
اور امریکہ کے ہاتھوں میں سعودیہ۔۔ماسٹر اینڈ سرونٹ۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
اتنی چھوٹی عمر میں اتنا کچھ حاصل کرنا بہت بڑی بات ہے۔ اور سب سے بڑی بات کہ اس نے پاکستان کا نام تو روشن کیا۔ پاکستان کے ہاتھ دوسرا نوبل انعام تو آیا۔
 

arifkarim

معطل
ملالہ یوسفزئی پر دستاویزی فلم
رابعہ سید

آئی بی سی اردو، اسلام آباد



ملالہ یوسفزئی (پیدائش 12 جنوری 1997) پاکستان میں پیدا ہونے والی خواتین کی تعلیم کی سرگرم رکن ہے اور اسے کسی بھی شعبے میں نوبل انعام وصول کرنے والے سب سے کم سن فرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

اس کی وجہ شہرت اپنے آبائی علاقے سوات اور خیبر پختونخواہ میں انسانی حقوق، تعلیم اور حقوق نسواں کے حق میں کام کرنا ہے جب مقامی طالبان کے لڑکیوں کو سکول جانے سے روک دیا تھا۔ اب ملالہ کی تحریک بین الاقوامی درجہ اختیار کر چکی ہے۔

سوات میں خوشحال پبلک اسکول ملالہ کے والد ضیاٗ الدین کی ملکیت ہے جہاں ملالہ طالبہ تھی ۔ بارہ سالہ ملالہ نے “گل مکئی” کے قلمی نام سے بی بی سی کے لئے ایک بلاگ لکھا جس میں اس نے طالبان کی طرف سے وادی پر قبضے کے خلاف لکھا تھا اور اپنی رائے دی تھی کہ علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی جانی چاہیئے۔اگلی گرمیوں میں جب پاکستانی فوج نے سوات کی دوسری جنگ میں اس علاقے سے طالبان کا خاتمہ کیا تو نیویارک ٹائمز کے صحافی ایڈم بی ایلک نے پاکستانی صحافی سید عرفان اشرف کے ساتھ مل کر ملالہ کی زندگی کے بارے ڈاکومنٹری بنائی۔ ملالہ مشہور ہو گئی اور اس کے انٹرویو اخبارات اور ٹی وی کی زینت بننے لگے۔

ملالہ کا نام بین الاقوامی امن ایوارڈ برائے اطفال کے لئے جنوبی افریقہ کے ڈیسمنڈ ٹوٹو نے پیش کیا۔ 9 اکتوبر 2012 کو ملالہ سکول سے واپس گھر جارہی تھی کہ ایک مسلح شخص نے بس روک کر اس کا نام پوچھا اور اس پر پستول تان کر تین گولیاں چلائیں۔ ایک گولی اس کے ماتھے کے بائیں جانب لگی اورکھوپڑی کی ہڈی کے ساتھ ساتھ کھال کے نیچے سے حرکت کرتی ہوئی اس کے کندھے میں جا گھسی۔ حملے کے کئی روز تک ملالہ بے ہوش رہی اور اس کی حالت نازک تھی۔ تاہم جب اس کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو اسے برمنگھم کے کوئین الزبتھ ہسپتال کو بھیج دیا گیا تاکہ اس کی صحت بحال ہو۔

12 اکتوبر کو پاکستان کے 50 علماء ملالہ کے قتل کی کوشش کے خلاف فتویٰ دیا۔ تاہم کئی پاکستانی ابھی تک یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حملہ سی آئی اے نے کرایا تھا اور اس بارے سازشی نظریات پائے جاتے ہیں۔

اس قاتلانہ حملے کی وجہ سے قومی اور بین الاقوامی طور پر ملالہ کی حمایت میں اچانک اضافہ ہوا۔ ڈوئچے ویلے نے جنوری 2013 میں ملالہ کے بارے لکھا کہ وہ دنیا کی مشہور ترین کم عمر بچی بن گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی تعلیم کے نمائندے گورڈن براؤن نے اقوامِ متحدہ کی ایک پٹیشن بنام “میں ملالہ ہوں” جاری کی اور مطالبہ کیا کہ دنیا بھر کے تمام بچوں کو 2015 کے اواخر تک سکول بھیجا جائے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں پہلی بار تعلیم کے حق کا بل منظور ہوا۔ 29 اپریل 2013 کو ملالہ کو ٹائم میگزین کے اولین صفحے پر جگہ ملی اور اسے دنیا کے 100 با اثر ترین افراد میں سے ایک گردانا گیا۔ ملالہ پاکستان کے پہلے یوتھ پیس پرائز کی وصول کنندہ ہے۔

12 جولائی 2013 کو ملالہ نے اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر میں خطاب کیا اور مطالبہ کیا کہ دنیا بھر میں تعلیم تک رسائی دی جائے۔ ستمبر 2013 میں ملالہ نے برمنگھم کی لائبریری کا باضابطہ افتتاح کیا۔ ملالہ کو 2013 کا سخاروو انعام بھی ملا۔ 16 اکتوبر 2013 کو حکومتِ کینیڈا نے اعلان کیا کہ کینیڈا کی پارلیمان ملالہ کو کینیڈا کی اعزازی شہریت دینے کے بارے بحث کر رہی ہے۔ فروری 2014 کو سوئیڈن میں ملالہ کو ورلڈ چلڈرن پرائز کے لئے نامزد کیا گیا۔ 15 مئی 2014 کو ملالہ کو یونیورسٹی آف کنگز کالج، ہیلی فیکس کی جانب سے اعزازی ڈاکٹریٹ دی گئی۔

10 اکتوبر 2014 کو ملالہ کو بچوں اور کم عمر افراد کی آزادی اور تمام بچوں کو تعلیم کے حق کے بارے جدوجہد کرنے پر 2014 کے نوبل امن انعام دیا گیا جس میں ان کے ساتھ انڈیا کے کیلاش ستیارتھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو 1979 میں طبعیات کے نوبل انعام کے بعد ملالہ نوبل انعام پانے والی دوسری پاکستانی بن گئی ہے۔


اب ملالہ یوسفزئی پر ایک دستاویزی فلم بن چکی ہے جس کا ٹریلر جاری کر دیا گیا ہے ۔ اس فلم میں ملالہ کی جدوجہد اور زندگی کو موضوع بحث بنایا گیا ہے ۔
ماخذ
 
آخری تدوین:
اس دستاویزی فلم کو 171 ممالک اور 45 زبانوں میں نشر کیا جائے گا. ملالہ یوسفزئی پر بنے اس دستاویزی فلم کو دنیا بھر کے تھیٹر میں ریلیز کرنے کے لئے نیشنل جیوگرافک چینل نے فاکس سرچ لائٹ پیکچر سے ہاتھ ملایا ہے
بچارے نیلسن مینڈیلا کی تو روح تڑپ رہی ہو گی۔
 

arifkarim

معطل
یہ معلوماتی ہے اسرائیل اور ایران کے ہاتھوں میں۔۔۔۔:sneaky:
شاہ پہلوی ایران کے زمانہ میں اسرائیل اور ایران کے مابین قریبی تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران 1979 سے دو سال قبل دونوں ممالک نے خفیہ طور پر جوائنٹ میزائل ڈویلپمنٹ پر کام شروع کر دیا تھا جو انقلاب کے بعد تا حال ممکن نہ ہو سکا۔ امید ہے یہ میزائل اب دونوں ممالک ایک دوسرے پر ہی چلائیں گے حسینی
اسرائیلی اور ایرانی سفارتکار اور جرنیل ایک ہی میز پر:
military_relations_of_israel_and_iran-e1383072909915.jpg

https://isiseurope.wordpress.com/2014/02/17/iran-israel-project-flower/
 

عثمان

محفلین
ارے جناب اوپر اقتباس تو دیا تھا۔۔171 ممالک اور 45 زبانوں میں نشر ہونے اعزاز جو حاصل ہو رہا ہے محترمہ ملالہ یوسفزئی صاحبہ کو۔نیلسن ول بی جیلس نا
بھئی وہی تو پوچھا ہے کہ مرحوم نیلسن منڈیلا ملالہ سے کیوں جیلس ہوتے ؟؟
فی الوقت تو مجھے ان تبصروں میں آپ ہی کی جیلسی دیکھائی دے رہی ہے۔
 

arifkarim

معطل
اتنی چھوٹی عمر میں اتنا کچھ حاصل کرنا بہت بڑی بات ہے۔ اور سب سے بڑی بات کہ اس نے پاکستان کا نام تو روشن کیا۔ پاکستان کے ہاتھ دوسرا نوبل انعام تو آیا۔
اگر نارویجن نوبیل کمیٹی امن کی بجائے جہاد پر مبنی نوبیل انعامات دے رہی ہوتی تو یقیناً ہر سال یہ انعام پاکستانیوں ہی کو ملتا :cautious:
تب اغیار ہم سے ’’جیلس‘‘ ہوتے :)
 
آخری تدوین:
Top