ملالہ تم کہاں ہو؟کشمیریوں پر بھارتی مظالم پہ خاموش کیوں؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

جاسم محمد

محفلین
نہیں نہیں زیک سر
پہلے ہندستانی ملالہ کے حمایتی تھے اور
شروع شروع میں تو پاکستانی بھی اس کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے
ملالہ کا آخر قصور کیا ہے جو پاکستان اور بھارت کو اس سے تکلیف ہے؟ یہی کہ وہ نوبیل انعام یافتہ کیوں ہے؟ یا وہ بچیوں کی تعلیم پر بات کیوں کرتی ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
اسی مقصد کے حصول کی خاطر تو اتنا بڑا سوانگ رچایا گیا
جس کا فائدہ سیدھے سیدھے ملالہ اور اس کے والد کو ہوا آصف بھائی
ملالہ پر جان لیوا حملہ کرنا بھی اس سازش کا حصہ تھا؟ اگر پاک فوج اسے اپنے جنگی طیارہ میں بروقت بیرون ملک منتقل نہ کرتی تو آج شاید وہ ہمارے درمیان موجود نہ ہوتی۔
ملالہ زندگی و موت کی کشمکش سے لڑ کر واپس آئی ہے اور ادھر آپ لوگوں کی سازشی تھیوریاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔
 

بندہ پرور

محفلین
ملالہ پر جان لیوا حملہ کرنا بھی اس سازش کا حصہ تھا؟ اگر پاک فوج اسے اپنے جنگی طیارہ میں بروقت بیرون ملک منتقل نہ کرتی تو آج شاید وہ ہمارے درمیان موجود نہ ہوتی۔
ملالہ زندگی و موت کی کشمکش سے لڑ کر واپس آئی ہے اور ادھر آپ لوگوں کی سازشی تھیوریاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔
جاسم بھائی ، زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے سب کچھ ڈمی تھا
 

محمد سعد

محفلین
جاسم بھائی ، زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے سب کچھ ڈمی تھا
The main psychological process that has been associated with this conspiratorial mindset is the human desire to make sense of their social environment. Early writings by Hofstadter (1966) already noted that conspiracy beliefs help citizens who feel powerless or voiceless to understand complex and distressing societal events (see alsoBale, 2007). Consistently, empirical findings suggest that the motivation to make sense of events that potentially threaten one’s community predicts belief in conspiracy theories (Van Prooijen & Van Dijk, 2014; see also Van Prooijen &Van Lange, 2014). People’s desire to make sense of the social world isclosely coupled with the extent to which they experience control over their environment. Various complementary theoretical perspectives, on meaning-making (Heine, Proulx, &Vohs, 2006; Park, 2010; Van den Bos, 2009), paranoia (Kramer, 1998 ), and compensatory control (Kay, Whitson,Gaucher, & Galinsky, 2009; Rutjens, van Harreveld, & vander Pligt, 2013), assume that threats to control increase people’s mental efforts to make sense of the social world, imbuing the world with meaning, purpose, and order. These insights may explain why conspiracy theories seem to gain momentum particularly following impactful societal events that are likely experienced as control threats by citizens (e.g., a terrorist strike, a war, or a natural disaster; see Pipes,1997; Robins & Post, 1997; Shermer, 2011).

van Prooijen, J.-W., & Acker, M. (2015). The Influence of Control on Belief in Conspiracy Theories: Conceptual and Applied Extensions. Applied Cognitive Psychology, 29(5), 753–761. https://doi.org/10.1002/acp.3161
پاکستان میں جیسے حالات گزرے ہیں، موازنہ کر لیں۔ سمجھ آ جائے گی کہ زیادہ تر لوگ ایسے خیالات کیوں رکھتے ہیں۔
 

آصف اثر

معطل
پاکستان میں جیسے حالات گزرے ہیں، موازنہ کر لیں۔ سمجھ آ جائے گی کہ زیادہ تر لوگ ایسے خیالات کیوں رکھتے ہیں۔
پاکستان سمیت پوری دنیا کے عوام میں سائنس کی فہم بہت کم ہے۔ سازشی سازشی کے رِٹ لگانے کے بجائے نظامِ تعلیم کو اُٹھانے اور قومی شعور کو بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
پاکستان میں جیسے حالات گزرے ہیں، موازنہ کر لیں۔ سمجھ آ جائے گی کہ زیادہ تر لوگ ایسے خیالات کیوں رکھتے ہیں۔
آج یہ راز بھی کھل گیا کہ موصوف آپ کے سائنس میں گولڈ میڈل کے ساتھ ساتھ ملالہ کے نوبیل انعام سے بھی ٹھیک ٹھاک “جلتے” ہیں :)
 

جاسم محمد

محفلین
اور انٹرنیز کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ "ملالہ" کا بیان کیوں نہیں آیا۔۔۔

غفورے نے غالبا آج کے اس ٹویٹ کے تناظر میں بات کی تھی۔
یہ ایم پی اے مغرب کا پڑھا لکھا، اقتصادیات میں پی ایچ ڈی ہے اور حالت یہ ہے کہ شملہ معاہدہ تک کا مطالعہ نہیں کیا۔
 

محمد سعد

محفلین
پاکستان سمیت پوری دنیا کے عوام میں سائنس کی فہم بہت کم ہے۔ البتہ اس طرح کے اقتباسات پاکستان کے سائنسی ٹھرکیوں اور مذہب بیزاروں پر بالکلیہ پورا اترتے ہیں جو آئے دن اسلام، علمائے کرام اور مدارس کے خلاف بک بک کرتے نظر آتے ہیں۔ درایں اثنا اس پورے منظر نامے میں وہ سائنسی فراڈیے بھی پوری طرح ذمہ دار ہیں جو سائنسی علوم کے نام پر گمراہیاں پھیلانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ سازشی سازشی کے رِٹ لگانے کے بجائے نظامِ تعلیم کو اُٹھانے اور قومی شعور کو بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
حضرت۔ میرا آپ سے صرف ایک سوال ہے۔ آپ کو پڑھنا آتا ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
ملالہ فوبیا کے شکار افراد کے نام
ملالہ کی کسی بات سے اختلاف رائے آپ کا حق ہے اور نہ صرف اختلاف کیجیے بلکہ ان پر مہذب انداز میں تنقید بھی کیجیے مگر تب جب وہ اس سب کی متحمل ہوں کیونکہ نہ تو وہ اس ملک کی وزیر اعظم ہیں اور نہ ہی ہم نے ان کو ووٹ دے کر کسی عہدے کے لیے منتخب کیا ہے۔
ملک رمضان اسراء صحافی و کالم نگار MalikRamzanIsra@
بدھ 21 اگست 2019 8:45

35536-1162465995.jpg


ملالہ یوسفزئی کی پیرس میں جی سیون ترقی اور تعلیم کے اس سال جولائی میں ایک اجلاس میں شرکت کے موقع پر لی گئی تصویر (اے ایف پی)

کہتے ہیں کہ اس قدر جھوٹ بولو کے وہ سچ لگنے لگ جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے بعض حلقے بظاہر صبح شام اسی کام کے لیے مختص ہیں۔

یوٹیوب پر گذشتہ دنوں ایک ویڈیو کلپ گردش کرتا دکھائی دیا جس میں ایک موصوف سچ کو جھوٹ کے پردے میں بند کر کے نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی سے متعلق ایسی من گھڑت کہانی پیش کر رہا تھا جیسے کوئی سنار چاندی پر سونے کا پانی چڑھا کر اسے گاہک کو پیش کر دیتا ہے۔

ویڈیو میں حقیقت سے کوسوں دور باتیں بیان کی گئیں مثلاً ملالہ یوسفزئی پاکستانی ہی نہیں بلکہ کاکوزی ہیں اور ان کا تعلق بھی پولینڈ سے ہے۔ یہ بات سنتے ہی مجھے ہنسی آگئی اور دماغ یکدم یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ پتا نہیں ان لوگوں کو یہ سب کر کے کیا ملتا ہوگا؟ کیا انہیں خدا کا خوف نہیں یا پھر انہوں نے مرنا نہیں! جو ایک معصوم بچی کے بارے میں اتنے بڑے بڑے مگر سفید جھوٹ بولتے ہیں۔ ملالہ یوسفزئی اپنی کتاب ’میں ہوں ملالہ‘ میں اپنے گھر اور خاندان کے بارے میں سب کچھ لکھ چکی ہیں۔

کالم نگار ارشاد بھٹی نے گذشتہ دنوں ایک ٹویٹ کی جس میں لکھا کہ ’‏وہ ملالہ یوسفزئی سے پوچھنا تھا کہ گذرے دو ہفتوں سے مقبوضہ وادی میں سکول، کالج بند اور ہزاروں بچے، بچیاں گھروں میں قید ہیں۔۔ کوئی بیان، کوئی پریس کانفرنس کوئی ہلکا پھلکا اجتجاج ہی۔۔ آپ کو تو روزانہ اس پر بات کرنی چاہیے تھی۔۔ اس خاموشی کی وجہ جان سکتا ہوں؟‘

اس کے جواب میں ملالہ یوسفزئی کے والد ضیا الدین یوسفزئی نے لکھا کہ ’بھٹی صاحب! ملالہ نے 18 اگست كو جو بیان دیا اس پر 21 ہزار كمنٹس آئے ہیں اور انٹرنشنل میڈیا نے خوب كوریج دی ہے۔ مگر آپ جیسے لوگوں كو تو اس رزم گاہ میں بھی ملالہ اور دوسرے سیاسی مخالفین پر تیر اندازی كر كے كشمیر فتح كرنا ہے۔ یہ حالت رہی تو۔ ‎‘#كشمیریوں كا اللہ ہی مالک! شكریہ۔

پھر کیا تھا ارشاد بھٹی آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔

شاعر اور مصنف توقیر بھٹی ارشاد بھٹی کے جواب میں لکھتے ہیں ’بھٹی صاحب کشمیر پر گفتگو یقیناً ضروری ہے اور سبھی اپنے طور پر بھارت کی مذمت کر رہے ہیں۔ مجھے آپ کے صحافتی کرئیر کا تو علم نہیں مگر ٹی وی پر آپ کی ایجاد سے آج تک اگر آپ نے ملک میں کسی بھی برادری کے ساتھ حقوقِ انسانی کی سنگین خلاف ورزی پر کوئی ایک بیان بھی دیا ہو، تو مطلع کیجیے۔‘

صحافی و بلاگر رجب علی فیصل نے بھٹی کو آئینہ دکھاتے ہوئے لکھا ’‏یہ سوال اپنے وزیر اعظم سے پوچھو..اداروں سے پوچھو..گڈ طالبان سے پوچھو..پیدا کردا اپنی جہادی تنظیموں سے پوچھو۔۔۔جو صاحب اختیار ہیں ان سے پوچھو انہوں نے کشمیر کے لیے کیا کردار ادا کیا۔۔ اتنی فکر ہے کشمیریوں کی تو جہاد جیسی نعمت مت ضائع کریں اب اچھا موقع ہے ..بسم اللہ کریں۔۔۔‘

ایک اور ٹوئٹر صارف رحیم داوڑ نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ ’ملالہ نے اپنے حصے کا احتجاج کیا ہے لیکن یہ مسئلہ احتجاجوں سے حل ہونے والا نہیں ہے حکمرانوں کو ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے جو کہ ابھی تک نہیں اٹھائے گئے۔ اگر صرف ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلانے سے کشمیر آزاد ہونا ہوتا تو اب تک 25 مرتبہ ہم کشمیر کو آزاد کروا چکے ہوتے۔‘

یہ صرف بھٹی صاحب تک محدود نہیں تھا بلکہ کئی لوگوں نے میمز بنا کر ملالہ سے یہی سوال پوچھا۔ لیکن ایک مقامی اخبار نے تو 20 اگست 2019 کو جھوٹ کی انتہا کر دی جب اپنے صفحہ اول پر یہ جھوٹی و بےبنیاد خبر کے ساتھ کچھ تصویریں لگائی دیں جنہیں حقائق کے برعکس پیش کیا گیا اور ان میں سے ایک تصویر کے نیچے بنا کسی تحقیق کے یہ تک عبارت دے دی گئی کہ ’ملالہ یوسفزئی ملعون سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کے ساتھ ایک تقریب میں۔‘

malala-03-rushdie-propaganda01-1524117318.jpg

جب کہ یہ محض ایک پروپیگنڈا ہے جس کی حقیقت کچھ اور ہے اور وہ یہ کہ سخاروف ایوارڈ کے لیے ملالہ یوسفزئی کو بلایا گیا تھا جس میں تسلیمہ نسرین واقعی موجود تو تھیں پر ملالہ کی ان سے کوئی شناسائی اس وقت تک نہ تھی اور دوسرا جس شخص کو سلمان رشدی بتایا گیا وہ سلمان رشدی نہیں بلکہ یورپین پارلیمنٹ کا صدر مارٹن شولز ہے اور اسے ایوارڈ دینے کے لیے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔

جن لوگوں کو تسلیمہ نسرین کی ملالہ کے ساتھ سخاروف تقریب میں لی گئی گروپ فوٹو پر اعتراضات ہیں اور ان کے ذریعے منفی پروپیگنڈا پھیلا رہے ہیں انہیں تسلیمہ نسرین کی وہ ٹویٹس بھی دیکھ لینی چاہیئے جن میں وہ ملالہ یوسفزئی کے دوپٹہ اوڑھنے اور تقریب میں بسم اللہ الرحمن الرحیم سے خطاب شروع کرنے پر اعتراضات کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

ملالہ کی کسی بات سے اختلاف رائے آپ کا حق ہے اور نہ صرف اختلاف کیجیے بلکہ ان پر مہذب انداز میں تنقید بھی کیجیے مگر تب جب وہ اس سب کی متحمل ہو کیونکہ نہ تو وہ اس ملک کی وزیر اعظم ہے اور نہ ہی ہم نے ان کو ووٹ دے کر کسی عہدے کے لیے منتخب کیا ہے۔ آج وہ جس مقام پر ہیں اس کے پیچھے ان کی دردناک تاریک کہانی اور بےشمار قربانیاں ہیں۔

یہ کوئی نئی بات نہیں کہ اکیلی ملالہ کو غدار ثابت کرنے کی ناکام کوششیں کی جاتی ہیں بلکہ ہم تو وہ بدنصیب قوم ہیں جن کے نام نہاد محب وطن طبقے نے ہم سے ہمیشہ ہر اس محب وطن پاکستانی کو غدار کہلوایا جس نے عام آدمی کے حقوق کی بات کی۔ ملالہ کی ترجیح صرف تعلیم کے بارے کام کرنا ہے اور جب میں نے ان سے پاکستان آمد پر یہ پوچھا کے جب کچھ لوگ آپ کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں تو آپ کیا سوچتی ہیں تو انہوں نے کہا تھا مجھے ایسے لوگوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ایسے افراد تعصب اور جھوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔
 

آصف اثر

معطل
اس کے جواب میں ملالہ یوسفزئی کے والد ضیا الدین یوسفزئی نے لکھا کہ ’بھٹی صاحب! ملالہ نے 18 اگست كو جو بیان دیا اس پر 21 ہزار كمنٹس آئے ہیں اور انٹرنشنل میڈیا نے خوب كوریج دی ہے۔ مگر آپ جیسے لوگوں كو تو اس رزم گاہ میں بھی ملالہ اور دوسرے سیاسی مخالفین پر تیر اندازی كر كے كشمیر فتح كرنا ہے۔ یہ حالت رہی تو۔ ‎‘#كشمیریوں كا اللہ ہی مالک! شكریہ۔
دہشت گرد طبقات اور قوموں کے اسی کھیل کو تو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
21 ہزار کمنٹس اور انٹرنیشنل میڈیا کی کوریج۔ ہوگیا کشمیر فتح۔ اور کیا چاہیے؟
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top