ملالہ اور عبیر قاسم حمزہ الجنابی۔۔۔ اوریا مقبول جان

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ



جو رائے دہندگان انتہائ جذباتی انداز ميں امريکہ کی ملالہ ميں مبينہ غير معمولی دلچسپی کے حوالے دے کر سوال اٹھا رہے ہيں، ان کے ليے ميں پاکستان کی تمام اہم سياسی جماعتوں کے سربراہان کے ملالہ کے حوالے سے ديے گئے بيانات پيش کرنا چاہوں گا۔

وزير اعظم پاکستان نواز شريف نے ملالہ کے حوالے سے ان جذبات کا اظہار کيا



http://tribune.com.pk/story/609569/...ays-pakistan-needs-malala-the-most-right-now/


تحريک انصاف کے سربراہ عمران خان کا بيان

http://www.nation.com.pk/pakistan-n...2013/imran-khan-proud-of-daughter-of-pakistan

ايم کيو ايم کے ليڈر الطاف حسين

http://beta.dawn.com/news/756715/mq...ort-to-army-if-it-acts-to-wipe-out-terrorists

پيپلز پارٹی کے آصف زرداری کا ملالہ کے حوالے سے موقف

http://www.mid-day.com/news/2012/dec/101212-Zardari-meets-Malala-says-Pakistan-is-proud-of-her.htm

اس کے علاوہ پاکستان کے آرمی چيف جرنل اشفاق پرويز کيانی کی ہسپتال ميں ملالہ کی عيادت کے حوالے سے خبر

http://www.aaj.tv/2012/10/gen-kayani-visits-peshawar-to-oversee-malalas-treatment
/
پاکستان کے تمام اہم قائدين نے ملالہ کے حوالے سے جو بيانات ديے ہيں اور جو واضح موقف اختيار کيا ہے وہ اس عوامی جذبے اور ردعمل کا عکاس ہے جو بالآخر اس بين الاقوامی ہمدردی کا باعث بنا جسے بعض عناصر سازش قرار دينے پر بضد ہيں۔

جو رائے دہندگان ملالہ کی امريکی صدر اوبامہ سے ملاقات کو اس حوالے سے "ثبوت" قرار دے رہے ہيں کہ امريکہ دانستہ اس بچی کو نماياں کر رہا ہے، ان کے ليے ميں اس خبر کا حوالہ پيش کروں گا جس کے مطابق ابوظہبی کے کراؤن پرنس نے ملالہ سے ملاقت کی اور پاکستان ميں بچيوں کی تعليم کو يقینی بنانے کے ليے ان کی خدمات اور جذبے کو سراہا۔

http://gulfnews.com/news/gulf/uae/g...an-rights-activist-malala-yousafzai-1.1189368

اس ميں کوئ شک نہيں کہ ملالہ عالمی سطح پر ان بچيوں کے ليے علامت بن چکی ہيں جنھيں چبری طور پر تعليم کے حصول سے روکا جاتا ہے۔ ليکن يہ امريکی حکومت نہيں ہے جس کی بدولت ملالہ کو يہ مقام حاصل ہوا ہے۔ پاکستان سياسی قائدين کے بيانات جن کا حوالہ ميں نے پيش کيا ہے اور پاکستان کے تمام اہم شہروں میں درجنوں کی تعداد ميں نکالی جانے والی عوامی ريلياں وہ وجہ بنيں جس کی بدولت اس واقعے کو ابتداء ميں عالمی توجہ حاصل ہوئ۔ اور يہ توجہ صرف امريکہ ہی نہيں بلکہ دنيا کے ہر حصے ميں حاصل ہوئ اور اس کی بنياد ايک ايسی معصوم بچی سے اظہار يکجہتی کی مشترکہ خواہش تھی جسے محض سکول جانے کی پاداش ميں سر پر گولی مار دی گئ۔
جب اقوام متحدہ نے نومبر 10 کو ملالہ سے منسوب کيا تو پوری دنيا کے ساتھ پاکستان کے تمام بڑے شہروں ميں ملالہ سے اظہار ہمدردی کے ليے عوامی ردعمل سامنے آيا جس ميں پاکستان ميں لڑکيوں کے ليے حصول تعليم کے حوالے سے اصلاحات کی ضرورت پر زور ديا گيا۔ پاکستان کی کئ سياسی جماعتوں نے نا صرف يہ کہ اس دن کو منايا بلکہ اس ضمن ميں کئ اجتماعات اور ريلياں بھی منعقد کيں۔

يقینی طور پر آپ امريکہ کو اس عالمی ردعمل کے ليے مورد الزام قرار نہيں دے سکتے۔

يہ سوچ انتہائ غلط ہے کہ امريکی حکومت ايک انسانی سانحے کو محض اپنے ايجنڈے کی تکميل کے ليے استعمال کرنا چاہے گی۔ ہم نے صرف ايک ايسی بچی کی بہادری کو خراج تحسين پيش کيا ہے جس نے اپنے علاقے کی بچيوں کے خلاف ج۔بری قدغن کو تسليم کرنے سے انکار کر ديا اور اپنے حقوق کے ليے اٹھ کھڑی ہوئ۔ ليکن حتمی تجزيے ميں ملالہ کو عالمی سطح پر متعارف کروانے کا سہرا امريکی حکومت کے سر نہيں بلکہ پاکستانی عوام اور حکومت پاکستان کے ذمے ہے۔

صدر اوبامہ اور ان کے خاندان نے ملالہ کی پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے ليے متاثر کن اورپرجوش کاوشوں کی بنا پراس کا شکریہ ادا کيا۔ ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ
" امریکہ پاکستانی عوام اور تمام دنيا کے ساتھ مل کر ملالہ کے اس جذبے کو سراہتا ہے جس میں اس نے لڑکيوں کی تعلیم کے فرو‏غ کے ليے عزم کا اظہار کيا ہے"۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
میں یہ سارا دھاگہ پرھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا لیکن مجھے اتنا ضرور پتہ ہے کہ اگر وہ نوبل انعام جیت جاتی تو اس سے بھی کہیں زیادہ تنقید ہوتی اب اگر وہ نہیں جیت سکی تو طرح طرح کی تاویلیں گھڑی جاتی ہیں

پہلی بات مجھے یہ سب پڑھ کر دادا پوتے والا واقعہ یاد آجاتا ہے کہ دادا اور پوتا اپنا گدھا لیکر کہیں جارہے تھے راستے میں کوئی آدمی ملا اور کہنے لگا کیسے بیوقوف ہیں گدھا ساتھ اور پھر بھی چل کر جارہے ہیں، تو دادا گدھے پر بیٹھ گیا ،آگے ایک اور آدمی ملا اور کہنے لگا کتنا سنگدل دادا ہے خود تو گدھے پر بیٹھا ہے اور پوتے کو پیدل چلا رہا ہے تو دادا نیچے اترا اور پوتے کو اوپر بٹھا دیا ،آگے ایک اور آدمی ملا اور کہنے لگا کہ کتنا گستاخ پوتا ہے خود گدھے پر بیٹھا ہے اور بوڑھے دادا کو پیدل چلا رہا ہے نتیجتا وہ بھی گدھے پر بیٹھ گیا اور کچھ لوگ ملے اور کہنے لگے کتنے بے رحم ہیں دونوں بیچارے گدھے پر اتنا بوجھ لادا ہوا ہے وغیر وغیرہ (شاید میں یہ واقعہ من و عن بیان نہ کرسکا ہوں) لیکن میرا بات کرنیکا مقصد فقط یہی ہے کہ لوگ کسی صورت بھی خوش نہیں ہوسکتے۔ملالہ کو گولی لگی تو وہ یہودی سازش،وہ برطانیہ گئی یعنی سازش کی تصدیق ہوگئی اور اسکے ایورڈ ملنے شروع ہو گئے یعنی وہ واقعی ایجنٹ ہے اور یہ یہودی ڈرامہ تھا۔اب نوبل انعام کی باری تھی جو اسے نہ ملا لیکن پھر بھی طرح طرح کی تاویلیں اور سازشی تھیوریاں اور اگر مل جاتا تو مارکیٹ یقینا فل ہوجاتی

دوسری بات پاکستان میں ایک عجیب رواج ہے جو آپکے "اسلام" سے انکار کرے وہ لبرل،سیکولر فاشسٹ اور پتہ نہیں کیا کیا بن جاتا ہے۔بس بات یہی ہے کہ آپکے نقطہ نظر سے اختلاف مت کیا جائے اور اگر آپ نے کرلیا تو آپ لبرل بن جائیں گے اور پتہ نہیں کیا کیا۔
اب بات یہ ہے کہ آجکل مسلمان وہی ہے جو ان نام نہاد طالبان کا حامی اور انکی "شریعت" کو مانتا ہو یعنی جو کوئی آپکے عقیدے کا مخالف ہو اس پر کافر کا فتویٰ لگاؤ اور پھر لائن میں لگا کر گولی مار دو آپکا جہاد ہو گیا اور آپکے کیلیے حوروں کی خوشخبری ہے۔
اور آج اپنے دل کی بات بھی کہہ دیتا ہوں کہ میں ان تکفیری طالبان اور نام نہاد مومنوں سے سخت نفرت کرتا ہوں اور یہ میرا حق ہے کہ میں آزادی سے سوچ سکوں ۔میں ایک آزاد ملک کا شہری ہوں اور کوئی میرا یہ حق نہیں چھین سکتا نہ کوئی مجھے زبردستی طالبان سے "محبت" کرنے پر مجبور کرسکتا ہے

(نوٹ میں نےاس دھاگے کا فقط پہلا صفحہ پڑھا ہے مجھے نہیں پتہ اس میں کیا کیا گفتگو ہوئی لیکن مجھے کافی حد تک اندازہ ضرور ہے کہ کیا گفتگو ہوئی ہوگی)
محترمہ ملالہ صاحبہ کی کتاب کے بعد میرے ملالہ کے بارے میں کافی سارے نظریات تبدیل ہورہے ہیں
 
تھوڑی وضاحت فرمائیں گے؟
یہی کہ میں پہلے بھی ملالہ پر طالبان کے حملے کے خلاف تھا اور ملالہ کا سپورٹر تھا لیکن اسکی کتاب کے جو اقتباسات پڑھ رہا ہوں انہیں پڑھ کر بطور ایک مسلمان سخت مایوسی ہوئی۔میں جتنا بھی آزاد خیال ہو جاؤں لیکن سلمان رشدی وغیرہ-----------------
 

سید ذیشان

محفلین
یہی کہ میں پہلے بھی ملالہ پر طالبان کے حملے کے خلاف تھا اور ملالہ کا سپورٹر تھا لیکن اسکی کتاب کے جو اقتباسات پڑھ رہا ہوں انہیں پڑھ کر بطور ایک مسلمان سخت مایوسی ہوئی۔میں جتنا بھی آزاد خیال ہو جاؤں لیکن سلمان رشدی وغیرہ-----------------

اس کا مطلب ہے طالبانی مولوی اوریا مقبول جان اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے۔
 
اس کا مطلب ہے طالبانی مولوی اوریا مقبول جان اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے۔
میں پہلے بھی طالبان کے سخت خلاف تھا اب بھی ہوں لیکن میرے نزدیک ٖسب سے قیمتی چیز میرا دین ہے اور دوسری بات ملالہ کو سپورٹ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جو کچھ بھی لکھے اسے من و عن تسلیم کرلیا جائے
ٹھیک ہے میں ملالہ کو سپورٹ کرتا ہوں وہ بچوں کی تعلیم کے حق میں ہے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ میں اندھا دھند اسکی پیروی کروں نہ یہ میرا طریقہ ہے اور نہ میں ایسا کروں گا۔اگر وہ اپنی کتاب میں کچھ خرافات لکھ دے تو کیا میں اسے من و عن تسلیم کرلوں ۔ ملالہ نہ ہوئی گویا کوئی فرشتہ ہے جو کوئی غلطی کرہی نہیں سکتا
19ویں منٹ سے لیکر 24 منٹ تک مجیب الرحمن شامی صاحب نے جو باتیں کہ میں ان سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔اور میرا بھی یہی نقطہ نظر ہے
پس تحریر:ادارے کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں:)
 

سید ذیشان

محفلین
میں پہلے بھی طالبان کے سخت خلاف تھا اب بھی ہوں لیکن میرے نزدیک ٖسب سے قیمتی چیز میرا دین ہے اور دوسری بات ملالہ کو سپورٹ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جو کچھ بھی لکھے اسے من و عن تسلیم کرلیا جائے
ٹھیک ہے میں ملالہ کو سپورٹ کرتا ہوں وہ بچوں کی تعلیم کے حق میں ہے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ میں اندھا دھند اسکی پیروی کروں نہ یہ میرا طریقہ ہے اور نہ میں ایسا کروں گا۔اگر وہ اپنی کتاب میں کچھ خرافات لکھ دے تو کیا میں اسے من و عن تسلیم کرلوں ۔ ملالہ نہ ہوئی گویا کوئی فرشتہ ہے جو کوئی غلطی کرہی نہیں سکتا
19ویں منٹ سے لیکر 24 منٹ تک مجیب الرحمن شامی صاحب نے جو باتیں کہ میں ان سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔اور میرا بھی یہی نقطہ نظر ہے
پس تحریر:ادارے کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں:)

اندھا دھند پیروی تو کسی کی نہیں کرنی چاہیے۔ اور جہاں تک من و عن تسلیم کرنے کی بات ہے تو میں تو اکثر اوقات اپنی بات من و عن تسلیم نہیں کرتا۔ ;)

قرآن و حدیث کی بات الگ ہے۔ اس کو ہر مسلمان کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر چیز میں غلطی کی گنجائش ہوتی ہے۔
رہی بات ملالہ کی تو میں نے تو ایسا نہیں کہا کہ اس کو پیرنی بنا دیں۔ لیکن اگر اس کی باتوں سے پہلے متفق تھے اور کسی شخص نے اس کے خلاف لکھ دیا تو اسلامی طریقہ تو یہی ہے کہ اس کی پہلے تحقیق کی جائے کہ اس بات میں کس حد تک سچائی ہے۔ سلمان رشدی والی بات بالکل بے بنیاد ہے۔ ملالہ نے اس ملعون کی کہیں پر تعریف نہیں کی ہے۔ ایسے غلیظ انسان کی تعریف کر کے مسلمان بھلا کیوں اپنی عاقبت خراب کرے گا؟ یہ تو ان مولویوں کی چالیں ہیں۔ جہاں کوئی بات پسند نہیں آئی تو مخالف کو یا تو قادیانی بنا دیتے ہیں یا شاتم رسول (ص)۔
 
شاید اسکی بات ہورہی ہے
One of their most heated debates in that first year was over a novel. The book was called The
Satanic Verses by Salman Rushdie, and it was a parody of the Prophet’s life set in Bombay. Muslims
widely considered it blasphemous and it provoked so much outrage that it seemed people were
talking of little else. The odd thing was no one had even noticed the publication of the book to start
with – it wasn’t actually on sale in Pakistan – but then a series of articles appeared in Urdu
newspapers by a mullah close to our intelligence service, berating the book as offensive to the
Prophet and saying it was the duty of good Muslims to protest. Soon mullahs all over Pakistan were
denouncing the book, calling for it to be banned, and angry demonstrations were held. The most
violent took place in Islamabad on 12 February 1989, when American flags were set alight in front of
the American Centre – even though Rushdie and his publishers were British. Police fired into the
crowd, and five people were killed. The anger wasn’t just in Pakistan. Two days later Ayatollah
Khomeini, the supreme leader of Iran, issued a fatwa calling for Rushdie’s assassination​
 

سید ذیشان

محفلین
شاید اسکی بات ہورہی ہے
One of their most heated debates in that first year was over a novel. The book was called The
Satanic Verses by Salman Rushdie, and it was a parody of the Prophet’s life set in Bombay. Muslims
widely considered it blasphemous and it provoked so much outrage that it seemed people were
talking of little else. The odd thing was no one had even noticed the publication of the book to start
with – it wasn’t actually on sale in Pakistan – but then a series of articles appeared in Urdu
newspapers by a mullah close to our intelligence service, berating the book as offensive to the
Prophet and saying it was the duty of good Muslims to protest. Soon mullahs all over Pakistan were
denouncing the book, calling for it to be banned, and angry demonstrations were held. The most
violent took place in Islamabad on 12 February 1989, when American flags were set alight in front of
the American Centre – even though Rushdie and his publishers were British. Police fired into the
crowd, and five people were killed. The anger wasn’t just in Pakistan. Two days later Ayatollah
Khomeini, the supreme leader of Iran, issued a fatwa calling for Rushdie’s assassination​


میرے خیال میں اعتراض اس سے اگلی بات پر کیا گیا ہے۔ جس میں ملالہ کے والد نے رشدی کی کتاب کا جواب کتاب لکھ کر دینے کی بات کی ہے۔ یہ سب تو اس واقعے کا بیک گراونڈ ہے۔ ”

اگر اس سے اگلا پیراگراف بھی آپ کے پاس ہے تو وہ بھی پوسٹ کر دیں۔
 
میرے خیال میں اعتراض اس سے اگلی بات پر کیا گیا ہے۔ جس میں ملالہ کے والد نے رشدی کی کتاب کا جواب کتاب لکھ کر دینے کی بات کی ہے۔ یہ سب تو اس واقعے کا بیک گراونڈ ہے۔ ”

اگر اس سے اگلا پیراگراف بھی آپ کے پاس ہے تو وہ بھی پوسٹ کر دیں۔
My father’s college held a heated debate in a packed room. Many students argued that the book
should be banned and burned and the fatwa upheld. My father also saw the book as offensive to Islam
but believes strongly in freedom of speech. ‘First, let’s read the book and then why not respond with
our own book,’ he suggested. He ended by asking in a thundering voice my grandfather would have
been proud of, ‘Is Islam such a weak religion that it cannot tolerate a book written against it? Not my
Islam​
 
میں نے کتاب میں چند چیزیں تلاش کرکے پڑھیں ہیں اور سیدھی سی بات ہے مجھے صاف طور پر ایک عجیب ہی رنگ نظر آیا
کم از کم میں جتنا مرضی گر جاؤں نبی اکرم کے نام کیساتھ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضرور لکھتا ہوں ۔ لیکن محترمہ کو ذرا بھی توفیق نہیں ہوئی۔
میں کچھ موضوعات پر بہت حساس ہوجاتا ہوں۔محترمہ قائداعظم سے زیادہ اپنے باپ کو ادب و احترام سے پکار رہی ہیں اور میں قائداعظم کے بارے میں بہت حساس ہوں۔
ملالہ صاحبہ اتنے حساس موضوعات پر ایسے بات کررہی ہیں جیسے وہ بہت بڑی سکالر ہیں۔بہرحال محترمہ اس کتاب کی وجہ سے بہت سوں کی نظروں سے گر چکی ہیں۔شاید میری بھی
 
Top