مقصد شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ

تاریخ حق میں خیر و شیر کے لاکھوں معرکے برپا ہوئے ہزاروں شہادتیں ہوئیں بالخصوص اسلام کا اولین دور لا تعداد عظیم شہادتوں و قربانیوں سے لبریز ہے لیکن آج تک کسی شہادت کو اس قدر ہمہ گیر تذکرہ نصیب نہیں ہوسکا جتنا واقعہ کرب وبلا کو ہوا۔ واقعہ کرب و بلا ظالم و مظلوم کے درمیان معرکہ تھا جس میں بلاشبہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی حق پر جبکہ یزید باطل پر تھا۔ واقعہ کرب و بلا ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے جسے رونما ہوئے چودہ سو سال بیت چکے ہیں لیکن شہادت امام حسین ؓکا غم آج بھی تازہ ہے۔ مگر اس واقعے کا غم منانے والے اس عظیم قربانی کے مقصد کو بھلائے بیٹھے ہیں ۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کے فلسفے کو سمجھیں۔۔۔ ہم غور و فکر کریں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے جو عظیم قربانی دی تھی، اس قربانی کی اصل روح ہمارے اندر کس حد تک پیدا یا بیدار ہوئی ہے او رہم قربانی کے حقیقی مفہوم سے کس حد تک آشنا ہوئے ہیں ۔ کیا ہم موجودہ وقت کے یزیدوں کے مقابلے میں قربانی دینے کے لئے تیار ہیں ؟ اگر ہم تیار نہیں تو سمجھ لیجیے کہ ہم شہادت امام حسین رضی اللہ سے کچھ نہیں سیکھ سکے۔۔۔کیا ہم اسلامی دستور کی پامالی پر اسی طرح مضطرب ہیں جس طرح حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ مضطرب ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔۔؟؟اگر نہیں تو جان لیجیے کہ ہم نے واقعہ کرب وبلا کو محض ایک تاریخی داستان سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ ہم نے خانوادہ نبوت کی قربانی کو بھلا دیا، اس عظیم قربانی کا ہم پہ کوئی اثر نہیں ہوا۔
امام حسین رضی اللہ عنہ نے کس بلند مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اپنی جان عزیز قربان کی۔۔؟؟؟ اور اپنے کنبے کے کئی قیمتی افراد جن میں پاکباز عورتیں اور معصوم بچے بھی شامل تھے، کی عظیم اور بے مثال قربانی بھی پیش کی ۔۔؟؟؟
کیا امامؓ حسین حکومت حاصل کرنے کے لئے اپنے کسی ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتے تھے اور اس کے لئے آپؓ نے سردھڑ کی بازی لگائی تھی؟نہیں نہیں واللہ نہیں۔ ہر وہ شخص جو امام حسین ؓکے بلند پایہ گھرانے اور ان کی اعلیٰ اخلاقی سیرت کو جانتا ہے، یہ بدگمانی نہیں کرسکتا کہ یہ حضرات اپنی ذات کے لئے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر مسلمانوں میں خونریزی کا خطرہ مول لے سکتے تھے۔ جب ذاتی غرض بھی شامل نہ تھی تو اس قربانی کی وجہ کیا تھی۔۔؟؟؟وجہ وہ تغیرات تھے جو امام حسین ؓ کی دو رس و دوربین نگاہیں اس وقت مسلمان معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح ، اس کے مزاج اور اس کے نظام میں ایک بڑے تغیر کے آثار دیکھ رہی تھیں، جسے روکنے کی جدوجہد کرنا وہ بہت ضروری سمجھتے تھے۔وہ تغیر کیا تھا، کیا لوگوں نے اپنادین بدل لیا تھا؟کیا مملکت کا قانون جس پر عدالتوں میں فیصلے ہوتے تھے، بدل دیا گیا تھا؟ نہیں ایسا بالکل بھی نہ تھا۔۔۔ نہ لوگوں نے اپنا دین بدلاتھا، نہ مملکت کا قانون بدل دیا گیاتھا۔ بلکہ وہ تغیر یہ تھا کہ امیر معاویہؓ کے بعد یزید کی ولی عہدی اور پھر اس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتداءہو رہی تھی ، وہ اسلامی ریاست کے دستور ، اس کے مزاج اور اس کے مقصد کی تبدیلی تھی۔ ایک صاحب نظر آدمی گاڑی کا رخ تبدیل ہوتے ہی یہ جان سکتا ہے کہ اب اس کا راستہ بدل رہا ہے اور جس راہ پر یہ مڑ رہی ہے ، وہ آخر کار اسے کہاں لے جائے گا۔یہی رخ کی تبدیلی تھی جسے امام عالیؓ مقام نے دیکھا اور گاڑی کو پھر سے صحیح پٹڑی پر ڈالنے کے لئے اپنی جان تک لڑا دینے کا فیصلہ کیا۔مولانا محمد علی جوہررحمتہ اللہ علیہ نے اسی لئے فرمایا تھا۔
قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
معرکہ کرب و بلا نظام ظلم وجبر کے خلاف جدوجہد کا پیغام ہے،شہادت امام حسین علیہ السلام ہمیں صبر،جرات،استقامت اور اصول پرستی کا درس دیتی ہے۔ آج امت مسلمہ کو جس کرب و بلا کا سامنا ہے اسکامقابلہ کرنے کے لئے شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقاصد کو مشعل راہ بنانے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے دین کی بقا اور نظام و نظریے کے تحفظ کے لئے تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وقت کے جابر کے سامنے کلمہ ءحق بلند کیا اور عظیم قربانی دی اسی طرح آج بھی ظلم و استبدادکے خاتمے اورحق کی بقا و سربلندی کے لئے صبر واستقلال،عزم وحوصلہ کے ساتھ دشمن کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار بننے اور اسکی چالوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔۔۔ ظلم ،جبر اوراستحصال کے نظام کے خلاف کھڑے ہوکر وقت کے یزیدوں کا انکارکرنا ہی دراصل تقلید سیرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا تقاضا ہے۔ اور آج کے حالات بھی ہم سے اسوہ حسین رضی اللہ عنہ پہ چلنے کا تقاضا کرتے ہیں۔
 
Top