مقدمہ فسانہ عجائب از رشید حسن خاں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۰

اور عبارت میں تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں۔ ان سب کو دو (۲) حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ وہ تبدیلیاں جو اشاعتِ اول (۱۲۵۹ھ – ۱۸۴۳ء) کے بعد اور نظر ثانی کردہ اشاعتِ آخر (۱۲۸۰ھ – ۱۸۶۴ء) کے درمیانی زمانے میں کی گئیں۔ ان میں لفظی تبدیلیاں بھی ہیں اور عبارتوں میں کمی بیشی بھی ہے۔ محض بہ طورِ مثال ایسی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:

(۱) ص ۸، س ۱: "پراچیوں کی گلی کی کھجور۔۔۔ ہم خرما ہم ثواب" یہ پورا ٹکڑا اشاعتِ اول (۱۲۵۹ھ) میں موجود نہیں، البتہ نسخۂ ض (۱۲۶۳ھ) میں ہے۔ یعنی پہلی بار نظرِ ثانی کے وقت اسے بڑھایا گیا ہے۔ (۲) ص ۸، س ۳ : "نورا کی دکان کی بالائی۔۔۔۔۔" اشاعتِ اول میں نورا کا نام موجود نہیں۔ اس میں جملہ یوں ہے : "بالائی جس دکان پر نظر آئی۔" ض میں نورا کا نام موجود ہے۔ یعنی یہ بھی اُسی زمانے کا اضافہ ہے۔ (۳) ص ۶، س ۵ : "چناں چہ میاں محمد اشرف۔۔۔ امیر نہ ہوں گے جیسے تھے" یہ پیرا گراف نسخۂ ل (۱۲۸۰ھ) کے سوا کسی نسخے میں نہیں ملتا۔ یعنی اسے نسخۂ ف کے سالِ اشاعت ۱۲۷۶ھ کے بعد کسی وقت بڑھایا گیا ہے۔ ص ۱۶، س ۳: "پانچ اشرفی دھنیا کہاری نے دے کر جوتا سجوایا" (ببر علی کفش ساز کی ہُنر مندی کا بیان ہو رہا ہے) یہ جملہ پہلی بار نسخۂ ک (۱۲۶۷ھ) میں ملتا ہے، اپس سے پہلے کے نسخوں میں موجود نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اضافہ نسخۂ ض (۱۲۶۳ھ) کے بعد کا ہے۔ (ک میں "ادنا کہاری دھنیا نے" ہے۔ ل میں "ادنا" موجود نہیں، "دھنیا کہاری نے " ہے) ص ۸، س ۸ : "آغا باقر کے امام باڑے سے متصل جو تنباکو کی دکان ہے۔۔۔ خاص و عام ہے۔" یہ عبارت ل کے سوا کسی نسخے میں موجود نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اِسے نسخۂ ف کی اشاعت (۱۲۷۶ھ) کے بعد بڑھایا گیا ہے۔ ص ۸، س ۱۶ : "گومتی میں غوطہ لگایا، دیہاتی پن کے دھبے دُھو گئے، آدمی ہو گئے"۔ یہ عبارت ح اور ض میں موجود نہیں، اس کا مطلب یہی ہے کہ ۱۲۶۳ھ کے بعد کسی وقت اس کا اضافہ کیا گیا ہے۔ (یہ عبارت ک اور ل میں ہے اختلافِ الفاظ کے ساتھ)۔ (۴) ص ۲۳، س ۱۶ : "فقیر حسب الطلب مہاراج ایسری پرشاد۔۔۔ عدل گستر پایا۔" یہ عبارت نسخۂ ف (۱۲۷۶ھ) میں ہے۔ ح، م، ک میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۱

موجود نہیں، یعنی اسے ذی قعدہ ۱۲۷۵ھ کے بعد بڑھایا گیا ہے جب وہ بنارس گئے تھے۔ (ضمیمۂ اختلافِ نسخ میں دیباچے کے ایسے اختلافات کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے)۔

ایسی سب تبدیلیوں کا زمانہ کسی نہ کسی حد تک بہ آسانی متعین کیا جا سکتا ہے۔ اختلافِ نسخ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ سب چھوٹی بڑی تبدیلیاں بجائے خود اہمیت رکھتی ہیں؛ لیکن معنوی طور پر ایسی بیش تر تبدیلیاں معمولی ہیں اور ایسی اہمیت نہیں رکھتیں کہ کسی بحث کا نقطۂ آغاز بن سکتیں۔

دوسری تبدیلیاں وہ ہیں جو روایتِ اول (۱۲۴۰ھ) کے بعد اور اشاعتِ اول (۱۲۵۹ھ) سے پہلے کی گئیں۔ اہم تبدیلیاں دراصل یہی ہیں۔ زمانی ترتیب کے ساتھ یہ بتانا تو بہت مشکل ہے کہ دیباچے کا کون سا حصہ کب لکھا گیا، قطعی طور پر یہ طے کرنا بھی ممکن نظر نہیں آتا کہ روایتِ اول میں دیباچہ کن اجزا پر مشتمل تھا؛ لیکن بعض حصوں کے زمانے کا تعین ضرور کیا جا سکتا ہے۔ ایسے تعینات کو چند مقاما ت پر خود سُرورؔ کی غیر ماہرانہ پیوند کاری نے بھی آسان بنا دیا ہے؛ یعنی ایک نیا بیان اس طرح شروع ہو جاتا ہے کہ پچھلی عبارت کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔ صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں نئی عبارت کو جُوڑ لگایا گیا ہے، مگر وہ عبارت میں اچھی طرح پیوست نہیں ہو پایا ہے۔ اس کی سب سے اچھی مثال وہاں ملتی ہے جہاں نصیر الدین حیدر کی مدح شامل کی گئی ہے۔ (ص ۹) کہ وہ اچانک اس طرح شروع ہو گئی ہے کہ پچھلی عبارت سے مکمل ربط پیدا نہیں ہو پایا ہے۔ ایک دوسری مثال بھی اسی بیان کے ساتھ وابستہ ہے۔ جہاں یہ مدحیہ بیان ختم ہوتا ہے، وہاں اچانک ایک نیا بیان اس جملے سے شروع ہو جاتا ہے: "اور مقلد یہاں کے، موجد سے بہتر ہوتے ہیں" (ص ۲۲)۔ یہ بیان یہاں قطعی طور پر بے جوڑ نظر آتا ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ پُرانی عبارت کے درمیان ایک نئے بیان کو داخل کیا گیا ہے، مگر وہ عبارت کا جُز نہیں بن سکا ہے، الگ معلوم ہوتا ہے۔ اس کو یوں بھی دیکھیے کہ عہد غازی الدین حیدر میں لکھی گئی عبارت میں (جو ربیع الاول ۱۲۴۳ھ میں ختم ہوتا ہے) عہدِ حکومتِ نصیر الدین حیدر (۱۲۴۳ھ سے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۲

ربیع الثانی ۱۲۵۳ھ تک) میں اضافہ کی گئی طویل عبارت کا جُوڑ لگایا ہے اور پھر اس عبارت کو اُس عبارت سے ملا دیا گیا ہے جو اس کتاب کی اشاعتِ اول (۱۲۵۹ھ) کے وقت، مطبع میر حسن کی تعریف میں لکھی گئی تھی۔ بعد میں جب مولوی محمد یعقوب انصاری نے اسے ۱۲۸۰ھ میں (سُرورؔ کی نظرِ ثانی کے بعد) چھاپا تو اس عبارت کا ایک حصہ نکال دیا اور اُس کی جگہ نیا جُز شامل کیا جس میں یعقوب انصاری کا نام تھا، یہ تبدیلی اور ترمیم ۱۲۷۸ھ یا ۱۲۷۹ھ میں عمل آئی ہو گی۔ طویل زمانی فصل توہئی؛ ان مذکورہ مقامات پر نئی عبارت کا آغاز اس طرح ہوا ہے کہ وہ پچھلی عبارت سے الگ نظر آتی ہے۔

مطبعے کا یہ بیان جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، ص ۲۵ کے وسط تک جاری رہتا ہے۔ اُس کے بعد ایک نیا پیراگراف ان لفظوں کے ساتھ شروع ہو تا ہے: "بندہ کم ترینِ تلامذہ۔۔۔" اس میں سُرورؔ نے اپنے اُستاد نوازشؔ کی تعریف کی ہے اور اس کے فوراً بعد "وجہِ تالیف" کا عنوان آتا ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ مطبعے کی تعریف کا بیان اُسی وقت لکھا گیا ہو گا جس اُس مطبعے میں اس کتاب کے چھپنے کا فیصلہ کیا گیا ہو گا۔ یہ تحریرہر صورت میں ۱۲۵۹ھ کے اختتام سے پہلے کی ہے۔ وجہِ تالیف اُس وقت لکھی ہو گی جب داستان کی تکمیل کے بعد اُس کا دیباچہ لکھا جا رہا ہو گا۔ یہ بات ہوئی ۱۱۴۰ھ کے اختتام سے پہلے کی، اور نوازس کی شاگردی اور اس کتاب پر اُن کی اصلاح کا ذکر بھی اسی سلسلے کی چیز ہے، اسے بھی بہ خیالِ غالب اُسی وقت لکھا ہو گا۔ ان سنین کو سامنے رکھ کر دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ عبارتوں کے اضافے میں زمانی ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے اور اس طرح بھی متعدد مقامات پر عبارتوں کے ایسے اضافے اُکھڑے اُکھڑے سے لگتے ہیں۔

حاصلِ گفتگو یہ ہے کہ اس کتاب کا دیباچہ (جس کا بڑا حصہ "بیانِ لکھنؤ" پر مستمل ہے) اُس طرح کا مربوط اور مسلسل دیباچہ نہیں ججیسے عموماً مصنفین اپنی کتابوں پر لکھا کرتے ہیں۔ اس کے مختلف حصے مخٰتلف زمانوں میں لکھے گئے ہیں (اور ایسے ہر اضافے کی الگ ایک وجہ ہے)۔ عبارت میں تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں (اور ایسے ہر اضافے کی الگ ایک وجہ ہے)۔ عبارت میں تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں اور یہ کام بھی مختلف اوقات میں ہوا ہے۔ ان میں سے کچھ اضافوں اور تبدیلیوں کا زمانہ متعین کیاجا سکتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۳

قطعیت کے ساتھ یہ کہنا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ جب پہلی بار (۱۲۴۰ھ میں) یہ دیباچہ لکھا گیا تھا، تو یہ کن اجزا پر مشتمل تھا اور پھر جب ۱۲۵۹ھ میں یہ کتاب پہلی بار چھپی ہے تو اس درمیانی مدت میں اس میں کیا کیا اضافے کیے گئے اور تبدیلیاں کی گئیں۔ ہاں ایسے کچھ اجزا کی نشان دہی کی جا سکتی ہے۔

یہ بات کہ دیباچہ کتاب کے ساتھ ہی لکھا گیا تھا؛ یہ شک سے بری ہے، اس کے کئی شواہد موجود ہیں۔ سب سے بڑی شہادت ہے ص ۱۰ کی وہ عبارت جو اس جملے سے شروع ہوتی ہے: "دشتِ غربت میں یہ جلسہ جو یاد آتا ہے۔۔۔" (ص ۱۰) اس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ حصہ کان پور کے زمانۂ قیام میں لکھا گیا ہے۔ اسی طرح اسی عبارت کے تسلسل میں کان پور کی برسات کا ذکر، جو اس شعر پر ختم ہوتا ہے: دیکھی ہے یہ رسم اس نگر میںجج ۔۔۔(ص ۱۱)۔ پہلے صفحے سے ص ۱۶ کی شروع کی تین سطروں تک کی عبارت بہ ظآہر مسلسل معلوم ہوتی ہے (لفظوں اور جملوں کی تبدیلیوں اور اضافوں سے قطعِ نظر) اسی صفحے کی پانچویں سطر میں "چناں چہ میاں محمد اشرف نواب معتمد الدولہ بہادر کے زمانے میں باورچی خانے کے داروغہ تھے" سے جو عبارت شروع ہوتی ہے اور جو اسی صفحے کی چودھویں سطر پر ختم ہوتی ہے، یہ بعد کا اضافہ ہے۔ اس کے بعد "اور تو اور‘ شُہدا پیر بخارا کا" سے جو عبارت شروع ہوئی ہے، وہ پچھلی عبارت "چالیس سال جہان کی دیکھ بھال کی، ایسا شہر، یہ لوگ نظر سے نہ گزرے" سے مربوط معلوم ہوتی ہے اور ص ۱۷ پر جو شعر ہے "کارِ دُنیا کسے تمام نکرد۔۔۔" وہاں تک بہ ظاہر مسلسل نظر آتی ہے۔ محض قیاساً میں کہتا ہوں جکہ شروعِ دیباچہ سے یہاں تک (عینی ص ۱۷ تک) کی عبارت (ص ۱۰ کے ایک دس سطری اضافے سے قطعِ نظر) شروع ہی میں لکھی گئی ہو گی۔ ص ۱۷ پر سطر ۱۳ سے جو عبارت شروع ہوتی ہے اور ص ۱۹ کی گیارھویں سطر تک چلی گئی ہے، یہ کئی ٹکڑوں پر مستمل ہے اور یہ سب ٹکڑے بعد کا اضافہ معلوم ہوتے ہیں، اس قوی امکان کے ساتھ کہ مختلف ٹکڑے مختلف اوقات میں لکھے گئے ہوں۔ ص ۱۹ کی بارھویں سطر سے نصیر الدین حیدر کی مدح کا بیان شروع ہوا ہے اور یہ لازماً بعد کا اضافہ ہے، جو ص ۲۲ کی بارھویں سطر پر ختم ہوتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۴

تیرھویں سطر سے مطبعوں کا بیان شروع ہوتا ہے جو دراصل اشاعتِ اول کے ناشر میر حسن رضوی کی تعریف کی خاطرلکھا گیا تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ اضافہ بھی بعد میں کیا گیا۔ یہ بیان ص ۲۵ کی ساتویں سطر پر ختم ہوتا ہے۔ آٹھویں سطر سے نوازش کا ذکر شروع ہوتا ہے "بندہ کم ترینِ تلامذہ۔۔۔" اور اس کے متعلق میرا قطعی طور پر خیال ہے کہ یہ دیباچے کی روایت اول میں شامل تھا، یعنی اُس عبارت کا جُز تھا جو ص ۱۷ کی بارھویں سطر میں ای فارسی شعر پر ختم ہوتی ہے۔ یہ بیان ص ۲۶ کی چھٹی سطر تک ہے۔ اس کے بعد "وجہِ تالیف" کا بیان شروع ہوتا ہے اور اس کے متعلق بھی میرا خیال یہی ہے کہ یہ بھی دیباچے کی روایتِ اول کا حصہ تھا (لفظی ترمیموں سے یہاں بحث نہیں)۔ یہ بیان ص ۳۰ کی پہلی سطر میں "تحریر کا بہانہ ہوا" پر کتم ہوتا ہے۔ اس کے بعد میرا من کا قضیہ شروع ہو جاتا ہے۔ میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ حصہ، جو چودہ (۱۴) سطروں پر مشتمل ہے، کب لکھا گیا ہو گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ روایتِ اول کا جُزو ہو، اور یہ ہو سکتا ہے کہ اسے اُس وقت شامل کیا گیا ہو جب نصیر الدین حیدر کی مدح کا اضافہ کیا گیا۔ (عبارت کے اس ٹکڑے میں سُرورؔ نے کئی بار تبدیلیاں کی ہیں۔ اختلافِ نسخ کے ضمیمے میں اُن کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے)۔ اس عبارت کے بعد ص ۳۰ کی سولھویں سطر سے ص ۳۱ کی آخری سطر تک جو عبارت ہے، اُس کے متعلق قطعی طور پر میری راے ہے کہ وہ اُسی وقت لکھی گئی ہو گی جب پہلی بار یہ دیباچہ لکھا گیا ہے۔

آسان کہنے کی فرمایش، میر امن، باغ و بہار

ص ۳۰ پر پہلی سطر سے یہ عبارت شروع ہوتی ہے: "اگرچہ اس ہیچ میرز کو یہ یارا نہیں کہ دعویِ اُردو زبان پر لائے۔۔۔"۔ اسی عبارت میں میر امن کے لیے یہ لکھا گیا ہے کہ اُنھوں نے "محاوروں کے ہاتھ پاؤں توڑے ہیں۔" اس سے پہلے ص ۱۷ پر دہلی کا بھرپور معاندانہ تذکرہ ہے لیکن وہاں میر امن اور باغ و بہار کا نام نہیں آیا ہے۔ اُس عبارت کے متعلق تو میرا خیال یہ ہے کہ وہ حصہ بعد کا اضافہ ہے، زیادہ امکان اس کا ہے کہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۵

نصیر الدین حیدر کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے جب اس کتاب میں اضافے کیے گئے تھے، اُسی وقت یہ عبارت بھی بڑھائی گئی ہو گی، بات کو زیادہ پُر زور اور پُر جوش بنانے کے لیے۔ لیکن زیرِ بحث عبارت جس سیاق و سباق میں ملتی ہے، اُس کے پیشِ نظر اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ یہ عبارت شروع ہی میں لکھی گئی ہو گی۔

مگر پہلے غور طلب یہ بات ہے کہ فرمایش کرنے والے نے سُرورؔ سے یہ کیوں کہا تھا کہ " "جو روز مرہ اور گفتگو ہماری تمہارے ہے، یہی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ آپ رنگینیِ عبارت کے واسطے دقت طلبی اور نکتہ چینی کریں، ہم ہر فقرے کے معنی فرنگی محل کی گلیوں میں پوچھتے پھریں" (ص ۲۸)۔ سُرورؔ نے یہ کہانی اُس وقت تو زبانی سُنائی تھی اور زبانی داستان ایسی مشکل زبان میں نہیں سُنائی جاتی کہ جس کے فقروں کے معنی پوچھنے کےلیے فرنگی محل کی گلیوں کی خاک چاننا پڑے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ اُس وقت تک سُرورؔ کی کوئی تحریر سامنے نہیں آئی تھی (فسانۂ عجائب اُن کی پہلی کتاب ہے) جو یہ خیال ہوتا کہ وہ مشکل عبارت لکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اُس وقت تک قصے کہانیوں کی جو کتابیں تھیں، اُن میں ایک نو طرزِ مرصع کو چھوڑ کر، اور کوئی کتاب ایسی نہیں تھی جو مشکل زبان میں لکھی گئی ہو۔ بل کہ صورتِ حال اس کے برعکس تھی یعنی فورٹ ولیم کالج کی چھاپی ہوئی قصے کہانیوں کی کتابیں جو سامنے آئی تھیں، اُن سب میں زبان سادہ و صاف تھی۔

سُرورؔ نے جس وقت یہ کتاب لکھی ہے (۱۲۴۰ھ میں) اُس وقت تک زبانِ دہلی کی استنادی حیثیت مسلمہ تھی۔ دوسری بات یہ تھی کہ اُس وقت تک میر امن کی کتاب باغ و بہار شہرت حاصل کر چکی تھی، وہ بھی داستانی سلسلے کی کتاب ہے۔ سُرورؔ نے اپنی کتاب میں جو زبان لکھی اور جو پیرایۂ بیان اختیار کیا، اُس زمانے کے لحاظ سے لکھنؤ میں اُسے حقیقی معنی میں مشکل نہیں کہا جا سکتا؛ اس کے باوجود محاورۂ اہلِ زبان اور روزمرۂ اہلِ زبان کا جو لطف باغ و بہار میں ہے، وہ فسانۂ عجائب میں نہیں۔ سُرورؔ کو بھی اس کا احساس تو ہو گا؛ اس کے لیے یہ واضح کرنا گویا ضروری تھا کہ یہ کتاب اپنے انداز میں باغ و بہار سے الگ ہی نہیں،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۶

برتر بھی ہے، اُس میں تو محاوروں کے ہاتھ پانو توڑے گئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مطلب یہ تھا کہ دراصل یہ کتاب زبان اور بیان کے حقیقی معیار کی آئینہ داری کرتی ہے۔

گویا سُروورؔ نے اس عبارت سے بہ یک وقت دو (۲) کام لیے۔ ایک طرف تو زبان اور بیان کے اُس بامحاورہ اور سادہ و صاف انداز کو غیر معیاری ٹھہرایا، جسے میر امن سے اور اُ کے واسطے سے دہلی سے نسبتِ خاص حاصل ہو گئی تھی اور باغ و بہار جس کا مظہر تھی (اور سب سے بڑھ کر یہ بات تھی کہ اُس کی کام یاب تقلید سُرورؔ کے بس کی بات نہیں تھی)۔ جس کتاب میں محاوروں کے ہاتھ پاںو توڑے گئے ہوں، بھلا وہ اس قابل کیسے ہو سکتی ہے کہ اُسے نشانِ امتیاز قرار دیا جائے اور اُس کے انداز کو اپنایا جائے! تقلید در کنار، معیاری اُسلوب کے سلسلے میں اُس کا تو نام بھی نہیں لیا جا سکتا۔ اس طرح دہلی، میر امن اور باغ و بہار؛ آسانی کے ساتھ سب پر خطِ نسخ کھینچ دیا گیا۔

دوسری طرف یہ بھی واضح کر دیا کہ "نیاز مند کو اس تحریر سے نمودِ نظم و نثر، جودتِ طبع کا خیال نہ تھا۔۔۔ بلکہ نظر ثانی میں جو لفظ دقت طلب، غیر مستعمل ، عربی فارسی کا مشکل تھا؛ اپنے نزدیک اُسے دور کیا اور جو کلمہ سہل ممتنع محاورے کا تھا، رہنے دیا" (ص ۳۱)۔ اصل بات وہ ہے جو آخری جملے میں کہی گئی ہے، یعنی یہ کتاب بامحاورہ زبان اور سہلِ ممتنع انداز میں لکھی گئی ہے۔ بین السُطور مطلب یہ تھا کہ اب اُردو زبان کا معیاری انداز و اسُلوب وہی ہے جو اس کتاب میں ہے۔ گویا دہلوی زبان اور محاورے کی دھوم اور باغ و بہار کی شہرت، یہ باتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں، کیوں کہ "جو گفتگو لکھنؤ میں کؤ بہ کؤ ہے، کسی نے کبھی سُنی ہو، سنائے۔ لکھی دیکھی ہو، دکھائے" (ص ۱۷) اور یہ کہ لطافتِ زبان و فصاحبِ بیان کو جو انداز لکھنؤ میں ہے، دہلی والے نہ پہلے اُس سے آشنا تھے اور نہ اب اُسے جانتے ہیں: "یہ لطافت اور فصاحت و بلاغت کبھی نہ تھی اور نہ اب تک وہا ہے" (ص ۱۷)۔

یہاں پر ایک اور سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ کیا "صاحب فرمایش" نے واقعتاً وہ کہا تھا، جسے سُرورؔ نے اُن سے منسوب کیا ہے؟ یا اس کی حیثیت محض اندازِ بیان
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۷

کی ہے۔ یعنی میر امن اور باغ و بہار کی "مصنوعی یکتائی" اور "جھوٹی شہرت" کا پردہ فاش کرنے اور اپنے انداز کو اعلا اور معیاری ثابت کرنے کے لیے ایسے "موضوعِ سخن" کی تشکیل کی گئی جس کو بنیاد بنا کر بات کہی جا سکے۔ قطعی طور پر تو اس سلسلے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ دونوں باتیں ممکن ہیں۔ صاحبِ فرمایش نے کوئی معمولی جملہ کہا ہو، اور سُرورؔ نے اُسے اپنے انداز میں ڈھال کر چمکا دیا (اور بات کا بتنگڑ بنا دیا) یا پھر اُن کے افسانہ تراش اور داستان سرا ذہن نے بات کہنے کے لیے ایک اچھا پیرایہ تراشا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے آخری بات کچھ زیادہ قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے۔

ضمنی داستانیں

اس کتاب کے پہلے مطبوعہ اڈیشن (۱۲۵۹ھ) میں جو ضمنی کہانیاں شاملِ داستان ہیں، بعد کے اڈیشینوں میں بھی وہی سب ملتی ہیں۔ یعنی ضمنی کہانیوں کی تعداد کے لحاظ سے مختلف اشاعتوں میں کمی بیشی نہیں پائی جاتی؛ البتہ مختلف نسخوں میں لفظی تبدیلیاں ملتی ہیں اور عبارتوں کی کچھ کمی بیشی بھی ہے؛ مگر یہ سب تبدیلیاں اُسی طرح کی ہیں، جیسی بہ طورِ عموم اس کتاب کے مختلف نسخوں میں پائی جاتی ہیں۔

یہ تو احوال ہے مطبوعہ نسخوں کا۔ سوال یہ ہے کہ جب پہلی بار (۱۲۴۰ھ میں) یہ کہانی لکھی گئکی تھی، تو اُس وقت روایتِ اول میں بھی یہ سب ضمنی کہانیاں موجود تھیں اور اسی ترتیب کے ساتھ؟ قطعیت کے ساتھ اس سوال کا جواب دیدنا تو میرے لیے ممکن نہیں؛ البتہ قیاس یہ کیتا ہے کہ پہلی روایت میں بھی یہ سب کہانیاں اسی طرح موجود ہوں گی۔ اس قیاس کی بنیاد اس کتاب کی اُس روایت پر ہے جسے محمود الٰہی صاحب نے فسانۂ عجائب کے بنیادی متن کے نام سے شائع کیا ہے۔ (اُن کی صراحت کے مطابق اس روایت کے خطی نسخے کے ترقیمے میں سالِ کتابت ۱۲۵۵ھ لکھا ہوا ہے)۔ اُس میں بھی یہ سب کہانیاں اسی طرح ملتی ہیں، بس اختصار اور تفصیل کا فرق ہے؛ یعنی اُس میں بھی یہ سب کہانیاں مختصر صورت میں ہیں۔ یہ قطعی دلیل تو نہیں، مگر قیاس کی حد تک
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۸

اس سے مدد ضرور مل سکتی ہے، خاص کر اُس صورت میں جب کہ کوئی اور ذریعۂ معلومات اس وقت تک سامنے نہیں آ پایا ہے۔ چوں کہ اس قیاس میں بہ ظاہر کسی طرح کا اشکال نظر نہیں آتا، اس لیے اس سے کام لینے میں قباحت نہیں سمجھی گئی۔

بندر کی تقریر

اس داستان کے ہیرو شاہ زادہ جانِ عالم کو اُس کے وزیر زادے نے ایک خاص عمل کے ذریعے بندر کے قالب میں تبدیل کر دیا تھا اور خود جانِ علام بن کر اُس کی جگہ لے لی تھی۔ جانِ عالم جو بندر کی شکل میں ہے، ایک سوداگر کے پاس تھا؛ وزیر زادے کو پتا چل گیا اور اُس نے اُس سوداگر کو بندر سمیت طلب کیا ہے۔ اُس موقعے پر رستے میں لوگوں کے سامنے بندر (یعنی جانِ عالم) ایک پُر زور اور پُر درد تقریر کرتاہے جو ص ۲۲۶ کی نویں سطر سے ص ۲۳۵ کی چوتھی سطر تک مرقوم ہے۔ معمولی اختلافاتِ عبارت کے ساتھ یہ تقریر طبعِ اول میں بھی موجود ہے۔ فسانۂ عجائب کا بنیادی متن میں بھی یہ موجود ہے، لیکن بہت مختصر صورت میں، یعنی ڈیڑھ صفحے سے بھی کچھ کم میں آ گئی ہے۔ مطلب صاف ہے کہ تقریر شروع میں، یعنی جب پہلی بار (۱۲۴۰ھ میں) اس داستان کو لکھا گیا ہے، اُس وقت اس قدر مفصل نہیں تھی اور ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس تقریر میں جن واقعات کی طرف اشارے ملتے ہیں، وہ سب ۱۲۴۰ھ کے بعد ظہور میں آئے ہیں۔ نصیر الدین حیدر کا مرنا ("تیسری ربیع الاخریٰ ۱۲۵۳ھ" (فسانہ عبرت ص ۱۷) جس کو "شب کو گور میسر نہ ہوئی، تنہا نعش پڑی رہی" (ایضاً ص ۱۷)۔ نصیر الدین حیدر کی موت کے بعد کا جو حال فسانۂ عبر میں سُرورؔ نے لکھا ہے (یہ نو (۹) مطبوعہ صفحوں پر مشتمل ہے) اُسے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہو گا کہ بندر کی تقریر کے بعض اجزا یہاں لفظی صورت بدل کر نمودار ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد محمد علی شاہ (متوفی ربیع الثانی ۱۲۵۸ھ) کے جنازے کا جو حال لکھا ہے (فسانۂ عبرت ص ۵۵ سے ص ۵۷ تک) اُس میں بہت سے جملے اور عبارت کے ٹکڑے تقریباً وہی ہیں جو بندر کی تقریر کا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۹

حصہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ تقریر کے ایسے حصے اس کے بعد ہی لکھے گئے ہوں گے۔ اس طرح بندر کی تقریر کے بیش تر اجزا ۱۲۴۳ھ سے لے کر ۱۲۵۸ھ کے ربعِ اول کی مدت میں لکھے گئے ہوں گے۔

میرے عزیز دوست اطہر پرویز مرحوم نے اپنے مرتبہ فسانۂ عجائب کے مقدمے میں اس ذیل میں لکھا ہے کہ "بندر کی تقریر کا پورا حصہ غور سے پڑھنے کے بعد "احوالِ محمد علی شاہ" کا وہ حصہ پڑھا جائے جہاں محمد علی شاہ کے جنازے کے جلوس کا ذکر ہے۔ یہ بیان تقریباً اُسی لب و لہجے میں ہے جس میں سُرورؔ نے بندر کی تقریر لکھی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فسانۂ عجائب سے منقول نہ ہو گا، بلکہ یہاں فسانۂ عبرت میں لکھنے کے بعد سرورؔ کو اپنے فلسفیانہ خیالات کو پیش کرنے کا خیال آیا کہ اسے فسانۂ عجائب جیسی شہرہ آفاق کتاب میں استعمال کیا جائے۔" (ص ۳۵)۔

فسانۂ عبرت کے مختلف اجزا بھی مختلف زمانوں کے لکھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں، مثلاً شرف الدولہ کی جیسی مدح اس میں کی گئی ہے (ص ۵۱ سے ص ۵۴ تک) اُس کو پڑھ کر تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ اُسی زمانے میں لکھی گئی ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دنوں کتابوں کے بہت سے اجزا کے متعلق قطیعت کے ساتھ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کون سا بیان کب لکھا گیا۔ بہ ہر حا، اس تقریر کے ذیل میں مجھے یہ کہنا ہے کہ یہ پورا بیان اس کتاب کی اشاعتِ اول (۱۲۵۹ھ) میں شامل ہے، اور فسانۂ عبرت اس کے بعد کی تصنیف ہے، جس میں ۱۲۷۲ھ تک کا احوال موجود (۱) ہے (ص ۱۱۰)۔ اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ابتدا میں سُرورؔ
----------------------------------------------------------
(۱) "شگوفۂ محبت کے سببِ تالیف کے ذیل میں سرورؔ لکھتے ہیں :

"فسانۂ عجائب کہ قصۂ جانِ عالم ہے۔۔۔ اور تحریرِ ثانی۔۔۔ سرورِ سلطانی ہے"

اس بیان سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سرورؔ نے فسانۂ عجائب کے بعد سرورِ سلطانی لکھی اور اس کتاب کے دیباچے سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۲۶۴ھ میں واجد علی شاہ کے حکم سے سرورؔ نے شمشیر خانی کا فارسی سے اُردو میں ترجمہ کیا۔۔۔ اپنی کتاب کا نام "سرورِ سلطانی" رکھاؔ (مسعود حسن رضوی، مقدمۂ فسانۂ عبرت، ص ۵)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۰

نے اس تقریر کو مختصراً لکھا تھا؛ نصیر الدین حیدر کی موت نے اُن کو پریشاں حال کر دیا (اُنھوں نے ہر جگہ اس بادشاہ کی تعریف کی ہے) یوں اُنہیں بعد کے حالات سے سخت تکلیف پہنچی اور اُنھوں نے اُس تقریر میں بے ثباتیِ دنیا اور بے وفائیِ اربابِ دنیا کے ایسے اجزا شامل کر دیے جس سے اُن کے دل کی کچھ بھڑاس نکل سکتی تھی۔ پھر محمد علی شاہ کے زمانے میں سُرورؔ کے دن پھرے تھے، مگر اُن کے مرتے ہی، نئے بادشاہ امجد علی شاہ کے زمانے میں وہ بے کاری کا شکار ہوئے اور پریشانیوں میں بے طرح مبتلا رہے، یوں امجد علی شاہ سے وہ بہت ناخوش تھے۔ فسانۂ عبرت میں جہاں اُن کا حال لکھا ہے، وہاں اُن کے عہد کو تاریک ترین دور بتایا ہے اور ہر طرح کی خرابیوں کی تفصیل لکھی ہے۔ اس روشنی میں دیکھا جائے تو نظر آئے گا کہ محمد علی شاہ کے جنازے کا احوال اُنھوں نے ابتداے عہدِ امجد علی شاہ میں لکھا ہو گا اور یوں اس بیان میں نا اہلیِ اربابِ دنیا کا پُرشور تذکرہ ملتا ہے۔ جب اُنھوں نے فسانۂ عبر لکھی، تو اُس میں ان دونوں بادشاہوں کے حالات کے ذیل میں کچھ اجزر اُس تقریر کے بھی شامل کر لیے۔

اس کی تائید کا ایک اور قرینہ بھی موجود ہے۔ فسانۂ عجائب کی اشاعتِ اول کے آخر میں شرف الدولہ کی مدح میں ایک طویل مدحیہ نثر شامل ہے (نو نظر ثانی میں بعد کی اشاعتوں سے نکال (۱) دی گئی)۔ فسانۂ عبرت میں بھی شرف الدولہ کی تعریف میں بہت کچھ لکھا ہے (ص ۵۱ سے ص ۵۴ تک) یہاں بھی فسانۂ عجائب اور فسانۂ عبرت دونوں میں
------------------------------------------------------
یہ کتاب بہ قولِ سُرورؔ دو (۲) مہینے کے عرصے میں "تیار ہو گئی تھی۔ شمشیر خانی، فردوسیؔ کے شاہ نامے کا خلاصہ ہے۔ اس کا مولف توکل بیگ حُسینی عہدِ شاہ جہاں میں تھا (رجب علی بیگ سرور، ص ۲۶۱)۔

فسانۂ عجائب ۱۲۴۰ھ میں مکمل ہوا اور اُ س کے بعد دوسری تصنیف سرورِ سلطانی ۱۲۶۴ھ میں تکمیل کو پہنچی۔ فسانۂ عبرت تو گہت بعد کی تصنیف ہے (اور یہ چھپی بھی ہے اُن کے مرنے کے بعد)۔

(۱) یہ نثر بعض اور نسخوں میں بھی موجود ہے۔ مطبوعہ نسخوں کے تعارف کے ذیل میں اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۱

شامل اس مدحیہ نظر میں بہت سے اجزا مشترک ہیں۔ سُرورؔ کو شرف الدولہ کی وزارت کے زمانے میں ملازمت ملی تھی اور یوں اُن کی پریشانیوں کا خاتمہ ہوا تھا۔ اُسی زمانے میں اُن کی کتاب کی شہرت بھی بہت پھیلی اور اُسی زمانے میں اُس کے چھپنے کے انتظامات شروع ہوئے۔ ان وجوہ سے بہ ظاہر یہی مرجح نظرآتا ہے کہ شرف الدولہ کی مدح پہلے پہل اُنھوں نے اپنی پہلی تصنیف میں لکھی ہو گی۔ اُس سے پہلے تو اُنھوں نے کوئی کتاب لکھی ہی نہیں تھی۔ جب یہ واضح ہو جائے کہ شرف الدولہ کی مدح اُنھوں نے پہلے فسانۂ عجائب میں شامل کی تھی، اور اُس مدحیہ نثر کے بہت سے اجزا فسانۂ عبرت کے مدحیہ بیان میں بھی پائے جائیں؛ تو اس صورت میں یہی کہا جائے گا کہ فسانۂ عجائب کی نثر کے بعض اجزا فسانۂ عبر کے نثری بیان میں شامل کیے گئے۔ اسی قیاس پر مبنی میرا خیال یہ ہے کہ بندر کی تقریر کے جو اجزا فسانۂ عبرت میں بھی ہیں، وہ فسانہ ٔ عجائب سے منقول ہیں، یا یوں کہیے کہ اُس کا نقشِ ثانی ہیں۔

زبان و بیان

اس عنوان کے تحت کچھ کہنے سے پہلے، یہ لکھنا ضروری ہے کہ فسانۂ عجائب، سُرورؔ کی پہلی تصنیف ہے (اُن کی دوسری کتاب سرورِ سلطانی اس کے تقریباً ۲۴ سال بعد ۱۲۶۴ھ میں معرضِ وجود میں آئی تھی) یعنی یہ نقشِ اول ہے۔ اگر زبان و بیان کے لحاظ سے اس میں خامیاں اور خرابیاں ہوں (اور وہ ہیں) تو اس کی ایک بڑی وجہ "ناتجربے کاری" یا "کم مشقی" کو بھی سمجھنا چاہیے۔ یہ واقعہ ہے کہ اس کتاب میں زبان اور بیان کے لحاظ سے بہت سی خامیاں اور خرابیاں ہیں اور بعض مقامات پر تو کچھ ایسی صورتِ حال ہے کہ اُسے "پھوہڑ پن" کے سوا اور کسی چیز سے تعبیر کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ یہ باتیں خاص کر یوں محلِ نظر معلوم ہوتی ہیں کہ سُرورؔ کے اصل حیثیت ایک صاحب طرز مصنف کی ہے اور اس کتاب کی بھی اصل قدر و قیمت اس کے اسلوب میں پنہاں ہے۔ لیکن اس سلسلے میں کچھ کہنے سے پہلے ایک اور پہلو پر نظر ڈال لینا بہتر ہو گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۲

معلوم نہیں یہ خیال ذہنوں میں کیسے سما گیا اور دلوں میں بیٹھ گیا ہے کہ فسانۂ عجائب کی نثر بہت مشکل ہے۔ مشکل نثر کا معیار اگر نوطرزِ مرصع کو مانا جائے، تو پھر اس کتاب کو تو آسان تر کہا جائے گا۔ مشکل نظر کی مثال میں اکثر اس کتاب کے وہ مقامات پیش کیے جاتے ہیں جہاں سے یہ کتاب شروع ہوتی ہے، یا ضمنی کہانیاں یا نئے بیانات شروع ہوتے ہیں یعنی تمہیدی مقامات؛ اور یہ بڑی ناانصافی ہے۔ یہ بات ہمارے ذہن میں رہنا چاہیے کہ جس زمانے میں یہ کتاب لکھی گئی تھی، اُس زمانے میں قصوں کی تمہید بہت پُرتکلف انداز کی ہوا کرتی تھی۔ طلسمِ ہوش رُبا کی زبان کی کون مشکل کہے گا، لیکن تمہیدی مقامات اُس میں بھی پُرتکلف اندازِ بیان سے خالی نہیں۔

تمہیدی حصوں سے قطع نظر کو روا رکھا جائے، تو پھر یہ معلوم ہو گا کہ اس کتاب میں زباناور بیان کے بہ طورِ عموم دو (۲) رنگ پائے جاتے ہیں۔ کہیں تو ایسا صاف شفاف بیان ہے کہ آج کے اوسط درجے کی استعداد رکھنے والے قاری کو بھی اُس کے پڑھنے میں دقت نہیں ہو گی۔ خاص کر جہاں مکالمات ہیں، وہ مقامات تو بیان کی شگفتگی اور زبان کی سلاست کے لحاظ سے کسی طرح کم ربتہ نہیں۔ دوسرا انداز وہ ہے جہاں علمیت کا رنگ ذرا گہرا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے مقامات پر بیان کی انداز وہی ہے جو متاخر ہندستانی فارسی نثر نگاروں کے اثر سے رواج پا گیا تھا۔ ایسے مقامات اگر آج ہمیں کچھ مشکل نظر آتے ہیں، تو اس کی اصل وجہ یہ نہیں کہ یہ بجاے خود مشکل ہیں؛ اس کی اصل وجہ ہے ہمارے دور کی عمومی کم استعدادی، فارسی زبان سے ناواقفیت اور کلاسیکی اسالیب سے کم آشنائی۔ مصنف جس معاشرے کا فرد تھا، اُس معاشرے کے ان لوگوں کےلیے جو لکھنے پڑھنے سے تعلقِ خاطر رکھتے تھے، یہ طرزِ ادا غیر معمولی نہیں تھا۔ مصنف نے اپنے زمانے کو پیشِ نظر رکھ کر یہ کتاب لکھی تھی، اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

یہ بات بھی اسی سلسلے میں کہنے کی ہے کہ سُرورؔ نے جہاں شادی بیاہ کا یا شاہی جلوس کا احوال لکھا ہے، یا ایسے ہی اور بیانات لکھے ہیں جن میں مختلف اشیا کے نام آتے ہیں؛ تو ایسے مقامات بھی آج ہم کو مشکل نظر آتے ہیں۔ یہاں بھی اصل وجہ یہ نہیں ہوتی کہ بیان میں کسی طرح کی پیچیدگی ہے یا زبان مغلق ہے؛ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ آج ہم اُن بہت سی اشیا سے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۳

واقف نہیں جن کے نام لکھے گئے ہیں اور جن سے متعلق تفصیلات لکھی گئی ہیں۔ یعنی یہ بھی حقیقی مشکل نہیں، اس میں ہماری ناواقفیت کا عمل دخل ہے۔

یہ تو بالکل درست ہے کہ زبان کے لحاظ سے باغ و بہار کو اگر معیار مان لیا جائے تو پھر یہ کتاب اُس معیار پر پوری نہیں اُترے گی؛ لیکن یہ عمل بجائے خود سراسر مصنوعی ہو گا۔ دو (۲) بالکل مختلف چیزوں کو مقابل رکھ کر، ایک کو برتر بتانا قرینِ انصاف نہیں ہو سکتا۔ ہم کو یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح باغ و بہار نے ایک اسلوب کی تشکیل کی تھی، اُسی طرح فسانۂ عجائب نے بھی ایک مختلف اسلوب کی تشکیل کی تھی۔ اپنے اپنے دائرے میں یہ دونوں اسالیب مستقل حیثیت کے مالک ہیں اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سُرورؔ کے زمانے میں لکھنؤ کے اُس معاشرے میں معیاری حیثیت اُسی اسلوب کو حاصل تھی جسے سُرورؔ نے اختیار کیا۔ یہاں محض ضمنی طور پر عرض کروں کہ سُرورؔ نے جن مقامات پر شاہی جلوس کا احوال لکھا ہے، یا شادی بیاہ کا ذکر کیا ہے، اور اُس کے ذیل میں رسموں اور ٹوٹکوں کا بیان آ گیا ہے، یا جیسے ابتداے داستان میں جوتش کی اصطلاحوں کا مفصل تذکرہ آیا ہے جوتشیوں ہی کی زبان میں، یا مثلاً چڑیمار اور اُس کی بیوی کی گفتگو لکھی ہے، جس میں اس پیشے کے بہت سے اصطلاحی لفظ بھی آ گئے ہیں، یا جہاں کوہِ مطلب برآر کے جوگی کا بیان کیا ہے؛ تو ایسے سارے مقامات پر دو تین باتیں بہ طورِ خاص توجہ طلب ہیں : مثلاً جہاں شاہی جلوس کا بیان ہے، تو وہاں مختلف پوشاکوں، ہتھیاروں، عہدے داروں کے اس قدر نام آئے ہیں اور ان سے متعلق اس قدر تفصیلات معرضِ بیان میں آئی ہیں کہ پوری تصویر آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے واقعتاً شاہی جلوس دیکھے تھے اور اُن کی تفصیلات کے عکس اس کی آنکھوں میں سمائے ہوئے تھے۔ ان تفصیلات اور ان کے داستانی بیان میں مرقع نگاری کی شان پیدا ہو گئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جلوس کا وسیع و عریض مرقع وجود میں آ جاتا ہے، ہم جلوس کو گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں؛ یہ معمولی کمال نہیں۔ پھر یہ بات کہ ایسے مقامات پر ہر جگہ زبان صاف اور بیان شفاف ہے۔ اغلاق اور اشکال کی پرچھائیں بھی نہیں پڑی ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۴

آج ہماری ناواقفیت، بل کہ آسان پسندی اور اس سے بھی بڑھ کر وہ جو کم فرصتی سے زیادہ عجلت پسندی کا رجحان ہمارے ذہنوں میں سما گیا ہے؛ یہ سب مل کر ہمیں اس مغالطے میں مبتلا کر سکتے ہیں کہ یہ تو بہت مشکل بیان ہے۔ عورتوں کے مکالمے تو ایسی شفاف زبان میں لکھے گئے ہیں کہ نواب مرزا شوقؔ کی مثنوی کے کچھ شعر یاد آ جاتےہیں۔ جوگی کی کُٹیا کا حال اور "بیانِ لکھنؤ" میں لکھنؤ کے فن کاروں اور پیشہ وروں کا بیان؛ ایسے سارے مقامات پر اندازِ بیان میں علمیت کا رنگ تو ہے، مگر گہرا نہیں، ایسا نہیں کہ اوسط درجے کی استعداد والا اُن کو نہ سمجھ سکے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مشکل مقامات اس میں ہیں ہی نہیں، ہیں اور ضرور ہیں؛ لیکن اُن کی تعداد زیادہ نہیں۔

تیسری خاص بات جو ہمہ وقت نظر میں رکھنے کی ہے، وہ یہ ہے کہ سُرورؔ نے داستان لکھی تھی، ناول نہیں لکھا تھا؛ اور وہ داستان، فورٹ ولیم کالج میں گل کرسٹ کے جدید ذہن اور نئے اندازِ نظر کے بنائے ہوئے خاکے کے تحت نہیں لکھی گئی تھی۔ یہ داستان لکھنؤ کے اُس معاشرے کے لیے لکھی گئی تھی جہاں داستان سرائی کی روایت کو پسندیدگی کی سند حاصل ہو رہی تھی اور جہاں مرصع سازی کو کمالِ فن سمجھا جانے لگا تھا۔ یہ جو مثلاً سردی کے بیان میں بہت سی تشبیہیں آ گئی ہیں یا استعارے آ گئے ہیں، یا مثلاً کھانوں وغیرہ کے بیان میں بہت سے نام پے در پے آتے ہی چلے جاتے ہیں تو یہ داستان سرائی کا خاص انداز ہے۔ اس کو سمجھنے بغیر ایسے مقامات کے ساتھ انصاف کیا ہی نہیں جا سکتا۔

یہاں چوں کہ لسانی تجزیہ مقصود نہیں، اس لیے انہی اشاروں پر اکتفا کرتا ہوں۔ ضرورت اس کی ہے کہ ایک مستقل موضوع کے طور پو کرئی واقف کار اس کتاب کی نثر کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لے اور "عیب و ہُنر" دونوں کی تفصیلات مرتب کرے۔ (میں یہ بات اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس میں اُس "ہُنر" کا پلہ بھاری نکلے گا جو (اس زمانے میں نہیں) اُس زمانے میں کمال کی نشانی تھا اور جسے قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا اور جس کے تجزیے سے آج ہم میں سے بہت سے لوگ شاید صحیح طور پر عہدہ برآ بھی نہ ہو سکیں)۔ یہ ضمنی گفتگو ختم ہونے کو آئی؛ لیکن اسے ختم کرنے سے پہلے، اسی سلسلے میں عزیز احمد کا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۵

ایک اقتباس ضرور پیش کرنا چاہتا ہوں :

"طلسماتی داستانوں کے دور میں اور اس کی پیداوار کے طور پر کم سے کم ایک کتاب ایسی ظہور میں آئی جو ناول سے بہت قریب ہے، یہ مرزا رجب علی بیگ سرورؔ کا فسانۂ عجائب ہے۔ تین خصوصتیں اسے طلسمِ ہوش رُبا اور بوستانِ خیال جیسی داستانوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ پہلی تو اس کا اختصار۔۔۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ گرد و پیش کے ماحول سے بھی متاثر ہے۔۔۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ مصنف قصے سے زیادہ زبان و اسلوب پر توجہ دیتا ہے اور زبان کی داد چاہتا ہے۔ یہ خصوصیت بہت ہی اہم ہے کہ مصنف نے اسلوب کو کتاب کی دل چسپی کی جان بنانا چاہا ہے اور اس طرح رتن ناتھ سرشارؔ کے لیے راستہ صاف کر دیا ہے۔ سرشار کے یہاں بھی ۔۔۔ اصل دل چسپی قصے سے زیادہ زبان میں، واقعات سے زیادہ بیان میں اور عمل سے زیادہ مکالمے میں ہے۔" (ترقی پسند ادب، بہ حوالۂ رجب علی بیگ سرور، ص ۲۳۱)

فسانۂ عجائب کی نثر میں بہت سے مقامات پر کچا پن محسوس ہوتا ہے اور لفظی رعایتوں کی غیر ضروری پابندی نے بے ڈھنگا پن بھی پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے، اس میں اُن کی "کم مشقی" کا دخل کچھ زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ اُن کی دوسری کتاب ترجمۂ الف لیلہ کو دیکھیے، جس کا نام شبستانِ سرور ہے؛ اُس میں ایسی خامیاں اور اس طرح کا کچا پن نہ ہونے کے برابر ہے۔

رعایتِ لفظی سرورؔ کی نثر کا عام جوہر ہے اور قافیہ بند جملے لکھنا اُن کا خاص انداز ہے۔ اس میں بجائے خود کچھ ایسی خرابی نہ تھی؛ مگر لفظی رعایت کے شوقِ بے حد اور قافیہ بندی کے شوقِ بے نہایت نے کچھ مقامات پر عبارت میں خرابی بھی پیدا کر دی ہے۔ داستانی زنداز یوں ہی تفصیل بل کہ طوالت کا طلب گار رہا ہے۔ داستانمیں ایجاز اور اختصار کو دخل حاصل نہیں ہوتا، اُس کے بیان کا بڑا حصہ بے مزہ بن کر رہ جائے اگر اُس میں مختلف مناظر، اشیا، جذبات وغیرہ کے سلسلے میں تفصیل نگاری اور آرایش پسندی سے کام نہ لیا جائے لیکن سرورؔ کے یہاں تفصیل نگاری کے ذیل میں بعض اوقات لفظی رعایت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۶

کے ایسے بھدے ٹکڑے بھی آ جاتے ہیں جو عبارت کو بے کیف بنا دیتے ہیں۔ مثالوں کی تو یہاں گنجایش کم سے کم ہے، آپ صرف بہ طورِ مثال اُس حصے کو دیکھیے جہاں جانِ عالم انجمن آرا کو ساتھ لے کر بادشاہ سے رخصت لیتا ہے اور عازمِ وطن ہوتا ہے (ص ۱۷۸ سے ص ۱۸۵س تیک)۔ رعایتِ لفظی اور قافیہ بندی کے شوقِ فضول نے کئی جگہ بدمزگی پیدا کر دی ہے۔ صرف ایک مثال: "پھر شکار کا سامان میر شکار لائے۔۔۔ چیتے، جو دشمنوں کا بُرا چیتے، بلکہ لہو پیتے۔ سیاہ گوش در آغوش۔ ہرن لڑنے والے، خانہ زاد، گھر کے پالے" (ص ۱۸۱) ایسے کئی جملے اس بیان میں مل سکتے ہیں (اس کے باوجود، اس بیان میں شاہی ساز و سامان کا جیسا بیان ہے، مختلف شاہی کارخانوں کا جیسا احوال سامنے آتا ہے اور سامانِ سفر کا جس طرح بیان ہوا ہے؛ یہ سب بھی اپنی جگہ پر حیرت آفریں اور ہوش رُبا ہیں۔ شاہی سامان کو تو کیا ذکر، معمولی اشیا اور افراد کا تذکرہ آج ہمارے لیے معلومات بخش بھی ہے اور حیرت آفرین بھی۔ مثلاً سقوں کا بیان: "اِن کے بعد ہزارہا سقا، خواجہ خضر کا دم بھرتا، چھڑکاو کرتا۔ کمر میں کھاروے کی لُنگیاں، شانوں پر بادلے کی جھنڈیاں، مشکوں میں بید مشک بھرا، دہانے میں ہزارے کا فوارہ چڑھا۔۔۔")

یا مثلاً سردی کے بیان کو دیکھیے، جو ص ۳۲۶ سے ص ۳۲۸ تک پھیلا ہوا ہے۔ اس بیان کے متعدد ٹکڑوں کو غیر ضروری اور غیر متناسب لفظی رعایتوں اور قافیہ بندی کے ہوکے نے بے مزہ بل کہ بدمزہ بنا دیا ہے۔ صرف دو (۲) جملے بہ طورِ نمونہ کافی ہوں گے: "اشکِ شمعِ انجمن لگن تک گرتے گرتے اُولا تھا، پروانوں نے پھرتے پھرتے ٹٹولا تھا"۔ "بندوق میں لات نہ تھی، چانپ کے پتھروں میں آگ نہ تھی، تُوڑا ہر ایک گُل تھا، تُوتے کی جگہ شورِ بلبل تھا۔"

ایسے ہی غیر ضروری جملوں نے اس بیان کے کچھ حصو ں کو (اور ایسے ہی بعض دوسرے بیانات کے اجزا کو) طوالت بخشی ہے اور بے کیفی سے گراں بار کیا ہے۔ (یہ سب برحق، مگر اِسی سردی کے بیان میں ایسے جمل؛ے بھی ہیں: "اُوس برگ و بار کی، صنعت پروردگار
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۷

کی دکھاتی تھی، مرصع کاری یک لخت نظر آتی تھی۔ دانہ ہاے اشکِ شبنم، خواہ بڑے یا رِیزے تھے، ہر شجر کے برگ و بار میں الماس اور موتیوں کے سبک آویزے تھے۔" ایسے ترشے ہوئے مرکب جملوں اور مرصع اجزا کی بھی اس کتاب میں کمی نہیں)۔ یا مثلاً توشۂ سفر کی افراط کے بیان میں لکھتے ہیں: "کھجوریں جو بٹ نہ سکیں، راہ میں پھینک دیں، وہ اُگیں؛ اُس کے درخت آگے کم تھے، اُس دن سے جنگل ہو گئے" (ص ۱۸۴)۔ آخری ٹکڑے خوش ذوقی پر گراں گزرتے ہیں؛ مگر اسی بیان میں، اسی صفحے پر، اس سے پہلے یہ ٹکڑا بھی ہے: "ان کے بعد چے ساتھ سے پالکی، نالکی، چنڈول، مُحافہ امیر زادیوں کا۔ اور انیسوں جلیسوں کی تین چار سے کھڑ کھڑیا اور فنس، قیمت کا بڑھیا۔ آتو اور محل داروں کے چو پہلے سے پہلے مُغلانیوں کی منجولیاں۔ خاص خواصو کے پیچے پیش خدمتوں کا دو تین سو میانہ۔ ہزار نو سے رتھ اکبر آبادی، دو بُرجے، سایبان دار، نئے مغرق پردے چمکتے، ناگوری بیل، جو ثورِ فلک نے نہ دیکھے تھے، جُتے، مخمل کی جھولیں پڑیں؛ لونڈیاں، باندیاں، انا، چھو چھو، چٹھی نویس، باری دارنیاں اُن پر چڑھیں۔"

یہاں خواتین کے مرتبے اور درجے کے لحاظ سے سواریوں کی تفصیل اپنی جگہ پر نظر طلب اور تحسین طلب ہے۔ ہمیں ان خوبیوں کا بھی اعتراف کرنا چاہیے؛ لیکن اس پیرایۂ بیان سے لطف اندوز ہونے کے لیے کلاسکی ادب سے شناسائی اور تربیت یافتہ ذوق کی بھی ضرورت ہے اور اُس معاشرے کے آداب و اطوار سے واقفیت بھی ضروری ہے جہاں اس نثر نے فروغ پا کر، معیار اور مثال کی حیثیت حاصل کر لی تھی اور جہاں اس کتاب کی تصنیف پر تقریباً ساٹھ سال گزرنے کے بعد طلسمِ ہوش رُبا کی داغ بیل پڑی تھی، جس میں قافیہ بندی، مرصع سازی اور آرایش پسندی کی کمی نہیں۔ فرق بس یہ ہے کہ وہ نقشِ ثانی ہے، اور یہ بھی کہ ہوش رُبا کے لکھنے والے سرور سے بہتر نثر نگار تھے۔

اس کتاب میں ایسے لفظ بھی ملیں گے جن کو بعد میں متروک قرار دیا گیا۔ جیسے "زور" بہ معنیِ عجیب، بہت: "ہوا کا زُور زُور رنگ دکھاتا تھا" (ص ۷۴)۔ "زُور چیز ہو" (ص ۸۲)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۸

یعنی خوب آدمی ہو، عجیب آدمی ہو۔ یا جیسے جمع کی یہ صورت: "ایک طرف مغلانیاں غم کی ماریاں (۱)" (ص ۲۴۷) "رنگتیں نرالیاں" (ص ۹) "ہزار پان سے کہارنیا، پیاری پیاریاں" (ص ۱۸۲) "نشۂ حُسن میں متوالیاں" (ص ۱۸۳) "رندی" عورت کے معنی میں : "سیکڑوں مرد و رنڈی بے کہے ہمراہ ہوئے" (ص ۱۸۴)۔ یا مثلاً "نے" کا استعمال، صرف ایک مثال : "شہ زادۂ عالی تبار نے آب و طعام دیکھ کر رُو دیا" (ص ۲۶۸)۔ ترکیبِ مُہند کی مثالیں بھی ملتی ہیں، جیسے: "اسے زمرۂ کنیزوں میں سرفراز کرو" (ص ۱۹۰) "مرد و رنڈی" (ص ۱۸۴)۔

متعدد لفظ جس مفہوم میں سرورؔ نے استعمال کیے ہیں، عموماً اُن کو اُس طرح استعمال نہیں کیا جاتا، مثلاً "سانحہ" عام واقعے کے معنی میں (ص ۲۸۸) یا جیسے چند عرصہ : "چند عرصے میں۔۔۔ وہ ہاتھ پاؤں نکالے" (ص ۳۶)، "چند عرصے میں پھر اُسی دشتِ ادبار۔۔۔ وارد ہوا" (ص۲۴۳)۔ "خبرداروں نے اس حال کا ۔۔۔ چرچا مچایا" (ص ۱۷۶) "چرچا مچانا" میں نے کہیں اور نہیں دیکھا۔ "نکتہ چینی" بہ معنیِ نکتہ آفرینی: "آپ رنگینیِ عبارت کے واسطے دقت طلبی اور نکتہ چینی کریں" (ص ۲۸)۔ "ایک دھماکہ پیدا ہوا" (ص ۱۶۳) "دھماکہ پیدا ہونا" میں نے کسی دوسرے تحریر میں نہیں دیکھا۔ (ایسی اور بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں)۔ "اس عرصے میں شہ زادہ وہ وادیِ پُر خطر، میدانِ سراسر ضرر کو طے کر" (ص ۱۲۰)۔ اس جملے میں "وہ" اور "کو" کا اجتماع نظر طلب ہے۔ یا مثلاً: "چند عرصے میں پھر اُسی دشتِ ادبار رو صحراے خار خار، جہاں حوض میں کود پڑا تھا، واد ہوا" (ص ۲۴۳)۔ جمعُ الجمع، جیسے : اُمورات۔ کلمۂ جمع کے ساتھ واحد فعل، جیسے: "سو سو جہاز۔۔۔ جاتا تھا۔" اسم کی رعایت سے علامتِ مصدر (نا) کو بدل دینا، جیسے "آفت۔۔۔ لانی نہ تھی" (وغیرہَ
---------------------------------------------------------
(۱) جانصابؔ کے دیوان (مطبعِ حیدری لکھنؤ) میں ص ۸۲ پر ایک غزل ہے، جس کا مطلع یہ ہے :

جو جو نہیں اُٹھانی تھیں، میں اُٹھالیاں
بس بس زبان روکو، نہ دو مجھ کو گالیاں

اُس میں "نکالیاں" اور گالیاں" (گالی کی جمع) بھی ہیں۔ مقطعے میں "کھالیاں" بھی آیا ہے:

اے جانؔ! تجھ سے کیا کہوں، کروا کے رات کو
جھوٹی ہزار قسمیں نگوڑی نے کھالیاں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۹

تذکیر و تانیث کے لحاظ سے بھی متعدد لفظ قابلِ توجہ ہیں، مثلاً "گذر گاہ" کو مذکر بھی لکھا ہے (ص ۱۱) اور مونث بھی (ص ۲۲۵)۔ اسی طرح "طرز" مذکر بھی ملتا ہے اور مونث بھی (ص ۱۲، ص ۹۱)۔ "خلش" کو بہ تذکیر باندھا ہے (ص ۱۷۱) اور "کشمیر" کو بہ تانیث (ص ۳۲۶)۔ "محلسرا" اور "پند" دونوں مذکر ملتے ہیں (ص ۲۰۲، ص ۱۸۵)۔ "زین" کو بہ تذکیر لکھا ہے "کسی پر جڑاؤ زین باندھا تھا" (ص ۱۸۰)۔ تفصیل کےلیے دیکھیے ضمیمۂ الفاظ اور طریقِ استعمال۔

متعدد مقامات پر بیان میں ایسا بھدا پن ہے کہ اُسے بے اختیار "پھوہڑ پن" کہنے کو جی چاہتا ہے۔ مثلاً شاہ زادہ جانِ عالم اپنے ارادے کی پختگی اور کردار کی بلندی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے: "للہ الحمد کو شیشۂ عصمت سنگ ہوا و ہوس سے سالم رہا" (ص ۱۱۷)۔ کسی مرد کے لیے یہ کہنا کہ اُس کا شیشۂ عصمت محفوظ رہا، عجیب تر بات ہے۔ "وزیر زادے کو باوجودِ خود فراموشی یاد فرمایا۔ لڑکپن سے تا زمانۂ عشقِ انجمن آرا، اُس سے بھی اُلفت رکھتا تھا" (ص ۵۱)۔ "تا زمانۂ عشقِ انجمن آرا" کی تحدید سے اس بیان میں امرد پرستانہ طرزِ گفتار کا پہلو نمایاں ہو گیا ہے۔ مطبعِ حسنی کے مالک میر حسن رضوی کی تعریف میں لکھا تھا: "ایک ہمارے عنایت فرما ہیں جناب میر حسن صاحب، صاحبِ حُسن و جمال، خوش رو۔۔۔ بیتِ ابرو کاکلِ مشک بو، صفحۂ رخسار گلِ بے خار (ح ص ۱۵)۔ معلوم ہوتا ہے کسی محبوبِ خوش ادا کی تعریف کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم شرفُ الدولہ کی مدح میں بھی ایسے جملے لکھے تھے: "از سرتاپا صاحبِ جمال ہے، حُسنِ خدا داد کامل ہے، مہ نو خمِ ابرو ہے، سُنبلیں گیسو ہے، مژہ آبدار ہے، سینۂ عدو کے پار ہے، چشم وہ کہ جس کا ہم چشم عنقا ہے، غزالِ رعنا چکارا ہے۔" اس بیان میں ایسے متعدد ٹکڑے ہیں۔

فقرے بازی کے ذوقِ بے محابا نے بھی کئی جگہ اپنا رنگ جمایا ہے اور عبارت کو بے رنگ بل کہ بد رنگ بنایا ہے، مثلاً : چلتا دھندا کیجیے (ص ۱۲۵)، کچھ ہو یا نہ ہو زبان کا مزہ نکالو (ص ایضاً)۔ یہ مبتذل جملے بازی ایک ایسی خاتون کر رہی ہے شہ زادی ہے اور ایک اجنجبی سے پہلی بار ہم کلام ہوئی ہے۔ ایسی اور مثالیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں۔
 
Top