مقدر کا چقندر

اظہرالحق

محفلین
اسکی زندگی ایک برق رفتار گھونگے کی تھی ، جو اپنی برق رفتاری سے ہر ریکارڈ بریک کر سکتا تھا ، نام تھا اسکا “مقدر“ ۔ ۔ کبھی کبھی وہ خود بھی سوچتا کہ یہ نام کیا نام ہے ، مگر پھر کہتا شاید اسکے مقدر میں ہی یہ نام تھا ، اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ کب سے اس ورکشاپ میں تھا ، ورکشاپ کے علاوہ اسے دو اور جگہوں کا پتہ تھا ، ایک ساتھ والے اسکول کا اور دوسرا ورکشاپ کے پیچھے سنیما کا ، وہ دونوں جگہوں کو ورکشاپ کا حصہ ہی سمجھتا تھا ، بس فرق یہ تھا کہ اسکول میں بچے آتے تھے ، سنیما میں جوان اور ورکشاپ میں ان سب کے والدین ۔ ۔ ۔ ایک اور جگہ کا نام بھی وہ جانتا تھا “دفتر“ ، اکثر گاہک اسے کہتے کہ وہ دفتر جا رہے ہیں یا آ رہے ہیں ۔ ۔ سامنے سے گرزرنے والی بسوں کے کنڈیکٹر بھی کچھ جگہوں کے نام لیتے مگر اس نے کبھی غور نہیں کیا ، ہاں ایک اور جگہ جو اسکے ورکشاپ کا ہی ایک حصہ لگتی تھی وہ تھا ماموں کا ہوٹل ، جہاں سے وہ کھانا کھاتا اور چائے بھی پی لیتا ، ورکشاپ کو وہ اپنی ہی سمجھتا تھا ، اب بائیس سال کی عمر میں اسے سوائے ان جگہوں کے نام اور پانوں کے نمبروں کے سوا کچھ سمجھ نہیں آتا تھا ، ہاں گاڑی کے ایک ایک پارٹ کو اچھی طرح جانتا تھا ، ہر طرح کی گاڑی کے پرابلمز کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں تھا بس ایک شکایت تھی اسے کہ گاڑیاں بنانے والوں نے کبھی اس سے کچھ پوچھا نہیں ورنہ وہ ایسی گاڑی بناتا کہ کبھی خراب ہی نہ ہوتی ، رشتوں میں وہ استاد اور چھوٹے استاد کو جانتا تھا ، جب آنکھیں کھلیں تو اسنے استاد کو دیکھا ، اور پھر چھوٹا استاد بھی آ گیا کچھ عرصے بعد ، چھوٹا استاد کچھ نہیں کرتا تھا بس وہ ٹھنڈا کرنے والی مشین والے کمرے میں آتا اور جاتا تھا اور بڑا استاد بھی اسکے ناز نخرے اٹھاتا ۔ ۔۔
روز صبح اٹھتا اور اللہ کو یاد کرتا ، اسے استاد نے کہا تھا کہ ہمیشہ صبح کا آغاز اللہ کے نام سے کرو ، اللہ کون ہے کیسا ہے اسے نہیں معلوم تھا ، بس استاد جو کہتا وہ کرتا تھا ، استاد سے کبھی اسنے کچھ نہیں مانگا ، اور نہ استاد نے کچھ دیا ۔ ۔ ۔چھوٹا استاد تو بہت کم اس سے بات کرتا ۔ ۔ ۔ ہاتھ منہ دھو کر وہ ماموں کے ہوٹل پر ناشتا کرتا ، ایک پراٹھا ، کچھ چنے اور چائے کے دو کپ ، ۔ ۔ ۔ ۔ ماموں بھی اسکا انتظار کرتا اور اپنے کاؤنٹر پر ہی اسے ناشتا کرواتا ۔ ۔ ۔ پھر وہ ورکشاپ میں گاڑیاں دیکھتا ، استاد پہلے اسے بتایا کرتا کہ کس گاڑی کا کیا کرنا ہے اور پھر وہ سارے دن کا ورک آرڈر لے کر جت جاتا ، دوپہر کو استاد کھانا لے کر آتا تھا اپنے گھر سے ، وہ اسے بلاتا اور وہ کھا لیتا ، اور کبھی کبھی جب استاد نہیں لاتا تو ماموں کے پاس چلا جاتا ، کام کے دوران وہ بات کم کرتا ، اسکے علاوہ تین اور بھی تھے جو اسکے انڈر میں کام کرتے وہ انہیں سیکھاتا ۔ ۔ ۔بتاتا ۔ ۔ ۔ مگر وہ لوگ چھ بجے کے بعد چلے جاتے اور باقی کام وہ خود کرتا ۔ ۔ اور اگر اکیلا نہ کر سکتا تو استاد کو کہتا جو دس بجے تک ورکشاپ میں ہوتا اور پھر وہ کھانا کھا کہ سو جاتا ۔ ۔ ۔ ہاں سونے سے پہلے وہ اللہ کو ضرور یاد کرتا ۔ ۔ کیونکہ استاد نے جو کہا تھا ۔ ۔
اس شام وہ فارغ تھا ، اور فارغ ہوتا تو اسے جانے کیوں نیند آ جاتی ، ابھی وہ کمر سیدھی ہی کر رہا تھا زمین پر کہ ایک آواز آئی ۔ ۔ ۔ چقندر میٹھے چقندر ۔ ۔ ۔ وہ اٹھ بیٹھا ۔ ۔ خان بھائی ۔ ۔ ۔ ایک چقندر دو ۔ ۔ ۔ خان ہمیشہ کی طرح اس سے چقندر دے دیا ۔۔۔۔۔ ابھی وہ چقندر نکال ہی رہا تھا کہ استاد نے کہا ، مقدر میری گاڑی میں آئیل چینج کر دے ۔ ۔ ۔ اسنے خان کے حاتھ سے پورا چقندر ہی لے لیا ، ارے یہ کچا ہے ۔ ۔ ۔ اس نے ان سنی کر دی اور چقندر ٹول باکس کے اور رکھ دیا ۔ ۔ ۔ آئل چینج کر کہ آیا تو اسے ایک اور کام مل چکا تھا اسنے چقندر بڑی الماری کے اوپر رکھ دیا ۔ ۔ ۔اور پھر ایسا کام میں لگا کہ دوسرے دن اسے چقندر یاد ہی نہ رہا ۔ ۔ ۔ ایک ہفتہ بیت گیا ۔ ۔ ۔ ایک دن پھر خان چقندر کی ریڑھی لے کر آیا ۔ ۔ اسے وہ چقندر یاد آیا اسنے الماری پر ہاتھ مارا اور اسے وہ مل گیا ۔ ۔ مگر یہ کیا ۔ ۔ یہ تو ۔ ۔ ۔یہ کیسا ہو گیا ۔ ۔ اسنے خان کو دیکھایا ۔ ۔ ۔ارے مڑا یہ اس وقت کا تم نے نہیں کھایا ۔ ۔
نہیں اسنے سر ہلایا
ارے خوچہ یہ سوکھ گیا ہے ۔ ۔ ۔ کوئی بات نہیں ہم تم کو اور دیتا ہے ۔ ۔ خان نے اس چقندر کو قریبی کوڑے میں پھینکتے ہوئے کہا
نہیں مگر یہ سوکھ کیسے گیا ۔ ۔ اسنے شاید زندگی میں پہلی بار ایسے پوچھا تھا
ارے اتنے دن اتنی گرمی رہے گا تو سوکھ گا نا مڑا
مگر کیوں ۔ ۔ ۔ وہ سوچتا رہا ۔ ۔ سارا دن سوچتا ۔ ۔ رہا ۔ ۔ رات کو بھی سوچتا ۔ ۔ ۔ ۔ پھر سالوں گزر گئے اسکی سوچ نہ ختم ہوئی وہ یہ راز نہیں پا سکا ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ایک دن استاد کو اسنے دیکھا ۔ ۔ وہ اسے بدلا بدلا لگا ۔ ۔۔ بلکل سوکھے ہوئے چقندر کی طرح ۔ ۔ اسنے استاد سے پوچھا ۔ ۔ ۔ تو اسنے کہا ۔ ۔ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں نا ۔ ۔ ۔ زمانے کی گرمی نے سکھا دیا ہے ۔ ۔ ۔ مجھے ۔ ۔اور تیرے چھوٹے استاد نے بھی ۔ ۔ ۔ ۔ اسے سمجھ نہیں آیا ۔ ۔ ۔ مگر اتنا پتہ چل گیا کہ گرمی کسی بھی چیز کو سکھا دیتی ہے ۔ ۔۔ پھر ایک دن اسنے خود کو بھی سوکھتا محسوس کیا ۔ ۔ ۔ ۔ پتہ نہیں اسے اتنی حرارت کیوں ہو گئی تھی ۔ ۔ ۔ خان سے اسنے پھر چقندر لیا اور اس رات اپنے سینے پر رکھ دیا جو جل رہا تھا ۔ ۔ ۔ وہ چقندر کو سوکھتے دیکھنا چاہتا تھا ۔ ۔ ۔ مگر وہ تو ویسے کا ویسا ہی رہا ۔ ۔ جبکہ اسکی حرارت تو بڑھ گئی تھی ۔ ۔ ۔پھر اسکی آنکھیں بند ہو گئیں ۔ ۔ ۔
دوسرے دن استاد نے اسے بلایا ۔ ۔ ۔ مگر وہ نہ اٹھا ۔ ۔ ۔ وہ اسکے پاس گیا ۔ ۔ اسکے بازو کو پکڑا ۔ ۔ مگر وہ برف ہو چکا تھا ۔ ۔ اور اسکے پاس ایک سوکھا ہوا چقندر گر پڑا تھا ۔ ۔ ۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
خوبصورت تحریر۔

یہ سات سال کہاں پڑی رہی کہ نظر ہی نہیں پڑی۔
یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے آپ کی محفل کے لیے۔۔۔ سات سال بعد ایک تحریر نکل آتی ہے جس پر کسی نے کوئی رد عمل ہی ظاہر نہ کیا۔۔۔ اب تو لکھنے والا بھی جا چکا۔۔۔ کس کو داد دی جائے ؟ کیا اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
اس کا کوئی حل نہیں سوائے اس کے کہ صاحب مراسلہ کو اس قسم کے مراسلوں کی تشہیر کرنی چاہیے۔
 
Top