مقابلے میں پوزیشن حاصل کرنے والا مقالہ

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسی زندگی​
زین العابد ین
تمام حاضرینِ مجلس سر تا پا ادب سے سر شار ، نہایت باوقار اور سنجیدگی و متانت کے اعلی کردار ہوتےتھے ۔ اس مجلس میں شور وغوغاہوتا تھا نہ غل غپاڑہ ۔ فضول گوئی ہوتی تھی نہ بیہودہ کلامی ۔ کسی کی عزت اچھالی جاتی تھی نہ باتوں کے نشتر چبھوئے جاتے تھے ۔ جگ مگ کرتے تاروں کے بیچ چودھویں کا چاند لطافت و نزاکت، شفقت و عنایت اور خلوص و محبت کے ساتھ اپنی خنک اور شیریں، معارف سے لبریز ضیاء بانٹ رہا ہوتا تھا۔ جس کوسمیٹنے کا ہر فرد دوسروں سے بڑھ کر خواہاں ہوتا تھا۔ جو قریب ہوتا اپنا دامن فیض و حکمت کے موتیوں سے بھر لیتا اور جو دور ہوتا اس کو بھی خاصا نصیب مل جاتا اور جو غائب ہوتا اس تک پہنچانے کی ترغیب دی جاتی۔ اس طرح کوئی شخص بھی فیضانِ نبوت سے تہی دامن نہ جاتا۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس مبارک کی شان ہی نرالی تھی۔ اس میں ہر صاحب ِحاجت کی حاجت بر آری کی جاتی تھی۔ چاہے کوئی عرب کا بدّو، دیہاتی کتنا ہی سخت خو کیوں نہ ہوتا فیضِ عالی سے محروم نہ کیا جاتا ۔ اس مجلس میں عالمگیر پُر امن معاشرے کا سبق سکھایا جاتا تھا۔ انسانی ہمدردی کا نقش دلوں پر بٹھایا جاتا تھا۔ تمام امت کو ایک جسم بتایا جاتا تھا۔ایک پُر سکون، احساس آمیز اور درد دل رکھنے والے معاشرتی نظام اور فلاحی و اصلاحی ریاست کے قیام کے لیے جو اصلاحات ناگزیر ہوسکتی ہیں وہ سب، اور بہت کچھ سکھایا جاتاتھا۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس لفظ ’’مجلس‘‘ کا معنی جان لینا چاہیے۔
مجلس عربی زبان کا لفظ ہے۔ جَلَسَ یَجْلِسُ جُلُوْسًا سے نکلا ہے۔ یہ ظرف کا صیغہ ہے۔ اس کا لفظی معنی بیٹھنے کی جگہ یا بیٹھنے کا وقت ہے۔مراد بیٹھک ہے۔حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹھک کے اوقات اور نوعیتیں مختلف تھیں۔
1۔خصوصی مجلس۔ یہ اہل خانہ یا خاص اصحاب کے ساتھ سجتی تھی۔ جومجلس اہل خانہ کے ساتھ ہوتی تھی وہ انفرادی اور گھریلو نوعیت کی ہوتی تھی۔ عموما عصر کے بعد یا عشاء کے بعدہوتی تھی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں ایک عام آدمی کی طرح رہتے تھے۔ گھر والوں کے احوال دریافت فرماتے۔ ملاطفت و خوش طبعی کی باتیں کیا کرتے۔ ان کی خوشی اورغم میں شریک ہوتے۔
اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھرکے کاموں میں گھر والوں کا ہاتھ بھی بٹاتے اور اپنا کام خود ہی کر لیا کرتے تھے۔ اپنا جوتا خود ہی گانٹھ لیتے۔پیوند لگا لیتے ۔ کپڑا سی لیا کرتے۔بکریوں کا دودھ خود نکال لیا کرتے اور گوشت بھی خود ہی کاٹ لیا کرتے تھے۔
حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا گیا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر پر کیا کام کرتے تھے؟انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام آدمیوں میں سے ایک آدمی کی طرح رہتے تھے۔اپنے کپڑوں میں جوں تلاش کر لیتے، خود بکریوں کا دودھ نکال لیتے اور اپنا کام خود ہی کر لیتے تھے۔ جوں تلاش کرنے سے مراد دوسروں کی جوں ہے جو کبھی گر جایا کرتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن یا کپڑوں میں کبھی جوں نہیں پڑتی تھی۔(شمائل ، الادب المفرد)
کبھی کبھی رات کو نتیجہ خیز، عبرت آمیز قصے بھی سنایا کرتے۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو عشاء کے بعداپنی بیویوں کو قصہ سنایا۔ اس پر ایک بیوی نے کہا: یہ قصہ تو ایسا ہی ہے جیسے خرافہ کا قصہ۔ (اس زمانے میں ہر تعجب خیز اور حیرت ناک بات کو حدیث خرافہ کہہ دیا جاتا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جانتی ہو خرافہ کا اصل واقعہ کیا ہے؟ خرافہ قبیلہ بنی عذرہ کا ایک شخص تھا۔ جسے جاہلیت کے عہد میں جنات اٹھا کر لے گئے تھے۔ایک عرصہ وہ جنوں کے پاس رہا۔ پھر وہ انسانوں میں لوٹا دیا گیا۔ اس دورِ قیام کےعجیب وغریب قصے وہ لوگوں کو سنایا کرتا تھا۔ اسے لوگ حدیث خرافہ کہتے تھے۔ (مجمع الزوائد، شمائل)
ہشام نے اپنےوالد سے یہ روایت کی ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کیا کام کرتے تھے؟ امی عائشہؓ نے فرمایا: اپنا کپڑا سیتے۔ جوتا گانٹھ لیتے۔ جو کام لوگ گھر میں کیا کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کیا کرتے تھے۔ (ابن سعد) دوسری روایات میں پیوند لگانے،دودھ نکالنے اور گوشت کاٹنے کا بھی ذکر ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کپڑا سیا کرتے تھے۔
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب یا گھر والوں میں سے کوئی بلاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے لبیک ’’حاضر ہو ں میں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بہت عالی تھے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں فرمایا: ’’انک لعلی خلق عظیم‘‘۔ (اخلاق النبی)
ایک نہایت جامع روایت ہے جس میں اس مجلس کی خصوصیات کا ذکر ملتا ہے۔ اس روایت کے راوی حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہیں۔ایک مرتبہ آپؓ نے اپنےوالد ماجد حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تشریف رکھنے کے حالات دریافت کئے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر میں تشریف فرما ہوتے، اپنے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم فرما لیتے تھے۔ ایک حصہ اللہ کی عبادت کے لیے ۔ دوسرا حصہ گھر والوں کے معاشرتی حقوق ادا کرنے کے لیے۔تیسرا حصہ اپنے آرام کے لیے۔ وقت کے اس تیسرے حصے کو بھی امت کے نفع کی خاطر کام میں لگا دیتے تھے۔ اس طرح کہ خاص خاص اصحاب تشریف لاتے، جن کے ذریعے مجلس کے مضامین عوام تک پہنچانا یقینی بنایا جاتا تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حاضرین سے کوئی چیز کھانے کے حوالے سے ہو یا دین کے، پوشیدہ نہ رکھتے تھے۔
وقت کے اس حصے میں جو امت کے لیے تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل یہ تھا کہ ان آنے والوں میں اہل فضل کو ترجیح دیتے تھے، اور اس وقت کو ان کی دینی فضیلت کے لحاظ سے ان پر تقسیم فرماتے تھے۔بعض آنے والے ایک حاجت، بعض دو اور بعض بہت ساری حاجات لے کر آتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی حاجتیں پوری فرماتے۔ ان کو ایسے امور میں مصروف رکھتے جو خود ان کے لیے اور پوری امت کے لیے فائدہ مند ہوتے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو جوابات سے نوازتے۔ حاضرین سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیا کرتے تھے کہ جو لوگ یہاں موجود نہیں ہیں یہ باتیں ان تک پہنچا دینا۔ یہ بھی فرماتے کہ جو لوگ شرم، دوری یا ضعف کی وجہ سے مجھ تک اپنی ضروریات نہیں پہنچا سکتے ان کی حاجات مجھ تک پہنچا دیا کرو،کیونکہ جو شخص صاحب اقتدار تک ایسے افراد کی حاجات پہنچاتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کو ثابت قدم رکھے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس مبارک میں اسی قسم کا تذکرہ ہوتا تھا۔ اس کےعلاوہ غیبت چغلی، لڑائی جھگڑا یا فضول گوئی کی قسم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات گوارہ نہیں کیا کرتے تھے۔ (شمائل)
2۔عمومی مجلس۔اس کا اپنا ہی ایک انداز تھا۔ اس میں ہر شخص کو شرکت کرنے کی اجازت تھی۔ یہ نمازوں کے بعد منعقد ہوتی تھی۔ روایات کے مطابق اکثر فجر کی نماز کے بعد یہ مجلس لگتی تھی۔ اس مجلس میں وعظ و ارشاد، پند و نصائح اور احکام و مسائل کے علاوہ مزاح اور ظرافت کی باتیں، شستہ اشعار اور ماضی کی یادیں بھی ہوتی تھیں۔ اس سے رفقائے مجلس کی دلداری ہو جاتی تھی۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: کوئی سواری کا جانور بخش دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اونٹنی کا بچہ دوں گا۔ اس نے گھبرا کر کہا: اے اللہ کے رسول!میں اونٹنی کا بچہ لے کر کیا کروں گا؟ وہ تو سواری کے کام نہ آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزاح کی حقیقت کو آشکارا کرتے ہوئے فرمایا: اونٹ بھی تو کسی اونٹنی کا بچہ ہوتا ہے۔(بیہقی)
حضرت صہیب ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روٹی اور کھجور رکھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب ہو جاؤ اور کھاؤ۔ میں قریب ہو کر کھانے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں آشوب ِچشم ہے پھر بھی کھجور کھائے جا رہے ہو۔ میں نے کہا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوسری آنکھ سے کھا رہا ہوں یعنی جس میں آشوب ِچشم نہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔ (ابن ماجہ، اتحاف)
حضرت جابر بن سمرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں سو سے زائد مرتبہ بیٹھا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب مجلس میں اشعار پڑھتے تھے۔عہدِ جاہلیت کے قصے اور واقعات سناتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش سنتے رہتے۔ کبھی کبھی ان کے ساتھ مسکرا بھی دیا کرتے تھے۔(شمائل)
حضرت ابو ہریرہ ؓ راوی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے سچا کلمہ جو کسی شاعر نے کہا وہ لبید کا ہے۔ ’’الا کل شیء ما خلا اللہ باطل‘‘ جان لو کہ اللہ کے سوا ہر چیز فانی ہے۔‘‘ اور امیہ بن صلت کا۔ قریب تھا کہ یہ اسلام لے آتا۔ (شمائل، مسلم)
حضرت ثریدؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں نے امیہ بن صلت کے سو اشعار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائے۔ہر شعرکے بعد فرماتے اور سناؤ۔یہاں تک کہ سو اشعار پورے ہو گئے۔ پھر فرمایا: قریب تھا کہ یہ اسلام لے آتا۔ (شمائل، مسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین مخصوص شاعر تھے جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور پر شاعرانہ خدمات لیا کرتے تھے۔
1۔ حسان بن ثابتؓ۔ یہ اشعار میں کافروں کی ہجو کیاکرتے تھے۔
2۔ عبداللہ بن رواحہؓ ۔یہ کافروں کو عار دلانے والے اشعار پڑھا کرتے تھے۔
3۔ کعب بن مالکؓ ۔ یہ کفار کو حربی اور قتال کے اشعار پڑھ کر خوف زدہ کیا کرتے تھے۔
اس مجلس میں مستقبل کے حوالے سے پیشین گوئیاں اوردن بھر پیش آنے والے حیرت انگیز، دلچسپ اور عجیب واقعات پر تبادلہ خیال بھی ہوا کرتا تھا۔ خواب اور اس کی تعبیر بھی دی جاتی تھی۔ سوال و جواب کی صورت معاشی و معاشرتی مسائل کا شرعی و فقہی حل بھی تجویز کیاجاتا تھا۔ ارواح اور قلوب کا تزکیہ بھی کیا جاتا تھا۔ اللہ کی معرفت اورمحبت کے جام بھر بھر کر پلائے جاتے تھے۔ ایثار و قربانی اور انسانی ہمدردی کا درس کوٹ کوٹ کر گھٹی میں بٹھایا جاتا تھا۔ بندوں کی غلامی سے نفور اور اللہ کی غلامی میں خوشی کا نفیس سبق سکھایا جاتا تھا۔ خودی اور خود اعتمادی کا پاکیزہ تصور دیا جاتا تھا۔ اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور اللہ کے غیر سے کچھ نہ ہونے کا یقین دلوں کی تہہ میں جمایا جاتا تھا۔ ریاست کو فلاحی اور اصلاحی بنیادوں پر استوار کرنے کے سنہرے اصول سکھائے جاتے تھے۔معاشرے کو پر امن رکھنے کی تلقین اور اس کے آداب آشکارا کیے جاتے تھے۔پریشان حال اور ضرورت مند اصحاب کی خبرداری کی جاتی اور ممکنہ امداد رسانی کا انتظام بھی کیا جاتا تھا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے غم خوار اور حسّاس انسان تھے۔ اگر حاضر باش اصحاب میں سے کوئی غائب ہو جاتاتو اس کا حال دریافت فرماتے تھے۔ اگر بیماری کی اطلاعات موصول ہوتیں تو اس کی تیمار داری کے لیے تشریف لے جاتے، چاہے شہر کے آخری کونے میں جانا پڑتا۔الغرض اس مجلس کا افادہ و استفادہ ہر کس و ناکس، ہر خاص و عام اور ہر شہری و دیہاتی کے لیے عام ہونے کے ساتھ ساتھ تام بھی تھا ۔ ہر فرد کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کی مکمل آزادی تھی۔کسی کو ترچھی نگاہ سے دیکھنے کی اجازت تھی نہ کسی کا مذاق اڑانے کی۔ ہر فرد کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ اور محبوبانہ تھا۔ ہر کوئی سمجھتا تھا کہ جتنا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے ساتھ ہے کسی اور کے ساتھ نہیں ہے۔
اس کے باوجود اہل مجلس پر رعب چھایا رہتا۔ کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ کر پاتا تھا۔ اس رعب سے نئے آنے والوں پر کپکپی طاری ہو جایا کرتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اطمینان دلاتے تو ان کی حالت سنبھل جاتی۔
قیس ابن ابی حاز مؓ راوی ہیں۔ ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ جیسے ہی بیٹھا کانپنے کی وجہ سے اس کی ر گ پھڑکنے لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مطمئن رہو ۔میں کوئی بادشاہ تھوڑا ہی ہوں۔ ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھاتی تھی ۔ (ابن ماجہ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس پُر ہیبت اور باوقار ہوتی تھی۔ حضرت انسؓ راوی ہیں۔ ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسوں میں اس طرح بیٹھے ہوتے گویا ہمارے سروں پر پرندہ بیٹھا ہے۔ حضرت صدیق اکبر اور فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے سوا کوئی بات کرنے کی جرات نہ کرسکتا تھا۔ (مجمع الزوائد)
اسامہ بن شریک ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ارد گرد ایسے بیٹھے تھے جیسے ان کے سروں پر پرندہ بیٹھا ہے، اور مجلس بڑی پُر سکون تھی۔ میں نے سلام کیا اور بیٹھ گیا۔(شمائل کبری)
ایک بڑی جامع حدیث جس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کی بھر پور منظر کشی کی گئی ہے۔ اس حدیث کے راوی حضرت حسن ؓ ہیں۔ حضرت حسن ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد حضرت علی المرتضیٰؓ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے حالات دریافت کئےتو انہوں نےفرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نشست و برخاست سب اللہ کے ذکر کے ساتھ ہوتی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جگہ تشریف لے جاتےتو جہاں جگہ ملتی وہیں بیٹھ جاتے تھےاوردوسروں کو بھی اسی کا حکم فرماتےتھے۔ اپنے ہر ہم نشین کو اس کا حق دیتے تھے۔ سب کی طرف رخ ِ انور پھیر کر توجہ فرماتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھنے والوں میں سے کوئی بھی یہ نہ سمجھتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فلاں کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتےہیں۔ جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھتایا کسی معاملہ میں گفتگو کرتاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ بیٹھے رہتےاور گفتگو فرماتے رہتے۔اس کو چھوڑ کر نہ جاتے تا آنکہ وہ خود ہی چلاجائے۔ جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتا، عنایت فرما دیتےیا نرمی کے ساتھ مناسب جواب دیتے تھے۔جبکہ ہر چیز موجود نہ ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اور خوش خلقی سب کے لیے عام تھی۔ جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم شفقت اور مہربانی میں سب کے باپ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں حق میں سب برابر تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس علم اور حیاء، صبر اور امانت کی مجلس تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں نہ شور ہوتا تھا نہ کسی کیعزت اچھالی جاتی تھی۔ اگر کسی سے اس مجلس میں لغزش ہو جاتی اس کو شہرت نہ دی جاتی تھی۔حاضرینِ مجلس سب برابر سمجھے جاتے تھے۔ مگر تقوی کی وجہ سے ایک کو دوسرے پر فضیلت ہوتی تھی۔ سب آپس میں تواضع برتتے تھے۔بڑوں کا ادب کرتے اور چھوٹوں پر رحم کرتے تھے۔ صاحب حاجت کو اپنے نفسوں پر ترجیح دیتےتھے اور مسافر کی خبر گیری کرتے تھے۔ دوسروں کی کوئی خواہش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند ہوتی تو اس کو مایوس بھی نہ فرماتے تھےاور صاف جواب بھی نہ دیتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف وہی کلام فرماتے جس میں ثواب کی امید ہوتی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کلام فرماتے تو حاضرین مجلس سر جھکائے بیٹھے رہتے تھے۔ گویا ان کے سروں پرپرندےہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوجاتے تب حاضرین بولتےتھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں کسی بات پر جھگڑا نہ ہوتا تھا۔ مجلس میں جب کوئی بات کرتا اس کے خاموش ہونے تک سب خاموش سنتے رہتے۔ سب کی بات اُسی توجہ سے سنی جاتی جیسی توجہ سے افضل حضرات کی سنی جاتی تھی۔ سب ہنستے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرا دیتے ۔ سب تعجب کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تعجب فرماتے، یہ نہیں کہ سب سے الگ تھلگ چپ چاپ بیٹھے رہتے۔ مسافر لوگوں کی سخت کلامی اور ان کے بے جا سوالات پر بھی صبر فرماتے تھے۔ لہذا حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین مسافروں کو خود مجلس میں لایا کرتے تھے، تاکہ وہ کوئی سوال کریں اور اچھی اچھی باتیں سننے کو مل جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب سے فرمایا کرتے تھے کہ جب کوئی حاجت مند ملے، اس کی مدد کر دیا کرو ۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی تعریف کرتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو گوارا نہ فرماتے تھے۔ اگر کوئی بطور شکریہ تعریف کرتا اس پر خاموشی اختیار فرماتے۔ کسی کی قطع کلامی فرماتے نہ کسی کی بات کے درمیان بولتے تھے۔ہاں اگر کوئی بے جا بولنے لگتا اس کو منع فرما دیا کرتے یا وہاں سے کھڑے ہو جاتے تھے۔
اس مجلس کی تعریف میں جتنا بھی لکھا جائے ناکافی ہے۔یہاں تو بڑے بڑے قلمکاروں کے قلم گھس کر ختم ہو چکے ہیں۔ اس مجلس کی شان دنیا کی ہر مجلس سے بلند اور ارفع تھی۔ اس کا انداز سب سے جداگانہ، حد درجہ فدویانہ تھا۔ یہاں تو تمام حاضرینِ مجلس سر تا پا ادب سے سر شار ، نہایت باوقار اور سنجیدگی و متانت کے اعلی کردار ہوتےتھے ۔ اس مجلس میں شور وغوغاہوتا تھا نہ غل غپاڑہ ۔ فضول گوئی ہوتی تھی نہ بیہودہ کلامی ۔ کسی کی عزت اچھالی جاتی تھی نہ باتوں کے نشتر چبھوئے جاتے تھے ۔ جگ مگ کرتے تاروں کے بیچ چودھویں کا چاند لطافت و نزاکت، شفقت و عنایت اور خلوص و محبت کے ساتھ اپنی خنک اور شیریں، معارف سے لبریز ضیاء بانٹ رہا ہوتا تھا۔ جس کوسمیٹنے کا ہر فرد دوسروں سے بڑھ کر خواہاں ہوتا تھا۔ جو قریب ہوتا اپنا دامن فیض و حکمت کے موتیوں سے بھر لیتا اور جو دور ہوتا اس کو بھی خاصا نصیب مل جاتا اور جو غائب ہوتا اس تک پہنچانے کی ترغیب دی جاتی۔ اس طرح کوئی شخص بھی فیضانِ نبوت سے تہی دامن نہ جاتا۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس مبارک کی شان ہی نرالی تھی۔ اس میں ہر صاحب ِحاجت کی حاجت بر آری کی جاتی تھی۔ چاہے کوئی عرب کا بدّو، دیہاتی کتنا ہی سخت خو کیوں نہ ہوتا فیضِ عالی سے محروم نہ کیا جاتا ۔ اس مجلس میں عالمگیر پُر امن معاشرے کا سبق سکھایا جاتا تھا۔ انسانی ہمدردی کا نقش دلوں پر بٹھایا جاتا تھا۔ تمام امت کو ایک جسم بتایا جاتا تھا۔ایک پُر سکون، احساس آمیز اور درد دل رکھنے والے معاشرتی نظام اور فلاحی و اصلاحی ریاست کے قیام کے لیے جو اصلاحات ناگزیر ہوسکتی ہیں وہ سب، اور بہت کچھ سکھایا جاتاتھا۔
 
ماشاء اللہ اچھا مقالہ ہے۔ مبارک ہو۔ مقالہ لکھنا بھی اور انعام بھی
جزاک اللہ خیرا احسن الجزاء ۔۔ آپ جیسے بزرگوں کی حوصلہ افزائی ہی ہم جیسے نوجوانوں کو آگے بڑھنے میں اور کندن بننے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ خدا کرے ہر کام کرنے والے کو حوصلہ افزائی کرنے والا اور بڑھاوا دینے والا میسر آجائے
 
Top