مغرب ’ہولوکاسٹ‘ کی طرح توہین رسالت کرنے والوں پربھی پابندی لگائے، وزیراعظم

الف نظامی

لائبریرین
اسی لئے ریاست آئیندہ بھی ان مذہبی جتھوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہے گی۔
کسی بھی منصفانہ جمہوریت میں جعل سازی کو قانونی درجہ نہیں دیا جا سکتا
اصل بات یہ ہے کہ قادیانیوں نے مسلمانوں کے ساتھ ایک جعل سازی کی ہےاور اب جعل ساز کہتا ہے کہ میری جعل سازی کو قانونی طور پر تسلیم بھی کیا جائے، بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔
دنیا کی کسی بھی جمہوریت میں جعل سازی کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

جعل سازی:قادیانی (احمدی) مسلمان ہیں
اعتراض : آپ کا نبی علیحدہ ، خلیفہ علیحدہ ، مہدی و مسیح موعود علیحدہ اس کے باوجود آپ ٹائٹل مسلمانوں کا استعمال کر رہے ہیں
مقدمہ جعل سازی کا ہے اور اکثریت کا حق آپ نے غصب کیا ہے اور اس کے باوجود مظلوم بن بیٹھے ہیں۔
 

علی وقار

محفلین
اسی لئے ریاست آئیندہ بھی ان مذہبی جتھوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہے گی۔
کم از کم اصول کی حد تک ہی ریاست کو طاقتور ہونا چاہیے اور اس کی رٹ کو قائم رکھا جانا چاہیے۔ کسی تحریک کا مطالبہ جائز ہو یا نہ جا جائز ہو، الگ معاملہ ہے۔ ریاست کی رٹ گئی تو ریاست گئی۔ رٹ قائم نہ ہوئی اور لاشیں بھی گر گئیں، یہ تو دہرا نقصان ہے۔ اسے غلط حکمت عملی کہا جائے گا، اور کچھ نہیں۔ 2017 میں اپوزیشن نے حکومت کا ساتھ نہ دے کر غلطی کی، تو 2020 اور اب 2021 موجودہ اپوزیشن نے بھی حکومت سے بدلہ چکا لیا حالانکہ ایسے معاملات پر سیاسی قیادت کو ریاستی رٹ کی بالادستی کے لیے ایک ہو جانا چاہیے تھا۔ فرانس کے سفیر کو بے دخل کرنا ہے تو حکومت خود کرے۔ تحریک لبیک کو اس حوالے سے صرف پُر امن احتجاج کا حق حاصل تھا اور اس جماعت کے ساتھ حکومت وقت کا معاہدہ کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔
 
اس پوسٹ کو اس وقت تک پڑھتے رہیں جب تک حکومت نے معاہدہ کیوں کیا کی وجہ ازبر نہ ہو جائے۔
نالائق حکمران نے شدت پسندوں کے ساتھ ایک قابلِ اعتراض معاہدہ کیا اب خود بھگتے۔

یہ شدت پسند گروہ کچھ بھی ہوسکتا ہے دہشت گرد نہیں۔ حکمران نے ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، غلط، ان کے ساتھ اسٹریٹجک نوعیت کا معاہدہ کیا، غلط، ان پر پابندی لگائی، غلط۔ وہ نہتے مظاہرین تھے جن کے پاس کسی قسم کا اسلحہ بھی نہیں تھا۔ مظاہروں کے دوران جو کچھ ہوا، وہ عام طور پر غلط طریقے سے ہینڈل کرنے پر ہوجاتا ہے۔ اس سے کہیں بڑھ کر کپتان اور قادری صاحب کے دھرنوں میں ہوا
 

جاسم محمد

محفلین
اس جماعت کے ساتھ حکومت وقت کا معاہدہ کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔
تحریک لبیک کیساتھ پچھلی حکومت نے بھی معاہدہ کیا تھا جسے من و عن پورا کیا گیا۔ وہاں سارا الزام فوج پر لگا دیا کیونکہ حکومت نے آئی ایس آئی کو معاہدہ کا ضامن مقرر کیا تھا۔ اب جب اس حکومت نے فوج کو درمیان میں لائے بغیر اسی تحریک لبیک سے معاہدہ کیا اور پھر پاکستان کے مفاد میں اسے پورا نہیں کیا تو سارا الزام حکومت پہ کہ معاہدہ کیوں کیا؟ پھر پورا کیوں نہیں کیا؟ اب فوج کو الزام نہیں دینا؟ بغض عمران لا علاج ہے۔
 
ایک بات عقل کی رو سے بتاو کہ محمد الرسول اللہ کو ماننے والا اور مرزا کو نبی ، خلیفہ ، مسیح موعود ، مہدی ماننے والے ایک ہی برانڈ کے مذہب کے پیروکار کیسے ہو سکتے ہیں۔

یہ “ال” کا کیا چکر ہے؟ یہ کوئی نیا فرقہ ہے؟
جی ہاں! یہ دورِ حاضر کے چند سرپھرے ہیں جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح اللہ کے نبی محمد الرسول اللہ کو آخری شریعتی و غیر شریعتی نبی، خاتم النبیین، ہر قسم کے رسولوں کی مہر مانتے ہیں۔ دوسری جانب ایسے ہیں جو ایسا نہیں مانتے، انہی میں قادیانی بھی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
نالائق حکمران نے شدت پسندوں کے ساتھ ایک قابلِ اعتراض معاہدہ کیا اب خود بھگتے۔
دھرنا پر امن برخواست کرنے کیلئے معاہدہ کرنا مجبوری تھی۔ اور اسے پورا نہ کرنا بھی ایک مجبوری ہے۔ دیسی لبرلز تنقید کرتے چلے جا رہے ہیں لیکن مسئلہ کا حل نہیں بتا رہے ۔
 
دھرنا پر امن برخواست کرنے کیلئے معاہدہ کرنا مجبوری تھی۔ اور اسے پورا نہ کرنا بھی ایک مجبوری ہے۔ دیسی لبرلز تنقید کرتے چلے جا رہے ہیں لیکن مسئلہ کا حل نہیں بتا رہے ۔
تحریک لبیک کو اس حوالے سے صرف پُر امن احتجاج کا حق حاصل تھا اور اس جماعت کے ساتھ حکومت وقت کا معاہدہ کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔
 

زیک

مسافر
جی ہاں! یہ دورِ حاضر کے چند سرپھرے ہیں جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح اللہ کے نبی محمد الرسول اللہ کو آخری شریعتی و غیر شریعتی نبی، خاتم النبیین، ہر قسم کے رسولوں کی مہر مانتے ہیں۔ دوسری جانب ایسے ہیں جو ایسا نہیں مانتے، انہی میں قادیانی بھی ہیں۔
آپ سوال بالکل نہیں سمجھے۔ “محمد رسول اللہ” اور “محمد الرسول اللہ” میں فرق واضح کریں اور بتائیں کہ آپ نے آخر الذکر کیوں لکھا۔ نیز یہ بھی بتائیں کہ کلمۂ طیبہ میں کس طرح ہے اور کیوں۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ شدت پسند گروہ کچھ بھی ہوسکتا ہے دہشت گرد نہیں۔ حکمران نے ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، غلط، ان کے ساتھ اسٹریٹجک نوعیت کا معاہدہ کیا، غلط، ان پر پابندی لگائی، غلط۔ وہ نہتے مظاہرین تھے جن کے پاس کسی قسم کا اسلحہ بھی نہیں تھا۔
یعنی دیسی لبرل کسی حال میں خوش نہیں۔
حکومت دھرنوں کے نام پر ان نہتے لوگوں کو قومی شاہراہیں بلاک کرنے دے تو ریاستی رٹ کدھر ہے؟
حکومت پر امن طریقہ سے دھرنا ختم کرنے کیلئے ان نہتے لوگوں کے مطالبات تسلیم کر لے تو حکومت نے معاہدہ کیوں کیا؟
اور اگر حکومت ان نہتے لوگوں کے مطالبات تسلیم کیے بغیر ریاستی رٹ قائم کرتے ہوئے دھرنے ختم کرنا شروع کر دے تو حکومت نے ان نہتے لوگوں پر تشدد کیوں کیا؟
الغرض حکومت کے ہر اقدام میں سے دیسی لبرلز کوئی نہ کوئی تنقید کا پہلو نکال لیتے ہیں۔ البتہ اس مسئلہ کا عملی حل نہیں بتاتے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مجھے خدا یا محمد سے ملا دیا اور اسلام یا قرآن کو ریسرچ پیپر سے۔ یہ کیسا مذہب ہے؟ یا اسلام کا مذاق اڑا رہے ہیں آپ؟
آپ کے ریسرچ پیپر کا آتھر کوئی اور ہو سکتا ہے اس کا جواب دیں پھر علم ہوگا کہ کون قادیانیت کو اسلام سے ملانے کے لیے جعلی اور اصلی کا فرق نظر انداز کرنا چاہتا ہے۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
تحریک لبیک کیساتھ پچھلی حکومت نے بھی معاہدہ کیا تھا جسے من و عن پورا کیا گیا۔ وہاں سارا الزام فوج پر لگا دیا کیونکہ حکومت نے آئی ایس آئی کو معاہدہ کا ضامن مقرر کیا تھا۔ اب جب اس حکومت نے فوج کو درمیان میں لائے بغیر اسی تحریک لبیک سے معاہدہ کیا اور پھر پاکستان کے مفاد میں اسے پورا نہیں کیا تو سارا الزام حکومت پہ کہ معاہدہ کیوں کیا؟ پھر پورا کیوں نہیں کیا؟ اب فوج کو الزام نہیں دینا؟ بغض عمران لا علاج ہے۔
میں نے الزام عمران خان پر نہیں، پوری سیاسی قیادت پر عائد کیا ہے۔ ریکارڈ درست کر لیں۔
 

علی وقار

محفلین
یعنی دیسی لبرل کسی حال میں خوش نہیں۔
حکومت دھرنوں کے نام پر ان نہتے لوگوں کو قومی شاہراہیں بلاک کرنے دے تو ریاستی رٹ کدھر ہے؟
حکومت پر امن طریقہ سے دھرنا ختم کرنے کیلئے ان نہتے لوگوں کے مطالبات تسلیم کر لے تو حکومت نے معاہدہ کیوں کیا؟
اور اگر حکومت ان نہتے لوگوں کے مطالبات تسلیم کیے بغیر ریاستی رٹ قائم کرتے ہوئے دھرنے ختم کرنا شروع کر دے تو حکومت نے ان نہتے لوگوں پر تشدد کیوں کیا؟
الغرض حکومت کے ہر اقدام میں سے دیسی لبرلز کوئی نہ کوئی تنقید کا پہلو نکال لیتے ہیں۔ البتہ اس مسئلہ کا عملی حل نہیں بتاتے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی تو طاہر القادری صاحب کے ساتھ معاہدہ کیا تھا ، وہ کافی بہتر تھا حالانکہ دیکھا جائے تو وہ بھی یہ نعرہ لگا کر آئے تھے، جمہوریت نہیں، انقلاب ،کچھ اسی قسم کا نعرہ تھا اور بقول شخصے ان کی پشت پر پنڈی بوائز بھی تھے۔ معاہدہ ایسا ہونا چاہیے جس سے ریاستی رٹ ہاتھ سے جاتی نہ رہے۔ ریاست اتنی کمزور کیوں ہوتی ہے کہ بیس تیس ہزار بندہ دیکھ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ جائے۔ بالکل اسی طرح نواز شریف جب خود وزیر اعظم تھے تو 126 روزہ دھرنا برداشت کر گئے حالانکہ اس دھرنے کی کوریج لمحہ لمحہ چلتی رہی اور دباؤ بے پناہ تھا۔ 2018 میں خاقان عباسی کو فوج نے دبا لیا اور وہ معاہدے پر مجبور کر دیے گئے اور نون لیگ نے اپنا نام خراب کر لیا اور 2020 اور 2021 میں عمران خان کو بھی معاہدے پر گویا مجبور کر دیا گیا جو کہ ریاست کو للکارنے والوں کا حوصلہ بڑھانے کے مترادف ہے۔ جہاں تک آپ نے ایک بار مشرف اور لال مسجد کا ذکر کیا تھا تو وہ معاملہ اس سے کسی حد تک مختلف تھا، وہ ریاست پر چڑھائی کرنے نہیں آئے تھے، یہ بات الگ کہ وہ اسلام آباد کی حد تک مقامی انتظامیہ کو مسلسل للکار رہے تھے، یہ کسی حد تک الگ مسئلہ ہے۔
 
آخری تدوین:

حسرت جاوید

محفلین
ریاست اتنی کمزور کیوں ہوتی ہے
ریاست مضبوط کب ہوئی ہے؟ ریاست میں شروع سے ہی قومیت کا کوئی بنیادی مضبوط تصور نہ تھا، اسے زبردستی مذہب سے جوڑ دیا گیا۔ روٹ لیول پہ لسانی اور ثقافتی بنیادوں پہ انتہا درجے کی تقسیم و تفریق اول دن سے موجود ہے۔ اس صورتحال میں ہر طبقہ دوسرے طبقے کے خلاف زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کے چکر میں ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ وسائل پہ قبضہ کیا جا سکے۔ اب جبکہ قومیت کا تصور مذہب سے جوڑ دیا گیا تو ملک کے مضبوط ترین ادارے نے بھی اول دن سے اسے ایک آلے کے طور پر استعمال کر کے اپنی اجارہ داری قائم رکھی ہوئی ہے۔ اگر آپ اس سارے منظر نامے کو باہر سے بیٹھ کر دیکھیں تو واضح ہو جائے گا کہ خواہ کوئی جمہوری انقلابی ہو یا مذہب پرست، سندھی، پنجابی، بلوچی ہو یا مہاجر، ہر طبقہ وسائل پہ زیادہ سے زیادہ قبضے میں مگن ہے۔ ریاست وہاں مضبوط ہوتی ہے جہاں قومیت کا بنیادی تصور اس قدر مضبوط ہو کہ ریاست اور شہری کا مفاد یکجان ہو۔ موجودہ عالمی تناظر میں قومیت کے تصور میں محض مذہب کی بنیاد پر قومیت کی تعریف کرنا کافی نہیں کیونکہ مذہب چاہے انسان کی کتنی ہی بڑی ضرورت کیوں نہ ہو لوگوں کے پیٹ نہیں بھر سکتا، معاشرے سے مذہبی و غیر مذہبی طبقے میں اور جغرافیائی و علاقی تفریق ختم کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتا بلکہ تقسیم در تقسیم میں مزید اضافے کا سبب بنتا ہے کیونکہ ہر طبقہ مذہب کی تشریح اپنی معاشرت اور ضرورت کے حساب سے کرتا ہے اور اسی کو کامل سچائی تصور کرتا ہے۔ اب آپ مثالی طور پر چاہے یہ کہتے رہیں کہ کابل میں رہنے والا مسلمان اور یورپ میں رہنے مسلمان بھائی بھائی ہیں لیکن حقیقت یہی ہے جہاں جغرافیے کا اظہار ہو گا وہاں زبان و ثقافت کو ہمیشہ پہلا درجہ حاصل ہے اور یہ صدیوں سے یونہی چلا آیا ہے۔ زبان و ثقافت لوگوں میں اپنائیت کا احساس لاتی ہے، مذہب چاہے جتنی ہی زبردست جوڑنے والی طاقت ہو وہ زبان و ثقافت سے آگے نہیں نکل سکتی۔ یہ ریاست ایسے ہی رہنی ہے ہمیشہ، اس لیے اس پہ تنقید کرنا اور اس کو صحیح کرنے کی کوشش کرنا اپنا وقت برباد کرنے کے مترادف ہے۔
یہ ریاست وہ ریاست ہے جہاں اکثریت کام نہیں کرنا چاہتی لیکن آسائشیں ساری لینا چاہتی ہے، اس لیے ہر طبقہ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کی بجائے وسائل پہ قبضے کی جد و جہد میں مصروف ہے اور مذہب کی خاطر کسی شارٹ کٹ راستے سے جنت کے حصول کا ہمیشہ سے خواہش مند ہے حالانکہ جنت کا حصول بھی محنت مانگتا ہے۔ یہ وہ نقصان ہوتا ہے جب آپ شہریت میں میرٹ کو محنت سے نہیں بلکہ مذہب سے جوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے ریاست میں ہمہ وقت یہ تناؤ موجود رہتا ہے کہ اب ہندو کیوں اوپر آ گیا ہے یہ ہمارے عقائد خراب کرے گا، اب قادیانی کیوں اوپر آ گیا ہے یہ ہمارے لوگوں کو گمراہ کرے گا یعنی اس ریاست میں شہریت کا درجہ صرف مسلمان کو حاصل ہے باقیوں کو ہم یہاں رہنے دے رہے ہیں وہی کافی ہے۔ اب مختصراً صورت حال یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھیک پہ ساری آسائشیں بھی حاصل کریں اور اس پر فخر بھی کریں اور بھیک دینے والا ہمارا ادب و احترام بھی کرے حالانکہ ہم بخوبی جانتے ہیں عزت صرف اپنے زور بازو پہ خود کو کھڑا کے حاصل کی جا سکتی ہے نہ کہ بیساکھی کے سہارے۔
 
Top