سائنس کا استاد: بچو! میں یہ سکہ تیزاب میں ڈال رہا ہوں، کیا یہ حل ہوگا؟ شاگرد: جی نہیں سر! استاد: وہ کیوں؟ شاگرد: اگر سکے کو حل ہونا ہوتا تو آپ تیزاب میں ڈالنے کے لیے سکہ ہم سے مانگتے۔
ماں: بیٹا! ایک گلاس پانی دینا۔ بیٹا: امی جان! پانی کے لیے کسی اور کو کہہ دیں، میں اس وقت بہت مصروف ہوں۔ ماں: تم کیا کر رہے ہو؟ بیٹا: آپ نے جو مٹھائی چھپا کر رکھی ہے، اس کو تلاش کر رہا ہوں۔
بھائی: باجی سے تمہاری لڑائی کس طرح ختم ہوئی؟ منا: وہ گھٹنوں کے بل رینگتی ہوئی میرے پاس آئی۔ بھائی: واہ! کمال ہو گیا۔۔۔ اچھا، اس نے اپنی ہار مانتے ہوئے کیا کہا؟ منا: کہنے لگی، چلو نکلو چارپائی کے نیچے سے، اب تمہیں کچھ نہیں کہوں گی، آئندہ زبان سنبھال کے بات کرنا۔
ایک خود پسند صوفی نے مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے کہا: "حضرت! میں ابدال ہو گیا ہوں۔" حضرت رحمہ اللہ نے فوراً کہا: "پہلے گوشت تھے، اب دال ہو گئے ہو۔"
ایک طالبعلم نے اپنی والدہ کو خط لکھا: "پیاری امی جان! دو ماہ سے آپ کی خیرت معلوم نہیں ہو سکی، مہربانی فرما کر میرا خرچ بھیج دیں تاکہ آپ کی خیریت معلوم ہو سکے۔ والسلام"
بھائی جان (سمجھاتے ہوئے): منے میاں! جب میں تمہاری عمر کا تھا تو بالکل بھی جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ منا (حیرانگی سے): پھر آپ نے کس عمر سے جھوٹ بولنا شروع کیا؟
بچی (پولیس والے سے): انکل! کیا واقعی آپ لوگوں کی مدد کرتے ہیں؟ پولیس والا (مسکراتے ہوئے): جی ہاں! بالکل۔ تمہیں کیا مدد چاہیے؟ بچی (معصومیت سے): میری ناک صاف کرکے میرے جوتوں کے تسمے باندھیے۔
بیٹا: ابو جی! ساتھ والے انکل اپنے بیٹے کو چاند اور تارا کہہ کر پکارتا ہے جبکہ آپ مجھے الو یا گدھا کہہ کر پکارتے ہو۔ آخر کیوں؟؟؟ باپ: بیٹا! ساتھ والے انکل ماہر فلکیات ہیں اور میں جانوروں کا ڈاکٹر ہوں۔
افسر: تم دفتر میں کیوں سوتے رہتے ہو؟ ماتحت: جناب! رات کو میرا بیٹا مجھے سونے نہیں دیتا۔ افسر: تم کل سے اپنے بیٹے کو ساتھ لایا کرو تاکہ وہ تمہیں یہاں بھی نہ سونے دے۔
مجرم: حضور میں بھوکا تھا، بے گھر تھا، بے یار و مددگار تھا، تنہا تھا۔ اس لیے میں نے چوری کر لی۔ جج: تمہاری حالت واقعی قابل رحم ہے، اس لیے میں چھ ماہ کے لیے تمہارے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام جیل میں کر رہا ہوں۔ وہاں تمہیں ساتھی بھی ملیں گے۔