معراج النبیﷺ

معراج النبیﷺ (حصہ اول)

معراج النبی ﷺرسولِ اکرم ﷺ کا سب سے'' مُحَیِّرُالْعُقُوْل‘‘ یعنی انسانی عقلوں کو حیرت زدہ اور دنگ کرنے والا معجزہ ہے۔ اصطلاحِ شریعت میں ''معجزہ‘‘ سے مراد ''مدعیِ نبوت کی ذات سے کسی ایسے امر کا صادر ہوناہے، جس کی نظیر پیش کرنے سے انسان عاجز آجائیں‘‘۔قرآن مجید میں ''معجزے‘‘ کے لئے ''آیۃ‘‘،''بَیِّنَۃ‘‘ اور''بُرھان‘‘ کے کلمات آئے ہیں۔معجزہ کا لفظ ہمارے ''علم الکلام‘‘کی اصطلاح ہے۔ معجزہ اسے کہتے ہیں ، جس کے ذریعے کسی سچے ۔''مُدّعِی نبوت‘‘ نے اپنے عہد کے کفار کے ساتھ ''تَحَدِّی‘‘ کی ہو،یعنی منکرین کو مقابلے کاChallengeدیا ہو، جیسے قرآن مجید معجزہ ہے، جب کفارِ مکہ نے اسے ''کلام اللہ‘‘ اور ''وحیِ ربانی‘‘ ماننے سے انکار کیا ، توقرآن نے اُن کے دعوے کو اِن کلمات میں بیان فرمایا:
''اور کافروں نے کہا: یہ قرآن تو صرف من گھڑت بات ہے، جس کو اِس (رسول) نے (اپنی طرف سے) گھڑلیا ہے اوراس پردوسرے لوگوں نے ان کی مدد کی ہے، سو ان کافروں نے ظلم کیا اور جھوٹ بولا۔ اور انہوں نے کہا:(یہ )گزشتہ لوگوں کے (قصے) کہانیاںہیں،جن کو اِس (رسول) نے لکھوا لیا ہے، جوان پر صبح وشام پڑھی جاتی ہیں،(الفرقان:4-5)‘‘۔پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انہیں کئی مراحل میں چیلنج دیا کہ جب تمہارے دعوے کے مطابق یہ قرآن اللہ کاکلام نہیں ہے، بلکہ (معاذاللہ!)اس نبی کا خود ساختہ کلام ہے، توتمہیں اپنی فصاحت وبلاغت پر بڑا ناز ہے، پس تم اس کے مقابلے میں ایسا ہی کلام بنالاؤ، اﷲتعالیٰ نے فرمایا: (۱)''کیا وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے (یہ قرآن) توخود گھڑ لیاہے؟، آپ کہیے!پھر اس جیسی دس سورتیں گھڑی ہوئی تم (بھی) لے آؤ اور اللہ کے سوا (اپنی مدد کیلئے) جس کو بلا سکتے ہو ، بلالو، اگر تم سچے ہو، (ہود:13) ‘‘ ۔ (۲):''اور جو کلام ہم نے اپنے خاص بندے پر نازل کیا ہے، اگر تمہیں اس (کے کلام اللہ ہونے) کے بارے میں کچھ شک ہے، تو اس کی مانند کوئی (چھوٹی سی) سورت تم بھی بنا کرلے آؤاور اللہ کے سوا اپنے (تمام) مدد گاروں کو بھی بلالو، اگر تم (اپنے دعوے میں) سچے ہو،(البقرہ:23-24)‘‘۔
پھر قرآن نے فیصلہ کن بات ارشاد فرمائی:''آپ کہہ دیجئے ! اگر تمام انسان اور جِنّ مل کر (بھی) اِس قرآن کی مثل لاناچاہیں، تو وہ اس کی مثل نہیں لاسکیں گے ، خواہ وہ ایک دوسرے کے مدد گار بن جائیں،(الاسراء:88)‘‘۔ اس کے بعد کفار مکہ نے کٹ حجتی کا سلسلہ شروع کیا اور فرمائشی معجزات کا مطالبہ کیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''اور انہوں نے کہا:اِس رسول پر فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا گیا اور اگر ہم فرشتہ نازل کرتے ، تو ان کاکام پورا ہوچکاہوتا، پھر انہیں مہلت نہ دی جاتی(یعنی اتمامِ حُجت کے بعد وہ عذابِ الٰہی کے حق دار قرار پاتے)اور اگر ہم اس رسول کو فرشتہ بنادیتے، تب بھی اس کو (صورۃً) مرد (ہی)بناتے، توہم ان کو اسی اشتباہ میںڈال دیتے، جس میں اب مبتلاہیں،(الانعام:8-9)‘‘۔
یعنی اصل ملکی صورت میں تو وہ فرشتے کو دیکھ نہ سکے اوروہ بشری صورت میں آئے ،تو ان کا اعتراض پھر قائم رہے گا کہ یہ تو ہم جیسا بشر ہے۔ کبھی ان کفارِ مکہ کا مطالبہ یہ ہوتا کہ ہمارے مرے ہوئے آباء واجداد آکر ہمیں برزخ وآخرت کے حالات بتائیں تو ہم تب مانیں گے، اﷲتعالیٰ نے فرمایا:''اور اگر ہم ان کی طرف فرشتوں کو بھی نازل کرتے اور مردے اُن سے باتیں کرتے اور ہم ہر چیز کواُن کے سامنے جمع کردیتے، تب بھی وہ ایمان نہ لاتے ، (الانعام:111)‘‘۔اس کے باوجود کفارِ مکہ کا طرح طرح کے فرمائشی معجزات کا مطالبہ جاری رہا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''اور انہوں نے کہا:ہم آپ پرہرگز ایمان نہیں لائیں گے حتی کہ آپ ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری کردیں یا آپ کے لئے کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو، پھر آپ اُن کے درمیان سے بہتے ہوئے دریا جاری کردیں یا جس طرح آپ کہتے ہیں ، ہم پر آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے گرادیں یا آپ اللہ کو اور فرشتوں کو ہمارے سامنے(بے حجاب) لے آئیں یا آپ کے لئے سونے کا کوئی گھر ہو یا آپ (ہمارے سامنے) آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم (محض) آپ کے (آسمانوں پر) چڑھنے پر(بھی) ہر گز ایمان نہیں لائیں گے حتی کہ آپ ہم پر کتاب نازل کریں ، جس کو ہم پڑھیں ، (اے رسول!)کہہ دیجئے! (میں کوئی شعبدے باز نہیں ہوں ) میرا رب پاک ہے، میں تو صرف ایک بشر ہوں ، جس کو رسول بنایا گیاہے،(بنی اسرائیل:90-93)‘‘۔
الغر ض قرآن مجید رسول اللہ ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔ جیساکہ ابتدا میں بیان کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کی اصطلاح میں معجزے کے لئے ''اٰیۃ‘‘ کا کلمہ آیا ہے، جس کے معنی ہیں :''نشانی اور دلیل‘‘ اور قرآن مجید کے ایک جملے کو بھی آیت کہتے ہیں ، اس معنی کے اعتبار سے قرآن کریم کی ہر آیت اپنی جگہ ایک معجزہ ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کی شریعت محدود مدت کیلئے تھی، اس لئے ان کے معجزات بھی آج اپنی اصل شکل میں باقی نہیں ہیں اور ختم المرسلین ﷺ کی شریعت چونکہ قیامت تک کیلئے ہے، اس لئے قرآن مجید کی صورت میں آپ کا معجزہ بھی قیامت تک اپنی حقیقی صورت میں کسی تحریف اور تغیُّرو تبدُّل کے بغیرقائم ودائم رہے گا۔ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفت جلیلہ ہے۔
قرآن کریم نے معراج النبی ﷺ کو''اِسراء(رات کی سیر کرانے)‘‘سے تعبیرکیا ہے اور یہ سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیتِ مبارَکہ کے کلمہ ''اَسریٰ بِعَبْدِہٖ‘‘ سے ماخوذ ہے۔ احادیثِ مبارَکہ میں اسے ''معراج النبی ﷺ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے اور یہ حدیثِ مبارَک کے کلمات ''ثُمَّ عُرِجَ بِیْ‘‘ سے ماخوذ ہے ،یعنی پھرمجھے مسجد اقصیٰ سے بلندی کی طرف لے جایا گیا‘‘ ۔ ''معراج‘‘ کے معنی ہیں: بلندی کی طرف جانے کا آلہ یا سیڑھی ، جسے آج کل ''Elevator‘‘کہتے ہیں ،اسی طرح چاند تک یا خلائی سفر پر جانے کے لئے طاقت ورراکٹ سے خلائی جہاز کو روانہ کیا جاتا ہے ۔ بعض محدثینِ کرام نے اس بے مثال سفر کو تین مراحل میں تقسیم کیا ہے۔ ''اسراء‘‘ مسجد حرام سے ''براق‘‘ کے ذریعے مسجد اقصیٰ تک کا سفر، ''معراج‘‘ مسجدِاقصیٰ سے ''سِدْرَۃُ الْمُنْتَہیٰ‘‘ تک کا سفر اور ''اِعراج‘‘ سدرۃ المنتہیٰ سے لامکاں تک یعنی حضوریِ بارگاہِ رب العٰلمین تک کاسفر، جس کے لئے احادیث میں ''رَفْرَفْ‘‘ کا نام بھی آیاہے۔ مجموعی حیثیت سے اہلِ سیرت اور محدثینِ کرام اس واقعے کو ''معراج النبی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ۔
معراج النبی ﷺ کا ذکر قرآن مجید میں نہایت صراحت ووضاحت کے ساتھ سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیتِ مبارَکہ میں آیاہے اور یہ مسجدِحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کے سفر اور اس کی حکمتوں کا بیان ہے،اس مرحلۂ معراج کامُطلَق انکار کفر ہے، کیونکہ یہ براہِ راست قرآن کا انکار ہے۔ اور اس کے علاوہ ''سورۃ النجم‘‘ کی ابتدائی اٹھارہ آیاتِ مبارَکہ میں اشارات و کنایات کے ساتھ آسمانوں اور اُن سے ماوراء مشاہدۂ قدرت، آیاتِ کُبریٰ، قُربِ باری تعالیٰ اور براہِ راست وحیِ ربانی کا بیان ہے۔
معراج النبی ﷺ کا واقعہ کتبِ احادیث میں ایک ترتیب کے ساتھ بیان نہیں ہوا بلکہ ایسا معلوم ہوتاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سفر کے مختلف مراحل کو مختلف مجالس میں بیان فرمایا اور صحابۂ کرام نے جس طرح سنا اُسے اپنی یاداشت میں محفوظ کرلیا۔ اُس دور میں واقعات کو تاریخی اور واقعاتی ترتیب کے ساتھ مرتب ومدوّن کرنے کا رواج بھی نہ تھا بلکہ اصل مقصد اِبلاغ تھا کہ جو بات یا واقعہ رسولِ اکرم ﷺ کی زبانِ مبارک سے سنا ہے،اُسے لفظ بہ لفظ محفوظ کرلیا جائے اور اس کا ابلاغ ہوجائے ۔پس رسول اللہ ﷺ نے اپنی حکمت ِمبارکہ کے تحت مختلف مواقع پر اسے بیان فرمایا، کیونکہ آپ کا بنیادی مقصد بھی ابلاغ اور ہدایت تھا۔ صحابۂ کرام کا معمول یہ تھا کہ جو بات انہوں نے سنی اور جس طرح سنی اُسے بیان کردیا۔ معراج کی ایک حکمت خود قرآن نے بیان فرمادی:''اور ہم نے جو مشاہدہ(شبِ معراج)آپ کو دکھایا تھا، وہ لوگوں کے لئے ایک آزمائش تھا(کہ کون کسی تردد کے بغیر تصدیق کرتاہے اور کون اسے عقل کی میزان پر پرکھ کر رد کردیتاہے)، (بنی اسرائیل:60)‘‘۔
واقعۂ معراج تیس سے زائد صحابۂ کرام سے مروی ہے اور حدِّشہرت کو پہنچا ہواہے ۔ میں نے تفسیر اور حدیث وسیرت کی کسی کتاب میں اس واقعے کا بیان اتنا مربوط نہیں دیکھا جتنا کہ عظیم مفسرومحدّث علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر تبیان القرآن ، جلد:6، ص:615-643اور شرح صحیح مسلم جلداول صفحات 671تا 778میں تمام تر تفصیلات کے ساتھ بیان کیا ہے۔ پورے واقعے کوتمام کتب احادیث کی روایات کو مربوط کرکے انہوں نے واقعاتی اور معنوی ترتیب کے ساتھ شرح صحیح مسلم، جلد:1 ، صفحات 716تا732میں بیان کیا ہے اور حدیث کی جس کتاب کا جو حصہ جہاں جہاں واقعاتی مناسبت کے ساتھ بیان کیا ہے، اسی مقام پر اصل ماخذ کے حوالہ جات بھی دے دئیے ہیں اورماشاء اللہ یہ ایک تفردّ وامتیاز ہے، جس کی سعادت سے اﷲعزوجلّ نے انہیں بہرہ ور فرمایاہے۔ اس علمی، تاریخی ، فکری اور نظریاتی کاوش کی صحیح قدر دانی وہی صاحبانِ علم کر سکتے ہیں ، جو تقابلی مطالعے کا ذوق رکھتے ہیں۔ دیگر متعلقہ ابحاث یہ ہیں :(۱)معراج کا جسمانی اور بیداری کی حالت میں ہونا اور اس کے دلائل(۲)شقِّ صدر کا واقعہ (۳)رُؤیتِ باری تعالیٰ کے بارے میں مختلف موقِف اور رُؤیتِ عینی کی بابت ترجیحی دلائل(۴)نمازِ پنجگانہ کی فرضیت اور اس کی تفصیلی بحث(۵)عہدِ صحابہ میں معراج کے مقام کے آغاز کے بارے میں مختلف اقوال اور ان میں تطبیق (۶)بیت المقدس میںانبیائے کرام کی امامت ، قبرمیں موسیٰ علیہ السلام کی زیارت ، آسمانوں پر مختلف انبیائِ کرام سے ملاقاتیں اور انبیائِ کرام کا متعدد مقامات پر موجود ہونا(۷)نمازوں میں تخفیف ، اُس کی حکمت اوردیگر مسائل ،الغرض عظمت و محبتِ مصطفی ﷺ کے جذبات سے معموربہت سی ایمان افروز مباحث ہیں اوریہ ایک نادر شاہکار ہے۔

- See more at: Roznama Dunya: کالم اور مضامین :- Mufti Muneeb-ul-Rehman : مفتی منیب الرحمٰن :-معراج النبیﷺ (حصہ اول) : maraj al nabi ﷺ ( hisa awal )
 
معراج النبی ﷺ (حصہ دوم)

معراج کب ہوئی، اس کے بارے میں ایک سے زائدا قوال وروایات ہیں ، لیکن روایات کا یہ اختلاف واقعہ کی حقانیت پر اثرانداز نہیں ہوتا، کیونکہ اصل مقصود واقعے کا حق ہونا اور اس کا بیان ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے تاریخ کا بیان ثابت نہیں ہے، کیونکہ تاریخ کا تعیُّن معراج کے ایک حقیقت ہونے اوراُس کے مقصد کے لئے ضروری نہیں ہے۔ رَاویانِ حدیث نے اپنی اپنی یاداشت کے مطابق حوالہ دیا ہے، تا ہم مشہور روایات کے مطابق یہ عظیم المرتبت اوربے مثال واقعہ ہجرتِ نبو ی سے کم وبیش ڈیڑھ سال قبل27رجب المرجب کی شب کو وقوع پذیر ہوا۔
غلام احمد پرویز صاحب سرے سے کسی معراجِ جسمانی یا مَنامِی (یعنی خواب کے عالم میں،جسے ''رؤیا‘‘کہتے ہیں)کے قائل نہیں ہیں۔ بنی اسرائیل:1میں رات کے جس سفر یا سیر کا ذکر ہے،ان کے نزدیک اِس سے مرادہجرت کا واقعہ ہے ،جو رات کے وقت ہوا اور ''مسجدِاَقصیٰ‘‘سے مراد مدینۂ مُنوّرہ ہے ،جو اُس وقت ''یثرب ‘‘کہلاتاتھا،حالانکہ اس وقت یثرب میں کوئی مسجد موجودہی نہیں تھی۔
چنانچہ وہ''سُبْحَان َالَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں : ''مکہ کی سرزمین حضور(اور آپ کی جماعت ) پر تنگ ہوچکی تھی، اس لئے آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی ، جہاں کی فَضا آپ کے مشن کے لئے وسیع اورکشادہ تھی ۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ یہ ''سَریٰ یَسْرِی‘‘ سے ہے اور ''لَیْلاً ‘‘ تاکیدِ مزید کے لئے ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ حضورنے ہجرت رات کے وقت فرمائی تھی،(لغات القرآن ، ص:872)‘‘۔ مزید لکھتے ہیں:''اَلْمَسْجِدُالْاَقْصٰی‘‘ بہت دور کی مسجد ، عام طور پر اس سے مراد ''بیت المقدس‘‘ لیا جاتاہے، لیکن ہمارے نزدیک اس سے مراد مدینۂ منورہ ہے ، جو مکہ سے قریب تین سو میل دور ہے اور جس کی طرف نبیِ اکرم ﷺ رات کے وقت ہجرت کرکے تشریف لے گئے تھے اور جسے اب اس جماعت کی سجدہ گاہ بننا تھا، یعنی ان کے نظامِ اطاعت وفرماں پذیری کا مرکزی مقام،(لغات القرآن ،ص :1370-71)‘‘۔
مولانا امین احسن اصلاحی بھی حالتِ بیداری میں معراجِ جسمانی کے قائل نہیں ہیں ،بلکہ اِسے ''رُؤیا‘‘(یعنی خواب )سے تعبیر کرتے ہیں،اِس فرق کے ساتھ کہ انبیائے کرام کے رُؤیا ،''رُؤیائے صادِقہ ‘‘ہوتے ہیں ،جو ''وحی‘‘ کی ایک صورت بھی ہے ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
''رہا یہ سوال کہ یہ جو کچھ آپ کو دکھا یا گیا ، ''رُؤیا ‘‘ میں دکھایا گیا یا بیداری میں، تو اس سوال کا جواب اسی سورہ میں آگے قرآن نے خود دے دیا ہے، فرمایا ہے:''وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِیْ أَرَیْْنَاکَ إِلاَّ فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ‘‘،ترجمہ:''اور ہم نے اِس ''رُؤیا ‘‘ کوجو تمہیں دکھائی، لوگوں کیلئے فتنہ ہی بنادی‘‘۔ ظاہر ہے کہ یہاں جس ''رُؤیا ‘‘ کی طرف اشارہ ہے ،اُس سے اِس ''رُؤیا ‘‘کے سوا کوئی اور'' رُؤیا ‘‘مراد لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، جس کا ذکر زیرِ بحث آیت میں ''لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا‘‘ کے الفاظ سے ہوا ہے۔ لفظ 'ِ'اِرَا ئَ تْ‘‘ قرآن میں متعدد مقامات میں ''رُؤیا ‘‘میں دکھانے کے لئے آیا بھی ہے اور مفسرین نے اس سے یہی ''رُؤیا‘‘ مراد بھی لی ہے۔ اس وجہ سے اس کا ''رُؤیا ‘‘ہونا تو اپنی جگہ پر واضح بھی ہے اور مُسلّم بھی، لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ'' رُؤیا ‘‘کو خواب کے معنی میں لینا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ خواب،'' خوابِ پریشاں ‘‘بھی ہوتے ہیں، لیکن حضرات انبیائِ علیہم السلام کو جو''رُؤیا‘‘ دکھائی جاتی ہے، وہ'' رُؤیائے صادقہ‘‘ہیں اور وحیِ الٰہی کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوںپر جس طرح فرشتے کے ذریعے سے کلام کی صورت میں اپنی وحی نازل فرماتاہے، اسی طرح کبھی ''رُؤیا ‘‘کی صورت میں بھی ان کی رہنمائی فرماتاہے،(تدبر قرآن ،جلد:4، ص: 475)‘‘۔
مشہور اسکالر جناب سرسید احمد خان دیگر مُتَجَدَّدین سے دس قدم آگے ہیں ،وہ تو سرے سے معجزات کے قائل ہی نہیں ہیں ،اس لیے وہ اُن کی ایسی تعبیروتشریح کرتے ہیں جو عقل کے مطابق ہو یا بقول اُن کے قوانینِ فطرت کے مطابق ہو ۔چنانچہ سرسید احمد خان صاحب ''معراج النبی ﷺ ‘‘ پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''رسول اللہ ﷺ کا جسمانی طورپر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف ہے اور عقلاً محال ہے ۔اگر معراج النبی ﷺ کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیاجائے ،تویہی کہاجائے گا کہ اُنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دیناکہ اللہ اِس پر قادر ہے ،یہ جاہلوں اور مرفوع القلم لوگوں کا کام ہے ،یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں ،سچے مومن ایسی بات نہیں کہہ سکتے ۔قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابلِ قبول نہیں ہے۔ایسی تمام دلیلوں کو اُنہوں نے راوی کے سَہواور خطا ، دوراَزکار تاویلات ،فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا ،(تفسیرالقرآن ، جلد2،ص:122-123)‘‘۔یہ سرسید احمدخان کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے ۔الغرض سرسید معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں ،ہمیں وحیِ ربانی کے مقابل کھڑی ہونے والی عقل کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طعن قبول ہے ،کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی عشقِ مصطفی ﷺ کا تقاضا ہے۔
اس سے آپ پر واضح ہوگیا کہ جناب سرسید احمد خاں کے نزدیک قانونِ فطرت اور عقل کے منافی مشہور روایات اور صحیح احادیث بھی قابلِ قبول نہیں ،لہٰذا اُن کے نزدیک ایسی تمام روایات واحادیث رَد کردی جائیں گی ۔اِس کے برعکس ہر مسلمان کے نزدیک معیارِ حق وحی ربانی اور فرمانِ رسول ہے، نہ کہ قوانین ِ فطرت ۔ ہم وحیِ ربانی کو ماورائے عقل توکہہ سکتے ہیں ،لیکن اِسے ضدِّ عقل(Irrational)ہرگز نہیں کہہ سکتے اورعقلی بنیاد پر وحی ربانی کو رَد کرنے کے مقابلے میں عقل کی نارسائی کا اعتراف بہتر شِعار ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت ایسے اُمور وجود میں آرہے ہیں ،جن کو آج سے چند سوسال پہلے کا انسان اِسی طرح قوانینِ فطرت کے خلاف اور عقلی اعتبار سے محال تصورکرتا ۔ آج ہم اپنی جسمانی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ انسان سائنسی علم اور ٹیکنالوجی کی بدولت فضاؤں میں محوِپروازہے، ہزاروں سیٹلائٹ فضا میں مُعلّق ہیں ۔ انسانی ساختہ راکٹ کی طاقت سے خلائی شٹل چاند پر پہنچی اور واپس صحیح سالم اُتر آئی اور ابھی انسانیت کا یہ سفرِ ارتقا جاری ہے۔اگر آج سے پانچ سوسال پہلے کے انسان کے سامنے کوئی اِس طرح کا دعویٰ کرتا ،توکیا اِسی طرح محالِ عقلی اور قانونِ فطرت کے خلاف قرار دے کر اُسے رَدنہ کردیاجاتا، اسی لئے تو علامہ اقبال نے کہا تھا :
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے
کہ عالَم بشریت کی زد میں ہے گردوں
یعنی واقعہ معراج نے انسان کے لئے بالائی فضاؤں اور خلاؤں میں کمندیں ڈالنے کے امکانات روشن کئے ۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت بلاشبہ انسان کی پیداکردہ مادّی طاقت اور عقلِ انسانی کے مقابلے میں لامحدود ہے ،اِسی لئے تو غالب نے معراج النبی ﷺکی رفعتوں کے بارے میں کہاتھا :
ہر کس بقدر خویش بجائے رسیدہ است
آں جاکہ جائے نیست ،تو آنجار سیدہ ای
امام احمد رضا قادری نے کہا تھا :
وہی لامکاں کے مکیں ہوئے ، سر عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہیںجن کے ہیں یہ مکاں ، وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں
علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں: '' سدرۃ المُنتہیٰ کیاہے ؟،انسانی فہم واِدراک کی سرحد کے اخیر پر ایک درخت ۔کیااس کوشُؤُوْن وصفات ِالٰہی کی نیرنگی نے ڈھانک لیا؟،کیاانسانی فہم وادراک کی اخیر سرحد کادرخت صرفشُؤُوْن وصفات کی نیرنگی کا مظہر ہے ؟،کیا یہاں پہنچ کر کون ومکان اوروجوب وامکان کا عقدۂ مشکل حل ہوگیا ؟،کیا دل بھی دیکھتاہے ؟،حضور ﷺ نے دل کی آنکھوں سے کیادیکھا؟،دیدۂ چشم سے کیا نظر آیا؟،آپ ﷺ کو اس سفر میں آیاتِ ربانی دکھائی گئیں ،مگر یہ مشاہدۂ قلب تھایا معائنۂ چشم؟،ع:رازِ ایں پردہ نہاں است ونہاں خواہد بود،(سیرۃ النبی ، جلدسوم،ص:268)‘‘۔''شُؤُوْن‘‘کا مفہوم ومعنی ہے: ''قدرتِ الٰہی کے بڑے بڑے مظاہر اور باری تعالیٰ کی عظیم شانیں‘‘۔
اِسی لئے تو بعض اہلِ نظر کہتے ہیں کہ معراج کے موقع پر زمان ومکان کی نبضیں رُک گئیں اور وجوبِ امکان کے فاصلے رسول اللہ ﷺ کے لئے اللہ کی قدرت سے سمٹ گئے ۔علامہ شبلی نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد یقیناً ملاحظہ فرمایاہوگا :''نگاہِ(مصطفی) نے جو دیکھا ،قلبِ (مصطفی) نے اُس کی تکذیب نہیں کی (یعنی تصدیق کی ) ،کیا تم اُن سے اُس کی بابت جھگڑ رہے ہو،جواُنہوں نے دیکھا ،(النجم: 11-12)‘‘۔
رسول اللہ ﷺ کے اِس دعوائے معراج کے پہلے مخاطبین اہلِ مکہ تھے ،وہ ا ہلِ زبان بھی تھے اور اُنہوں نے دعوے کی حقیقت کو جان بھی لیاتھا ۔اگریہ محض خواب میں مسجدِ حرام سے مسجدِا قصیٰ یا آسمانوں کی سیر کرنے کادعویٰ ہوتا ،تواِس پر اتنی بحث وتمحیص کی نوبت ہی نہ آتی۔ آج بھی کوئی شخص عالمِ خواب میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب کی سیر کا دعویٰ کرسکتاہے ،اعتراض کا تو سبب ہی یہی تھاکہ اُنہوں نے اِس دعوے کو خواب پر محمول نہیں کیا ،بلکہ عالمِ بیداری میں بظاہر ایک ناقابلِ یقین سفرکا دعویٰ سمجھا ۔اِسی لئے توقرآن نے اِسے فتنہ یعنی آزمائش قرار دیاہے اوراس کسوٹی کے ذریعے مومنینِ صادقین اور معانِدین و مُنکرین کو چھانٹ کر جداکردیا ۔کُفارِ مکہ نے اِسے قوانینِ فطرت کے خلاف اور عقل کی ضِد جانا اور حضرتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کسی تَرَدُّد کے بغیر کہا : '' اگریہ دعویٰ محمد رسول اللہ نے کیاہے ،تومیں اِس کی تصدیق کرتاہوں ،تم اِس ایک دعوے کے بارے میں تردُّدْ کرتے ہو،اُن کے پاس تو آئے دن جبریلِ امین باری تعالیٰ کی وحی لے کر آتے ہیں اورہم اُس کی تصدیق کرتے ہیں‘‘ ۔
- See more at: Roznama Dunya: کالم اور مضامین :- Mufti Muneeb-ul-Rehman : مفتی منیب الرحمٰن :-معراج النبی ﷺ (حصہ دوم) : meraj al nabi ﷺ ( hisa dom )
 
Top