معجزے کا در کھلا اور اک عصا روشن ہوا ۔ عزیز نبیل

معجزے کا در کھلا اور اک عصا روشن ہوا
دور گہرے پانیوں میں راستہ روشن ہوا
جانے کتنے سورجوں کا فیض حاصل ہے اُسے
اُس مکمّل روشنی سے جو ملا روشن ہوا
آنکھ والوں نے چرالی روشنی ساری تو پھر
ایک اندھے کی ہتھیلی پر دیا روشن ہوا
ایک وحشت دائرہ در دائرہ پھرتی رہی
ایک صحرا سلسلہ در سلسلہ روشن ہوا
مستقل اک بے یقینی، اک مسلسل انتظار
پھر اچانک ایک چہرہ جابجا روشن ہوا
آج پھر جلنے لگے بیتے ہوئے کچھ خاص پل
آج پھر اک یاد کا آتش کدہ روشن ہوا
جانے کس عالم میں لکھّی یہ غزل تم نے نبیلؔ
خامشی بجھنے لگی، شہرِ صدا روشن ہوا
 
Top