الف نظامی
لائبریرین
تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ میرے دھرنے کے پہلے دن اور آخری دن کی تقریر میں کوئی فرق نہیں تھا۔
اگر پارلیمنٹ اور ایوان صدر پرقبضہ کرلیتا تو اس ملک میں جمہوریت نہ رہتی، پاکستان میں کوئی ذی شعور شخص نہیں چاہتا کہ فوج اقتدار پر قبضہ کر لے، یہ حکومت رہے یا نہ رہے الیکشن کمیشن کو میرے مطالبات پورے کرنا پڑیں گے۔ ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں طاہر القادری کا کہنا تھا کہ جب آپ جنگ لڑتے ہیں تو آپ کا نقطہ نظر بہت مضبوط ہوتا ہے، لانگ مارچ میں جنگی حکمت عملی اپناتے ہیں، پوری دنیا میں اس کا اختتام ایک اعلامیہ کی صورت میں ہوتا ہے، میں نے جو کچھ اپنی تقاریر میں کیا وہ حکومت کے اعصاب کو کمزور کرنے کیلیے کیا۔
ڈیڈ لائن سے پہلے حکومت کسی طرح مذاکرات کرنے پر تیار نہیں تھی، اگر حکومت مذاکرات کیلیے نہ آتی میرے پاس دو راستے تھے، اگر میں عوام کو حکم دیتا تو وہ پارلیمنٹ پر قبضہ کر لیتے، ایک لمحہ میں جمہوریت کا بوریا بستر گول ہو جاتا، لانگ مارچ اعلامیے کے ضامن نہ ہوتے تو مذاکرات ہی نہ ہوتے، یہ معاہدہ مجھے موجودہ حکومت کے ساتھ ہی کرنا تھا، یہ حکومت چلی بھی جائے لیکن یہ اعلامیہ الیکشن کمیشن میں رجسڑڈ ہوگا، امیدوار کی ایک مہینے تک اسکروٹنی کے عمل کی الیکشن کمیشن نے بھی توثیق کی، اب جو بھی الیکشن لڑے گا اس کو آئین کے آرٹیکل62 اور 63 کی چھلنی سے گزرنا ہو گا، انتخابی اصلاحات کے مطالبے کو اس اعلامیہ میں تسلیم کیا گیا۔
این این آئی کے مطابق طاہرالقادری نے کہا کہ اگر مذاکرات کے دوران میری طرف سے منت سماجت کر کے محفوظ راستہ دینے کی آڈیو ریکارڈنگ پیش کر دی جائے تو میں اپنی گردن کٹوانے کو تیار ہوں‘ اگر طے پانیوالے معاہدے پر عملدرآمد نہیں کیا جائیگا تو ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں، ہر شہر مارچ بن جائیگا اور انتخابات کا عمل رکوا دیں گے‘ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے ایک ہفتے میں قوم کو آگاہ کر دیا جائیگا۔
غیرملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے طاہرالقادری نے کہا کہ اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن ملک میں حقیقی جمہوریت لانے کی دستاویز ہے، یہ ملکی تاریخ کا ایسا معاہدہ ہے جو لاکھوں عوام کی موجودگی میں طے پایا ہے کسی کو اس پر عملدرآمد سے بھاگنے نہیں دینگے‘ ہمارے ایجنڈے کی کامیابی کے بعد وہ خاندان چیخ و پکار کر رہے ہیں جنہیں اپنا دوبارہ اقتدار میں آنا نظر نہیں آرہا ‘ حقیقی جمہوریت کا راستہ روکنے اور میری کردار کشی کیلئے سیل قائم کرکے اس کے لیے کثیر رقم مختص کر دی گئی ہے۔
اگر پارلیمنٹ اور ایوان صدر پرقبضہ کرلیتا تو اس ملک میں جمہوریت نہ رہتی، پاکستان میں کوئی ذی شعور شخص نہیں چاہتا کہ فوج اقتدار پر قبضہ کر لے، یہ حکومت رہے یا نہ رہے الیکشن کمیشن کو میرے مطالبات پورے کرنا پڑیں گے۔ ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں طاہر القادری کا کہنا تھا کہ جب آپ جنگ لڑتے ہیں تو آپ کا نقطہ نظر بہت مضبوط ہوتا ہے، لانگ مارچ میں جنگی حکمت عملی اپناتے ہیں، پوری دنیا میں اس کا اختتام ایک اعلامیہ کی صورت میں ہوتا ہے، میں نے جو کچھ اپنی تقاریر میں کیا وہ حکومت کے اعصاب کو کمزور کرنے کیلیے کیا۔
ڈیڈ لائن سے پہلے حکومت کسی طرح مذاکرات کرنے پر تیار نہیں تھی، اگر حکومت مذاکرات کیلیے نہ آتی میرے پاس دو راستے تھے، اگر میں عوام کو حکم دیتا تو وہ پارلیمنٹ پر قبضہ کر لیتے، ایک لمحہ میں جمہوریت کا بوریا بستر گول ہو جاتا، لانگ مارچ اعلامیے کے ضامن نہ ہوتے تو مذاکرات ہی نہ ہوتے، یہ معاہدہ مجھے موجودہ حکومت کے ساتھ ہی کرنا تھا، یہ حکومت چلی بھی جائے لیکن یہ اعلامیہ الیکشن کمیشن میں رجسڑڈ ہوگا، امیدوار کی ایک مہینے تک اسکروٹنی کے عمل کی الیکشن کمیشن نے بھی توثیق کی، اب جو بھی الیکشن لڑے گا اس کو آئین کے آرٹیکل62 اور 63 کی چھلنی سے گزرنا ہو گا، انتخابی اصلاحات کے مطالبے کو اس اعلامیہ میں تسلیم کیا گیا۔

این این آئی کے مطابق طاہرالقادری نے کہا کہ اگر مذاکرات کے دوران میری طرف سے منت سماجت کر کے محفوظ راستہ دینے کی آڈیو ریکارڈنگ پیش کر دی جائے تو میں اپنی گردن کٹوانے کو تیار ہوں‘ اگر طے پانیوالے معاہدے پر عملدرآمد نہیں کیا جائیگا تو ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں، ہر شہر مارچ بن جائیگا اور انتخابات کا عمل رکوا دیں گے‘ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے ایک ہفتے میں قوم کو آگاہ کر دیا جائیگا۔
غیرملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے طاہرالقادری نے کہا کہ اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن ملک میں حقیقی جمہوریت لانے کی دستاویز ہے، یہ ملکی تاریخ کا ایسا معاہدہ ہے جو لاکھوں عوام کی موجودگی میں طے پایا ہے کسی کو اس پر عملدرآمد سے بھاگنے نہیں دینگے‘ ہمارے ایجنڈے کی کامیابی کے بعد وہ خاندان چیخ و پکار کر رہے ہیں جنہیں اپنا دوبارہ اقتدار میں آنا نظر نہیں آرہا ‘ حقیقی جمہوریت کا راستہ روکنے اور میری کردار کشی کیلئے سیل قائم کرکے اس کے لیے کثیر رقم مختص کر دی گئی ہے۔